کورونا کی عالمگیریت کا سوال؟

جدید دنیا اپنے روحانی وجود اور اخلاقی جواز سے محروم؟۔

جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ بیسویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ ٹامس مان کی یہ پیشگوئی سو فیصد درست ثابت ہوئی۔ ٹامس مان کی بات کے درست ہونے کئی بڑی بڑی شہادتیں موجود ہیں۔ بیسویں صدی انقلابات کی صدی تھی۔ اب صدی میں روس، چین اور ایران میں انقلاب آیا اور انقلاب مخصوص معنوں میں ایک سیاسی حقیقت ہے۔ بیسویں صدی دع عالمی جنگوں کی صدی ہے اور جنگ ایک اعتبار سے سیاسی مسئلہ ہے۔ بیسویں صدی میں نوآبادیاتی نظام منہدم ہوا اور یہ بھی ایک سیاسی تجربہ تھا۔ ٹامس مان کا ’’تناظر‘‘ سیاسی تھا اس لیے اس نے پوری بیسویں صدی کو سیاسی اعتبار سے دیکھا اور بیان کیا۔ پال کینڈی کا تناظر معاشی تھی چنانچہ اس نے The Rise and Fall of the Great Power لکھی تو بتایا کہ خلافت عثمانیہ،سلطنت برطانیہ، سوویت یونین اور امریکہ کے زوال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان طاقتوں نے جنگی اخراجات کو اتنا بڑھا لیا کہ ان کا خرچ آمدنی سے بہت زیادہ ہو گیا۔ چنانچہ یہ طاقتیں زوال پذیر ہو گئیں۔ پال کینڈی کی مذکورہ بالا تصنیف 1988ء میں شائع ہوئی۔ اس وقت تک معاشی حقائق کو ہماری زندگی میں بنیادی اہمیت حاصل ہو گئی تھی چنانچہ پال کینڈی نے 1500 سے 2000 تک طاقتوں کے عروج و زوال کو صرف معاشی تناظر میں دیکھا اور بیان کیا۔
بدقسمتی سے ہم اپنے روحانی اور اخلاقی زوال کی وجہ سے یہ بات بھول چکے ہیں کے جس طرح فرد، گروہ، جماعت، قوم اور تہذیب کی بیماری و صحت اور عروج و زوال کو سیاسی و معاشی تناظر میں دیکھا اور بیان کیا جا سکتا ہے اسی طرح فرد، گروہ، جماعت، قوم اور تہذیب کی بیماری و صحت اور عروج و زوال کو روحانی اور اخلاقی تناظر میں بھی دیکھا اور بیان کیا جاتا رہا ہے۔

قرآن مجید فرقان حمید نے جتنی قوموں کے زوال اور ان پر نازل ہونے والے عذاب کا اذکر کیا ہے وہ سیاسی، معاشی یا عسکری اعتبار سے کمزور نہیں ہو گئی تھیں بلکہ انہیں کسی نہ کسی قسم کے روحانی اور اخلاقی بیماری نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا چنانچہ انہوں نے اپنے وجود اور بقا و سلامتی کا روحانی اور اخلاقی جواز کھو دیا تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ اس سلسلہ میں اہم ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک کہ اللہ کو منظور ہو گا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہو گی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو گی۔ خلافت کے بعد ملوکیت ہو گی اور اس کا دور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے۔ ملوکیت کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہو گی۔ اور اس کا سلسلہ قائم رہے گا جب تک اللہ کی مشیت ہو گی مگر اس کے بعد زمانہ ایک بار پھر خلافت علی منہاج النبوہ کی جانب آئے گا۔ غور کیا جائے تو ان زمانوں کا فرق سیاسی، معاشی تکنیکی یا عسکری نہیں ہے۔ ان زمانوں کو فرق روحانی فرق ہے۔ ان زمانوں کا فرق اخلاقی فرق ہے۔ ان زمانوں کافرق علمی فرق ہے۔ خلافت کے ملکویت میں ڈھلنے کا عمل مغربی معنوں میں ’’سیاسی زوال‘‘ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ بلند روحانی، اخلاقی اور علمی تصورات سے انحراف کا نتیجہ تھا۔

