کیا جرنیلوں سے اختلاف قومی جرم ہے؟

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے نئے مسودۂ قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت پاکستان کی مسلح افواج یا ان کے کسی رکن کو بدنام کرنے، یا ان پر تنقید کرنے، یا ان کا تمسخر اڑانے والے فرد کو دو سال قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جا سکے گا۔ حزبِ اختلاف نے بل کی مخالفت کی اور کہا کہ اسے ملک میں آزادیِ اظہار کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ بل کے سلسلے میں خیبرپختون خوا حکومت مخالفت میں ووٹ دے چکی ہے۔ تین دوسرے صوبوں نے ابھی تک بل پر رائے نہیں دی۔ حزبِ اختلاف نے کہا کہ یہ بل خود ہمارے اداروں کے خلاف ہے۔ (روزنامہ جنگ و جسارت۔ 8 اپریل 2021ء)
حضرت علیؓ نے کہا تھا: کلام کرو تاکہ پہچانے جائو۔ ہمارے جرنیل زبانِ حال سے فرما رہے ہیں کہ ہمارے بارے میں کلام نہ کرو ورنہ پکڑے جائو گے۔ اسلامی تاریخ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت عمرؓ سے بڑا حکمران پیدا نہیں ہوا۔ ان کی عظمت اور تقدس غیر معمولی تھا مگر یہ سیرتِ عمرؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار کہیں سے کپڑا آیا جو تمام لوگوں میں تقسیم ہوا۔ کپڑے کا ایک ٹکڑا حضرت عمرؓ کے حصے میں بھی آیا، مگر یہ ٹکڑا اتنا چھوٹا تھا کہ اس سے حضرت عمرؓ کا کرتا نہیں بن سکتا تھا، تاہم حضرت عمرؓ اس کپڑے کا کرتا پہنے نظر آئے تو یہ سوال پیدا ہوا کہ آپؓ نے کرتا کیسے سلوایا ہے؟ چنانچہ حضرت عمرؓ سے اتنی معمولی چیز کے بارے میں سوال ہوگیا، اور سوال بھی بھری محفل میں ہوا، مگر حضرت عمرؓ نے سوال کرنے والوں کو کچھ نہ کہا۔ ایک دور میں حضرت عمرؓ کو محسوس ہواکہ بہت زیادہ مہر لیا اور دیا جانے لگا ہے، چنانچہ آپؓ نے مہر کی حد مقرر کرنے کا اعلان فرمایا تو ایک عام عورت نے بھری محفل میں آپؓ کو اس بات پر ٹوک دیا۔ اس نے کہا کہ جب اللہ نے قرآن میں مہر کی حد مقرر نہیں کی تو آپ خود مقرر کرنے والے کون ہوتے ہیں! حضرت عمرؓ نے اس بات پر عورت کی توصیف کی، لیکن ہمارے جرنیل شاید خود کو حضرت عمرؓ سے بھی بڑا حکمران سمجھتے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سے اختلاف کیا جا سکتا ہے نہ ہم پر تنقید ہوسکتی ہے۔ کوئی ایسا کرے گا تو اسے دو سال کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے گا اور اسے پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے جرنیل ایسا کیوں کررہے ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ ہمارے جرنیلوں کا تصورِ ذات یہ ہے کہ وہ ’’آقا‘‘ ہیں اور قوم ان کی ’’غلام‘‘ ہے۔ وہ ’’وڈیرے‘‘ ہیں اور قوم ان کی ’’ہاری‘‘ ہے۔ وہ معاشرے کے ’’برہمن‘‘ ہیں اور قوم ’’شودروں‘‘ پر مشتمل ہے۔ ظاہر ہے کہ آقا غلاموں کی، وڈیرے ہاریوں کی، اور برہمن شودروں کی تنقید کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتے۔ بدقسمتی سے اکثر مسلم ملکوں میں فوج برٹش یا فرنچ آرمی کا تسلسل ہے، اور اس کی نفسیات کے دائرے میں سول افراد کسی طرح بھی فوجیوں کے برابر نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلم ملکوں میں سول بالادستی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ بدقسمتی سے اس سلسلے میں مسلم دنیا کے سول حکمرانوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مسلم دنیا کی پچاس سالہ تاریخ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ’’فوجی آمریت‘‘ اور ’’سول آمریت‘‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو مسلم معاشروں میں فوجی بالادستی کو چیلنج کرنا دشوار نہ ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کا زیربحث مسئلے سے کیا تعلق ہے؟

