ہندوستان کی پاکستان سے نفرت اور پاکستانی حکمرانوں کی نااہلی

اطلاعات کے وفاقی وزیر فواد چودھری اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورے کی منسوخی کو بھارتی سازش کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ اسلام آباد میں مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دونوں وزراء نے کہا کہ نیوزی لینڈ کے دورے کی منسوخی کی پشت پر بھارت کا ہاتھ اور افغانستان میں بھارت کی ناکامی کا ردِعمل ہے۔ فواد چودھری نے کہا کہ بھارت سے جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس اور پروٹون ای میل کے ذریعے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو ڈرایا گیا۔ پاکستان میں موجود نیوزی لینڈ کی ٹیم کو جس جعلی ای میل کے ذریعے دھماکے سے مارنے کی دھمکی دی گئی وہ بھارت میں وی پی این استعمال کرکے آر ایم ایکس 1971 ڈیوائس سے بھیجی گئی، اور اس کی لوکیشن سنگاپور ظاہر ہورہی تھی۔ انٹرپول سے ملنے والی معلومات کے مطابق جعلی ای میل ایڈریس حمزہ آفریدی کے نام سے بنائے جانے کے 13 منٹ بعد دھمکی آمیز ای میل نیوزی لینڈ کی ٹیم کو بھیجی گئی۔ آر ایم ایکس 1971 ڈیوائس سے مجموعی طور پر 13 میل ایڈریس جنریٹ کیے گئے۔ ان میں سے صرف ایک کا نام حمزہ آفریدی ہے، باقی ہندو نام ہیں۔ حمزہ آفریدی کے نام سے ای میل جنریٹ کرکے اسے بھونڈے انداز میں پاکستان سے منسوب کیا گیا۔ فواد چودھری نے بتایا کہ یہ ڈیوائس اگست 2019ء میں بھارت میں متعارف کرائی گئی۔ 25 ستمبر 2019ء کو موبائل سم رجسٹر ہوئی۔ سم اور ڈیوائس مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے بھارتی شہری اوم پرکاش مشرا کے نام پر تھی۔ اسی ڈیوائس پر حمزہ آفریدی کی جعلی آئی ڈی بنائی گئی۔ تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے نام سے 19 اگست 2021ء کو جعلی فیس بک اکائونٹ کی پوسٹ پر نیوزی لینڈ کی ٹیم اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ دورۂ پاکستان منسوخ کردے کیونکہ داعش کیوی ٹیم پر حملہ کرسکتی ہے۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مشرا کا افغانستان کے سابق نائب صدر امر اللہ صالح سے قریبی تعلق ہے، اور امر اللہ صالح پاکستان دشمنی کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس صورتِ حال کے چند روز بعد ہی نیوزی لینڈ کی ٹیم کے اوپنر مارٹن گپٹل کی اہلیہ کو ان پر قاتلانہ حملے کی ای میل موصول ہوئی۔ یہ ای میل بھی کسی نیٹ ورک سے منسلک نہیں تھی۔ یہ تمام حقائق اس بات کے ناقابلِ تردید شواہد ہیں کہ نیوزی لینڈ کے دورے کی منسوخی کی پشت پر بھارت موجود ہے۔
ہندوستان کی گزشتہ سو سال کی تاریخ اسلام، مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت کی تاریخ ہے۔ پاکستان کا مطالبہ 1940ء میں سامنے آیا، مگر مولانا محمد علی جوہر کی 1930ء میں کی گئی ایک تقریر ہمارے سامنے ہے۔ اس تقریر میں مولانا محمد علی جوہر کہہ رہے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کو جبراً ہندو بنانے کے لیے شدھی کی تحریک چلا رہے ہیں اور گاندھی جی ان کا راستہ روکنے اور انہیں روکنے ٹوکنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گاندھی بھی عملاً یہی چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو جبراً ہندو بنایا جائے۔ مسلم برصغیر کی تین بڑی شخصیات کبھی ایک قومی نظریے کی قائل تھیں، مگر ہندو قیادت کی تنگ نظری، تھڑدلی اور مسلمان دشمنی نے ان تینوں شخصیات کو بدل کر رکھ دیا اور انہیں دو قومی نظریے کا قائل کرلیا۔ سرسید کہا کرتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں ہیں، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ کانگریس فارسی اور اردو کو پس منظر میں دھکیل رہی ہے اور ہندی کو فروغ دے رہی ہے تو انہوں نے مسلمانوں سے کہاکہ وہ کانگریس سے دور رہیں۔ اقبال سرسید سے بھی زیادہ وسیع المشرب تھے۔ انہوں نے ایک زمانے میں ہمالیہ پہاڑ کی شان میں خوبصورت نظم لکھی۔ انہوں نے اپنی شاعری میں گوتم بدھ، بابا گرونانک کو سراہا، اور رام کو امامِ ہند قرار دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک شعر میں فرمایا:
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تُو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
خاکِ وطن کے ذرے کو ایک ہندو ہی دیوتا قرار دے سکتا تھا۔ اقبال نے
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
کی صدا بھی بلند کی، مگر سرسید کی طرح بہت جلد اقبال کی بھی قلبِ ماہیت ہوگئی، اور جو شاعر خاکِ وطن کے ہر ذرے کو دیوتا قرار دے رہا تھا وہ دھرتی پوجا سے بلند ہوکر اسلام کا عظیم سپاہی بن کر سامنے آیا اور اس نے اعلان کیا:
