قائداعظم کے معاشی تصورات کی توہین اور آئی ایم ایف کے پھانسی گھاٹ پر لٹکا پاکستان

تمام سیاسی اور فوجی حکمران ”قائداعظم کے معاشی تصورات کی توہین مجرم“ اور پاکستان کے غدار ہیں

قائداعظم نے بی بی سی کے نمائندے ڈونلڈ ایڈورڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا:۔
۔’’اقتصادی اعتبار سے پاکستان ایک طاقت ور ملک ہوگا‘‘۔

قائداعظم نے کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:۔

’’میں آپ کے تحقیقی ادارے کے اس کام کا دلچسپی سے جائزہ لیتا رہوں گا جو وہ بینکاری کے طریقوں کو اسلام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے انجام دے گا۔ مغرب نے انسانیت کے لیے ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں۔ ان مسائل کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اب کوئی معجزہ ہی مغرب کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ مغرب انسانوں کے درمیان مساوات پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مغرب کے معاشی نظریات اور عمل انسانوں کو خوش اور مطمئن رکھنے کے سلسلے میں ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنی تقدیر خود بنانی ہوگی اور دنیا کے سامنے اسلام کے سماجی انصاف اور مساوات کے تصورات پیش کرنے ہوں گے۔‘‘ (یکم جولائی 1948ء)۔
قائداعظم نے ایک موقع پر فرمایا:۔
’’ہمارا مقصود لوگوں کو امیر سے امیر تر بنانا نہیں ہے، نہ ہی ہمارا مقصد سرمایہ دارانہ ہے۔ ہمارا مقصد اسلامی ہے‘‘۔
قائداعظم نے ایک بار کہا: ’’میں اب ایک بوڑھا آدمی ہوں۔ خدا نے مجھے بہت نوازا… مگر میں اپنا خون کیوں پانی بنانے پر تلا ہوا ہوں! اس کی صرف ایک وجہ ہے، ہمارے غریب لوگ‘‘۔

قائداعظم نے ایک بار ارشاد فرمایا: ’’ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم لوگوں کی غربت کا مسئلہ حل کریں‘‘۔

قائداعظم نے مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:۔
’’مجھے اہلِ دیہات کی غربت اور مفلوک الحالی دیکھ کر بہت رنج ہوتا ہے۔ میں نے سفر کے دوران میں جب ریلوے اسٹیشنوں پر پنجاب کے دیہاتی مسلمانوں کے گروہ دیکھے تو مجھے ان کے افلاس سے سخت دکھ ہوا۔ پاکستان کی حکومت کا سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ ان لوگوں کا معیارِ زندگی بلند کرے، اور زندگی بلکہ بہتر زندگی سے شادکام ہونے کے سامان بہم پہنچائے‘‘۔ (اجلاس مسلم لیگ لائل پور۔ 18 نومبر 1942ء)۔
قائداعظم نے مسلم لیگ کے ایک اور اجلاس میں فرمایا:۔
’’میں ضروری سمجھتا ہوں کہ زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں۔ اس طبقے کی خوشحالی کی قیمت عوام نے ادا کی ہے۔ اس کا سہرا جس نظام کے سر ہے، وہ انتہائی ظالمانہ اور شرانگیز ہے، اور اس نے اپنے پروردہ عناصر کو اس حد تک خودغرض بنادیا ہے کہ انہیں دلیل سے قائل نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی مقصد براری کے لیے عوام کا استحصال کرنے کی خوئے بد ان کے خون میں رچ گئی ہے۔ وہ اسلامی احکام کو بھول چکے ہیں۔ حرص و ہوس نے سرمایہ داروں کو اتنا اندھا کردیا ہے کہ وہ جلبِ منفعت کی خاطر دشمن کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آج ہم اقتدار کی گدی پر متمکن نہیں۔ آپ شہر سے باہر کسی جانب چلے جائیے، میں نے دیہات جاکر خود دیکھا ہے کہ ہمارے عوام میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہیں دن میں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ کیا آپ اسے تہذیب اور ترقی کہیں گے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصد ہے؟ کیا آپ نے سوچا کہ کروڑوں لوگوں کا استحصال کیا گیا ہے اور اب ان کے لیے دن میں ایک بار کھانا حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اگر پاکستان کا حصول اس صورتِ حال میں تبدیلی نہیں لا سکتا تو پھر اسے حاصل نہ کرنا ہی بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر وہ [سرمایہ دار اور زمیندار] عقل مند ہیں تو نئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیں گے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر خدا ان کے حال پر رحم کرے۔ ہم ان کی کوئی مدد نہ کریں گے۔‘‘ (اجلاس مسلم لیگ، دہلی، 24مارچ 1943ء)۔
قائداعظم نے ایک مل کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔

’’اگر پاکستان کو دنیا کے اسٹیج پر اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے جو اس کے رقبے، آبادی اور وسائل کے شایانِ شان ہو تو اسے زراعت کے ساتھ ساتھ صنعت کو بھی ترقی دینی ہوگی، اور اپنی معیشت کی بنیاد صنعت پر رکھنی ہوگی۔ اپنی مملکت کو صنعتی بنانے سے ضروریاتِ زندگی کے لیے دوسرے ملکوں کی محتاجی کم ہوجائے گی، لوگوں کو روزگار کے لیے زیادہ مواقع فراہم ہوں گے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ ہوگا‘‘۔ (ولیکا ملز کی تقریب سے خطاب، 25 ستمبر 1947ء)۔
قائداعظم کے ان معاشی تصورات کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ قائداعظم معاشی طور پر پاکستان کو مندرجہ ذیل خوبیوں سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے:
(1) پاکستان معاشی اعتبار سے طاقت ور ہو۔
(2) پاکستان کا معاشی اور مالیاتی نظام اسلام پر مبنی ہو۔
(3) پاکستان کا معاشی نظام سرمایہ داری کی نحوست سے پاک ہو۔
(4) پاکستان کے معاشی نظام سے امیر امیر تر، اور غریب غریب تر نہ بنے۔
(5) پاکستان کا معاشی نظام استحصال سے پاک ہو۔
(6) پاکستان غربت کے شکنجے سے آزاد ہو۔
(7) پاکستان کا معاشی نظام بیرونی طاقتوں کا اسیر نہ ہو۔
(8) ہم معاشی نظام کی تشکیل کے لیے صرف اسلام کی طرف دیکھیں، مغرب کی طرف نہیں
(9) پاکستان کے حکمرانوں کو غریب طبقات کی بہت فکر ہونی چاہیے، کیونکہ قائداعظم کے بقول وہ غریبوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے اپنا خون پانی بنا رہے تھے۔
(10) پاکستان کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا فرض ہے کہ وہ خود کو پاکستان کے مثالیوں یا Ideals کے مطابق ڈھالیں، ورنہ ان کی خیر نہیں۔
قائداعظم پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط اور توانا دیکھنا چاہتے تھے، مگر پاکستان کی فوجی اور سول اجلافیہ پاکستان کو معاشی طور پر طاقت ور تو کیا بناتی، اس نے پاکستان کو معاشی اعتبار سے دیوالیہ کردیا ہے۔ قائداعظم کے وژن کے مطابق پاکستان کو آزادی کے 72 سال بعد دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں سے ایک ہونا چاہیے تھا، مگر پاکستان دنیا کی 40 بڑی معیشتوں میں بھی شامل نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا شمار دنیا کی کمزور ترین معیشتوں میں ہوتا ہے۔ عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہم دیوالیہ ہونے سے بال بال بچے ہیں۔
قائداعظم پاکستان کے پورے معاشی اور مالیاتی نظام کو اسلام کی بنیاد پر استوار دیکھنا چاہتے تھے، مگر آزادی کے 72 سال بعد بھی ہماری معیشت سود پر کھڑی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ہمارے گلے کے پھندے کے بجائے ہمارے گلے کا ہار بنا ہوا ہے۔ قائداعظم 75 سال پہلے کہہ رہے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام تباہی کی طرف گامزن ہے، مگر ہمارے حکمران طبقے کو اب بھی سرمایہ دارانہ نظام تباہی سے دوچار ہوتا نظر نہیں آرہا، اس لیے کہ ہمارا حکمران طبقہ نام کا مسلمان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مغرب کے استحصالی سرمایہ دارانہ نظام پر پوری طرح ایمان لایا ہوا ہے۔