پاکستان اقبال کا خواب ہے، چنانچہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اقبال کے مثالیے یا Ideals کیا تھے؟ وہ اپنے خواب میں کس طرح کے تصورِ انسان کو رائج دیکھنا چاہتے تھے؟ وہ کس طرح کے معاشرے کے قیام کا خواب دیکھ رہے تھے؟ اقبال کا تصورِ مسلم اور تصورِ مومن ہی ان کا تصورِ انسان تھا، اور وہ معاشرے کو اس تصورِ انسان سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے، اسی لیے اقبال نے فرمایا:
بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے
مگر ہمارے جرنیل، فوجی اور سول آمر چاہتے ہیں کہ بندۂ مومن فرماں روا کے سامنے بے باک نہ ہو، بلکہ وہ حکمرانوں سے دب کر رہے۔ اُس کے سر پر یہ خوف طاری رہے کہ اگر اُس نے اقبال کا مردِ مومن بننے کی کوشش کی تو ’’لاپتا‘‘ افراد کی فہرست میں شامل ہوجائے گا۔ یہ نہیں تو اُسے دو سال کے لیے جیل میں ٹھونس دیا جائے گا اور اس کی جیب پر 5 لاکھ روپے جرمانے کا بوجھ لاد دیا جائے گا۔ اقبال نے مسلمانوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ وہ بادشاہی
اقبال کا یہ شعر مسلمانوں کو قوت و شوکت کے حصول کے لیے جان کی بازی لگا دینے کا درس دیتا ہے۔ لیکن اگر اقبال کے پاکستان میں لوگ ’’مردِ مسلمان‘‘ بننے کی کوشش کریں گے اور جان کی بازی لگائیں گے تو ہمارے فوجی اور سول آمر انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر ان کا جینا حرام کردیں گے۔ اقبال نے ایک اور جگہ ارشاد کیا ہے:
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
مگر ہمارے جرنیل اقبال کے مردِ مومن کو صداقت کے بجائے خاموشی کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ وہ اسے عدل کے بجائے ناانصافی کا درس دے رہے ہیں، اور اس کی شجاعت کو بزدلی میں ڈھال رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بندۂ مومن دنیا کی امامت کا خواب نہ دیکھے بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ خود کو مسجد کی امامت کے لائق بنائے اور بس۔
اقبال کے تصورِ انسان کی کچھ اور جھلکیاں یہ ہیں:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
کردار میں گفتار میں اللہ کی برہان
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
…٭٭٭…
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہیں وہ کارواں تُو ہے
…٭٭٭…
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
…٭٭٭…
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیم و خلیل
…٭٭٭…
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کارکشا کارساز
…٭٭٭…
مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے
مومن کا مقام ہر کہیں ہے
…٭٭٭…
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
…٭٭٭…
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو گزشتہ 73 سال کے طویل سفر میں اقبال کے ’’مردِ مومن‘‘ اور ’’مردِ مسلماں‘‘ کو معاشرے میں برپا کرنا تھا، مگر بدقسمتی سے ہمارے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستانی قوم کو غلاموں، ہاریوں، بونوں اور بالشتیوں کی قوم بناکر رکھ دیا ہے، یہاں تک کہ اب ملک میں جرنیلوں سے اختلاف کو بھی جرم بنادیا گیا ہے، اور اس کی سزا دو سال مقرر کی گئی ہے۔ اقبال نہ صرف یہ کہ معاشرے میں ’’مردِ مسلماں‘‘ اور ’’مردِ مومن‘‘ پیدا کرنا چاہتے تھے، بلکہ وہ مسلمانوں کے اندر خودی کو بھی بیدار اور متحرک کرنا چاہتے تھے، اسی لیے اقبال نے اپنی شاعری میں خودی کے ترانے گائے ہیں:
یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے
خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے رازِ دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
…٭٭٭…
خودی سے اس جہانِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں
یہی توحید تھی جس کو نہ تُو سمجھا نہ میں سمجھا
…٭٭٭…
یہ پیام دے رہی ہے مجھے بادِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام بادشاہی
…٭٭٭…
کسے نہیں تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
…٭٭٭…
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
…٭٭٭…
چڑھتی ہے جس فقر کی سان پر تیغِ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ
…٭٭٭…
خودی کے ساز میں ہے عمرِ جاوداں کا سراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
…٭٭٭…
خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل
خودی ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل
اقبال کے پاکستان میں خودی کے ان ترانوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمران خودی کو فروغ دینے والے نہیں، خودی کو فروخت کرنے والے ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ معاشرے کے کسی فرد میں خودی پیدا ہو نہ وہ متحرک ہو، ایسا ہوگیا تو جابر حکمرانوں کے خلاف چار دن میں بغاوت ہوجائے گی۔ ملک میں خودی کی نمود کا کوئی امکان نہیں، پھر بھی جرنیلوں سے اختلاف کو جرم بنایا جارہا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر جرنیلوں پر تنقید کیوں ہوتی ہے؟
قیامِ پاکستان میں جرنیلوں کا رتی برابر بھی کردار نہیں، اس لیے کہ قیامِ پاکستان کے وقت کوئی فوج ہی نہیں تھی، چنانچہ جرنیل بھی نہیں تھے۔ مگر بدقسمتی سے جرنیلوں نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو اپنی جاگیر بنا لیا۔ وہ جب چاہتے ہیں منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دے کر اسے معطل یا تحلیل کردیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں جمہوریت کی گردن مار دیتے ہیں۔ اس تناظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان جرنیلوں کو جہیز میں ملا ہے۔ حالانکہ پاکستان ملکِ خداداد ہے۔ اسلام کی عطا ہے۔ اقبال اور برصغیر کی ملتِ اسلامیہ کا خواب ہے۔ قائداعظم کی کرامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام جرنیلوں سے اختلاف کرتے ہیں اور ان پر تنقید بھی کی جاتی ہے۔

