پاکستان میں ہر تجربہ ناکام کیوں ہوتا ہے؟

دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اس تاریخ میں سیاسی تجربات کے حوالے سے بڑا تنوع ہے۔ اس تاریخ میں کہیں سوشلزم کا تجربہ ہوا ہے، کہیں بادشاہت کو آزمایا گیا ہے، کہیں لبرل جمہوریت کو کامیابی کے ساتھ برتا گیا ہے، کہیں اسلام نے معجزات کرکے دکھائے ہیں۔ اسلام کے اعتبار سے آپ ملوکیت یا بادشاہت کو کچھ بھی کہیے مگر دنیا کی تاریخ میں بادشاہت نے ہزاروں سال تک کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ ہندوازم کی چھے ہزار سالہ تاریخ بادشاہت کی تاریخ ہے مگر اس تاریخ نے ایک بڑی تہذیب پیدا کرکے دکھائی۔ یہ تہذیب چھے ہزار سال سے روئے زمین پر موجود ہے۔ اس تہذیب کی داخلی توانائی اگرچہ ختم ہوگئی ہے مگر اسے اب بھی مردہ تہذیب نہیں کہا جاسکتا۔ اسلام میں ملوکیت خلافت کے تجربے سے ایک بڑا انحراف تھی مگر ملوکیت نے سیکڑوں بڑے عالم، سیکڑوں بڑے صوفی، سیکڑوں بڑے شاعر اور درجنوں بڑے فاتحین پیدا کیے۔ خلافت کا تجربہ تو صرف 29 سال پر محیط تھا۔ بعد کا سارا زمانہ ملوکیت کا زمانہ ہے مگر اس زمانے میں مسلمانوں نے اسپین پر چھے سو سال حکومت کی۔ برصغیر میں مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ اقتدار بھی بادشاہت کے سائے میں کھڑا نظر آتا ہے۔ عیسائیت کے دائرے میں بھی بادشاہت ایک بڑے تاریخی تجربے کی حیثیت رکھتی ہے۔ عیسائیت کا سارا پھیلائو بادشاہت کا رہین منت ہے۔ بادشاہت نہ ہوتی تو عیسائیت کبھی عالمگیر مذہب بن کر نہ ابھرتی۔
سوشلزم ایک باطل نظریہ تھا اور اس کی کوئی تاریخی بنیاد بھی نہیں تھی مگر اس کی بنیاد پر روس اور چین میں دو بڑے انقلابات برپا ہوئے۔ ان انقلابات نے روس کے معاشرے کو یکسر منتقل کردیا چین کا معاشرہ بھی الف سے یے تک بدل کر رہ گیا اہم بات یہ ہے کہ روس کا انقلاب روس کے جغرافیے میں مقید نہ رہا۔ وہ بڑے پیمانے پر برآمد ہوااور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے آدھی دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس انقلاب نے اپنا تصور زندگی، اپنا تصور انسان اور اپنا تصور معاشرہ پیدا کیا۔ اس نے اپنے علوم اور اپنے فنون پیدا کرکے دکھائے۔ یہاں تک کہ سوویت یونین میں سائنس کو صرف سائنس نہیں کہا جاتا تھا اسے سوویت سائنس کہا جاتا تھا اس انقلاب نے ادب تک کا اپنا تصور پیدا کیا۔ چناں چہ اس انقلاب کے زیر اثر اشتراکی ادب، مارکسی ادب اور سوشلسٹ ادب کی اصطلاحیں عام ہوئیں۔
اسلام صرف ماضی کا قصہ نہیں ہے اس نے 20 ویں صدی میں بھی بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے پاکستان کی صورت میں عہد جدید کی سب سے بڑی اسلامی ریاست خلق کی۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے ایران میں انقلاب برپا کرکے دو ہزار سال پرانی بادشاہت کے پرخچے اڑا دیے یہ اسلام ہی کی قوت تھی جس نے افغانستان میں سلطنت برطانیہ کو دھول چٹائی۔ سوویت یونین کو شکست سے دوچار کیا اور امریکا کی ناک رگڑ کر دکھادی۔ ان تجربات نے ثابت کیا کہ اگر کوئی قوم اسلام کی قوت مزاحمت کو اختیار کرے تو وہ وقت کی سپر پاور کو بھی شکست سے دوچار کرسکتی ہے۔
سیکولرازم اور لبرل ڈیموکریسی کا تجربہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ عہد حاضر کے یورپ کی جو بھی طاقت اور شان و شوکت ہے وہ سیکولر ازم اور لبرل ڈیموکریسی کا حاصل ہے۔ اہل مغرب کا خیال ہے کہ سیکولرازم نہ ہوتا تو یورپ کبھی نشاۃِ ثانیہ کے تجربے سے دوچار نہیں ہوسکتا تھا۔
