سرمایہ داری کا ابلاغی طوفان اورڈوبتی انسانیت

مغرب اور اس کے آلہ کاروں کی تخلیق کی ہوئی دنیا کی تباہ کاریاں

آج گفتگو کی ابتدا ڈرا دینے والے اعداد و شمار سے کرتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے جس دنیا میں آپ زندہ ہیں اس دنیا میں موسیقی کی عالمی صنعت 20 ارب ڈالر سالانہ کی صنعت ہے۔ اس دنیا میں فلم کی عالمی صنعت 136 ارب ڈالر سالانہ کی صنعت ہے۔ اس دنیا میں کاسمیٹکس کی عالمی صنعت 532 ارب ڈالر کی صنعت ہے، اور 2024ء میں یہ صنعت 863 ارب ڈالر کی صنعت ہوگی۔ اس دنیا میں اشتہار بازی یا ایڈور ٹائزنگ کی صنعت 1200 ارب ڈالر سالانہ کی صنعت ہے۔ اس دنیا میں فیشن کی عالمی صنعت 2004 ارب ڈالر سالانہ کی صنعت ہے۔ اس صورتِ حال کے کئی معنی ہیں۔ اس صورتِ حال کا ایک مفہوم یہ ہے کہ سرمایہ داری کے پیدا کردہ ابلاغی طوفان نے ’’ضرورت‘‘ کو ’’گالی‘‘ اور ’’تعیش‘‘ کو ’’مذہب‘‘ بنادیا ہے۔ اس صورتِ حال کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ’’مصنوعی زندگی‘‘ نے ’’حقیقی زندگی‘‘ کے تصور کو شکست دے دی ہے۔ اس صورتِ حال کا تیسرا مفہوم یہ ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ ایسا تفریحی اور صحافتی مواد تخلیق کررہے ہیں جو ’’خطِ شعور‘‘ سے نیچے پڑا ہوا مواد ہے۔ یہ مواد ’’خطِ علم‘‘ سے نیچے پڑا ہوا مواد ہے۔ یہ مواد ’’خطِ تہذیب‘‘ سے نیچے پڑا ہوا مواد ہے۔ یہ مواد ’’خطِ اخلاق‘‘ سے نیچے پڑا ہوا مواد ہے۔ ہمارے یہاں Capitalism کا ترجمہ سرمایہ داری کیا جاتا ہے جو لغوی اعتبار سے درست مگر روحانی، اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے غلط ہے۔ روحانی، اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے Capitalism کا درست ترجمہ ’’سرمائے کی پوجا‘‘، اور اس سے بھی بہتر ترجمہ ’’سرمائے کی خدائی‘‘ ہے۔
ایک ایسی دنیا جس میں ہر سال اشتہار بازی پر 1200 ارب ڈالر صرف کیے جارہے ہوں، اس دنیا میں اربوں انسانوں کا “Manufactured Needs” کے نرغے میں ہونا قرین قیاس ہے۔ وینس پیکارڈ کی کتاب The Hidden Persuaders کو اشتہار بازی کے فن کے حوالے سے کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کا دوسرا باب ایڈورٹائزنگ کے ممتاز جریدے Advertising Age میں شائع ہونے والے اس قول سے شروع ہوتا ہے:

