نعروں پر کھڑی ہوئی سیاست

ایک امریکا گیر سروے کے مطابق امریکا میں ہر شخص روزانہ اوسطاً دو گھنٹے سیاسی ٹاک شوز دیکھنے پر صرف کرتا ہے۔ البتہ پانچ میں سے صرف ایک شخص عملاً سیاست سے وابستہ ہوتا ہے۔ سیاست عصر حاضر کا ایک سیلاب ہے اور سیلاب کا یہ تجربہ عجیب ہے کہ سیلاب میں ہر طرف پانی ہوتا ہے مگر پینے کے لیے ایک گھونٹ بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ سیاست کے سیلاب کا قصہ بھی یہ ہے کہ اس کا ایک گھونٹ بھی پینے کے لائق نہیں ہوتا۔ پاکستان میں جب سے نجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا ہے سیاست اور سیاسی موضوعات ایک سیلاب بن کر ابھرے ہیں۔ پاکستان میں کوئی سروے تو نہیں ہوا لیکن پاکستان میں بھی سیاسی ٹاک شوز بہت مقبول ہیں۔ ان ٹاک شوز نے ٹی وی کے ہر ناظر کو ’’سیاسی ماہر‘‘ بنا دیا ہے۔ رکشہ اور ٹیکسی والا بھی سیاست پر اس طرح گفتگو کرتا ہے جیسے اس نے سیاست میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہو۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست کولہو کے بیل کی طرح ہے۔ کولہو کا بیل سارا دن چلتا ہے مگر کہیں نہیں پہنچ پاتا۔ کیوں کہ وہ دائرے میں سفر کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاست بھی 1958ء سے اب تک دائرے میں سفر کررہی ہے۔ ہماری سیاست ایسی اس لیے ہے کہ وہ حقائق کے بجائے نعروں پر کھڑی ہے۔ پاکستانی قوم کی عظیم اکثریت سیاسی نعروں کی دیوانی ہے۔ ہمارے عوام کی عظیم اکثریت نعروں کو ’’آکاش وانی‘‘ یا ندائے آسمانی کی طرح لیتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے سیاست دان ہی نہیں پاکستان کے جرنیل بھی نعرے باز ہیں۔ جنرل ایوب نے اگرچہ 1958ء میں مارشل لا لگایا مگر امریکا کی خفیہ دستاویزات کے مطابق وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ رابطہ استوار کیے ہوئے تھے۔ وہ خفیہ مراسلوں کے ذریعے امریکیوں کو بتارہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ جنرل ایوب امریکیوں کو باور کرارہے تھے کہ پاکستانی فوج سیاست دانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ چناں چہ جنرل ایوب نے ملک بچانے کا نعرہ لگا کر 1958ء میں مارشل لا نافذ کردیا۔ جنرل ایوب کا نعرہ تھا کہ وہ سیاسی عدم استحکام کو دور کرنے آئے ہیں۔ بلاشبہ جنرل ایوب کی آمد سے سیاسی استحکام کا تاثر پیدا ہوا مگر جنرل ایوب کا سیاسی استحکام مصنوعی تھا۔ جنرل ایوب معاشرے اور سیاست کو دلیل اور منطق سے نہیں طاقت سے چلا رہے تھے، چلا بھی کیا رہے تھے صرف ’’Manage‘‘ کررہے تھے، لیکن معاشرے اور ریاست کو صرف طاقت سے لینن، ہٹلر اور موسولینی نہیں چلاپائے تو جنرل ایوب کیا چلاتے۔ چناں چہ جنرل ایوب کا بندوبست صرف دس سال چل سکا۔ دس سال کے بعد خود فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ان کے خلاف بغاوت ہوگئی۔ جنرل یحییٰ ایک سہانی شام چند سینئر فوجی اہلکاروں کے ہمراہ جنرل ایوب سے ملنے ایوان صدر پہنچے اور انہوں نے جنرل ایوب سے صاف کہا کہ جناب صدر اب آپ کو جانا ہوگا۔ جنرل ایوب نے وقت کے بدلے ہوئے تیور کو غور سے دیکھا اور انہوں نے ایک لمحے میں اقتدار سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ جنرل ایوب کی جگہ جنرل یحییٰ نے لے لی لیکن یہ کوئی ’’انقلاب‘‘ نہیں تھا صرف فرد کی تبدیلی تھی لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جنرل ایوب جس سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بنا کر اقتدار پر قابض ہوئے تھے وہ سیاسی عدم استحکام ان کے دس برسوں میں زیادہ پھیلائو اختیار کرچکا تھا۔ چناں چہ جنرل یحییٰ ریاست اور سیاست کو ٹھیک طرح ’’Manage‘‘ بھی نہ کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک ٹوٹ گیا اور نعرے اور حقیقت کا فرق عیاں ہوگیا۔