قوم پرستی ایک بدترین تجربہ ہے مگر اس نے یورپ کیا ہندوستان تک کو قوت فراہم کی ہے۔ ہندو سماج میں جبر ہے۔ استحصال ہے۔ عدم مساوات ہے۔ ظلم ہے، درندگی ہے، مگر ہندو قوم پرستی نے ہندوستان کو متحد رکھا ہوا ہے۔ ہندو قوم پرستی ہے جو ہندوستان کو ایک بڑی قوت بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ ہندوستان نے قوم پرستی کے جذبے کو استعمال کرتے ہوئے گزشتہ تیس سال میں 35 کروڑ لوگوں کی مڈل کلاس پیدا کی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے ملک میں نظریے اور ہر ہر خیال کی بھد اڑا دی ہے۔ اسلام جس نے مسلمانوں کی بھیڑ کو ایک قوم بنایا تھا جس نے جناح کو قائداعظم میں ڈھالا تھا جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا اسے پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم کے انتقال کے بعد شعوری طور پر نظر انداز کرنا شروع کیا۔ چناں چہ پاکستانی قوم دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑ میں تبدیل ہوگئی۔ تحریک پاکستان میں برصغیر کی ملت اسلامیہ صرف مسلمان بن گئی تھی مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے قیام پاکستان کے بعد ہمیں بنگالی، پنجابی، سندھی، پشتون، بلوچی اور مہاجر میں تبدیل کردیا۔ تحریک پاکستان کے دوران فرقے اور مسلک کا تجربہ پس منظر میں چلا گیا تھا مگر پاکستان کے حکمران طبقہ نے ایک ایسا معاشرہ تخلیق کیا جس میں فرقہ اور مسلک ہماری اصل شناخت بن گئے۔ ہم اپنے مسلمان ہونے پر اتنا فخر نہیں کرتے جتنا ہم شیعہ، سنی اور دیوبندی اور بریلوی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے اسلام کو معاشرے کی مرکزی قوت بنایا ہوتا تو مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا۔ انصاف اسلامی معاشرے کا تشخص ہے مگر ہمارے حکمران طبقے نے ظلم اور جبر کو اختیار کیا۔ چناں چہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے خلاف ردِعمل پیدا ہوا۔ تحریک پاکستان کے دوران پنجابی اور بنگالی بھائی بھائی تھے مگر قیام پاکستان کے بعد بنگالیوں کے ساتھ جو ظلم اور جو زیادتی ہوئی اس کی وجہ سے بنگالی مغربی پاکستان اور پنجاب کو ایک استعمار کے طور پر دیکھنے لگے۔ جنرل ضیا الحق پاکستان کے واحد حکمران تھے جنہوں نے اسلام کو اپنا تشخص بنایا۔ مگر بدقسمتی سے جنرل ضیا الحق ریاستی نظام میں اسلام کو بالادست نہ بناسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام جنرل ضیا الحق کی سیاسی ضرورت تھا۔ وہ اس کی بنیاد پر معاشرے میں کوئی انقلاب برپا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ اسلام کو حقیقی معنوں میں بالادست بناتے تو اسلام جنرل ضیا کے شخصی اور آمرانہ اقتدار ہی کو نہیں اس طبقے کی بالادستی کو بھی صفر کردیتا جنرل ضیا الحق جس کا ایک فرد تھے۔
بھٹو صاحب کا نعرہ تھا کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے اور نہ جمہوریت ہماری سیاست ہے، مگر بدقسمتی سے بھٹو صاحب نہ اسلام کے ساتھ کوئی روحانی، نفسیاتی اور ذہنی تعلق محسوس کرتے تھے نہ وہ سوشلسٹ تھے اور نہ ہی وہ جمہوری تھے۔ اسلام ان کی شخصیت میں کہیں موجود تھا نہ ان کی پارٹی میں۔ سوشلزم ان کے لیے صرف ایک ’’رومانس‘‘ تھا۔ بھٹو صاحب اتنے جمہوری تھے کہ جب تک وہ زندہ رہے انہوں نے جمہوریت کو پیپلز پارٹی میں داخل نہ ہونے دیا۔ انہوں نے جمہوری جذبے کے تحت شیخ مجیب کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ بھٹو صاحب نے اسلامی سوشلزم کا بھی نعرہ لگایا حالاں کہ اسلام اور سوشلزم میں کوئی قدرمشترک نہیں تھی۔ اسلام سوشلزم کی اور سوشلزم اسلام کی ضد تھا۔ چناں چہ بھٹو صاحب نہ معاشرے کو اسلامی بنا سکے نہ سوشلسٹ بناسکے۔ بھٹو صاحب اگر کچھ تھے تو جاگیردار تھے، وڈیرے تھے۔ اس سلسلے میں نہ اسلام ان کا کچھ بگاڑ سکا، نہ سوشلزم نے ان کی اس شناخت کو نقصان پہنچایا اور نہ ہی مغربی تعلیم ان کے اس تشخص کو زک پہنچا سکی۔ بھٹو صاحب صرف وڈیرے نہیں تھے وہ موقع پرست بھی تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ کبھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار نہ دیتے۔ شراب پر پابندی نہ لگاتے اور وہ کبھی جمعہ کی تعطیل کی راہ ہموار نہ کرتے۔
دنیا کے کئی ملک ہیں جہاں آمریت نے قوموں کو ابھارا ہے۔ چین ایک سوشلسٹ آمریت ہے مگر اس آمریت نے چین کو سپرپاور بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ اس آمریت نے چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں ڈھال دیا ہے۔ اس آمریت نے چالیس سال میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکال کر دکھادیا ہے۔ سنگاپور میں لی کوان کی آمریت نے اور ملائیشیا میں مہاتیر کی آمریت نے معاشی خوشحالی کا تجربہ خلق کیا ہے۔ مگر پاکستان میں فوجی آمریت قوم کو کچھ نہ دے سکی۔ نہ یہ آمریت ہمیں معاشی اعتبار سے خوشحال بنا سکی نہ اس آمریت نے ہمیں غربت سے نجات دلائی نہ اس آمریت نے ہمیں ایک قوم بننے میں مدد دی۔ جنرل ایوب اور جنرل پرویز مشرف کی آمریت سیکولر تھی مگر ان لوگوں کے سیکولرازم نے معاشرے میں آویزش پیدا کی، تضاد اور تصادم کو ابھارا۔
میاں نواز شریف کو شہری تمدن کی علامت بنا کر ابھارا گیا۔ کہا گیا کہ وہ بھٹو خاندان کے جاگیردارانہ تشخص کی ضد ہیں۔ مگر میاں نواز شریف نے ملک میں بدعنوانی کے دریا بہا دیے۔ وہ شہری وڈیرے بن کر ابھرے انہوں نے جرنیلوں، ججوں اور صحافیوں کو کرپٹ بنایا یا بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کبھی اپنی جماعت میں جمہوریت کو داخل نہ ہونے دیا۔ انہوں نے پورے ملک کی خدمت کے بجائے صرف پنجاب کو پاکستان سمجھا اور صرف پنجاب کی ترقی پر توجہ مرکوز کی۔
الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کو متوسط طبقے کی نمائندہ قرار دیا گیا۔ مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم فسطائیت کی علامت بن کر ابھرے۔ انہوں نے بوری بند لاشوں کا کلچر متعارف کرایا۔ انہوں نے بھتا خوری کو انتہا پر پہنچایا۔ الطاف حسین نے کبھی ایم کیو ایم میں جمہوریت داخل نہ ہونے دی۔ اس طرح متوسط طبقے کی نمائندگی کا یہ تجربہ بھی بری طرح ناکام ہوا۔
عمران خان تبدیلی کی علامت بن کر ابھرے۔ تبدیلی کا دوسرا مطلب انقلاب ہے مگر گزشتہ ساڑھے تین سال میں عمران خان Status quo کی علامت بن کر ابھرے ہیں۔ کبھی وہ کہا کرتے تھے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کرنا پسند کریں گے آج بھی آئی ایم ایف کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے بھی اپنی پارٹی میں جمہوریت کو داخل نہیں ہونے دیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان میں ہر تجربہ ناکام کیوں ہوجاتا ہے؟ اس سوال کا جواب اقبال کے اس شعر میں موجود ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
بدقسمتی سے پاکستان کا ہر حکمران عمل سے دور بھاگتا ہے اور صرف نعرے پر انحصار کرتا ہے۔

Leave a Reply