“In very few instances do people really know what they want, even when they say they do
(The Hidden Persuaders Page-12)
اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ اشتہار بازی کی اس دنیا میں موجود جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، انہیں بھی دراصل یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہ بیچارے صرف وہ چاہتے ہیں جو اشتہارات انہیں ’’چاہنے‘‘ پر مائل یا مجبور کرتے ہیں۔
وینس پیکارڈ نے اپنی تصنیف The Hidden Persuaders میں عوام کی ’’پسند‘‘ اور ’’عوام‘‘ کے ’’شعور‘‘ کے تجزیے کے حوالے سے ایک تحقیقی ادارے کی دلچسپ مثال پیش کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ایک تحقیقی ادارے نے کپڑے دھونے والے نئے پائوڈر کی مارکیٹنگ کے سلسلے میں ایک ہی طرح کا پائوڈر تین مختلف رنگوں کے پیکیج میں پیش کیا اور خواتین سے کہاکہ وہ کپڑے دھوکر بتائیں کہ ان میں سے کون سا پائوڈر بہتر ہے۔ ان میں سے ایک پیکیج پیلے، دوسرا نیلے، اور تیسرا پیلے اور نیلے پیکیج میں تھا۔ خواتین نے کپڑے دھونے کے بعد بتایا کہ پیلے پیکیج والا پائوڈر کپڑے گلا دیتا ہے، نیلے پیکیج کے پائوڈر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس سے کپڑوں کا میل صاف نہیں ہوپاتا۔ نیلے اور پیلے رنگوں کے پیکیج کے پائوڈر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس میں ایک اچھے پائوڈر کی ساری خوبیاں موجود ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تینوں پیکٹوں میں پائوڈر ایک ہی تھا، صرف اس کی “Packaging” مختلف تھی۔ چونکہ خواتین کو نیلے اور پیلے رنگ کی یکجائی اچھی لگی اس لیے انہوں نے ’’صورت‘‘ کو ’’خوبی‘‘ کا ہم معنی بنادیا۔ یہ ہوتا ہے عوام کے ’’شعور‘‘، ان کے ’’علم‘‘ اور ’’فہم‘‘ کا حال۔ اشتہاری ادارے عوام کے اس شعور، علم اور فہم کو بخوبی سمجھتے ہیں اور وہ اپنی معلومات کو عوام کی رائے “Manufacture”کرنے کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ جس دنیا میں 1200 ارب ڈالر سالانہ اشتہارات پر صرف ہورہے ہوں اس دنیا میں عوام کی ’’پسند‘‘ کا حال کیا ہوگا؟ ایک بار ایک ایڈورٹائزر نے کہا تھا: ’’ہم ’’لپ اسٹک‘‘ فروخت نہیں کرتے، ہم کسٹمرز کو ’’خریدتے‘‘ ہیں۔‘‘

تجزیہ کیا جائے توسرمایہ دارانہ نظام اس تصور پر کھڑا ہوا ہے کہ زیادہ سے زیادہ چیزیں صرف کرو تاکہ زیادہ سے زیادہ چیزیں پیدا ہوں اور سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ سرمایہ اور زیادہ سے زیادہ منافع کماسکے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ مذہب انسان کو اللہ کا ’’عارف‘‘ دیکھنا چاہتا ہے، اور سرمایہ داری انسان کو صرف ’’صارف‘‘ دیکھنا چاہتی ہے۔ مذہب میں جو مقام ’’عارف‘‘ کا ہے سرمایہ داری میں وہی مقام ’’صارف‘‘ کا ہے۔ دراصل صارف سرمایہ داری کا عارف ہے۔ اشتہار بازی اس عارف کے ’’عرفان‘‘ کو ساتویں آسمان پر پہنچانے کا اہتمام کرتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو 1200 ارب ڈالر کی اشتہار بازی نے ہماری دنیا کو سرمایہ داری کے ’’عارفوں‘‘ سے بھر دیا ہے۔ اشتہار بازی کی وجہ سے پڑھے لکھے اور جاہل ہی نہیں، بچے تک ’’عارف‘‘ ہوگئے ہیں۔ بدقسمتی سے ’’عارفوں‘‘ کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔ اس کا ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ فیشن کی عالمی صنعت 2004 ارب ڈالر سالانہ کی صنعت ہے۔ ہمارے زمانے تک آتے آتے عورت اور فیشن ہم معنی الفاظ بن گئے ہیں۔ فیشن عورت ہے، اور عورت فیشن ہے۔ اس سلسلے میں مشرق و مغرب، شمال و جنوب، کمیونسٹ چین اور سرمایہ دار امریکہ، مسلم پاکستان اور یہودی اسرائیل کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ ہماری روح، ہمارا علم اور ہمارا فہم “Branded” ہو یا نہ ہو، ہمارے کپڑے اور جوتے ضرور “Branded” ہوتے ہیں۔ Branded کپڑے اور جوتے پہننے میں کوئی برائی نہیں ہے اگر ہم اسے ’’تہذیب‘‘ اور ’’انسانیت‘‘ کی ’’علامت‘‘ بلکہ ’’معراج‘‘ نہ سمجھیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک بار کہا تھا کہ ہماری عزت ہمارے لباس کی وجہ سے نہیں ’’اسلام‘‘ کی وجہ سے ہے۔ مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے لیے اسلام میں کوئی عزت نہیں، البتہ کپڑوں میں عزت کے دریا بہ رہے ہیں۔