جنرل ضیا الحق نے خانہ جنگی کے خدشے اور سیاسی عدم استحکام دونوں کو نعرہ بنایا۔ حالاں ملک میں خانہ جنگی کا کوئی امکان نہ تھا۔ رہا سیاسی عدم استحکام تو پی این اے اور بھٹو صاحب کے درمیان 30 سے زیادہ نشستوں پر دوبارہ انتخاب پر اتفاق رائے ہوچکا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے ابتدا میں یہ کہا کہ وہ صرف 90 دن کے لیے اقتدار میں آئے ہیں اور وہ انتخابات کراکر واپس چلے جائیں گے۔ مگر اس سے پہلے ہی پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ فضا میں اچھال دیا گیا۔ اس نعرے نے جنرل ضیا الحق کے اقتدار کو دس سال پر محیط کردیا۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق جب ایک سازش کے تحت منظر سے ہٹے تو ملک میں اس وقت سے زیادہ سیاسی استحکام تھا جب جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل ضیا الحق نے ملک کو اسلامیانے کے عمل کو بھی نعرے سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ انہوں نے ریاست اور معاشرے کی ساخت میں اسلام کو داخل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ملک کا معاشی نظام سود پر کھڑا تھا جنرل ضیا الحق کے دس سال اقتدار کے بعد بھی سود پر ہی کھڑا رہا۔ ملک کا عدالتی نظام دس سال تک اسلام سے دور کھڑا رہا۔ ملک کے تعلیمی نظام میں اسلام صرف اتنا داخل ہوا کہ اسلامیات کے مضمون کو نصاب کا حصہ بنادیا گیا۔ ان حقائق سے عیاں ہوتا ہے کہ جنرل ضیا الحق کا اسلام صرف ایک نعرہ تھا اور جنرل ضیا الحق جب تک اقتدار میں رہے اس نعرے سے سیاسی فائدہ اٹھاتے رہے۔
جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو اقتدار سے برطرف کرکے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے ایک انقلابی نیوز کانفرنس کر ڈالی۔ اس نیوز کانفرنس میں انہوں نے اعلان کیا کہ فوج، عدلیہ اور پریس سب کا احتساب ہوگا۔ یہ ایک انقلابی اعلان تھا۔ فوج، عدلیہ اور پریس کے بیک وقت احتساب کی بات جنرل پرویز سے پہلے کسی نے نہیں کی تھی۔ لیکن چند ماہ کے تجربے نے ثابت کردیا کہ فوج، عدلیہ اور پریس کے احتساب کی بات صرف ایک نعرہ تھی۔ جنرل پرویز نے بہت جلد یہ موقف اختیار کرلیا کہ فوج کا اپنا داخلی نظام احتساب ہے۔ چناں چہ اسے کسی خارجی احتساب کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے عدلیہ کے احتساب سے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ہم نے عدلیہ کا احتساب کیا تو لوگ کہیں گے کہ ہم عدلیہ کو دبائو میں لارہے ہیں۔ جنرل پرویز نے پریس کو بھی احتساب سے ماورا قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پریس کا احتساب کیا تو صحافی کہیں گے کہ ہم آزادی اظہار پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد ملک و قوم کو ایک اور نعرہ دیا۔ انہوں نے فضا میں ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ اچھالا۔ لیکن اس نعرے کی بھی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو سب سے پہلے پاکستان کی آڑ میں امریکا کے لیے کرائے کا فوجی بنادیا تھا۔ جنرل پرویز ہی نہیں پوری اسٹیبلشمنٹ عملاً امریکا کے جوتے چاٹ رہی تھی۔ ہم نے اپنے ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کردیے تھے۔ ہم بے گناہ افغانوں اور عربوں کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کررہے تھے اور جنرل پرویز کے اپنے اعتراف کے مطابق ڈالر کمارہے تھے۔