اس ضمن میں اقبال کے جواب شکوہ کے دو شعر بنیادی ہیں۔ اقبال نے کہا ہے:۔

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر

قرآن کے ’’تارک‘‘ ہونے کا مطلب یہ نہیں کے مسلمانوں نے قرآن پڑھنا چھوڑ دیا تھا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے والے نہیں رہ گئے تھے۔ اقبال کے جواب شکوہ کا دوسرا شعر یہ ہے:۔

کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

یہاں بھی اقبال مسلمانوں کو معاشی و سائنسی ترقی کی تعلیم نہیں دے رہے۔ وہ خدا کی زبان سے کہلوا رہے ہیں کے مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں گے تو دنیا کی امامت کیا روح و قلم کی عظیم الشان نعمت بھی انہی کی ہو گی۔ اس سلسلے میں اقبال کا ایک اور شعر اہم ہے۔ اقبال نے کہا ہے:۔

آتجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طائوس و رباب آخر

اس شعر میں شمشیر و سناں کا مطلب صرف شمشیر و سناں نہیں ہے بلکہ شمشیر و سناں کی پشت پر روحانی، اخلاقی اور علمی قوت بھی ہے۔ اقبال کے شعر میں طائوس و رباب بھی صرف طائوس رباب نہیں بلکہ روحانی، اخلاقی اور علمی زوال کی علامت ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عیش پرستی ہمیشہ روحانی و اخلاقی زوال کا مظہر رہی ہے۔
جہاں تک جدید مغربی تہذیب اور اس کی پیدا کردہ دنیا کے زوال کا معاملہ ہے تو یہ کہانی بہت پرانی ہے اور خود مغرب کی عظیم شخصیات نے اس زوال کا نوحہ لکھا ہے۔ جرمن مورخ اوسوالڈ اسپنگلر کی معرکہ آراء تصنیف زوال مغرب یا The Decline of the West 1918ء میں شائع ہوئی اور پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی گئی۔ اسپنگلر کا کہنا ہے کہ یہ عظیم تہذیب کی پشت پر عظیم مذہب موجود ہوتا ہے۔ تہذیب کا موسم بہار اس کے مذہب کے آغاز کا زمانہ ہوتا ہے۔ اسپنگلر کے بقول تہذیب عروج کے مرحلے تک جانے میں ایک ہزار سال لگتے ہیں پھر اس کے زوا ل کا دائرہ بھی ایک ہزار سال میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے مطابق ’’بڑے شہر‘‘ کسی تہذیب کے زوال کا مظہر ہوتے ہیں۔ ہر تہذیب کی سیاست عہدزوال میںسرمائے کی غلام بن جاتی ہے۔ نوآبادیاتی تجربہ بھی کلچر کے زوال کا عکس ہوتا ہے۔ تہذیبی زوال کے دائرے میں حکمران آئین سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ آمروں کا زمانہ آجاتا ہے۔ علوم (Sciences) یقین یا Certainity سے محروم ہو جاتے ہیں۔ عوام کے درمیان مشترکہ مقاصد حیات موجود نہیں رہتے یعنی زندگی ’’انفرادی مقاصد‘‘ کی گرفت میں چلی جاتی ہے۔ لوگ ماضی کے قوانین کی مزاحمت کرنے لگتے ہیں۔ لوگ فیشن پرست ہو جاتے ہیں اور فیشن کے تیزی کے ساتھ بدلنے کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ معاشرہ بے خدا ہو جاتا ہے۔ اسپنگلر نے لکھا ہے کہ مغرب 1800ء تک زوال پذیر ہو چکا تھا۔ ویگز مغرب کے عظیم موسیقاروں میں سے ایک ہے۔ اسپنگلر کے نزدیک ویگز کی موسیقی مغربی تہذیب کے زوال کا استعارہ ہے۔ اسپنگلر کے بقول زوال میں معاشرہ بے خدا ہو جاتا ہے مگر وہ پھر مذہب کے ذریعے احیاء کی کوشش کرتا ہے۔ اسپنگلر نے کہا ہے کہ وہ مغرب کے تمام موجودہ آرٹ کو مغرب کے زوال کا مظہر سمجھتا ہے۔