قائداعظم چاہتے تھے کہ ہمارا معاشی نظام امیر کو امیر تر، اور غریب کو غریب تر نہ بنائے، مگر پاکستان کی فوجی اور سول اجلافیہ نے جو معاشی نظام ملک و قوم کو دیا ہے وہ امیروں کو امیر تر اور غریبوں کو غریب تر بنائے چلا جارہا ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق اس وقت ملک کی 40 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے پڑی سسک رہی ہے۔ اس آبادی کو نہ تعلیم میسر ہے، نہ صحت کی سہولتیں فراہم ہیں، نہ پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔ یہ غربت کی اس قسم میں مبتلا لوگ ہیں جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ انسان کو کفر تک لے جا سکتی ہے۔ قائداعظم نے اسی طبقے کی بہتری کے لیے اپنے خون کو پانی بنایا، مگر پاکستان کا حکمران طبقہ ان غریبوں کے لیے ایک آنسو بہانے پر بھی آمادہ نہیں ہے۔ ہمارے ’’جرنیلوں‘‘، ہمارے ’’شریفوں‘‘، ہمارے ’’بھٹوئوں‘‘، اور ہمارے ’’عمران خانوں‘‘ نے مل جل کر غریبوں کو غربت کے جہنم میں جھونکا ہوا ہے۔
قائداعظم چاہتے تھے کہ ہم معاشی طور پر کسی کے غلام نہ ہوں، مگر ہمارے ’’سفاک جرنیلوں‘‘، ہمارے ’’سفاک شریفوں‘‘، ہمارے ’’سفاک بھٹوئوں‘‘ اور ہمارے ’’سفاک عمران خانوں‘‘ نے ملک و قوم کو آئی ایم ایف کا غلام بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے ہمیں عالمی بینک کی ماتحتی میں دیا ہوا ہے۔ انہوں نے ملک پر 100 ارب ڈالر سے زیادہ قرضوں کا بوجھ لاد دیا ہے۔ اب ہم اپنا بجٹ بھی خود نہیں بناتے بلکہ آئی ایم ایف کے ماہرین بناتے ہیں۔ اب ہم اپنی بجلی اور گیس کے نرخ خود نہیں گھٹاتے بڑھاتے، بلکہ ہم آئی ایم ایف کے کہنے پر ایسا کرتے ہیں۔ اب ہمارے محصولات کا ہدف آئی ایم ایف طے کرتا ہے۔ اب ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے ماہرین ’’درآمد‘‘ کرتی ہے اور اس پر فخر کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔
ہمارے جرنیل غلام ابنِ غلام ہیں۔ ہمارے شریف غلام ابنِ غلام ہیں۔ ہمارے بھٹوز غلام ابنِ غلام ہیں۔ ہمارے عمران خان غلام ابنِ غلام ہیں… اور غلام ابنِ غلاموں نے 22 کروڑ لوگوں کو بھی سیاسی اور معاشی اعتبار سے غلام ابنِ غلام بنادیا ہے۔ ہمارے والدین بھی مغرب کے مالیاتی اداروں کے غلام تھے، ہم بھی مغرب کے مالیاتی اداروں کے غلام ہیں، اور ہماری آنے والی نسلیں بھی مغرب کے مالیاتی اداروں کی غلام ہوں گی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کی حکمران اجلافیہ پاکستان، اس کے نظریے، اس کے بانی، اور ان کے وژن کی غدار ہے… کھلی غدار۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ جاگیردار اور وڈیرے صرف بڑی زمینوں کے مالک ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے جرنیل ’’فوجی وڈیرے‘‘ ہیں۔ ہمارے ’’شریف‘‘، ہمارے ’’بھٹوز‘‘، ہمارے ’’عمران خان‘‘، ہمارے ’’الطاف حسین‘‘ سیاسی وڈیرے ہیں… اور وڈیروں کی یہ تمام اقسام غریبوں کا استحصال کررہی ہیں۔ اور ایسا کرکے وہ قائداعظم کا منہ چڑا رہے ہیں۔ وہ قائداعظم کے افکار و نظریات کی توہین کررہے ہیں۔
