پاکستان میں ہر حکومت ناکام کیوں ہوجاتی ہے؟

ملک میں ایک حکومت ناکام ہوتی ہے تو ایک حکومت ناکام ہوتی ہے۔ ملک میں تواتر کے ساتھ ایک ہی پارٹی کی دو حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو پارٹی ناکام ہوتی ہے۔ ملک میں کئی حکومتیں ناکام ہوتی ہیں تو نظام ناکام ہوتا ہے۔ مگر جب ملک میں ہر حکومت ناکام ہونے لگے تو ریاست کی ناکامی کا تاثر پیدا ہوجاتا ہے، اور کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ افسوس اور شرم کی بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہ ریاست کی ناکامی کے تاثر کی زد میں آجائے۔ بدقسمتی سے 1971ء میں ملک دو ٹکڑے ہوا تو اس کے پس منظر میں ناکام حکومتوں کی ایک تاریخ تھی۔ افسوس کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے سقوطِ ڈھاکا سے کچھ سیکھ کر نہ دیا۔ چنانچہ قائداعظم کے بچے کھچے پاکستان میں بھی ریاست کی ناکامی کا تاثر پیدا ہونے لگا ہے۔ جو لوگ اس بات پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ عمران خان ناکام ہوگئے ہیں وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ مسئلہ صرف عمران خان اور اُن کی حکومت کی ناکامی کا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان سے پہلے کی حکومتیں بھی ناکام تھیں۔ ان حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ ہی سے عمران خان کی ناکامی اشتہار بنی ہے۔ پہلی حکومتوں کی ناکامی اخبار کے صفحۂ اوّل پر چار کالم کی خبر تھی، مگر عمران خان کی ناکامی شہ سرخی ہے۔ چیختی چنگھاڑتی ہوئی شہ سرخی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ملک چلانے میں بری طرح ناکام کیوں ہے؟
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کا کوئی نظریہ ہی نہیں۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان دو قومی نظریے کا حاصل تھا۔ دو قومی نظریہ نہ ہوتا تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔ دو قومی نظریے کا کمال یہ تھا کہ اس نے جناح کو قائداعظم، بھیڑ کو قوم، جغرافیے کو جدید دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست اور ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ دو قومی نظریے سے پہلے محمد علی جناح صرف افراد کے وکیل تھے، مگر دو قومی نظریے نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بناکر کھڑا کردیا۔ برصغیر کے مسلمان ہر بنیاد پر تقسیم تھے۔ ان میں فرقہ پرستی تھی، مسلک پرستی تھی، لسانی امتیازات تھے، طبقاتی فرق تھا۔ مگر دو قومی نظریے نے انتشار کو اتحاد میں ڈھال دیا، اور بھیڑ کو ایک قوم بنادیا۔ نظریہ صرف ہمارے لیے اہم نہیں۔ سوشلزم کے نظریے نے روس میں انقلاب برپا کردیا۔ روس کے نظریے نے اُسے وقت کی دو سپرپاورز میں ایک سپرپاور بنادیا۔ سوشلسٹ انقلاب سے پہلے عالمی منظرنامے پر روس کہیں بھی موجود نہ تھا، مگر سوشلسٹ انقلاب نے روس کو آدھی دنیا کا قائد بنادیا۔ روس کے نظریے نے روس میں سماجی، تعلیمی اور سائنسی انقلاب برپا کردیا۔ سوشلسٹ روس میں تعلیم اور صحت کی سہولتیں مفت تھیں، کوئی بے روزگار نہیں تھا، کوئی بے گھر نہیں تھا، روس میں خواندگی کی شرح سو فیصد تھی، وہ سائنس کے بعض شعبوں میں امریکہ سے بھی آگے نکل گیا تھا۔ روس امریکہ سے بھی پہلے خلا میں داخل ہوا۔ روس میں ہر شخص اوسطاً دو اخبارات پڑھتا تھا۔ روس کا پورا سماج غیر طبقاتی تھا اور 99 فیصد افراد کا طرزِ زندگی یکساں تھا۔

