مسلمان اور سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تعلق کے تقاضے

بلاشبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی عقیدت مسلمانوں کا بڑا سرمایہ ہے،عقیدت کا تقاضا جس طرح جاں نثاری ہے اسی طرح محبت کا تقاضا اتباع ہے

ایک وقت تھا کہ مسلمان کا حال یہ تھا:۔

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
ہمسایۂ جبریل امیں بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں

لیکن آج مسلمان کا حال یہ ہے:۔

ایسے بھٹک رہا ہے خرابے میں آدمی
جیسے اسے کبھی بھی ہدایت نہیں ملی

تجزیہ کیا جائے تو مسلمانوں سے زیادہ امیر امت کوئی نہیں۔ مسلمانوں کے پاس قرآن ہے، مسلمانوں کے پاس فرقان ہے، مسلمانوں کے پاس علم حدیث ہے، مسلمانوں کے پاس سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خزانہ ہے۔ غور کیا جائے تو یہ تمام چیزیں ایک ذات میں مجسم ہوگئی ہیں۔ قرآن اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو مختلف چیزیں نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا فرقان ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہے جس کی تاثیر سے ابوبکرؓ، عمر فاروقؓ، عثمان غنیؓ، علی مرتضیٰ ؓ اور ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرام آسمانِ ہدایت کے ستارے بن کر چمکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے علم و فضل اور سیرتِ کردار نے غزالی، رازی، عطار اور رومی کو پیدا کیا۔ آپؐ ہی مسلمانوں کی تہذیب ہیں۔ آپؐ ہی مسلمانوں کی تاریخ ہیں۔ آپؐ ہی مسلمانوں کی عظمت ہیں۔آپؐ ہی مسلمانوں کا وقار ہیں۔ مگر آج مسلمانوں کی روحانی، اخلاقی اور علمی غربت کا یہ عالم ہے جیسے مسلمانوں کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔
مسلمانوں کے سیرتِ طیبہ کے ساتھ تعلق کے دو بنیادی تقاضے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے غایت درجے کی عقیدت ہو، اور دوسرا یہ کہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی درجے کی محبت ہو۔ مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے غایت درجے کی عقیدت تو ہے۔ یہ مسلمانوں کی کوئی انفرادی یا اجتماعی خوبی نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ یہ مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ اس نے مسلمانوں کے دلوں میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بے انتہا عقیدت ڈالی ہے۔ عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہوتا ہے۔ آدمی کو جس سے عقیدت ہوتی ہے اُس پر انسان اپنی جان بھی نثارکردیتاہے۔ بلاشبہ کمزور سے کمزور مسلمان بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عقیدت رکھتا ہے کہ اگر اس کے سامنے کوئی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میںگستاخی کا کوئی کلمہ کہہ دے تو مسلمان جان دے بھی سکتا ہے اور جان لے بھی سکتا ہے۔ مسلمانوں کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس تعلق کو دیکھتے ہوئے ایک بار ایک مغربی دانش ور نے کہا تھا کہ میں جب مسلم معاشروں میں جاتا ہوں اور مسلمانوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گفتگو کرتا ہوں تو مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس طرح کلام کرتے ہیں جیسے وہ ان کے درمیان موجود ہوں۔ بلاشبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی عقیدت مسلمانوں کا بڑا سرمایہ ہے، لیکن مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسی عقیدت ہے ویسی محبت نہیں ہے۔ عقیدت کا تقاضا جس طرح جاں نثاری ہے اسی طرح محبت کا تقاضا اتباع ہے۔ انسان کو جس ذات سے محبت ہوتی ہے انسان اُس کی طرح بننا چاہتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر دائرے میں اس کی پیروی کرتا ہے۔ انبیاء تو کائنات کی عظیم ترین ہستیاں ہیں۔ انسان کو کسی سیاسی رہنما اور اداکار سے بھی محبت ہوجاتی ہے تو وہ اس کا اتباع کرتا ہے، اس کی زبان و بیان کو اپنا لیتا ہے، اس کے لہجے میں کلام کرتا ہے، اس کی طرح کا لباس زیب تن کرتا ہے، اس کی طرح بال بناتا ہے۔ زندگی کا یہ وہ دائرہ ہے جہاں مسلمانوں کا رشتہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کمزور پڑ جاتا ہے۔ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جان دے سکتے ہیں، مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ مسلمانوں نے سیرتِ طیبہ کا اتباع کیا بھی ہے تو بہت چھوٹی چھوٹی سنتوں میں… مثلاً مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح داڑھی رکھ لیتے ہیں، ہاتھ سے کھانا کھاتے ہیں، سلام کو اخیتار کرلیتے ہیں۔ ہمارے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک ایک پہلو اہم ہے، چنانچہ جو شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی چھوٹی سنت کو اختیار کرتا ہے وہ بھی بڑا کام کرتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُن بڑی بڑی سنتوں کو چھوڑ دیا ہے جن کو اختیار کیے بغیر ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا حق ادا کر ہی نہیں سکتے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بہت ہی بڑی سنت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدا مرکز تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دنیا کے حوالے سے بے نیازی میں بسر ہوا۔ اس سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین احادیث کی اہمیت بنیادی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ہر امت کا ایک فتنہ ہے، اور میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘۔ بدقسمتی سے آج امتِ مسلمہ بری طرح مال کے فتنے میں مبتلا ہے۔ امت کا ایک طبقہ وہ ہے جس کے پاس مال کی کثرت ہے اور اس کے لیے مال کی کثرت فتنہ بن گئی ہے۔ مال کی کثرت کا فتنہ یہ ہے کہ جو لکھ پتی ہے وہ کروڑ پتی بننے کے لیے کوشاں ہے۔ جو کروڑ پتی ہے وہ ارب پتی بننا چاہتا ہے۔ جو ارب پتی ہے وہ کھرب پتی کہلانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ مال کی کثرت نے اس طبقے کو عیش پرستی کے سرطان میں مبتلا کردیا ہے۔ چنانچہ اس طبقے کا ہر لمحہ عیش میں گزرتا ہے، اور یہ خدا اور اس کی یاد کو یکسر فراموش کربیٹھا ہے۔ دوسری طرف امت کا وہ طبقہ ہے جو مال کی قلت میں مبتلا ہے، اور اس طبقے کے لیے مال کی قلت فتنہ بن گئی ہے۔ یہ طبقہ سوچتا ہے تو مال کے بارے میں، محسوس کرتا ہے تو مال کے بارے میں، خواب دیکھتا ہے تو مال کے۔ اس کے پاس مال کی ایسی قلت ہے کہ مال کی فراہمی اس طبقے کے پورے وجود پر چھا گئی ہے۔ یہ پڑھتا ہے تو مال کمانے کے لیے، عمل کرتا ہے تو مال کے لیے۔ اس طبقے کی زندگی مال کی تمنا سے شروع ہوتی ہے، مال کی تمنا میں آگے بڑھتی ہے اور مال کی تمنا میں ختم ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے علماء اور مسلم دانش وروں کی عظیم اکثریت امت کو نہ مال کے فتنے پر مطلع کررہی ہے، نہ عام مسلمانوں کو مال کے فتنے سے نکالنے کے لیے کچھ کررہی ہے۔ چنانچہ مال کے فتنے کی سنگینی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔
دنیا سے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری حدیثِ مبارکہ وہ ہے جس کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار صحابہ کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راستے میںبکری کا ایک مرا ہوا بچہ ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے اس مرے بچے کو دیکھ کر رک گئے۔ صحابہ بھی ٹھیر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا ’’تم میں سے کوئی بکری کے اس مرے ہوئے بچے کو خریدنا پسند کرے گا؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا کہ ایک توبچہ، پھر یہ مرا ہوا ہے، اسے تو کوئی مفت بھی لینا پسند نہیں کرے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یاد رکھو دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے‘‘۔ مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت اس دنیا کی محبت میں مبتلا ہے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرے ہوئے بکری کے بچے سے زیادہ حقیر قرار دیا ہے۔ مسلمان خدا کی بات ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں خدا کی محبت کے بجائے دنیا کی محبت جھنڈا گاڑے ہوئے ہے۔ بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے اپنے دلوں میں خدا اور دنیا کی محبت کو یکجا کیا ہوا ہے۔ پہلی محبت کفر کی طرح ہے۔ اس لیے کہ دل خدا کی محبت کے لیے بنا ہے، اس میں خدا کی محبت کی جگہ دنیا کی محبت کو جگہ دینا خدا کی محبت کے انکار کے مترادف ہے۔ محبت کی دوسری صورت شرک کی طرح ہے۔ اس لیے کہ ایک دل میں خدا اور دنیا کی محبت کو جمع نہیں کیا جا سکتا۔ اصول ہے جس دل میں خدا ہوتا ہے وہاں دنیا آہی نہیں سکتی، اس لیے کہ خدا کے دل میں آجانے سے دل میں دنیا کے لیے جگہ ہی نہیں بچتی۔ اسی طرح جس دل میں دنیا کی محبت موجود ہو اُس دل میں خدا آتا ہی نہیں۔ اس لیے کہ خدا غیرکو سخت ناپسند کرتا ہے، اور دنیا خدا کا غیر ہے۔ چنانچہ جو لوگ خدا اور دنیا کی محبت کو دل میں جمع کرتے ہیں وہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں، اور خدا نے شرک کے بارے میں صاف کہا ہے کہ وہ ہر گناہ معاف کردے گا مگر شرک کو معاف نہیں کرے گا۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ دل خدا کی محبت ہی سے دل بنتا ہے۔ جس دل میں دنیا کی محبت ہو وہ دل نہیں، سِل کہلانے کا مستحق ہے۔ بدقسمتی سے کروڑوں مسلمانوں کے سینوں میں دل نہیں دھڑک رہے، سِلیں دھڑک رہی ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیثِ پاک کا مفہوم یہ ہے کہ اگر دنیا مچھر کے پَر کے برابر بھی اہم ہوتی تو کفار اور مشرکین کا اس میں کوئی حصہ نہ ہوتا۔ مگر آج مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ جو دنیا مچھر کے پَر سے زیادہ حقیر ہے مسلمان دن رات اس دنیا کا طواف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ دنیا کے مال کا طواف کررہے ہیں، دنیا کی شہرت کا طواف کررہے ہیں، دنیا کے عہدوں اور مناصب کا طواف کررہے ہیں۔ وہ کافر اور مشرک قوموں کو دنیا ’’انجوائے‘‘ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو کافروں اور مشرکوں کی زندگی انہیں قابلِ رشک نظر آتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کو کافروں اور مشرکوں کی زندگی کے جیسا بنانے کی تمنا کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہمارے ملک کو دنیاوی اعتبار سے امریکہ کے جیسا ہونا چاہیے۔ کوئی کہتا ہے ہمارا ماڈل یورپ ہے۔ کوئی کہتا ہے ہمارے لیے نمونۂ عمل جاپان اور چین ہے۔ بلاشبہ مسلمان بھی کبھی فاتحین تھے۔ بلاشبہ مسلمانوں نے بھی سلطنتیں قائم کیں۔ بلاشبہ مسلمانوں نے بھی مال و زر کے انبار لگائے۔ مگر اپنے بہترین زمانوں میں مسلمانوں کا حال یہ رہا:۔

