نامعلوم‘‘ کا خوف اور مغرب

کورنا نے مغرب کے تمام بُت توڑدیے

مغر بی دنیا گزشتہ دو تین صدیوں بالخصوص گزشتہ سو سال سے ’’نامعلوم‘‘ کے خوف میں مبتلا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے بعض بنیادی تصورات کا تذکرہ ناگزیر ہے۔
خدا مرکز زندگی اور خدا مرکز کائنات کی ہر چیز ’’معلوم‘‘ ہوتی ہے۔ اس دائرے میں انسان جانتا ہے کہ خدا کن باتوں سے خوش، اور کن باتوں سے ناخوش ہوتا ہے۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ خدا کن باتوں پر انعام دیتا ہے اور کن باتوں پر سزا دیتا ہے۔ مذہب کے دائرے میں زندگی بسر کرنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ بعض چیزیں ’’آزمائش‘‘ ہوتی ہیں، اور بعض چیزیں ’’تقدیری امور‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہے کہ اچھی اور بری تقدیر اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ لیکن اگر انسان خدا کا انکار کردیتا ہے تو پھر وہ ’’نامعلوم‘‘ کے خوف میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

جدید مغرب خدا کا منکر ہے اس لیے اہلِ مغرب کی عظیم اکثریت ’’نامعلوم‘‘ کے خوف میں مبتلا چلی آرہی ہے۔ مغرب کے سائنس دان دو صدیوں سے بتا رہے ہیں کہ وسیع و عریض کائنات میں ہماری زمین کی حیثیت ایک ذرّے سے زیادہ نہیں، اور خلا میں موجود کوئی بھی چیز اچانک زمین سے ٹکرا کرزمین پر زندگی کو معدوم کرسکتی ہے۔ مغرب کے سائنس دانوں کا ’’قیاس‘‘ ہے کہ دنیا سے ڈائناسار اسی طرح ختم ہوئے ہیں۔ ہالی ووڈ نے گزشتہ ساٹھ ستّر سال میں ایسی درجنوں فلمیں بنائی ہیں جن میں مریخ یا کسی نامعلوم سیارے سے آئی ہوئی مخلوق زمین اور انسانوں پر غالب آجاتی ہے۔ ہالی ووڈ نے ایسی فلمیں بھی بنائی ہیں جن میں کوئی نامعلوم بلا یا بیماری اچانک کہیں سے نمودار ہوکر امریکیوں کی زندگی کو تہ و بالا کردیتی ہے۔ اس صورتِ حال کی دو توجیہات ممکن ہیں، ایک توجیہ یہ ہے کہ خدا کے انکار کے بعد اہلِ مغرب کے لیے زندگی اور کائنات ’’اجنبی‘‘ ہوگئی ہیں، اور اس اجنبیت سے ’’نامعلوم‘‘ کا خوف پیدا ہورہا ہے۔ اس صورتِ حال کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ اہلِ مغرب نے خدا اور انسانوں کے خلاف اتنے جرائم کیے ہیں کہ ان گناہوں کا احساس ’’احساسِ جرم‘‘ بن کر مغرب کی اجتماعی نفسیات میں سرایت کرگیا ہے۔ یہ احساسِ جرم مغرب کے لوگوں کو اس خوف میں مبتلا کرتا ہے کہ انہوں نے جو جرائم کیے ہیں آج نہیں تو کل ان کا اجتماعی نتیجہ کسی نہ کسی قسم کی سزا کی صورت میں ضرور نمودار ہوگا۔ چونکہ مغرب اس سزا سے آگاہ نہیں، اس لیے وہ اسے مریخ کی مخلوق یا کسی بلا کی صورت دے کر “Fantacy” میں ڈھال لیتا ہے، اور یہ Fantacy اہلِ مغرب سے طرح طرح کی فلمیں بنواتی ہے۔ اس تناظر میں یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب مدتوں سے جس نامعلوم بلا یا نامعلوم آفت کے خوف میں مبتلا تھا وہ کورونا کی صورت میں نمودار ہوگئی ہے۔ ہم نے کئی ایسے بڑے قاتلوں کے بارے میں پڑھا اور سنا ہے جو دوسروں کو مارنے میں بڑی ’’دلیری‘‘ دکھاتے تھے، مگر خونِ ناحق نے ان کے دل میں اس بات کا خوف پیدا کردیا کہ انہیں بھی کوئی مار دے گا۔ چنانچہ بعض قاتلوں کو پُرسکون نیند نہیں آتی تھی۔ اہلِ مغرب کا ’’ضمیر‘‘ اتنا بیدار نہیں ہے کہ وہ کروڑوں بے گناہ انسانوں کو قتل کرکے آرام سے سو نہ سکیں۔ لیکن مغرب کے آرٹ بالخصوص اُن کی فلموں سے اہلِ مغرب کے اجتماعی باطن کا کچھ نہ کچھ سراغ ملتا رہا ہے۔ انسانوں کی زندگی کا یہ پہلو بھی عجیب ہے کہ انسان جس خوف میں مبتلا ہوتا ہے وہ بالآخر ایک دن مجسم ہوکر سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ کورونا وائرس مغرب کا ایک ایسا ہی خوف ہے۔ پہلے اس خوف کا نام نہیں تھا۔ اب اس خوف کا ایک نام ہے۔ لیکن مغرب کا ایک خوف اور بھی بڑا ہے۔

ایک سطح پر یہ خوف مغرب کی ’’معدومیت‘‘ کا خوف ہے۔ لیکن ابھی انسانیت معدوم ہونے والی ہے نہ مغرب صفحۂ ہستی سے مٹنے والا ہے۔ چنانچہ معدومیت یا Extinction کا خوف دراصل مغرب کے تہذیبی، علمی، سیاسی، معاشی اور عسکری غلبے کی معدومیت کا خوف ہے۔ مغرب میں اپنی معدومیت کا یہ خوف ’’وجودی تجربے‘‘ یا Existential Experience سے پیدا ہوا ہے۔ 19 ویں صدی میں مغربی اقوام اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور کم و بیش پوری دنیا پر قابض اور غالب ہوگئیں۔ ان کا غلبہ ایسا تھا جیسے یہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ مگر 20 ویں صدی کے وسط تک آتے آتے مغرب کا نوآبادیاتی دور اس طرح ختم ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اس تجربے نے مغرب کو آسمانی ’’مخلوق‘‘ سے ’’زمینی مخلوق‘‘ بنادیا۔ روس میں 1917ء اور چین میں 1949ء میں آنے والے سوشلسٹ انقلاب نے مغرب کو پہلی بار ایک ’’عالمی حریف‘‘ کے خوف میں مبتلا کردیا۔ سوشلزم کا خوف اتنا بڑا تھا کہ مغرب کو لگتا تھا سوشلسٹ انقلاب امریکہ اور برطانیہ میں بھی آسکتا ہے۔ مگر 1992ء میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور سوشلزم تحلیل ہوگیا۔ اس سے مغرب کی سیاسی، معاشی، عسکری اور تہذیبی بالادستی کو ایک نئی قوت فراہم ہوئی، اور امریکی انتظامیہ کی “Darling” کہلانے والے فرانسس فوکویاما میں یہ اعتماد پیدا ہوا کہ وہ اپنی تصنیف “End of History” میں فخر کے ساتھ یہ اعلان کرسکیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم کی کشمکش میں سرمایہ داری کی فتح ہوگئی ہے اور تاریخ کا وہ سفر جو سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ نظام کی کشمکش سے عبارت تھا، اختتام کو پہنچا، اور اب پوری انسانیت کے پاس کرنے کا صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ مغربی اقدار کی پیروی کرے۔ یعنی قیامت تک مغرب کا تہذیبی، سیاسی، معاشی اور علمی دُم چھلا بن کر رہے۔ مغرب کے بعض دانش ور اتنے پُراعتماد ہوئے کہ انہوں نے صاف کہاکہ 20 ویں صدی امریکہ کی صدی تھی، اسی طرح 21ویں صدی بھی امریکہ کی صدی ہوگی۔ لیکن امریکی دانش وروں اور مدبروں کی ذہانت اور علم کا یہ حشر ہمارے سامنے ہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بیس پچیس سال بعد ہی چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن کر ابھر آیا۔ روس پیوٹن کی قیادت میں دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا اور امریکہ کو کئی محاذوں پر چیلنج کرتا دکھائی دیا۔ امریکہ افغانستان میں طالبان کو شکست سے دوچار کرنے آیا تھا، مگر مٹھی بھر طالبان نے وقت کی واحد سپر پاور کا بھرکس نکال دیا اور اُسے طالبان سے امن مذاکرات کی بھیک مانگتے ہوئے پایا گیا۔ اس سے بہت پہلے پال کینیڈی اپنی تصنیف ’’بڑی طاقتوں کا عروج و زوال‘‘ میں امریکہ کے زوال کی پیشگوئی کرچکے تھے۔ ان تمام حقائق نے مغرب کے سیاسی، معاشی، عسکری اور تہذیبی معدومیت کے خوف کو گہرا کردیا ہے۔

تجزیہ کیا جائے تو کورونا وائرس نے مغرب کے تمام بتوں کو پاش پاش کردیا ہے۔ مغرب کا سب سے بڑا بت سائنس اور ٹیکنالوجی ہے۔ سائنس مغرب کی ’’خدا‘‘ بھی ہے، اس کا ’’مذہب‘‘ بھی۔ سائنس مغرب کی ’’وحی‘‘ بھی ہے اور اس کی ’’عقل‘‘ بھی۔ سائنس مغرب کی ’’چشم‘‘ بھی ہے اور ’’بصیرت‘‘ بھی۔ سائنس مغرب کا ’’بت‘‘ بھی ہے اور اس کا ’’تناظر‘‘ بھی۔ جس طرح مسلمان خدا پر ’’ایمان‘‘ لائے ہیں اسی طرح مغرب سائنس پر ’’ایمان‘‘ لایا ہوا ہے۔ مغربی ذہن پر سائنس اور ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ’’ممکن‘‘ اور ’’ناممکن‘‘ کے درمیان موجود فاصلے کو فنا کردیا ہے۔ اہلِ مغرب اور ان کے زیراثر پوری انسانیت کو لگتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے کچھ بھی ممکن ہے۔ لوگ انبیا و مرسلین کے معجزات پر شبہ کرتے ہیں، مگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے ہر معجزے پر بغیر معجزہ دیکھے ’’ایمان‘‘ لے آتے ہیں۔ William karel نے اپنی دستاویزی فلم “The Dark Side Of The Moon میں ناقابلِ تردید شہادتوں کے ذریعے ثابت کردیا ہے کہ امریکی کبھی بھی چاند پر نہیں گئے۔ اس دستاویزی فلم میں امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور سابق وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ اور کئی ممتاز امریکی شخصیات بتاتی نظر آتی ہیں کہ صدر نکسن کو ایک روز خبر ملی کہ سوویت یونین چاند پر اپنے خلانورد اتارنے ہی والا ہے۔ اس خبر نے صدر نکسن کو ہراساں کردیا۔ انہیں لگا کہ خلا میں بالادستی کی جنگ میں سوویت یونین کو امریکہ پر فیصلہ کن برتری حاصل ہونے ہی والی ہے۔ چنانچہ انہوں نے چاند پر امریکی خلانورد اتارنے کا حکم دیا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ ممکن نہیں، البتہ ایک تجویز یہ آئی کہ ہالی ووڈ کے کسی ڈائریکٹر کے ذریعے ایسی فلم بنوائی جائے جس میں امریکیوں کو چاند پر اترتے دکھایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہالی ووڈ کے مشہورِ زمانہ ڈائریکٹر اسٹینلے کیوبرک (Stanley Kubrick) سے امریکی سی آئی اے نے رابطہ کیا اور اسے چاند پر امریکی خلا نوردوں کی Landing کی فلم بنانے پر آمادہ کیا۔ اسٹینلے نے یہ فلم بنائی اور امریکی پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب رہے۔ مگر پوری دنیا آج تک اس بات پر ایمان لائی ہوئی ہے کہ امریکی چاند پر گئے ہیں۔ نیل آرم اسٹرانگ اور بزایلڈرن نے چاند کی سطح پر چہل قدمی کی ہے، یہ ’’ایمان‘‘ امریکہ کے دعوے پر نہیں ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی عظمت پر ہے۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ نوح حراری نے اپنی تصنیف “Homo Deus” میں یہ دعویٰ کیا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے موت پر قابو پانا اب ایک تکنیکی مسئلہ ہے، اور امکان ہے کہ آئندہ سو برسوں میں انسان موت پر قابو پاکر زندہ جاوید ہوجائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ مغرب کیا پوری دنیا سے ایک لکھنے والا بھی ایسا سامنے نہ آیا جو کہتا کہ نوح حراری بکواس کررہا ہے، موت پر قابو پانا انسان کے لیے آج کیا ایک ہزار سال بعد بھی ممکن نہ ہوگا۔ نوح حراری کو کسی جانب سے چیلنج نہ کیے جانے کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کی عظیم اکثریت کو لگا ہوگا کہ ممکن ہے ہم واقعتاً سو سال کے بعد سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے ذریعے موت پر قابو پانے کے قابل ہوجائیں۔ مگر کورونا وائرس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی عظمت کے بت کو منہ کے بل گرا دیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کورونا وائرس کے سلسلے میں اندھی، بہری، لنگڑی، گونگی بنی ہوئی ہے۔ وہ کہیں بولتی بھی ہے تو ہکلاتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پہلے کہا گیا کہ کورونا وائرس چین سے آیا۔ اس بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے چینی وائرس قرار دیا۔ اب سی این این نے اطلاع دی ہے کہ کورونا چین سے نہیں یورپ سے امریکہ آیا۔ مگر یورپ میں کورونا کیسے پیدا ہوا؟ کورونا کے سلسلے میں سائنس کی ہکلاہٹ کی دوسری مثال یہ ہے کہ پہلے کہا گیا کہ کورونا ذی حیات ہے، اب کہا جارہا ہے کہ کورونا مُردہ اور طفیلی ہے، یعنی یہ زندہ وجود سے زندگی کشید کرتا ہے۔ کورونا کے سلسلے میں سائنس کی ہکلاہٹ کی تیسری مثال یہ ہے کہ پہلے کہا گیا کہ اس کی ویکسین دو ہفتوں میں آجائے گی، چار ہفتوں میں آجائے گی۔ اب کہا جارہا ہے کہ ویکسین کی تیاری میں ایک سال بھی لگ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ چھے ماہ یا ایک سال بعد واقعتاً کورونا کی ویکسین آجائے، مگر سائنس بحران میں بہرحال ’’معجزہ‘‘ ثابت نہیں ہوسکی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیا میں نیوٹن کی Mechanics ثابت شدہ حقیقت کے طور پر پڑھائی جاتی تھی، اور یہ سلسلہ تقریباً تین سو سال جاری رہا، مگر پھر آئن اسٹائن کی Theory of Relativity نے نیوٹن کی Mechanics کو ازکارِ رفتہ قرار دے کر ایک طرف پھینک دیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ کوانٹم فزکس آئن اسٹائن کی Theory of Relativity کے بعض پہلوئوں کو مشتبہ بنا رہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سائنس نہ ’’معجزہ‘‘ ہے، نہ وہ اتنی ’’کامل‘‘ اور “Exact” ہے جتنا کہ اہلِ مغرب باور کراتے ہیں۔ کورونا نے سائنس کی محدودیت یا Limitation کو عیاں کردیا، اور ثابت ہوگیا کہ جدید ترین سائنس اور ٹیکنالوجی بھی ایک وائرس کے مقابلے کے قابل نہیں۔ ایسا وائرس جو ممکن ہے ایک ہزار سال پرانا ہو۔ سائنس کی نامعتبری کو عیاں کرتے ہوئے ممتاز مغربی دانشور ول ڈیوراں نے کہا تھا کہ ایسی سائنس مشتبہ ہے جو اپنے گزرے ہوئے کل کی تکذیب یا تردید کرتی ہو۔ ول ڈیوراں نے اس سلسلے میں مغرب کے ممتاز مؤرخ اسپینگلر کا یہ فقرہ کوٹ کیا ہے کہ ہر ایٹمی نظریہ ایک ’’تجربہ‘‘ نہیں، ایک Myth ہے۔

(The Pleasures of Philosophy By Will Durant- Page-41-42)
مغرب کا ایک بہت ہی بڑا بت اس کا معاشی نظام، اس کی معاشی ترقی اور اس کی خوشحالی ہے۔ کورونا وائرس نے صرف دو ماہ میں اس بت کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ امریکہ میں صرف ایک ماہ کے دوران ایک کروڑ 70 لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے ہیں، اور اندیشہ ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے نتیجے میں پوری دنیا میں 50 سے 60 کروڑ افراد بے روزگار ہوسکتے ہیں۔ امریکہ نے کورونا کی معاشی تباہی سے نمٹنے کے لیے 2000 ارب ڈالر کی منظوری دی ہے۔ یورپی یونین نے اس سلسلے میں 550 ارب ڈالر مختص کیے ہیں، آئی ایم ایف سے 90 ممالک نے کسی نہ کسی درجے کی مالی امداد کی درخواست کی ہے۔ ایران تک آئی ایم ایف کے در پر 5 ارب ڈالر کے قرض کے لیے دستک دیتا نظر آرہا ہے۔ اٹلی میں صورتِ حال اتنی مخدوش ہوگئی ہے کہ وہاں چوریاں رپورٹ ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ اقتصادی تالا بندی کا سلسلہ ایک آدھ ماہ چلے گا۔ مگر یہ صرف ایک قیاس ہے۔ دنیا بالخصوص مغرب میں کورونا نے مزید پر پرزے نکالے تو امریکہ اور یورپ کی معیشتیں مکمل طور پر تباہ ہوسکتی ہیں۔ بلاشبہ اس صورتِ حال میں تیسری دنیا کے ملک بھی بری طرح متاثر ہوں گے، مگر مغربی ممالک کی خوشحالی کا جنازہ نکل جائے گا۔ مغرب نے دو سو سال کی جدوجہد سے اقتصادیات کا جو تاج محل تعمیر کیا ہے وہ کورونا کے مزید معمولی سے تحرک سے کھنڈر میں ڈھل جائے گا۔ اس اندیشے کی گرمی کو آئی ایم ایف جیسا استحصالی مغربی ادارہ بھی محسوس کررہا ہے، چنانچہ اس نے اپنی تاریخ میں پہلی بار اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ مقروض ممالک سے قرضوں کی ادائیگی مؤخر کرنے کے لیے کہے گا۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ انسان کی اوقات یہ ہے کہ وہ ریشم کے کیڑے کی قے کو اپنا لباس بناتا ہے اور دوسرے کیڑے یعنی شہد کی مکھی کی قے کو کھاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خدائی کے دعویدار مغرب کی اوقات یہ ہے کہ خدا کا پیدا کردہ ایک جرثومہ چاہے تو اس کے ہر نظام کو زمین بوس کردے۔ مغرب خدا کے پیدا کردہ ایک وائرس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو خدا کا مقابلہ کیا کرے گا؟

