حق و باطل کی کشمکش اور مزاحمت و احیا کی تحریک

اس روئے زمین پر حق و باطل کی کشمکش کسی ایک خاص دور سے متعلق نہیں۔ جب تک یہ دنیا قائم ہے حق و باطل کی کشمکش جاری رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیا و مرسلین بھیجے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں حق و باطل کی کشمکش کے ایک لاکھ 24 ہزار معرکے برپا ہوئے۔ لیکن ان معرکوں سے نہ حق فنا ہوا نہ باطل فنا ہوا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے برپا ہونے تک حق و باطل کی معرکہ آرائی برپا رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ کو دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار انبیا کیوں معبوث کرنے پڑے اور آخر انسان حق کو فراموش کیوں کردیتا ہے؟ اس کی ایک وجہ خود قرآن نے انسان کے نسیان یا بھول جانے کے عمل پر ڈالی ہے۔ حق آتا ہے اور ایک نسل یا کچھ نسلیں اسے یاد رکھتی ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتی ہیں مگر پھر حق اذہان سے محو ہونے لگتا ہے۔ ایک نسل ایک خدا کو مانتی تھی مگر دسویں نسل کئی خدا ایجاد کرکے بیٹھ جاتی ہے اور بیسویں نسل خدا کے تصور ہی سے بیگانہ ہوجاتی ہے۔ چناں چہ پھر ان نسلوں کے لیے ہادی کی ضرورت پڑجاتی تھی۔ لیکن رسول اکرمؐ پر نبوت ختم ہوگئی۔ چناں چہ اب باطل کی مزاحمت اور حق کے احیا کا انحصار مجددین اور عام انسانوں پر ہے۔ اسلام کے احیا اور باطل کی مزاحمت کا کام اتنا اہم ہے کہ شاہ ولی اللہ نے خلافت کے احیا کو فرض قرار دیا ہے۔ مولانا مودودی بھی دین کے غلبے کی جدوجہد کو فرض قرار دیتے ہیں۔ باطل کی مزاحمت اور اسلام کا احیا صرف مسلمانوں کے لیے نہیں پوری انسانیت کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں امت مسلمہ کا کردار بنیادی ہے۔ اس لیے کہ اب حق صرف امت مسلمہ کے پاس ہے۔ یہ امت مسلمہ ہی ہے جس کے پاس توحید کا پیغام ہے۔ دنیا کی دوسری امتیں شرک ایجاد کرچکی ہیں اور اب اگر توحید کے تصور کا احیا ہوگا تو صرف اسلام اور مسلمانوں کے ذریعے۔ مسلمانوں کے سوا دنیا کی کوئی امت نہیں جس کے پاس تحریف سے پاک آسمانی کتاب ہو۔ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ سے جامع سیرت بھی کسی امت کے پاس نہیں۔ چناں چہ دنیا ان تمام چیزوں سے وابستہ ہوگی تو مسلمانوں کے وسیلے سے اور اسلام کے ذریعہ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو باطل کی مزاحمت اور حق کا احیا امت مسلمہ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل کام ہے اور امت مسلمہ صدیوں سے اس کام کو کسی نہ کسی طرح انجام دے رہی ہے۔
اسلامی تاریخ میں امام غزالی باطل کی مزاحمت اور اسلام کے احیا کے پہلے استعارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غزالی کے دور میں یونانی فلسفے کا اثر عام ہوگیا تھا اور اس اثر سے مسلمانوں کے روایتی عقائد بدلنے لگے تھے۔ مثال کے طور پر ابن سینا اور ان جیسے دیگر مسلم فلسفی اس عالم کو قدیم ماننے لگے تھے۔ حالاں کہ اسلام میں قدیم صرف اللہ کی ذات ہے۔ باقی جو کچھ ہے وہ اللہ کی مخلوق ہے مگر یونانی فلسفے کے زیر اثر مسلم فلسفیوں نے اس کائنات کو قدیم قرار دے کر اسے اللہ تعالیٰ کا ہم پلہ بنادیا تھا۔ یہ کھلا کفر تھا مگر بہت سے فلسفی اس کفر میں مبتلا تھے اور وہ اس کفر کو عام مسلمانوں میں پھیلا رہے تھے۔ اس طرح ابن سینا اور ان کے جیسے فلسفی اس بات پر ایمان لے آئے تھے کہ خدا کا علم ہر شے پر محیط نہیں ہے۔ ان کا خیال تھا کہ خدا کو کلیّات کا تو علم ہے مگر جزیات کا علم نہیں ہے۔ یہ بات بھی کفر تھی مگر یونانی فلسفے کے زیر اثر تیزی کے ساتھ ہر طرف پھیل رہی تھی۔ اس طرح بہت سے مسلم فلسفی اس بات کے قائل ہوگئے تھے کہ جنت اور دوزخ کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے بلکہ اگر انسان مرنے کے بعد خوشی محسوس کرے گا تو وہ گویا جنت میں ہوگا اور اگر وہ تکلیف محسوس کرے گا تو وہ گویا جہنم میں ہوگا۔ یہ بھی ایک بہت بڑی گمراہی تھی۔ بدقسمتی سے غزالی کے زمانے کے علما میں سے کوئی بھی باطل کی مزاحمت پر آمادہ نہ تھا اس لیے کہ علما کی اکثریت یونانی فلسفے سے آگاہ ہی نہ تھی۔ اس منظرنامے میں غزالی مینارئہ نور بن کر اُبھرے۔ غزالی نے یونانی فلسفہ پڑھا اور اس طرح پڑھا کہ اُسے گھول کر پی گئے۔ اس کے بعد غزالی نے یونانی فلسفے کی تنقید لکھی۔ اس سلسلے میں غزالی کا فکری ماڈل دو نکات پر مشتمل تھا۔ غزالی نے ایک طرف یہ بتایا کہ یونانی فلسفہ اسلامی فکر کے لیے کیوں قابل قبول نہیں ہے۔ لیکن اگر غزالی صرف اسلام کی بنیاد پر یونانی فلسفے کو رد کرکے رہ جاتے تو لوگ کہتے انہوں نے فلسفے کے رد کا حق ادا نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے دین کو معیار بنایا اور فلسفے کو دین کے مطابق نہ پا کر اسے رد کردیا۔ چناں چہ غزالی نے یونانی فلسفے کو عقلی بنیادوں پر بھی رد کرکے دکھایا۔ انہوں نے یونانی فلسفے کے داخلی تضادات کو نمایاں کیا اور کہا کہ فلسفہ اپنے داخلی تضادات کی وجہ سے قابل اعتبار فکری نظام نہیں ہے۔ غزالی کی تنقید سے پہلے ہر طرف یونانی فلسفہ چھایا ہوا تھا مگر غزالی کی تنقید نے یونانی فلسفے کا زور توڑ دیا بلکہ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ غزالی نہ مسلم دنیا میں فلسفے کا بیج مار دیا۔ اس سلسلے میں غزالی کی تصنیف تہافت الفلاسفہ بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ ابن رشد نے غزالی کے 70 سال بعد تہافت الفلاسفہ کا جواب لکھا مگر ابن رشد غزالی کی پیدا کی ہوئی فکری صورت حال کو بدلنے میں بری طرح ناکام رہے۔ غزالی اور ان کا فکری کارنامہ موجود نہ ہوتا تو اسلام اسی سانحے سے دوچار ہوجاتا جس سانحے سے یورپ میں عیسائیت دوچار ہوئی۔ غزالی ایک فرد تھے مگر ایک فرد ہونے کے باوجود انہوں نے وہ کام انجام دیا جس کے لیے پوری امت بھی کم پڑ جاتی ہے۔ یورپ کو کوئی غزالی نہ مل سکا۔ چناں چہ یورپ نے اپنے پورے مذہب پر تھوک دیا۔
برصغیر میں ایک وقت ایسا آیا کہ مغل بادشاہ اکبر ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے دین الٰہی ایجاد کرنے پر مائل ہوگیا۔ اس نے تمام مذاہب کی تعلیمات کو ملا جلا کر ایک مذہبی ملغوبہ تیار کرلیا۔ اکبر نے ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے جودھا بائی سے شادی کی اور اسے مشرف بہ اسلام کرنے میں رتی برابر دلچسپی نہ لی۔ چناں چہ لعل قلعہ میں اسلامی اور ہندوانہ تہوار یکساں جوش و جذبے سے منائے جاتے تھے۔ مغل بادشاہوں نے سجدئہ تنظیمی بھی ایجاد کرلیا تھا جس کے تحت دربار میں آنے والا ہر شخص بادشاہ کے سامنے جھکنے پر مجبور تھا۔ مغل بادشاہوں نے ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے گائے کے ذبیحے پر بھی پابندی لگائی ہوئی تھی۔ جہانگیر کے زمانے میں مجدد الف ثانی اس پوری صورت حال کے خلاف شمشیر برہنہ بن کر اُٹھے۔ مجدد الف ثانی کا مرتبہ یہ ہے کہ اقبال نے انہیں برصغیر کا سب سے بڑا مذہبی جینئس قرار دیا ہے۔ مجدد الف ثانی ایک فرد تھے مگر وہ اسلام کی بقا و سلامتی کے لیے ریاست اور بادشاہ وقت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔ یہ معمولی بات نہیں تھی۔ یہ انبیا کی سنت کی پیروی تھی۔ چناں چہ بادشاہ وقت کو بالآخر مجدد الف ثانی کی بات ماننی پڑی۔
