اسلام کی جامعیت کا انکار بھی اسلام کا انکار ہے

مسلم دنیا میں اسلام کا انکار کرنے والوں کی کئی اقسام ہیں۔ پہلی قسم ان افراد پر مشتمل ہے جو خدا اور رسول اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔ جو کلمہ شہادت کے منکر ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے کھلے منکر ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہیں، قرآن کو آسمانی کتاب سمجھتے ہیں مگر وہ مغرب کے زیر اثر مذہب اور ریاست و سیاست کی علٰیحدگی کے قائل ہیں۔ ایسے لوگ سیکولر یا نیم سیکولر ہوتے ہیں۔ اسلام کے منکرین کی تیسری قسم ان افراد پر مشتمل ہے جو اسلام کی جامعیت کے منکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام بلاشبہ اللہ کا عطا کردہ دین ہے۔ رسول اکرم خاتم النبیّن ہیں۔ قرآن واقعتاً کتاب ہدایت ہے مگر اسلام عقایدو عبادات اور تزکیہ نفس سے متعلق ہے۔ ریاست و سیاست تہذیب و تمدن اور آرٹ و کلچر سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ جاوید احمد غامدی اور ان کے شاگرد رشید خورشید ندیم ایسے ہی افراد پر مشتمل ہیں۔ یہ لوگ کبھی کھل کر اور کبھی ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنا مدعا بیان کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں خورشید ندیم کے ایک حالیہ کالم کا اقتباس ملاحظہ کیجیے۔ خورشید ندیم لکھتے ہیں۔
’’مذہب کا مقدمہ یہ ہے کہ وہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے اور فطرت اس کی نظر میں ناقابل تبدیل ہے۔ اس فطرت میں ایک خالق اور پروردگار کا شعور رکھ دیا گیا ہے۔ یہ شعور اس خالق کے ساتھ تعلق کا مطالبہ کرتا ہے جو ایک قدرِ مطلق ہستی اور منعمِ حقیقی ہے۔ مذہب اس تعلق کی صورت گری کرتا ہے۔ وہ انسان میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ایک امتحان گاہ میں کھڑا ہے۔ امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے ربّ کا شکر گزار بندہ بن کر جیتا ہے یا اس کا انکارکرتا ہے؟ اسی کی بنیاد پر اس کی دائمی زندگی کا فیصلہ ہونا ہے۔ باقی سب اسی کی تفصیلات ہیں۔ تمدن، سیاست، تہذیب، ان میں سے کوئی مذہب کا اصل موضوع نہیں، تاہم یہ فطری بات ہے کہ اللہ کی بندگی کے احساس میں جینے والا کوئی گروہ کسی سیاست یا تہذیب کو جنم دے گا تو خدا کے ہاں جوابدہی کا احساس اس کی بنیاد ہوگی۔ گویا یہ موضوعات، اگر مذہبی علم کا حصہ بنتے ہیں تو بالواسطہ۔ مثال کے طور پر تزکیہ نفس کو مذہب مطلوب قرار دیتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ قیامت کے دن وہی کامیاب ہوں گے جنہوں نے اپنا تزکیہ کیا۔ یہ تزکیہ یا پاکیزگی داخلی بھی ہے اور جسمانی بھی۔ یہ پاکیزگی جن امور کو لازم قرار دیتی ہے اسے شریعت کہا جاتا ہے جو پیغمبروں کی معرفت ملتی ہے۔ یہ پاکیزہ لوگ جو رہن سہن اختیار کریں گے، وہ ان لوگوں کے رہن سہن سے مختلف ہوگا جو پاکیزگی کے اس احساس سے بے نیاز ہیں۔ یوں اس کا نتیجہ ایک تہذیبی امتیاز کی صورت میں نکلے گا۔
اسی طرح خدا کے ہاں جوابدہی کا احساس رکھنے والا جب سیاست کرے گا تو اس کی سیاست اس شخص سے مختلف ہوگی جو اس احساس سے عاری ہے۔ یہ کچھ بدیہی نتائج ہیں جو کسی تصورِ حیات کے تابع ہوتے ہیں۔ اسی سے تہذیبی اور سماجی رویے جنم لیتے ہیں۔ تمدن یا سیاست، فی نفسہٖ مذہبی اعمال نہیں ہیں۔ ان کا تعلق انسان کی جمالیات یا ضروریات سے ہے۔ ان ضروریات کی تکمیل ایک ارتقائی عمل ہے۔