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

بدقسمتی سے مسلمان اس ’’لذت آشنائی‘‘ سے محروم ہوگئے جو انسان کو دو عالم سے بیگانہ کرتی ہے اور مسلمان صرف خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ آج مسلمان اس دنیا کی محبت میں مرے جارہے ہیں جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مچھر کے پَر سے بھی زیادہ حقیر قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے دنیا کی محبت میں صرف مسلمانوں کا کوئی ایک طبقہ ملوث نہیں، مسلمانوں کا ہر طبقہ دنیا کی لیلیٰ کا مجنوں بنا ہوا ہے اور اس پر فخر کررہا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک بہت ہی اہم پہلو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فروتنی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سردار الانبیاء تھے۔ خاتم النبیین تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج عطا ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محبوبِ الٰہی تھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فروتنی کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے آغاز میں جب صحابہ کے درمیان تشریف فرما ہوتے تھے اور مکے کے باہر کا کوئی شخص آجاتا تھا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہیں پاتا تھا، اور وہ کبھی کسی صحابی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر مخاطب کردیتا، کبھی اس کی نظر کسی اور صحابی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ لیتی۔ یہ دیکھ کر صحابہ نے طے کیا کہ جب کوئی اجنبی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے گا تو صحابہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہوکر بیٹھ جائیں گے تاکہ آنے والا فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ باہر نکلتے تو کبھی نمایاں ہوکر نہ چلتے۔ مگر آج امت کی باگ ڈور جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے انہیں شہرت اور مناصب کی محبت نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ یہ لوگ شہرت اور عہدوں کی تمنا میں گھلے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی اہم سنتوں کو چھوڑ دیں گے تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا حق کس طرح ادا کریں گے اور انہیں سرفرازی کیونکر میسر آئے گی؟

Leave a Reply