ہمارے سرمایہ داروں کی اکثریت کا خدا پیسہ ہے۔ انہیں اپنے اپنے محنت کشوں کی فلاح وبہبود سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ ایک لمحے میں جب چاہیں انہیں کان سے پکڑ کر نوکری سے برطرف کردیتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان کے معاشی امکانات کے آگے سری لنکا اور مالدیپ کیا، بھارت بھی کچھ نہیں بیچتا تھا۔ ہماری فی کس آمدنی بھارت سے زیادہ تھی۔ ہماری کرنسی بھارت کی کرنسی سے کہیں زیادہ مضبوط تھی۔ ہماری برآمدات بھارت کی برآمدات سے کہیں زیادہ بہتر تھیں، اور بین الاقوامی منڈیوں میں ان کی ساکھ بھارتی برآمدات سے کہیں بہتر تھی۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم کے پاکستان کا کیا حال کر دیا ہے، آئیے دیکھتے ہیں۔ 2018ء میں پاکستان کی برآمدات 23 ارب ڈالر تھیں، جب کہ اس عرصے میں بنگلہ دیش کی برآمدات 39 ارب ڈالر سے زیادہ تھیں۔ سری لنکا جس کی آبادی دو کروڑ اور رقبہ صرف 65 ہزار مربع کلومیٹر ہے، اُس کی برآمدات بھی 12 ارب ڈالر تھیں۔ اس عرصے میں بھارت کی برآمدات 536 ارب ڈالر تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر صرف 17 ارب ڈالر تھے، جبکہ بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 31 ارب ڈالر تھے۔ سری لنکا جو آبادی اور رقبے میں ہم سے کئی گنا چھوٹا ہے اُس کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی 8 ارب ڈالر، جبکہ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 501 ارب ڈالر تھے۔ 2018ء میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 315 ارب ڈالر تھی، جب کہ بھارت کی مجموعی قومی پیداوار 2700 ارب ڈالر تھی۔ بنگلہ دیش جس نے ہم سے بہت بعد میں معاشی ترقی کا سفر شروع کیا، اُس کی مجموعی قومی پیداوار 274 ارب ڈالر یعنی ہم سے تھوڑی سی ہی کم تھی۔ سری لنکا ہم سے آبادی میں دس گنا اور رقبے میں 9 گنا چھوٹا ہے، مگر اس کی مجموعی قومی پیداوار بھی 88 ارب ڈالر تھی۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ ہمارے حکمران طبقے کا مذہب اسلام نہیں، بلکہ مال و دولت اور معاشی ترقی ہے۔ مگر یہ طبقہ اپنے مذہب کے ساتھ بھی کوئی بڑی وابستگی نہیں رکھتا۔ رکھتا، تو پاکستان آج دنیا کے خوشحال ممالک میں شمار ہورہا ہوتا۔ پاکستان دنیا کے دس طاقت ور ممالک اور بیس بڑی معیشتوں میں سے ایک ہوتا۔ کون سی دولت اور نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو نہیں دی؟ زرخیز زمین دی، معدنی وسائل دیے۔ ان سے بڑھ کر محنت کرنے والے لوگ دیے۔ ایسی صلاحیتوں کے حامل لوگ دیے کہ جو ملک سوئی نہیں بناتا تھا اس نے ایٹم بم بناکر دکھا دیا۔ اگر ہم ایٹم بم بناکر ایٹمی دھماکے کرسکتے ہیں تو قائداعظم کے معاشی تصورات کے مطابق بہت بڑا معاشی دھماکہ بھی کرسکتے تھے۔
یہ ہے وہ اصل اور وسیع پس منظر جس کے تناظر میں رواں مالی سال، گزشتہ سال اور ہر سال کے قومی بجٹ کو دیکھا جانا چاہیے۔ اس تناظر کے بغیر ہمیں نہ قائداعظم کے معاشی تصورات کی توہین اور تذلیل نظر آسکتی ہے، نہ آئی ایم ایف کے پھانسی گھاٹ پر لٹکا ہوا غلام، مقروض اور غریب پاکستان ہمیں نظر آسکتا ہے۔ جیسا کہ قوم جانتی ہے عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کا تیار کیا ہوا رواں مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔ اس بجٹ کے مندرجات کو سنتے یا پڑھتے ہوئے کسی بھی پاکستانی کو منیر نیازی کا یہ شعر یاد آسکتا ہے ؎ ۔

میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا

یہاں ’’اُس‘‘ سے مراد امریکہ بھی ہے، ’’آئی ایم ایف‘‘ بھی، ’’عالمی بینک بھی‘‘، ’’فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی‘‘، ’’شریفین‘‘ بھی، ’’بھٹوز‘‘ بھی، ’’عمران خان‘‘ بھی۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ کے کئی اہم پہلو ہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے جب قوم نے مادی عروج حاصل کیا ہے تعلیم اور صحت کے شعبوں کومستحکم کرکے حاصل کیا ہے۔ چین اس کی حالیہ اور سب سے بڑی مثال ہے۔ چین نے معیشت کے دائرے میں جو ’’معجزہ‘‘ کر دکھایا ہے اُس کی بنیاد تعلیم میں چین کی غیر معمولی پیش رفت ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ چین چالیس سال میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھر آیا ہے۔ اس کے پاس زرمبادلہ کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔ اس نے 70 کروڑ لوگوں کو غربت کے شکنجے سے نکالا ہے۔ لیکن جو بات کم ہی کہیں کوٹ ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ چین نے امریکہ کو معیشت کے دائرے میں ہی نہیں، تعلیم کے دائرے میں بھی چیلنج کردیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق اِس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تحقیقی مقالے امریکی نہیں، چینی اسکالر لکھ رہے ہیں۔ چین نے 5G ٹیکنالوجی میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اور اب کھسیانا امریکہ 5G کے کھمبے نوچنے کے سوا کچھ نہیں کرپارہا۔ چین مادی علوم و فنون میں کمال نہ کرتا تو وہ کسی بھی شعبے میں کہیں نہ ہوتا۔ مگر ہمارا قومی بجٹ ہمیں بتارہا ہے کہ اس بجٹ میں تعلیم کے لیے بمشکل 2 فیصد رقم مختص کی گئی ہے۔ اسی طرح صحت کے شعبے کے لیے 1.1 فیصد رقم مہیا کی گئی ہے۔ اس سے ہمارے حکمرانوں کی ’’قومی ترجیحات‘‘ اور ’’سمتِ سفر‘‘ کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ مالی سال اور آئندہ مالی سال کے قومی میزانیوں کا سب سے بڑا ’’اسکینڈل‘‘ یہ ہے کہ ہم نے صرف دو برسوں میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی پر تقریباً 6000 ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ جبکہ گزشتہ اور آئندہ مالی سال کے ترقیاتی منصوبوں پر تقریباً 1500 ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ ان اعدادوشمار سے ثابت ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ کتنا بڑا قومی مجرم ہے۔ اس طبقے نے غیر ملکی قرض کو اتنا بڑھا دیا کہ وہ ہر سال ہمارا تقریباً نصف بجٹ کھا جاتا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بیرونی قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ایک جرائم پیشہ نوازشریف تھا جس نے صرف چار سال میں بیرونی قرض میں 35 ارب ڈالر کا ہولناک اضافہ کیا۔ دوسرا بڑا مجرم عمران خان ہے جس نے اپنی حکومت کے ابتدائی سات ماہ میں اتنا قرض لیا جتنا پاکستان نے ابتدائی 38 سال میں لیا تھا۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق عمران خان کی حکومت نے پہلے سال میں 10.4 ارب ڈالر کا قرض لیا۔
پاکستان کے حکمران طبقے کی مجرمانہ روش کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اب ہمیں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ کورونا نے پوری دنیا میں ایک معاشی بحران پیدا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے پیرس کلب نے 1.8 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی ایک سال کے لیے مؤخر کردی ہے، ورنہ ہماری معاشی حالت اتنی خستہ تھی کہ ہم پیرس کلب کے قرض کی ادائیگی کے لیے کہیں سے قرض حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ قرض ایک ایسا بوجھ ہے جو افراد اور قوموں کی کمر توڑ دیتا ہے، مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے قرض کو ایک نشہ بنا لیا ہے۔ اس سلسلے میں فوجی اور سول کی کوئی تخصیص نہیں۔ پاکستان کے تمام حکمران قرض کا نشہ کرتے ہیں۔ اس نشے نے ہمیں زندہ درگور کردیا ہے۔ بدقسمتی سے بجٹ کے اعدادوشمار اتنے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ان سے حقیقتِ احوال سامنے نہیں آپاتی۔ چنانچہ ہم بجٹ کے معاملات کو ایک سیدھی مثال کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کیجیے ہمارا مجموعی بجٹ 100 روپے ہے۔ اس بجٹ میں سے 50 روپے ہم نے قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کردیے۔ اب ہمارے پاس بچے صرف 50 روپے۔ 50 روپے میں سے 25 روپے دفاع پر خرچ کردیے گئے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے پاس باقی بچے صرف 25 روپے۔ اب ان 25 روپے میں ہمیں پورے سال پورا ملک چلانا ہے۔ اس رقم سے ہمیں ’’ترقیاتی کام‘‘ بھی کرنے ہیں اور تنخواہیں بھی ادا کرنی ہیں۔ یہ ہے ہماری معاشی صورتِ حال کا لب لباب۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس منظرنامے میں کہیں ’’ترقی‘‘ کا کوئی امکان ہوسکتا ہے؟ کیا ہم کبھی اپنی تعلیمی صورتِ حال کو بہتر بنا سکتے ہیں؟ کیا ہم کبھی صحت کی سہولتوں میں اضافے کے قابل ہوسکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی آئندہ نسلوں کی بہتری کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شروع کرسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ یہی قائداعظم کے معاشی افکار کی توہین ہے۔ یہی معاشی غلامی ہے۔ یہی آئی ایم ایف کے پھانسی گھاٹ پر لٹکا ہوا غلام، مقروض اور غریب پاکستان ہے۔

Leave a Reply