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے سلسلے میں اقبال سے بھی آگے تھے۔ اقبال تو کانگریس کے رہنما نہیں تھے، مگر محمد علی جناح کانگریس کے رہنما تھے اور سروجنی نائیڈو انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سب سے بڑا سفیر قرار دیا کرتی تھیں۔ مگر قائداعظم نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ 1930ء کی گول میز کانفرنس میں گاندھی اور نہرو نے جو رویہ اختیار کیا اُسے دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ ہندو مسلم ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ہندوستان کی ہندو قیادت اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں سے نفرت نہ کرتی تو سرسید، اقبال اور محمد علی جناح میں کبھی تبدیلی نہ آتی۔ مولانا ابوالکلام آزاد آخری وقت تک کانگریس میں رہے، مگر مولانا نے بھی ہندو قیادت کی مسلم دشمنی کی گواہی دی ہے۔ انہوں نے اپنی تصنیف India Wins Freedom کے اُس حصے میں جو اُن کی وفات کے ایک عرصے بعد شائع ہوا، لکھا ہے کہ 1947ء میں دہلی میں مسلم کُش فسادات شروع ہوئے تو سرکردہ مسلمانوں نے مولانا آزاد سے رابطہ کرکے مدد کی درخواست کی۔ مولانا نے نہرو سے کئی بار اس سلسلے میں کچھ کرنے کو کہا، مگر نہرو نے ہر بار کہا کہ میں تو وزیرداخلہ سردار پٹیل سے کہتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کچھ کریں مگر وہ میری بات ہی نہیں سنتے۔ نہرو ہندوستان کے مقبول رہنما تھے۔ وہ گاندھی کے بعد کانگریس کی اہم ترین شخصیت تھے، چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ سردار پٹیل سے کچھ کرنے کو کہتے اور وہ ان کی بات نہ سنتے۔ اصل بات یہ تھی کہ نہرو بھی دہلی میں مسلم کُش فسادات روکنا نہیں چاہتے تھے۔
پاکستان چونکہ اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کی علامت تھا اس لیے ہندو قیادت کو پہلے دن سے پاکستان زہر لگتا تھا۔ چنانچہ ہندو قیادت نے پاکستان کے حصے کے مالی وسائل روک لیے۔ کشمیر، حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ پر فوج کشی کرکے ان پر قبضہ کرلیا۔ نہرو خود مسئلہ کشمیر کو لے کر اقوام متحدہ گئے اور اقوام متحدہ نے مقبوضہ کشمیر کو مقبوضہ تسلیم کیا اور قراردادوں کے ذریعے وعدہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو حقِ رائے دہی کے ذریعے اس بات کا موقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ بھارت اور پاکستان میں سے جس کے ساتھ رہنا چاہیں، رہ لیں۔ مگر بھارت نے کبھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اہمیت نہیں دی۔ بھارت کو 1971ء میں مشرقی پاکستان میں مداخلت کا موقع ملا اور اُس نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سقوطِ ڈھاکا میں اہم کردار ادا کیا۔ ہندوستان کی یہ ایک بڑی فتح تھی اور ہندوستان اس فتح پر مطمئن رہ سکتا تھا، مگر ہندو قیادت کی پاکستان اور اُس کے نظریے سے نفرت عود کر آئی۔ چنانچہ سقوطِ ڈھاکا کے بعد بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ تاریخ کا بدلہ لے لیا گیا ہے اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا گیا ہے۔ یہ ہندوستان تھا جس نے جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سیاچن پر قبضہ کرلیا۔ بھارت نے 1980ء کی دہائی میں ایم آر ڈی کی تحریک کی کھل کر حمایت کی۔ بھارت بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی حمایت کررہا ہے، اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری سے ثابت ہوگیا کہ بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بھارت نے کراچی میں ایم کیو ایم کے تشدد اور اس کی پیدا کردہ بدامنی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین را کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے پائے گئے۔ اس وقت بھارت کی کئی ریاستوں کے اسکولوں میں ایسا نصاب پڑھایا جارہا ہے جس میں اکھنڈ بھارت کے تصور کی تعلیم موجود ہے۔ اکھنڈ بھارت کے تصور کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، مالدیپ اور میانمر کو اکھنڈ بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بھارت نے دو طرفہ آبی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کا پانی روکا ہے، اور پاکستان آنے والے دریائوں پر ڈیم تعمیر کیے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغانستان میں 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی۔ اس نے افغانستان میں دہشت گردی کے 60 سے زیادہ کیمپ قائم کیے۔ کھیلوں کو غیرسیاسی اور غیر مذہبی سمجھا جاتا ہے، مگر بھارت نے کرکٹ جیسے کھیل کو سیاسی اور مذہبی رنگ دے کر نہ صرف یہ کہ پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار کردیا بلکہ اس نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کے دورۂ پاکستان کی منسوخی میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ پاکستان سے بھارت کی نفرت کی انتہا ہے، اور اس نفرت سے ثابت ہوگیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ تک ’’نظریاتی‘‘ ہے۔

