فرانسیسی اخبار چارلی ہیبڈو کی توہین رسالت

مغرب کی بدباطنی: مسلمانوں سے اسلام کی توہین قبول کرنے کا مطالبہ

اسلام کے حوالے سے مغرب کی بدباطنی ایک بار پھر پوری شدت سے سامنے آئی ہے۔ فرانس کے صدر عمانویل ماکروں نے کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کو فرانس میں رہنا ہے تو انہیں اپنے دین کی توہین پر خاموش رہنا ہوگا۔ فرانس کے صدر نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے توہینِ رسالتؐ کا ارتکاب کرنے والے فرانسیسی اخبار چارلی ہیبڈو کا بھرپور دفاع کیا۔ انہوں نے اخبار کی مذمت کو ’’اسلامی ثقافت‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ فرانس میں رہنے والوں نے شہریت حاصل کرتے وقت فرانسیسی قوانین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے، چنانچہ انہیں کسی صورت ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو فرانس کے قوانین کے خلاف ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹونوں کو بہرحال برداشت کرنا ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ فرانس کی حکومت اپنے شہریوں کو طنز و مزاح اور تنقید کی پوری آزادی دیتی ہے اور اسے فن کاروں کا حق سمجھتی ہے۔
اگرچہ مغرب خدا اور مذہب کے خلاف ہے اور اُس نے عیسائیت کے خدا، عیسائیت کے پیغمبر، اور عیسائیت کی آسمانی کتاب کے خلاف بھی بغاوت کی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مغرب گزشتہ ایک ہزار سال سے اپنی ساری توانائی اسلام اور پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف صرف کررہا ہے۔ ہندوازم ایک بڑا مذہب ہے، اور ہندوازم میں بت پرستی عام ہے، مگر مغرب نے ایک ہزار سال میں کبھی ہندوازم اور اُس کے دیوی دیوتائوں کو طنز اور تنقید کا ہدف نہیں بنایا۔ ہندوازم میں اوتار کا درجہ رکھنے والے شری کرشن کی 11 ہزار سے زیادہ بیویاں تھیں مگر مغرب کو کبھی شری کرشن پر تیر چلاتے نہیں دیکھا گیا، لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ شادیوں کو اہلِ مغرب نے ہمیشہ اچھالا ہے۔ ہندوازم میں جنگوں یا جہاد کی ایک تاریخ ہے۔ ’مہابھارت‘ اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔ مہابھارت میں شری کرشن نے بھی ایک رتھ بان کی حیثیت سے حصہ لیا تھا، مگر مغرب کبھی ہندوازم کے خون خرابے کا ذکر نہیں کرتا، البتہ اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار اور جہاد پر سخت اعتراض ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسلام دراصل تلوار کے ذریعے پھیلا۔ اگرچہ مغرب کی نظر میں کسی بھی پیغمبر کی کوئی تقدیس نہیں، مگر ہم نے مغرب میں کارٹون صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بنتے دیکھے ہیں۔ مغرب حضرت موسیٰؑ یا حضرت عیسیٰؑ کے کارٹون بناتا تو مسلمانوں کو اس سے بھی سخت اذیت ہوتی اور وہ اس پر بھی احتجاج کرتے، مگر حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے کسی ’’فن کار‘‘ کو حضرت موسیٰؑ یا حضرت عیسیٰؑ کا کارٹون بناتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عیسائی دنیا کی دشمنی بہت پرانی ہے۔ عیسائی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کہا کرتے تھے کہ اگر انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا تو وہ نہ صرف یہ کہ ان پر ایمان لائیں گے بلکہ ان کے ساتھ مل کر ان کے دشمنوں کے خلاف جہاد بھی کریں گے۔ مگر جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو عیسائیوں کی عظیم اکثریت نے آپؐ پر ایمان لانے سے صاف انکار کردیا۔ اس کی ایک وجہ نسلی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق بنی اسمٰعیل سے تھا اور حضرت اسمٰعیل حضرت ہاجرہ کے بطن سے تھے۔ حضرت ہاجرہ کو اہلِ مغرب حضرت سارہ کی ملازمہ کی حیثیت سے بلند درجہ نہیں دیتے۔