پاکستان ہمیشہ آزاد رہنے کے لیے وجود میں آیا تھا، مگر جرنیلوں نے اسے امریکہ کا غلام بنادیا۔ جنرل ایوب نے مارشل لا تو 1958ء میں لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں سے خفیہ رابطے استوار کیے ہوئے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سول حکمران نااہل ہیں اور وہ پاکستان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب ایک ’’فدوی‘‘کی طرح امریکیوں کو بتارہے تھے کہ فوج سیاست دانوں کو پاکستان تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
(باقی صفحہ 41پر)
جنرل ایوب کی نظر میں پاکستان کے سیاست دان نااہل تھے اور وہ پاکستان کو تباہ کر رہے تھے تو وہ مارشل لا ضرور لگاتے مگر اس سلسلے میں انہیں امریکیوں کے سامنے گردن جھکانے کی کیا ضرورت تھی؟ جنرل ایوب گیارہ سال اقتدار کے مزے لوٹ کر رخصت ہوگئے، مگر وہ دن ہے اور آج کا دن… پاکستان امریکہ کی غلامی سے نجات حاصل نہیں کرسکا ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں بھی جرنیلوں سے بجا طور پر اختلاف کیا جاتا ہے اور ان پر تنقید کی جاتی ہے۔ کیا یہ قومی جرم ہے؟
جرنیلوں پر اس لیے بھی تنقید کی جاتی ہے کہ ان کے دور میں ملک دولخت ہوا اور پاکستان کے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ کیا اس تناظر میں بھی جرنیلوں سے اختلاف قومی جرم ہے؟

جرنیلوں نے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست دانوں کی نرسری میں تبدیل کردیا ہے۔ بھٹو اسی نرسری سے ابھرے، میاں نوازشریف اسی نرسری کی پیداوار ہیں،الطاف حسین کو اسی نرسری نے جنم دیا۔ جرنیلوں پر اس لیے بھی تنقید ہوتی ہے کہ انہوں نے انتخابات کو ایک کھیل بنا دیا ہے۔ منتخب وہی ہوتا ہے جسے اسٹیبلشمنٹ منتخب کرانا چاہتی ہے۔ کیا اس تناظر میں بھی جرنیلوں پر تنقید کوئی قومی جرم ہے؟ سلیم احمد نے کہیں لکھا ہے کہ معاشرہ جب تک اختلاف کو برداشت کرنا پسند کرنا شروع نہیں کرتا اُس وقت تک وہ معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں بنتا۔ ایک اسلامی معاشرے میں فضیلت صرف دو چیزوں کو حاصل ہے: ایک تقویٰ کو، دوسرے علم کو۔ جہاں علم ہو گا وہاں اختلافِ رائے بھی ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے پاکستانی معاشرے کو طاقت مرکز اور دولت مرکز بنا کر رکھ دیا ہے۔ جہاں طاقت اور سرمایہ سب کچھ ہوگا وہاں طاقت ور اور دولت مند سے اختلاف جرم ہوگا۔

Leave a Reply