پاکستان سے بھارت کی نفرت کی اس تاریخ کے تناظر میں پاکستان کے حکمرانوں کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے تمام حکمران نااہلوں کا ٹولہ نظر آتے ہیں۔ 1962ء میں چین بھارت جنگ ہوئی تو بھارت اپنی تمام فوج کو پاکستان کی سرحد سے ہٹا کر چین کی سرحد پرلے گیا۔ یہ اُس کی ’’پسند‘‘ نہیں تھی، بلکہ مجبوری تھی۔ چین کے ساتھ اس کی سرحد ڈھائی تین ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ اس صورتِ حال نے پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کے عدم توازن کو رفع کردیا۔ چنانچہ چین نے جنرل ایوب کو پیغام دیا کہ بھارت اپنی تمام فوج ہماری سرحد پر لے آیا ہے، آپ آگے بڑھیے اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لیجیے۔ یہ ایک تاریخی موقع تھا۔ پاکستان دس ہزار فوجیوں کی مدد سے کشمیر فتح کر سکتا تھا۔ مگر چین کے پیغام کی اطلاع امریکہ کو ہوگئی اور اُس نے جنرل ایوب سے کہا کہ آپ کشمیر فتح کرنے کی کوشش نہ کریں، چین بھارت جنگ ختم ہوجائے گی تو امریکہ مسئلہ کشمیر حل کردے گا۔ امریکی دبائو پر جنرل ایوب چپ سادھ کر بیٹھ گئے اور بھارت کو سبق سکھانے کا تاریخی موقع گنوا دیا گیا۔
ہندوستان نے بھارتی پنجاب میں سکھوں کے مقاماتِ مقدسہ کی توہین کی تو سکھوں کے اجتماع میں آگ لگ گئی اور بھارتی پنجاب میں علیحدگی کی تحریک شروع ہوگئی۔ پاکستان نے اس تحریک کی حمایت کی، اور اس تحریک نے پورے بھارتی پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان چاہتا تو بھارتی پنجاب کو بھارت سے کاٹ سکتا تھا، مگر پاکستان کے حکمرانوں نے ایسا کرنے کے بجائے حریت پسند سکھوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کردیں، اور بھارت نے چند ہفتوں میں اس تحریک کا بھرکس نکال کر رکھ دیا۔

پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی قیادت کو پیغام دیا کہ اگر وہ تحریک کو تحرّک کی ایک بلند سطح پر لے آئیں تو پاکستان عملاً کشمیریوں کی مدد کرے گا۔ کشمیری مسلح جدوجہد کے عادی نہیں تھے مگر انہوں نے مسلح جدوجہد شروع کی، اور ان کی تحریک نے جلد ہی تحرّک کی مطلوبہ سطح کو حاصل کرلیا۔ اس کے بعد انہوںنے پاکستان سے مداخلت کا مطالبہ کیا تو کشمیری قیادت کو پیغام دیا گیا کہ کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگایا جا سکتا۔
جنرل پرویزمشرف سے ہمیں ہزاروں اختلافات ہیں، مگر کارگل آپریشن میں پاکستان نے واقعتاً بھارت کی گردن دبوچ لی تھی۔ اُس وقت بھارت کے پاس دو ہی امکانات تھے۔ ایک یہ کہ بھارتی فوجی پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈالیں، یا پھر وہ بھوک سے مر جائیں، اس لیے کہ پاکستان نے ان کی سپلائی کے تمام راستے مسدود کردیے تھے۔
مگر میاں نوازشریف نے میدانِ جنگ کی فتح کو مذاکرات کی میز پر شکست میں بدل دیا۔
بدقسمتی سے پاکستان کا حکمران طبقہ بھارت کی طاقت کے خوف میں مبتلا ہے، اور وہ بھارت کے ساتھ لایعنی مذاکرات کی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کے نو ادوار مکمل کیے، مگر اس عمل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔ جنرل پرویزمشرف آگرہ میں مسئلہ کشمیر کا ایسا حل تسلیم کرنے پر آمادہ تھے جو کشمیر کاز سے غداری کے مترادف تھا، مگر بھارت اس حل کو بھی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ میاں نوازشریف کی بھارت پرستی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ انہوں نے پاک بھارت تعلقات کو مودی اور نوازشریف کا مسئلہ بنادیا، حالانکہ پاک بھارت تعلقات اپنی اصل میں دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے تعلقات ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل یہ صورتِ حال تھی کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا کیے ہوئے تھا، مگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھارت کے ساتھ خفیہ مذاکرات فرما رہی تھی اور اسے دو طرفہ تعلقات میں بریک تھرو کی توقع تھی۔ قائداعظم کی تاریخ یہ ہے کہ وہ غلامی میں بھی آزاد انسان کی طرح سوچتے تھے، اور پاکستان کے حکمران آزادی میں بھی غلاموں کی طرح سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔

Leave a Reply