بہت کم مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مغربی دنیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریخ کی اہم شخصیت تو مانتی ہے مگر وہ انہیں پیغمبر نہیں مانتی۔ مغربی دنیا کا کہنا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اللہ کچھ یہودیت سے لیا اور کچھ عیسائیت سے لیا، اور ان دونوں کو ملا کر اسلام کے نام سے ایک نیا مذہب ’’ایجاد‘‘ کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ مغرب نے کبھی اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکریم کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ عام طور پر دوسرے مذاہب اور دوسرے مذاہب کی شخصیات پر کم تر درجے کے لوگ کلام کرتے ہیں، مگر عیسائیت اور اہلِ مغرب کی تاریخ یہ ہے کہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمیشہ مغرب کے بڑے لوگوں نے حملے کیے۔ صلیبی جنگوں کا ذکر تو اکثر مسلمانوں نے سنا ہے، مگر بہت کم مسلمان یہ جانتے ہیں کہ صلیبی جنگیں کیسے شروع ہوئیں۔ صلیبی جنگوں کا موجد کوئی عام شخص نہیں تھا، بلکہ 1095ء میں عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت پوپ اربن دوئم نے کلیسا میں کھڑے ہوکر ایک تقریر کی۔ اس نے کہا کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور اس کے ماننے والے ایک شیطانی مذہب کے ماننے والے ہیں۔ پوپ نے دعویٰ کیا کہ میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام جیسے جھوٹے مذہب اور اس کے ماننے والوں کو نیست و نابود کردیں۔ پوپ اربن دوئم نے پوری عیسائی دنیا سے کہا کہ وہ ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوجائے اور اسلام کوفنا کردے۔ پوپ اربن کی یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوئی۔ 1099ء میں پوری عیسائی دنیا ایک صلیبی پرچم کے نیچے جمع ہوئی اور اُن صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش دو سو سال جاری رہیں۔ ان جنگوں کے پہلے مرحلے میں صلیبیوں نے بیت المقدس میں مسلمانوں کا اس بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا کہ بیت المقدس کی گلیاں خون سے بھر گئیں اور ان گلیوں میں گھوڑا چلانا مشکل ہوگیا۔ صلیبی جنگوں کا ذکر ہوتا ہے تو بعض لوگ سوچتے ہیں کہ 1095ء کا زمانہ وحشت و درندگی کا زمانہ تھا، اُس زمانے میں پوپ کچھ بھی کہہ سکتا تھا، مگر عہدِ جدید میں یہ سب کچھ ممکن نہیں۔ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پوپ اربن کی روایت کو ایک اور پوپ نے 2009ء میں دہرایا۔ 2009ء کے پوپ کا نام بینی ڈکٹ شش دہم تھا۔ اس نے 14 ویں صدی کے ایک عیسائی بادشاہ مینول دوئم کی ایک تقریر کا اقتباس دہرایا۔ اس اقتباس میں کہا گیا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا نیا لائے ہیں؟ اور یہ کہ اسلام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تلوار کے ذریعے پھیلایا۔ یہ وہی بات تھی جو عیسائی دنیا ایک ہزار سال سے کہتی آرہی ہے۔ پوپ بینی ڈکٹ کی اسلام دشمنی سے ثابت ہوا کہ جہاں تک اسلام اور پیغمبرِ اسلام کی توہین کا تعلق ہے تو مغرب اس سلسلے میں کسی ایک عہد کا پابند نہیں۔ وہ ہر عہد میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین کرتا ہے۔

نائن الیون کا زمانہ تو 21 ویں صدی کا زمانہ ہے، اور یہ زمانہ کل کی بات ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے اس زمانے میں مغرب کی اسلام اور مسلم دشمنی پر توجہ نہیں دی، مگر ہمیں یاد ہے کہ امریکہ کے صدر جارج بش نے نائن الیون کے بعد امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے ’’دہشت گردوں‘‘ کے خلاف ’’کروسیڈ‘‘ کا اعلان کیا۔ انگریزی میں صلیبی جنگوں کو ’’کروسیڈ‘‘ کہتے ہیں۔ اس اصطلاح پر مسلم دنیا میں احتجاج ہوا تو وہائٹ ہائوس سے بیان جاری ہوا کہ تقریر کرتے ہوئے جارج بش کی زبان پھسل گئی۔ یہ ایک صریح غلط بیانی تھی۔ جارج بش فی البدیہہ تقریر نہیں کررہے تھے، وہ لکھی ہوئی تقریر کررہے تھے اور کروسیڈ کی اصطلاح شعوری طور پر استعمال کی گئی تھی۔ لیکن جارج بش کی تقریر کے بعد اس سے بھی زیادہ اہم بات ہوئی۔ اٹلی کے وزیراعظم سلویو برلسکونی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کا کوئی نگہبان اور والی وارث نہیں ہے، ہوتا تو وہ اٹلی کے وزیراعظم سے پوچھتا کہ حضور آپ تو کہتے ہیں کہ آپ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے نکلے ہیں، لیکن ایسا ہے تو پھر آپ کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے، اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست سے دوچار کرے گی۔ اٹلی کے وزیراعظم کی گفتگو کے بعد اور بھی اہم واقعہ ہوا۔ جارج بش کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے۔ اسلام کا خدا ایسا خدا ہے جو اپنی عظمت کے اظہار کے لیے مسلمانوں سے جہاد اور شہادت کی صورت میں قربانی طلب کرتا ہے، اس کے برعکس عیسائیت کا خدا ایسا خدا ہے جس نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنے فرزند عیسیٰ ؑ کو قربان کردیا۔ ایش کرافٹ سے بھی کوئی پوچھ سکتا تھا کہ اگر آپ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرنے نکلے ہیں تو آپ کو عیسائیت اور اسلام کے تصورِ خدا کے موازنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہوا، بی بی سی ورلڈ سے امریکی جنرل کلارک کا انٹرویو نشر ہوا۔ اس انٹرویو میں جنرل کلارک نے صاف کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دراصل اسلام کو Define کرنے کی جنگ ہے، ہمیں طے یہ کرنا ہے کہ آیا اسلام ایک پُرامن مذہب ہے جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں، یا یہ ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو تشدد پر اکساتا ہے۔ اگرچہ مغرب اسلام کو Define کرنے نکلا تھا، مگر بالآخر ہوا یہ کہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو افغانستان میں شکست ہوگئی اور اسلام نے مغرب کو Define کرڈالا۔ بقول شاعر

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ یہ ہے وہ تاریخی پس منظر جسے پیش نظر رکھے بغیر فرانس کے صدر عمانویل ماکروں کے بیان کو پوری طرح سمجھا نہیں جاسکتا۔ فرانس کے صدر کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغرب میں آزادیِ اظہار مطلق ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ شیکسپیئر مغربی تہذیب کی ایک بڑی علامت ہے۔ مغرب میں بڑی شخصیتوں پر جب بھی کوئی سروے ہوتا ہے شیکسپیئر پہلے، دوسرے یا تیسرے نمبر پر ضرور آتا ہے۔ شیکسپیئر کا ڈراما Merchant of venice مشہورِ زمانہ ہے، مگر یہ ڈراما مغرب کے بعض ملکوں میں اسٹیج نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ اس ڈرامے میں شائی لاک نام کے ایک شخص کا کردار موجود ہے۔ یہ شخص یہودی ہے، چنانچہ اس ڈرامے کو یہود دشمن سمجھا جاتا ہے اور اسے اسٹیج نہیں کیا جاتا۔ شیکسپیئر مغربی دنیا کا سب سے بڑا فن کار ہے مگر مغرب نے یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے اس بڑے فن کار کی ایک تخلیق کو اسٹیج سے دور رکھا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مغربی ممالک میں یہودی مقدس ہوسکتے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیوں مقدس نہیں ہوسکتے؟ دنیا میں یہودیوں کی تعداد دو ڈھائی کروڑ سے زیادہ نہیں، جبکہ دنیا میں ایک ارب 80 کروڑ مسلمان ہیں، اور ان مسلمانوں کے لیے انسانوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محترم کوئی نہیں۔ مغرب اگر دو ڈھائی کروڑ لوگوں کی حساسیت کا خیال رکھ سکتا ہے تو وہ ایک ارب 80 کروڑ مسلمانوں کی حساسیت کا خیال کیوں نہیں رکھ سکتا؟ مغرب میں آزادیِ اظہار کتنی محترم ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے ممتاز شاعر اور نقاد ایزراپاونڈ نے ایک زمانے میں اٹلی جاکر مسولینی کی تعریف کردی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایزراپاونڈ کی جان کے لالے پڑ گئے۔ اُس کے شاگردوں نے جن میں نوبیل انعام یافتہ شاعر ٹی ایس ایلیٹ بھی شامل تھا، اسے نفسیاتی مریض ثابت کرکے ایک اسپتال میں داخل کرا دیا۔ ایزراپاونڈ کئی سال اسپتال میں پڑا رہا تب جاکر اس کی جان بچی۔ نوم چومسکی مغرب کے ممتاز ترین دانش ور ہیں۔ وہ مغرب بالخصوص امریکہ کے ناقد ہیں۔ ان کی تنقید ان کے اظہارِ رائے کی ایک صورت ہے، مگر مغرب کا حکمران طبقہ اور ذرائع ابلاغ اس آزادیِ رائے کو قبول نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نوم چومسکی کبھی بھی سی این این یا بی بی سی پر نظر نہیں آتے۔ مغرب کے لیے آزادیِ اظہار اہم ہوتی تو نوم چومسکی ہر دوسرے دن سی این این اور بی بی سی ورلڈ میں جلوہ افروز ہوتے۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ مغرب کے ہر ملک میں ’’قومی مفاد‘‘ کو ایک تقدیس حاصل ہے، اور ذرائع ابلاغ قومی مفاد کے خلاف نہ کچھ شائع کرتے ہیں، نہ نشر کرتے ہیں۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں یہ آزادیِ اظہار اتنی آزاد ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنا سکتی ہے۔
فرانس کے صدر نے کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کو فرانس میں رہنا ہے تو انہیں اپنے دین کی توہین برداشت کرنی ہوگی۔ فرانس کے صدر کی اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کو فرانس میں رہنا ہے تو انہیں دین کی توہین کی صورت میں فرانس میں قیام کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ کاش فرانس کے مسلمانوں میں یہ جرأت اور ہمت ہوتی کہ ان میں سے دوچار لاکھ کہتے کہ ہم دین کی توہین کی قیمت پر فرانس میں نہیں رہ سکتے۔ مگر مسلمانوں کا جو حال ہے وہ سب پہ ظاہر ہے۔ ویسے فرانس کے صدر یہ بتائیں کہ کتنے ہندو، ہندوازم کی توہین کی قیمت پر فرانس میں رہ رہے ہیں؟ کتنے یہودی اپنے مذہب کی توہین کی قیمت پر فرانس کے باشندے بنے ہوئے ہیں؟ کتنے بدھسٹ اپنے عقیدے کی توہین کی قیمت پر فرانس میں مقیم ہیں؟ کتنے عیسائی اپنے مذہبی تشخص کی قیمت پر فرانس کے شہری بنے ہوئے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ فرانس سمیت مغرب کے کسی بھی ملک میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے سوا کسی مذہب اور اس کے بانی کو ہدفِ تنقید نہیں بنایا جارہا۔ نشانہ صرف اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مغرب صرف اور صرف اسلام اور پیغمبرِ اسلام سے خوف زدہ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ عالمگیر مذہب اگر کوئی ہے تو وہ اسلام ہے۔ حقیقی معنوں میں عالمگیر شخصیت اگر کوئی ہے تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب میں ایک ہزار سال سے اسلام کے خلاف دھول اڑائی جارہی ہے، اس کے باوجود اسلام مغرب میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس نہ سیاسی طاقت ہے نہ معاشی قوت۔ ان کے پاس نہ عسکری شوکت ہے، نہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا سرمایہ… اس کے باوجود ان کا مذہب مغرب میں لاکھوں انسانوں کو متاثر کررہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مغرب میں مسلمان ہونے والوں میں عام افراد ہی شامل نہیں، ان میں دانش ور ہیں، گلوکار ہیں، سفارت کار ہیں، صحافی ہیں، ڈاکٹر ہیں، انجینئر ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مغرب میں اسلام کو عورت دشمن مذہب کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، مگر مغرب میں مشرف بہ اسلام ہونے والوں میں 60 فیصد خواتین ہیں۔ اہلِ مغرب یہ دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اسلام کمزوری کی حالت میں اتنا مؤثر ہے تو طاقت کی حالت میں کتنا مؤثر ہوگا؟ یہ بات انہیں اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے خلاف زہر اگلنے پر مائل کرتی ہے۔

Leave a Reply