چین کو انگریزوں نے افیون کھانے والی قوم بنادیا تھا۔ اس قوم کا کوئی حال اور کوئی مستقبل نہ تھا۔ مگر مائو نے سوشلزم ہی کی بنیاد پر چین میں انقلاب برپا کردیا۔ چین میں انقلاب 1949ء میں آیا، مگر 1960ء کی دہائی تک ہر صاحبِ نظر کو معلوم ہوچکا تھا کہ اب چین دنیا کی ایک بڑی قوت بن کر ابھرنے والا ہے۔ ڈینگ ژیائوپنگ نے مائو کے انقلاب کو ایک نئی جہت دی۔ انہوں نے چینی سوشلزم میں سرمایہ داری کی پیوند کاری کی اور چین کو سوویت یونین کی طرح منہدم ہونے سے بچا لیا۔ ڈینگ ژیائو پنگ کا یہ قول مشہورِ زمانہ ہے: ’’مسئلہ بلی کے رنگ کا نہیں، کہ بلی کالی ہے یا سفید۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ چوہے پکڑ سکتی ہے یا نہیں؟ بلی چوہے پکڑ سکتی ہے تو اُس کے رنگ سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔ ڈینگ ژیائو پنگ کی یہ بات سو فیصد درست ثابت ہوئی۔ ڈینگ کی اصلاحات سے چین ایک نئی عالمی طاقت بن کر ابھرا۔ چین کے نظریے کا کمال یہ ہے کہ اس وقت چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، اور عام خیال یہ ہے کہ وہ آئندہ پانچ سے دس سال میں امریکہ سے بھی بڑی معیشت ہوگا۔ چین نے گزشتہ 30 سال میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ چین کے نظریے نے ملک میں علمی انقلاب برپا کردیا۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تحقیقی مقالے چینی اسکالرز کے شائع ہورہے ہیں۔ چین کی ایک یونیورسٹی نے دنیا کی دس بڑی یونیورسٹیوں میں جگہ بنا لی ہے۔
ہندوستان کا نظریہ ’’قوم پرستی‘‘ اور ہندوستان کی ’’عظمت‘‘ کا احساس تھا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو جدید بھارت کے بانی ہیں اور انہوں نے ملک کو بڑی طاقت بنانے کے لیے ملک میں بھاری صنعتوں کا جال بچھایا۔ اس جال کے بغیر ہندوستان ایک بڑی صنعتی اور برآمدی قوت بن ہی نہیں سکتا تھا۔ نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اپنے والد کے نظریے کو لے کر آگے بڑھتی رہیں۔ اندراگاندھی کے بعد بھارت میں تواتر کے ساتھ قائدین بدلتے رہے مگر قوم پرستی اور ہندوستان کی عظمت کا احساس بہرحال موجود رہا۔ ان دونوں باتوں کے شعور نے بھارت کی صنعتی و تجارتی ترقی اور ہندوستان کے بہترین عالمی امیج کو ممکن بنایا۔ آج ہندوستان پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے میچ ہارتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ ایک معمولی ملک نے دنیا کی عظیم قوم کو شکست سے دوچار کردیا، چنانچہ ہندو قوم پرستوں کے لیے اپنی شکست کو ہضم کرنا ممکن نہیں ہوپاتا۔

یہودیوں کے نظریۂ حیات نے اسرائیل تخلیق کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہودیوں کی مذہبی زبان عبرانی ایک مُردہ زبان تھی، مگر یہودیوں کے نظریے اور اُن کے احساسِ عظمت نے ایک مُردہ زبان کو زندہ بناکر کھڑا کر دیا۔ اسرائیل کے نظریے نے اسے تعلیمی، صنعتی اور تجارتی اعتبار سے بڑی طاقت بنایا ہے۔ اسرائیل کی طاقت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ تمام عرب ملک مل کر بھی کبھی اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ عربوں نے اسرائیل کے ساتھ تین جنگیں لڑیں اور تینوں میں انہیں شکست ہوئی۔ اسرائیل کے نظریے نے اسرائیل کو دفاع کی ایک بے مثال حکمتِ عملی مہیا کی ہے۔ چنانچہ اسرائیل میں اسرائیل کا دفاع کسی اسٹینڈنگ آرمی کی ذمہ داری نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی ذمے داری ہے۔ اسرائیل کا ہر شہری فوج میں تین سال تک خدمات انجام دینے کا پابند ہے۔ چنانچہ اسرائیل کا پورا معاشرہ فوج بن گیا ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقے نے ایک نظریاتی ریاست میں نظریے کو منہ ہی نہیں لگایا۔ پاکستان کے ہر حکمران نے اسلام کو اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ جنرل ایوب دس سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے، اور وہ سیکولرازم کے ساتھ رومانس لڑاتے ہوئے پائے گئے۔ جنرل یحییٰ بھی سیکولر تھے۔ بھٹو صاحب نے سوشلزم کو اپنا نظریہ بنایا، مگر اُن کا سوشلزم ’’خالص‘‘ نہیں تھا۔ انہوں نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کیا۔ اس اصطلاح کا کوئی مفہوم ہی نہیں تھا، اس لیے کہ اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اگر اسلام درست ہے تو سوشلزم غلط ہے، اور اگر سوشلزم کو درست مان لیا جائے تو پھر ہمیں اسلام کا انکار کرنا پڑے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھٹو صاحب کا اسلامی سوشلزم ایک کھیل اور ایک تماشا تھا۔ بھٹو صاحب نہ ’’اسلامی‘‘ تھے، اور نہ ’’سوشلسٹ‘‘ تھے، وہ صرف ایک وڈیرے اور صرف ایک ’’موقع پرست‘‘ تھے۔ چنانچہ جب انہیں پاکستانی عوام کو خوش کرنے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دے دیا، شراب پر پابندی لگا دی اور جمعہ کی تعطیل رائج کردی۔ جنرل ضیاء الحق نے اسلام کا نام لیا مگر وہ اسلام کے ساتھ سنجیدہ نہیں تھے۔ اسلام اُن کی سیاسی ضرورت تھا۔ عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، مگر وہ ایک سانس میں ریاست مدینہ، دوسری سانس میں چین کے نظام اور تیسری سانس میں اسکینڈے نیویا کے ملکوں کے بندوبست کو سراہتے ہیں۔ حالانکہ ان تینوں نظاموں کا آپس میں کوئی تعلق ہی نہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے 1973ء تک ملک کو اسلامی آئین فراہم نہ ہونے دیا۔ 1973ء میں ملک کو اسلامی آئین فراہم ہوا تو پاکستان کے حکمران طبقے کی اجتماعی شخصیت کا ایک نیا رخ سامنے آیا۔ اس طبقے نے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنادیا۔ چنانچہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے آج تک اسلام کو 1973ء کے آئین سے نکل کر ریاستی معاملات پر اثرانداز نہیں ہونے دیا۔ چنانچہ ہماری پوری معیشت سود پر کھڑی ہے، ملک کی اعلیٰ آئینی عدالت سود کے خلاف فیصلہ دے چکی مگر پاکستان کا حکمران طبقہ سودی نظام کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ ہمارے عدالتی اور تعلیمی نظام پر اسلام کا کوئی اثر ہی نہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کا مواد اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی ضد ہے۔ چونکہ ہمارے نظریے کا ہمارے سیاسی نظام سے کوئی تعلق ہی نہیں، اس لیے ہمارا سیاسی نظام دنیا کا سب سے گلاسڑا سیاسی نظام ہے۔ اس نظام میں امریکہ اہم ہے، جرنیل اہم ہیں، جاگیردار اور سرمایہ دار اہم ہیں۔ اس نظام میں فرقہ اور مسلک اہم ہے، اس نظام میں صوبہ اور لسانی پس منظر اہم ہے، ذات برادریاں اہم ہیں۔ اس نظام میں Electables اہم ہیں۔ اس نظام میں نہ اخلاقی اہلیت اہم ہے، نہ علمی اہلیت اہم ہے۔ اس نظام میں جمہوری پس منظر کی اہمیت ہے نہ عملی ذہانت کی کوئی اہمیت ہے۔ چنانچہ یہ نظام بار بار کیوں نہ ناکام ہو؟ دنیا کے کتنے ملک ہیں جہاں آمریتیں کامیاب ہوئی ہیں، مگر ہمارے یہاں فوجی آمریتیں ناکامی کی علامت ہیں۔ دنیا کے کتنے ہی ملک ہیں جہاں جمہوریت نے نتائج پید اکیے ہیں، مگر ہمارے یہاں جمہوریت بھی ناکام ہے۔ میاں نوازشریف اور الطاف حسین کو شہری تمدن کی علامت سمجھا گیا مگر یہ دونوں بھی بری طرح ناکام ہوئے۔ عمران خان تبدیلی کے نعرے کے تحت اقتدار میں آئے۔ تبدیلی کا دوسرا مطلب انقلاب ہے، مگر عمران خان نے صرف تین سال میں انقلاب کے تصور کو رسوا کردیا ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے کا ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔اقبال نے کہا ہے:
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
اقبال کے اس شعر کا ایک مطلب یہ ہے کہ قوموں کے عروج کے سلسلے میں اہلیت و صلاحیت کے دائرے میں کمال بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جاپان دوسری عالمی جنگ میں تباہ ہوگیا تھا۔ جاپان صرف تباہ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ وہ امریکہ کا غلام بھی بن گیا تھا۔ مگر غلامی میں جاپان کے حکمرانوں نے اپنے آقائوں سے کہا کہ ہمیں اپنی زبان میں علم حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔ اور پھر جاپانی قوم نے اپنی زبان کی بنیاد پر تعلیم کے میدان میں انقلاب برپا کرکے رکھ دیا، اور جاپان صرف چالیس سال میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھر آیا۔ جرمنی بھی دوسری عالمی جنگ میں تباہ ہوگیا تھا، مگر اس نے بھی تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا کرکے دکھایا، اور آج جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ غلام ابنِ غلام ہے۔ اسے اردو سے نفرت اور انگریزی سے عشق ہے۔ چنانچہ ہماری نئی نسلوں کی تخلیقی صلاحیت صرف اوسط درجے کی ہے۔ ہم بیشتر صورتوں میں جاہل ایم اے، ایم ایس سی، جاہل ایم فل اور جاہل پی ایچ ڈی پیدا کررہے ہیں۔ ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ ہو یا سیاسی اسٹیبلشمنٹ… وہ شعور کو اپنے خلاف ایک سازش سمجھتی ہے، چنانچہ ہمارے حکمران طبقے نے آزادی کے 74 سال بعد بھی پوری قوم کو ناخواندہ بناکر کھڑا کیا ہوا ہے۔ ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر کھڑے ہیں، اور جو بچے اسکولوں میں بیٹھے ہیں اُن کی تخلیقی اور علمی صلاحیت صفر یا صفر سے کچھ ہی بہتر ہے۔ اس صورتِ حال کا اثر ہمارے سیاسی نظام پر بھی پڑا ہے۔ ہمارا سیاسی نظام بدعنوان اور نااہل لوگوں سے اَٹا پڑا ہے۔ ہم نے صرف ایک دائرے میں ’’معجزے‘‘ یا اعلیٰ اہلیت و صلاحیت کا اظہار کیا ہے۔ یہ دائرہ ہے ایٹم بم کی تخلیق کا۔ چنانچہ اس دائرے میں ہم ایک قوم کی حیثیت سے واقعتاً ابھر آئے ہیں اور ہندوستان جیسا بڑا ملک 1980ء سے اب تک ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پارہا۔ مگر پاکستان کا ایٹم بم بھی ڈاکٹر قدیر کی ’’نظریاتی شخصیت‘‘ کا حاصل تھا۔ ڈاکٹر قدیر مولانا مودودیؒ کی انقلابی فکر سے متاثر نہ ہوتے تو ایٹم بم بھی نہ ہوتا۔

Leave a Reply