(روزنامہ دنیا۔ 27 جنوری 2022ء)
اسلام ایک کامل و اکمل دین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صاف کہا ہے کہ رسول اکرمؐ پر دین کو مکمل کردیا گیا ہے۔ چناں چہ جو شخص اسلام کی جامعیت کا قائل نہیں وہ دین میں نقص نکالتا ہے اور وہ بھی ایک درجے میں اسلام کا منکر ہے۔ اسلام کی جامعیت یہ ہے کہ ایک طرف وہ عقائد و عبادات کا ایک نظام مرتب کرتا ہے۔ دوسری طرف معروضی اخلاق یا Objective Marality کے ضابطوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ تیسری جانب وہ ریاست و سیاست، معیشت و معاشرت ادب، آرٹ، کلچر اور تمدن کے سلسلے میں رہنما اصول بیان کرتا ہے۔ اسلام بتاتا ہے کہ جنگ ہوگی تو کن اصولوں کے تحت اور امن ہوگا تو اس کے ضابطے کیا ہوں گے۔ مسلمان تجارت کریں گے تو کن اصولوں کو پیش نظر رکھیں گے اور شادی بیاہ کا طریقہ کیا ہوگا۔ اسلام بتاتا ہے کہ کھانے کے آداب کیا ہیں اور انسان کھانا کھانے سے پہلے اور کھانا کھانے کے بعد کون سے کلمات ادا کرے۔ اسلام رہنمائی کرتا ہے کہ سفر سے پہلے کون سی دعا مانگی جائے۔ حد تو یہ ہے کہ اسلام بیت الخلا تک کے سلسلے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے مگر خورشید ندیم کا کہنا ہے کہ سیاست، تہذیب اور تمدن اسلام کے براہِ راست موضوع نہیں۔ ان کے نزدیک سیاست اور تمدن مذہبی اعمال نہیں ان کا تعلق انسان کی جمالیات یا ضروریات سے ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خورشید ندیم کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا ریاست و سیاست اور تہذیب و تمدن سے براہ راست کوئی تعلق نہیں اور اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو جمالیات اور ضروریات کے دائرے کے سلسلے میں رہنما اصول بیان نہیں کرتا۔
خورشید ندیم کی اس فکر پر ان کے استاد جاوید احمد غامدی کا گہرا اثر ہے اور یہ ایک تحدیدی یا Reductionist فکر ہے۔ ایسی فکر جس پر سیکولر طرزِ فکر کا گہرا اثر ہے۔
اسلام کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام انسان کو ’’عبد‘‘ بنانا چاہتا ہے لیکن انسان کی عبودیت کا اظہار صرف نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ سے نہیں ہوتا۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر دائرے کو دین کے تابع کرے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم عبادت تو خدا کی کریں اور ریاست و سیاست کو خدا کے احکامات کے تحت چلانے سے انکار کردیں۔ ہم حج تو کریں اور زکوٰۃ بھی دیں مگر معیشت پر قرآن و سنت کو بالادست نہ بنائیں۔ ہم ڈاڑھی تو رکھیں اور پردہ بھی کریں مگر انصاف اور آرٹ اور کلچر پر اسلام کا اطلاق نہ کریں۔ غور کیا جائے تو ایک مسلمان اسی وقت عبد کہلانے کا مستحق ہوگا جب اس کی زندگی کا ایک ایک دائرہ اور ایک ایک لمحہ عبادت بن جائے گا۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ اسلام کی پوری زندگی عبادت اور پوری دنیا مسجد بن جائے۔ اس کے بغیر اسلام کے غلبے کا حق اور ہو ہی نہیں سکتا۔
قرآن اور احادیث مبارکہ میں ریاست و سیاست کے اسلام کے تابع ہونے کے واضح اور ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
’’اور دعا کرو! اے پروردگار مجھ کو تو جہاں بھی داخل کر، سچائی کے ساتھ داخل فرما اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘۔
ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں رسول اکرمؐ کا یہ ارشاد مبارک حوالے کے طور پر دیا ہے۔
’’اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدباب کردیتا ہے جن کا سدباب قرآن سے نہیں کرتا‘‘۔
مذکورہ بالا بنی اسرائیل کی آیت مبارکہ کی تشریح سید مودودیؒ نے اس طرح کی ہے۔
’’یا تو مجھے خود اقتدار عطا فرما یا کہ حکومت کو میرا مددگار بنادے تا کہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کرسکوں، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں اور تیرے قانون عدل کو جاری کرسکوں۔
جہاں تک مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کا تعلق ہے تو پوری دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت یا تو ’’دولت مرکز‘‘ ہوتی ہے یا ’’طاقت مرکز‘‘۔ خود رسول اکرمؐ کے عہد مبارک میں انسانوں کی پانچ اقسام موجود تھیں۔

انسانوں کی پہلی قسم وہ تھی جو رسول اکرمؐ کو براہِ راست جانتی تھی، چناں چہ رسول اکرمؐ نے جیسے ہی نبوت کا اعلان کیا یہ لوگ رسول اللہ پر ایمان لے آئے۔ ان لوگوں میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدہ خدیجہؓ اور سیدنا علیؓ شامل تھے۔ ان لوگوں نے رسول اکرمؐ سے کوئی سوال نہ پوچھا بس رسول اللہ نے کہا میں نبی ہوں اور ان لوگوں نے تسلیم کرلیا۔ انسانوں کی دوسری قسم وہ تھی جن کے لیے قرآن ذریعہ ہدایت بنا۔ سیدنا عمرؓ اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ وہ رسول اکرمؐ کے قتل کے ارادے سے نکلے تھے مگر اپنی بہن کے گھر میں قرآن کی چند آیات سن کر ان کی قلب ماہیت ہوگئی۔ وہ جان گئے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور رسول اکرمؐ اللہ کے رسول ہیں۔ رسول اکرمؐ پر ایمان لانے والوں کی تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جنہوں نے رسول اکرمؐ سے معجزات طلب کیے۔ یہ لوگ دو گروہوں پر مشتمل تھے۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا، معجزہ دیکھا اور ایمان لے آئے۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا۔ معجزہ دیکھا اور یہ کہہ کر ایمان لانے سے انکار کردیا کہ یہ جادو ہے۔ انسانوں کی پانچویں قسم وہ تھی کہ جب مکہ فتح ہوگیا اور رسول اکرمؐ کا غالب ہونا واضح ہوگیا۔ اس کے بعد یہ صورت ہوئی کہ روز درجنوں اور بسا اوقات سیکڑوں لوگ آتے تھے اور رسول اکرمؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے۔
سیاسی غلبہ اور سیاسی طاقت رسول اکرمؐ کے عہد ہی میں نہیں آج کے دور میں بھی اہم ہے۔ مغرب کے سیاسی غلبے نے پوری دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رکھا ہے۔ جسے دیکھو امریکا اور یورپ کے گن گارہا ہے۔ جسے دیکھو مغرب کے رنگ میں رنگا جارہا ہے۔ جب تک روس میں کمیونسٹوں کو سیاسی غلبہ حاصل تھا روس کروڑوں لوگوں کا آئیڈیل تھا۔ کروڑوں لوگ سوشلسٹ اور کمیونسٹ ہونے پر فخر کرتے تھے۔ آج سوویت یونین موجود نہیں اور سوشلزم کی سب سے بڑی سیاسی علامت زیرو زبر ہوگئی ہے تو سابقہ کمیونسٹ اب سوویت یونین اور سوشلزم میں کیڑے نکالتے ہیں۔