شاہ ولی اللہ کے زمانے میں مسلم برصغیر کا یہ حال ہوگیا تھا کہ قرآن و حدیث کا علم تقریباً اُٹھ چکا تھا۔ مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی تفہیم سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ یہ صورت حال جاری رہتی تو مسلمانوں کا مذہبی تشخص ختم ہو کر رہ جاتا اور وہ ہندوازم میں جذب ہوجاتے۔ اس فضا میں شاہ ولی اللہ اور ان کا خانوادہ اسلام کے احیا کے سلسلے میں مینارئہ نور بن کر اُبھرا۔ شاہ ولی اللہ نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا اور قرآن کے دروس کا اہتمام فرمایا۔ انہوں نے علم حدیث کے دروس کا بھی احیا کیا۔ شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ عبدالعزیز نے قرآن کا اردو میں ایسا ترجمہ کیا کہ کہا گیا کہ اگر قرآن اردو میں نازل ہوا ہوتا تو وہ شاہ عبدالعزیز کے ترجمے جیسا ہوتا۔ آج برصغیر میں قرآن و حدیث کا جتنا علم ہے اس کی پشت پر شاہ ولی اللہ اور ان کا خانوادہ کھڑا ہوا ہے۔ شاہ ولی اللہ کے دور میں مرہٹوں نے وسیع علاقے میں مسلمانوں کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔ شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا اور اس سے مرہٹوں کا زور توڑنے کی درخواست کی۔ احمد شاہ ابدالی نے شاہ ولی اللہ کے خط کا مثبت جواب دیا اور اس نے افغانستان سے آکر مرہٹوں کی طاقت کا بھرکس نکال دیا۔
برصغیر پر انگریزوں کا غلبہ ایک المناک تجربہ تھا۔ ایک برتر تہذیب ایک کم تر تہذیب سے پٹ گئی تھی اور 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی سے ایک قیامت مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی تھی۔ اس فضا میں اکبر الٰہ آبادی وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے فکری اور تخلیقی سطح پر مغرب کی مزاحمت کی۔ اکبر کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ مسلمان جو جنگ میدان جنگ میں ہار گئے تھے وہ جنگ انہوں نے اپنی شاعری میں جیت کر دکھا دی۔ اکبر کی شاعری کا مزاحمتی جوش و جذبہ بے مثال تھا۔ وہ فرما رہے تھے۔
مذہب کبھی سائنس کو سجدہ نہ کرے گا
انسان اڑیں بھی تو خدا ہو نہیں سکتے
٭٭
منزلوں دور ان کی دانش سے خدا کی ذات ہے
خردبیں اور دوربیں تک ان کی بس اوقات ہے
٭٭
انسان اگر معرفتِ حق سے ہو غافل
کیا شک کہ بہائم ہیں اس انسان سے بہتر
٭٭
علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتا
٭٭
شکر ہے راہِ ترقی میں اگر بڑھتے ہو
یہ تو بتلائو کہ قرآں بھی کبھی پڑھتے ہو
٭٭
لاکھوں کو مٹا کر جو ہزاروں کو اُبھارے
اس کو تو میں دنیا کی ترقی نہ کہوں گا
٭٭
رسول اکرمؐ کی ہسٹری کو پڑھو تو اوّل سے تابہ آخر
وہ آپ ثابت کرے گا اپنا عظیم ہونا عجیب ہونا
اقبال کی عظمت یہ ہے کہ جس وقت مغربی تہذیب کا سورج نصف النہار پر تھا اس وقت وہ کہہ رہے تھے۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
جس وقت مسلمان ہر طرف پٹ رہے تھے اقبال انہیں بتارہے تھے۔
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
برصغیر کے مسلمانوں کی مزاحمت اور احیا پرستی کا ایک مظہر خود پاکستان ہے۔
مولانا مودودی مسلمانوں کی مزاحمت اور احیا کی تحریک کا ایک بہت ہی بڑا نام ہیں۔ ان کے بغیر مسلمانوں کی 20 ویں صدی کی کوئی تعریف متعین نہیں کی جاسکتی۔ مولانا کا کمال یہ ہے کہ جس وقت پورا عالم اسلام غلام تھا وہ مسلمانوں سے کہہ رہے تھے قرآن و سنت کی دعوت لے کر اُٹھو اور پوری دنیا پر چھا جائو۔ مولانا عہد ِ غلامی میں مسلمانوں کو پورے یقین سے بتارہے تھے کہ مستقبل تو صرف اسلام اور مسلمانوں کا ہے۔ بلاشبہ 70 ویں صدی میں اگر پوری امت کا کوئی ایک امام ہے تو وہ مولانا مودودی ہیں۔ مولانا کی تحریک سے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا اور وہ اسلام کے غلبے کی جدوجہد پر مائل ہوئے۔

Leave a Reply