کورونا وائرس نے مغرب کی مادی بالخصوص عسکری طاقت کے بت کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ یہ سطور 11 اپریل 2020ء کی رات کو تحریر کی جارہی ہیں اور اب تک امریکہ میں کورونا سے 19 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ امریکہ میں کورونا سے بیمار ہونے والوں کی تعداد 5 لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے۔ یورپ کے 28 ممالک میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ کیا کوئی دو ماہ قبل سوچ سکتا تھا کہ مغرب کا اتنا بڑا جانی نقصان ہوجائے گا اور مغرب اپنے ’’دشمن‘‘ کا کچھ بھی بگاڑنے میں ناکام رہے گا، بلکہ وہ اپنے دشمن یعنی ایک جرثومے کے آگے بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہوگا۔ پوری دنیا آگاہ ہے کہ نائن الیون کے دن امریکہ کے تین ہزار سے کچھ زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے ردعمل میں امریکہ نے افغانستان میں دو لاکھ سے زیادہ بے گناہ مار ڈالے۔ عراق پر امریکہ نے محض یہ الزام لگا کر حملہ کیا تھا کہ اُس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، لیکن تلاشی سے وہاں کچھ بھی نہ ملا، مگر امریکہ کی جان ہوپکنز یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق امریکہ نے عراق کے خلاف جارحیت کے پہلے پانچ برسوں میں 6 لاکھ عراقی مار ڈالے۔ اب کورونا نے ایک ماہ میں 19 ہزار امریکی مار ڈالے ہیں، پانچ لاکھ سے زیادہ امریکیوں کو بسترِ مرگ پر پہنچا دیا ہے، مگر امریکہ اپنے دشمن کا بال بھی بیکا نہیں کرپارہا۔ کورونا نے یورپی یونین کے 60 ہزار لوگ مار ڈالے ہیں مگر یورپی یونین کورونا کو جواب تو دور کی بات ’’دھمکی‘‘ تک نہیں دے پارہی۔ مچھروں کی فوج نے ہزاروں سال پہلے نمرود کی فوج کو چاٹ لیا تھا، آج مچھر سے زیادہ حقیر چیز کے لشکر نے امریکہ اور یورپ کی ساری مادی اور عسکری طاقت کو بے معنی بناکر رکھ دیا ہے۔
کورونا وائرس کی کوئی زبان ہوتی تو شاید مغرب کسی حساس آلے کے ذریعے معلوم کرلیتا کہ کورونا وائرس مغرب کی طاقت کے مراکز میں اللہ اکبر، اللہ اکبر، اشہدوان لا الٰہ الااللہ کی صدائیں لگاتا پھر رہا ہے۔
مغرب صدیوں سے عقل کے بت کی پوجا کررہا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ اس کی عقل کو وحی کی روشنی کی کوئی ضرورت نہیں، مگر مغرب کی عقل کی پستی کا یہ عالم ہے کہ وہ تین ماہ میں اب تک کورونا کی آمد اور اس کی ’’تباہی کی منطق‘‘ کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کے لادین لوگوں کا کیا شکوہ کیا جائے، مغرب کی سب سے بڑی ’’روحانی شخصیت‘‘ پوپ فرانسس تک نے اپنے ایک بیان میں کورونا کو Nature کا انتقام باور کرانے کی کوشش کی ہے۔ پوپ نے فرمایا ہے کہ انسان نے نیچر کے خلاف کام کیے ہیں اور اب شاید Nature ان سب کا انتقام لے رہی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب کی سب سے بڑی روحانی، سب سے بڑی مذہبی شخصیت بھی کورونا کو ’’مابعدالطبیعیاتی تناظر‘‘ میں دیکھنے کے بجائے صرف طبیعیاتی تناظر میں دیکھ رہی ہے۔ بلاشبہ مغرب پر جو قیامت ٹوٹے کم ہے۔

Leave a Reply