غامدی صاحب اور خورشید ندیم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جو دین کھانے پینے، سونے جاگنے، جماہی اور چھینکنے سے متعلق احکامات رکھتا ہے وہ ریاست جسے طاقت ور ادارے کو رہنمائی کے بغیر کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ ریاست ایک ہزار سال پہلے بھی طاقت ور تھی اور آج تو اس کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ ریاست خدا بن کر کھڑی ہوگئی ہے اور اس نے اپنے اندر خدا جیسی تقدیس پیدا کرلی ہے۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ معاشرے کی ساری طاقت ریاست کے ہاتھ میں مرتکذ ہوگئی ہے۔ چناں چہ اسلام ریاست جیسے طاقت ور ادارے کو کیسے اپنے ماتحت رکھنے سے غافل ہوسکتا ہے۔ ریاست کے پاس آئین کی طاقت ہے، معاشی طاقت ہے، عسکری طاقت ہے، قانون کی طاقت ہے۔ چناں چہ ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام کی پابند ہو اور اسلامی تاریخ میں ہمیشہ ریاست اسلام کی تابع رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیا کو ریاست اور سیاسی اقتدار سے نوازا۔ سیدنا یوسفؑ کو اللہ تعالیٰ نے اقتدار دیا۔ سیدنا موسیٰؑ کو اقتدار دیا۔ سیدنا دائودؑ کو اقتدار عطا کیا گیا۔ سیدنا سلیمانؑ کو ریاست اور سیاسی اقتدار کا امین بنایا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ رسول اکرمؐ نے ایک ریاست قائم کی اور آپؐ جب تک حیات رہے اس ریاست کی باگ ڈور آپؐ کے ہاتھ میں رہی۔ مسلمانوں کی فکری تاریخ میں جتنے بڑے مفکرین گزرے ہیں انہوں نے اسلامی تہذیب کے دائرے میں ریاست و سیاست کو مذہب کے تابع رکھا ہے۔ امام غزالیؒ نے احیا العلوم میں ریاست و سیاست پر مذہب کو بالادست رکھا ہے۔ ابن خلدون نے اپنے مشہور زمانہ مقدمے میں یہی کہا ہے کہ اسلام معاشرے میں ریاست و سیاست مذہب کی پابند ہے۔ ابن حزم نے صاف کہا ہے کہ تمام اہل سنت، مرجیہ، شیعہ، خوارج سب کا اتفاق ہے کہ نصب امام واجب ہے اور یہ کہ امت پر ایسے امام عادل کی اطاعت واجب ہے جو اللہ کے احکام قائم کرے اور احکام شریعت کے مطابق سیاسی نظام قائم کرے جو رسول اکرمؐ لے کر آئے تھے۔ شاہ ولی اللہ نے صاف کہا ہے کہ مسلمانوں پر جامع شرائط خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے اور یہ حکم قیامت تک کے لیے ہے۔ عہد حاضر میں اقبال اور مولانا مودودیؒ نے ریاست و سیاست کو دین کے تابع کیا ہے۔ یہاں ہمیں ایک حدیث مبارکہ یاد آرہی ہے جس میں رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ اسلام اور حکومت و ریاست دو جڑواں بھائی ہیں، دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہوسکتا۔ پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے۔ جس عمارت کی بنیاد نہ ہو وہ گرجاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیا جاتا ہے۔
بلاشبہ اسلام کی جامعیت کا یہ عالم ہے کہ وہ شعر و ادب اور آرٹ اور کلچر کو بھی اصول اور ضابطے کا پابند بناتا ہے۔ رسول اکرمؐ سے ایک بار کسی نے عہد جاہلیت کے ممتاز شاعر امرائو القیس کی شاعری کے بارے میں رائے معلوم کی۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا امرائو القیس نابینا مضامین کو بینا بنادیتا ہے مگر وہ جہنمیوں کے سرداروں میں سے ایک سردار ہے۔ غور کیا جائے تو نبی اکرمؐ نے امرائو القیس کے فن کو سراہا مگر اس کی شاعری کے کمزور اخلاقی پہلو کی وجہ سے اسے جہنمیوں کے سرداروں میں سے ایک سردار قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امرائوالقیس کی شاعری میں فحش کلام بھی موجود تھا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام آرٹ اور کلچر کو بھی اپنے ماتحت رکھتا ہے۔ یہی اسلام کی جامعیت ہے اور اس جامعیت کا منکر ایک درجے میں اسلام کا منکر ہے۔

Leave a Reply