بیسویں صدی میں مغرب کا دوسرا بڑا مورخ آرنلڈ ٹوائن بی ہوا ہے۔ مغرب کے علمی حلقوں میں ٹائن بی کو اسپنگلر سے بھی بڑا مورخ سمجھا جاتا ہے۔ اسپنگلر نے اپنی تصنیف زوال مغرب میں دنیا کی آٹھ بڑی تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے۔ آرنلڈ ٹوائن نے اپنی معرکہ آراء تصنیف A Study of History میں پانچ زندہ اور 16 مردہ تہذیبوں کا مطالعہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ان تہذیبوں پر بھی نظر ڈالی ہے جنہیں Arreste Civilizations کہتا ہے۔ جدید مغربی تہذیب کے سلسلے میں ٹوائن کے دو خیالات بنیادی ہیں۔ ٹوائن بی نے جاپانی اسکالر اکیدا کے ساتھ ایک مکالمے میں صاف کہا ہے کہ جدید مغربی تہذیب مر رہی ہے مگر اس کو زندہ کیا جا سکتا ہے۔ ٹوائن بی نے صاف کہا ہے کہ جدید مغربی تہذیب کے بچنے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنے اند رکسی نہ کسی قسم کی روحانیت داخل کرے۔ دوسرے یہ کہ وہ ٹیکنالوجی کے عشق سے جان چھڑائے۔ ٹوائن بی نے تہذیبوں کے زوال کے بارے میں دوسرے اہم ترین بات یہ کہی ہے کہ تہذیبوں کے اخلاقی زوال اور تکنیکی ترقی میں ایک باہمی ربط یا Corelation ہوتا ہے۔ یعنی جب کوئی تہذیب اخلاقی طور پر توانا ہوتی ہے تو اس میں زیادہ تکنیکی ترقی نہیں ہوتی اور جب کوئی تہذیب ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کرتی ہے تو وہ اخلاقی طور کمزور ہو جاتی ہے۔ مغربی تہذیب کے لیے ٹوائن بی کے ان خیالات کے ’’معنی‘‘ بھی عیاں ہیں اور ’’مضمرات‘‘ بھی۔
ٹی ایلس ایلٹ جدید مغربی ادب کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہے۔ ایلیٹ شاعر بھی تھا اور رجحان ساز تھا نقاد بھی۔ اس کی نظم The Waste Land مشہور زمانہ ہے۔ اس نظم پر ایلیٹ کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ایلیٹ کی یہ نظم مغرب کے بارے میں ہے۔ نظم کا عنوان ہی بتا رہا ہے کے ایلیٹ جدید مغربی تہذیب کو ’’بنجر سرزمین‘‘ یا Wate Land سمجھتا تھا۔ اس نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مغرب کے زوال کا سبب یہ ہے کہ اس نے مذہب کو چھوڑ دیا ہے۔ ’’ویسٹ لینڈ‘‘ اور ’’شانتی اوم‘‘ کے الفاظ پر ختم ہوتی ہے۔ یعنی ایلیٹ کا خیال یہ ہے کہ جدید مغربی تہذیب کو پھر سے سرسبز بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ مذہب کو اختیار کر لے۔
جدید مغربی تہذیب بالخصوس جدید مغربی تہذیب کا رہنما امریکہ جنسی انحرافات میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں کسی ملا مولوی کی نہیں امریکہ کے ممتاز ماہر عمرانیات سوروکن (Sorokin) کے خیالات ملاحظہ کیجیے۔ سوروکن نے اپنی معرکہ آراء تصنیف The American Sex Revolution یعنی امریکہ کا جنسی انقلاب میں لکھا ہے کہ امریکہ کا پورا معاشرہ ’’جنس مرکز‘‘ یا Sec Centered اور جنس سے مغلوب “Sex Preoccupied” معاشرہ ہے۔ سوروکن کے بقول امریکی معاشرے میں جنس زدگی پنگوڑے سے قبر تک انسان کا تعاقب کرتی ہے۔ سوروکن کے بقول مغرب کے بڑے ادیب جیسے ارنسٹ ہیمنگوے اور اونیل جنسی انحرافات کو ’’قابل قبول‘‘ اور “Normal” بنا دیتے ہیں۔ سوروکن نے 1955ء میں لکھا کہ امریکی معاشرے کے جنسی رویے امریکہ کے مستقبل کے بارے میں کوئی اچھی بات نہیں بتا رہے۔ سوروکن نے کہا کہ امریکی معاشرے کے جنسی انحرافات نے امریکی کلچر کی تخلیقی توانائی کو زوال آمادہ کر دیا ہے۔ سوروکن نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ مغربی تہذیب کی عظیم شخصیات جنسی انحرافات سے پاک تھیں۔ سوروکن نے اس سلسلے میںسقراط، افلاطون، ارسطو، فیثا غورث، کوپرنیکس، نیوٹن، تھامس اکیوائناس، بیتھون، دانتے اور کانٹ کا نام لیا ہے۔ (صفحہ۔ 70-71)
سوروکن نے لکھا ہے کہ جب جنس زدگی معاشرے کو گرفت میں لے لیتی ہے تو وہ نہ صرف یہ کہ آرٹسٹک تخلیقی قوت سے محروم ہو جاتی ہے بلکہ اس کا معنی اثر اس کی معاشری زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے برطانیہ کے ممتاز ماہر علم البشریات G.D Unwin کی تصنیف Sex and Culture کا حوالہ دیا ہے۔ اس کتاب میں جی ڈی ان ون نے کہا ہے کہ جنس یا Sex پر معاشرتی کنٹرول کسی کلچر کے عروج و زوال پر اثرانداز ہوتا ہے۔ سوروکن کے بقول تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں جب کسی کمیونٹی نے کلچر کے دائرے میں اپنی فوقیت کو جنسی ضوابط میں نرمی کے بعد بھی برقرار رکھ کر دکھایا ہو۔ (صفحہ 110+111) سوروکن نے لکھا ہے کہ یونان، روم اور مصر کی تہذیب کا زوال ان کی تخلیقی توانائی یا Vogour میں کمی کا نتیجہ تھا۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو یہ سوال پوری شدت سے سامنے آتا ہے کہ کیا مغرب کی پیدا کردہ جدید دنیا اپنے وجود کے روحانی اور اخلاقی جواز سے محروم ہوگئی ہے اور کورونا وائرس سے پوری دنیا بالخصوص مغرب بالخصوص امریکہ میں پیدا ہونے والی صورت ہال اس بات کا اظہار ہے کہ دنیا اسلام کے عالمگیر غلبے کے عہد میں داخل ہونے والی ہے۔
ان سوالات کی شدت کو مزید بڑھانا ہوتو کہا جائے گا کہ مغرب کا جرم صرف یہی نہیں ہے کہ وہ صدیوں سے خدا اور مذہب کی تذلیل کررہا ہے اور خود مغرب کے مفکرین مغرب کے زوال کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں بلکہ مغرب کا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے قرآن کی اصطلاح کے مطابق بحر و بر میں فساد برپا کردیا ہے اور دنیا مغرب کے ظلم و جبر، ناانصافی اور استحصال سے عاجز آئی ہوئی ہے۔
مغربی دنیا کا ظلم و جبر اور ناانصافی و استحصال کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ یہ مغربی دنیا کا ظلم و جبر ہی تھا جس نے تمام یورپی اقوام کو 19 ویں صدی میں پوری دنیا پر قابض ہونے کے لیے اکسایا۔ اس قبضے کے دوران مغربی دنیا نے مظالم کی وہ داستان رقم کی کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انگریزوں نے برصغیر میں جنگ آزادی کے دوران اور اس کے بعد ایک کروڑ سے زیادہ مسلمانوں اور ہندوئوں کو مار ڈالا۔ انگریز اپنے حریفوں کو گولیوں سے مار سکتے تھے مگر انہوں نے خوف پیدا کرنے کے لیے انہیں توپوں کے گولوں سے اڑایا۔ فاتحین مفتوح بادشاہوں کو ہلاک کردیتے ہیں مگر انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے ساتھ اس سے بھی برا سلوک کیا۔ انہوں نے بہادر شاہ ظفر ہی پر ’’بغاوت‘‘ کا مقدمہ چلایا۔ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو خوف زدہ کرنے اور ذہنی و نفسیاتی تکلیف دینے کے لیے شہزادوں کے سر کاٹ کر بہادر شاہ ظفر کو تحفے کے طور پر بھیجے۔ بھارت کی محقق اتساپٹنائک اور بعض اہل مغرب کی تحقیق یہ ہے کہ انگریز بھارت سے صرف 45 ہزار ارب پائونڈ لوٹ کر لے گئے۔ ولیم ڈیل رمپل نے اپنی حالیہ تصنیف “The Ararchi” میں لکھا ہے کہ جب انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تو عالمی پیداوار میں ہندوستان کا حصہ 25 فیصد تھا مگر جب انگریز ہندوستان سے گئے تو عالمی پیداوار میں ہندوستان کا حصہ صرف ساڑھے چار فیصد تھا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ صرف انگریزوں ہی نے اپنی نوآبادیات پر ظلم نہیں کیا بلکہ فرانس، جرمنی، اٹلی اور دیگر یورپی اقوام نے بھی اپنے مقبوضات پر ظلم کی انتہا کردی۔ فرانس نے الجزائر میں دس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو مار ڈالا۔ لیبیا میں اٹلی نے مسلمانوں کو کچلنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
مغربی اقوام خود کو ’’امن‘‘ اور ’’تہذیب‘‘ کی علامت قرار دیتی ہیں اور خود کو ’’انسان دوست‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کا علمبردار قرار دیتی ہیں مگر مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات ایرک فرام نے اپنی تصنیف The Anatomy of Human Destructiveness میں اعداد و شمار ثابت کیا ہے کہ یورپی اقوام نے تقریباً پانچ سو برس میں 2600 سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں۔ ان جنگوں میں دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں۔ دو عالمی جنگوں میں صرف ’’10کروڑ‘‘ انسان ہلاک ہوئے۔ اصلو ہے کہ جب جنگ میں ایک شخص ہلاک ہوتا ہے تو 3 افراد زخمی ہوتے ہیں۔ یعنی مغرب کی برپا کردہ دو عالمی جنگوں میں 30 کروڑ افراد زخمی بھی ہوئے۔
آج امریکہ دنیا میں کورونا وائرس کا سب سے بڑا مرکز بن کر ابھر چکا ہے۔ امریکہ میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار ہوچکی ہے۔ امریکہ میں کورونا سے ہلاکتیں بھی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں کورونا سے 50 ہزار افراد ہلاک ہوسکتے ہیں۔ دوسرے اندازے کے مطابق امریکہ میں کورونا مزید پھیلا تو مرنے والوں کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کرسکتی ہے۔ ایک اور تخمینے کے مطابق حالات بہت ہی خراب ہوئے تو امریکہ میں ایک کروڑ 10لاکھ افراد بھی مرسکتے ہیں۔ ہوگا کیا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے مگر ان اعداد و شمار کی روشنی میں امریکہ کافی ’’مظلوم‘‘ دکھائی دیتا ہے۔ بدقسمتی سے تاریخ امریکیوں کے ظلم سے بھری ہوئی ہے۔ مغرب کے ممتاز دانش ور اور مورخ مائیکل مان نے اپنی تصنفی میں اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ سفید فاموں نے “Americans” میں 8 سے 10 کروڑ ریڈانڈینز اور دوسرے لوگوں کو مار ڈالا۔ سفید فاموں نے آسٹریلیا پر قبضہ کرکے وہاں 45 لاکھ مقامی باشندوں ایب اوریجنلز کو قتل کردیا۔ امریکہ کے ممتاز مؤرخ Howard Zinn نے اپنی تصنیف A People’s History of United States میں لکھا ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں امریکی فوج نے جاپانیوں کے خفیہ پیغامات پکڑ لیے تھے۔ خفیہ پیغامات سے ظاہر تھا کہ جاپانی فوج امریکہ کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی والی تھی۔ یعنی امریکہ کو جاپان کے خلاف ایٹم بم استعمال کرنے کی ’’ضرورت‘‘ نہیں تھی مگر اس کے باوجود امریکہ نے جاپان پر ایک نہیں دو ایٹم بم گرائے اوور دو لاکھ سے زیادہ لوگوں کو چند منٹ میں مار ڈالا۔ امریکہ نے کوریا کی جنگ میں 30 لاکھ اور ویت نام کی جنگ میں 10 سے 15 لاکھ لوگوں کو قتل کیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر اقتصادی پابندیاں لگائیں اور 1990ء کی دہائی میں عراق کے اندر غذا اور دوائوں کی قلت سے دس لاکھ عام عراقی مارے گئے۔ ان میں پانچ لاکھ معصوم بچے بھی شامل تھے۔ بی بی سی والڈ کے ایک صحافی نے امریکہ کی سابق وزیر خارجہ میڈی لن البرائٹ سے اس بارے میں ان کی رائے پوچھی تو انہوں نے 10 لاکھ مظلوموں کی ہلاکت کے بارے میں بے نیازی سے کہا۔
“it is acceptable and worthit”
امریکہ نے گزشتہ 19 سال کے دوران مسلم دنیا میں 14 لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا ہے مگر اس کی کوئی داد ہے نہ فریاد ہے۔
کورونا وائرس کی وبا کے دوران امریک کے مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے اعلان کیا ہے کہ وہ مستحق ملکوں کو ایک ہزار ارب ڈالر فراہم کرے گا۔ آئی ایم ایف ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے تحت ایسا نہیں کرے گا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت مغرب بالخصوص امریکہ کے مالیاتی اداروں نے دنیا کی کمزور قوموں کو چار ہزار ارب ڈالر کے قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ کرونا مزید پھیلا تو کمزور اور مقروض ملکوں کی معیشتیں ڈوب جائیں گی اور پھر وہ امریکہ کے مالیاتی اداروں کا چار ہزار ارب ڈالر کا قرض واپس کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ ’’حقائق‘‘ بتا رہے ہیں کہ مغرب کی پیدا کردہ دنیا واقعتا اپنے وجود کی روحانیا ور اخلاقی وجاز سے محروم ہوگئی ہے اور اب دنیا میں آسمانی ہدایت کی روشنی میں ایک نئے تہذیبی تجربے کا آغاز ہونا چاہئے۔
امریکہ اور یورپ کے کئی اہم ملک کورونا وائرس کی گرفت میں ہیں اور صورت حال امریکہ اور یورپ کے کروڑوں باشندوں کے لیے تباہ کن ہوسکتی ہے مگر اس کے باوجود امریکہ اور یورپ کا ’’تکبر‘‘ اور ’’نسل پرستی‘‘ کھل کر بھونک رہی ہے۔ روزنامہ جنگ کراچی کی ایک خبر کے مطابق امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ بند ہونے کے لیے نہیں بنا (جنگ، 25مارچ 2020ء) کینیڈ نے کہا تھا کہ امریک خوائی صفات کا ہامل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان ثابت کررہا ہے کہ امریکہ آج بھی خود کو خدا سمجھ رہا ہے۔ اس کا تکبر اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ کہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ آپ اپنی تقدیر کا مالک ہے۔ لیکن تکبر اور نسل پرستی صرف امریکہ کا مسئلہ نہیں فرانس کے صدر ایما نوئل میکرون اٹلی کے اخبارات کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اٹلی کے لوگوں کو امداد کے لیے چین یا روس کی جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ فرانس ان کی مدد کے لیے موجود ہے (روزنامہ جنگ کراچی ،29 مارچ 2020ء) جدید مغربی تہذیب خود کو ’’جوڈو کرسچن‘‘ تہذیب کہتی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے بعد اسرائیل کے وزیر صحت یعقوب لٹزمان نے کہا ہے کہ دنیا اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ انوہں نے کہاکہ وہ دن قریب ہیں کہ جب ’’مسیحا‘‘ آسمان سے اترے گا اور یہودی برادری کی حالت زار کو دور کرے گا (روزنامہ جنگ کراچی 26 مارچ 2020ء) یہودی بالخصوص اسرائیل جدید دنیا میں ظلم و جبر اور استحصال کی بڑی علامتوں میں سے ہیں مگر اسرائیل کے ایک ممتاز وزیر کو امید ہے کہ خدا اب بھی یہودیوں کے ساتھ ہے اور مسیحا آسمان سے اترے گا تو یہودیوں کی فلاح و بہبود اس کے ایجنڈے کا اہم ترین حصہ ہوگا۔ حالانکہ یہودیوں اور اسرائیل نے ارض فلسطین میں گزشتہ 75سال کے دوران اتنے ظلم کیے ہیں کہ آئندہ پانچ سے دس سال میں اسرائیلی ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہئے۔ تکبر، ظلم اور نسل پرستی بھارت کا بھی ’’امتیازی نشان‘‘ ہیں۔ بدقسمتی سے کورونا وائرس کی وبا نے بھی بھارتی قیادت کو اس کے روحانی اور اخلاقی سرطان سے نجات نہیں دلائی۔ اس کا ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ مودی سرکار نے ذلالت کی انتہا کرتے ہوئے بھارت کے سرکاری اسپتالوں کو زبانی احکامات جاری کیے ہیں کہ کورونا کے مسلم مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ روزنامہ 92 نیوز کراچی کی خبر کے مطابق آر ایس ایس اسپتالوں کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ مسلم ڈاکٹروں پر بھی زمین تنگ کی جارہی ہے (روزنامہ 92 نیوز، 28 مارچ 2020ء)۔ یہ تمام حقائق بتا رہے ہیں کہ مغرب اور اس کے اتحادیوں نے صرف خدا اور مذہب کی تذلیل کی انتہا نہیں کی۔ انہوں نے دنیا کو ظلم، جبر، سفاکی اور استحصال سے بھی بھر دیا ہے۔ اس لیے ہم نے عرض کیا ہے کہ دنیا اپنے وجود کے روحانی اور اخلاقی جواز سے محروم ہوگئی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کورونا وائرس خدائی مداخلت کی ایک صورت ہے ور اس کے مغرب معنی یہ ہیں کہ کورونا کی وبا ختم بھی ہوگئی تو اب دنیا کورونا پر نہیں رکے گا بلکہ اب دنیا میں کورونا سے زیادہ بڑے ’’حادثات‘‘ نہیں ’’واقعات‘‘ رونما ہوں گے۔ ’’نئی دنیا‘‘ کی تخلیق کے آغاز میں ایک سال لگے گا یا پانچ اور دس سال لگیں گے یہ کہنا دشوار ہے مگر حقائق کا تجزیہ بتا رہا ہے کہ نئی دنیا کی تخلیق اب انسانیت کا مقدر بن چکی ہے۔ مغرب، اس کے اتحادیوں اور مسلم دنای میں مغرب کے ایجنٹوں کا کھیل اتنا گھنائونا اور اتنا پرانا ہوچکا ہے کہ اس کے خاتمے کا روحانی اور اخلاقی جواز پوری طرح آشکار ہوچکا ہے۔ مغرب کی پیدا کی ہوئی دنیائی لاش سڑ چکی ہے اس سے تعفن اٹھ رہا ہے۔ چنانچہ اب اس لاش کو قدرت خداوندی خود دفن کرنے کا اہتمام کرنے والی ہے۔ چونکہ باطل کا غلبہ ’’عالمگیر‘‘ ہے اس لیے اس کا ’’انہدام‘‘ اور حق کا غلبہ بھی اب ’’عالمگیر‘‘ ہوگا۔ کیا ہم ایک نئی عالمگیر تہذیب کے آغاز کے قریب کھڑے ہیں؟؟ گزشتہ تین سو سال کے حقائق کا تجزیہ اس سوال کا جواب اثبات میں دیتا نظر آتا ہے۔

Leave a Reply