بھٹو صاحب مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ چاہتے تو ملک میں حقائق میں جڑیں رکھنے والی سیاست متعارف کراسکتے تھے مگر بھٹو صاحب خود ایک بڑے نعرے باز بن کر ابھرے۔ انہوں نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ سیاسی فضا میں اچھالا۔ حالاں کہ بھٹو صاحب نہ اسلامی تھے نہ سوشلزم سے ان کا کوئی تعلق تھا۔ اس لیے کہ ایک وڈیرہ مشکل ہی سے اسلامی ہوسکتا ہے۔ رہا سوشلزم تو وڈیرہ سوشلسٹ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اسلام اور سوشلزم کو باہم مربوط کرنے کا کوئی نظریاتی جواز نہ تھا۔ اسلام، اسلام تھا، سوشلزم، سوشلزم۔ اسلام سوشلزم کی ضد تھا اور سوشلزم ایک لمحے کے لیے بھی اسلام کو قبول نہیں کرسکتا تھا۔ بھٹو صاحب کا ایک اور نعرہ تھا۔ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ یہ نعرہ بھی تضاد آلود تھا۔ اسلام جس کا دین ہو سوشلزم اس کی معیشت کبھی نہیں ہوسکتا۔ بھٹو صاحب کا ایک اور نعرہ تھا۔ روٹی، کپڑا اور مکان۔ بدقسمتی سے بھٹو صاحب نے غریب کو روٹی دی، نہ کپڑا دیا اور نہ مکان دیا۔ بلکہ انہوں نے صنعتوں کو قومیا کر ملک میں روٹی، کپڑے اور مکان کے امکانات کو محدود کردیا۔
میاں نواز شریف کی شخصی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایک طرف وہ اسلامی جمہوریہ اتحاد کی سیاست کررہے تھے اور دوسری طرف وہ پنجاب میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگارہے تھے۔ ظاہر ہے کہ اسلام میں کسی پنجابیت، سندھیت اور مہاجریت کی گنجائش نہیں۔ مسلمان ایک امت واحدہ ہیں اور ان کا تشخص، نسل، زبان اور جغرافیہ نہیں اسلام ہے۔ میاں نواز شریف بے نظیر بھٹو کو مخاطب کرکے ایک اور نعرہ لگایا کرتے تھے۔ تم نے ڈھاکا دیا ہم نے کابل لیا۔ اس نعرے کا بھی کوئی مفہوم نہ تھا۔ پیپلزپارٹی سقوط ڈھاکا کی ذمے دار نہیں تھی میاں نواز شریف نے کبھی کابل فتح نہیں کیا تھا۔ میاں صاحب کا ایک حالیہ نعرہ ہے۔ ووٹ کو عزت دو۔ میاں صاحب کو اگر واقعتاً ووٹ کو عزت دینی ہوتی تو وہ نواز لیگ میں انتخابات کراکے ووٹ کو عزت دینے کا عملی مظاہرہ کرتے مگر انہیں قومی سطح پر ووٹ کی عزت درکار ہے اور پارٹی کی سطح پر وہ ووٹ کو ذلیل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ قوم کو دیا۔ مگر انہوں نے گزشتہ انتخابات سے ذرا پہلے روزنامہ ڈان کو دیے گئے انٹرویو میں اعلان کیا کہ وہ سرمائے کی سیاست بھی کریں گے اور Electables کی سیاست بھی کریں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے خود تبدیلی کے فلسفے پر تھوک دیا۔ انہوں نے صاف اعلان کردیا کہ ان کا سیاسی ڈی این اے شریفوں اور زرداریوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ عمران خان کو اقتدار میں آئے ہوئے اب ساڑھے تین سال سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر وہ تبدیلی کے بجائے Statu Que کی علامت بنے ہوئے ہیں۔

Leave a Reply