بلاشبہ ابلاغی طوفان اور اس کے مضمرات کو عالمی سطح پر بھی دیکھا اور دکھایا جاسکتا ہے، مگر ہم اس طوفان کے دائرے کو وطنِ عزیز تک محدود کرکے اس کا جائزہ لیں گے۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری بھارت کی طرح ’’ترقی یافتہ‘‘ نہیں ہے، چنانچہ ہمارے ملک میں ٹیلی ڈرامہ تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ مگر پاکستان میں آزاد ٹیلی وژن چینلز کی آمد کے بعد ڈرامے کا کیا حال ہوا ہے اس کا اندازہ ممتاز ڈرامہ نگار حسینہ معین کے اس انٹرویو سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اب پاکستان میں بننے والا ڈرامہ خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ امجد اسلام امجد شاعر بھی ہیں اور ڈرامہ نگار بھی۔ انہوں نے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
’’بیشتر ڈرامے طلاق، ازدواجی جھگڑوں، ناجائز تعلقات، کھلے بندوں فرینڈ شپ، ضرورت سے زیادہ آزاد، فیشن ایبل ماحول، اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پامالی، خاندانی نظام کی زبوں حالی، اولاد کی سرکشی، انسانی رشتوں کی بدحالی جیسے موضوعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ اہلِ خانہ، بہن بھائیوں کے ساتھ تو دور کی بات ہے، بعض ڈرامے میاں بیوی بھی اکٹھے بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے‘‘۔
(جنگ سنڈے میگزین، صفحہ9۔ 24 نومبر 2019ء)
کچھ عرصہ قبل روزنامہ ڈان جیسے لبرل اخبار میں ملک کے چار معروف ڈرامہ نگاروں کے انٹرویوز شائع ہوئے۔ ان انٹرویوز میں ڈرامہ نگاروں نے کہاکہ پاکستان میں ڈرامے کو این جی اوز نے اغوا کرلیا ہے۔ اب این جی اوز طے کرتی ہیں کہ ڈرامہ کس موضوع پر لکھا جائے گا اور اس کے کردار کیسے ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ ڈرامے میں عورت کے دو کردار مقبول ہیں، ایک روتی پیٹتی آنسو بہاتی ہوئی عورت، یا پھر لبرل عورت۔ ایک ڈرامہ نگار نے ’’انکشاف‘‘ کیا کہ میرے ڈرامے میں ایک کردار ’’مثبت‘‘ تھا، چنانچہ ڈرامے کے ڈائریکٹر نے مجھ سے تقاضا کیا کہ اس مثبت کردار کو بھی ’’منفی‘‘ بنایا جائے۔ یعنی ناظرین کو پیغام دیا جائے کہ دنیا میں کہیں خیر اور نیکی موجود نہیں، دنیا کے تمام انسان شیطان بن چکے ہیں۔ ایک ڈرامہ نگار نے شکایت کی کہ میں نے ایک تاریخی ڈرامہ لکھا مگر اسے پروڈیوس کرنے کے لیے کوئی سرمایہ مہیا کرنے والا نہ ملا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب کے زیراثر ایک طرف تو معاشرے میں نسائیت، عورت پرستی یاFeminism کی تحریک چل رہی ہے مگر دوسری طرف عورت کو ڈرامے میں حقیر بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ آخر ہمارے چینلز عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے حوالے سے ’’مثالی کردار‘‘ بناکر کیوں پیش نہیں کرتے؟ ہمارے معاشرے میں عورت شاعر ہے، ادیب ہے، صحافی ہے، استاد ہے، ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے… مگر عورت کو ان میں سے کسی کردار میں پیش نہیں کیا جارہا۔ جہاں تک اشتہاری صنعت کا تعلق ہے تو وہ عورت کا چہرہ فروخت کررہی ہے، اس کا حسن فروخت کررہی ہے، اس کی مسکراہٹ فروخت کررہی ہے، اس کی ادائیں فروخت کررہی ہے، اس کے جنسی اعضا کو فروخت کررہی ہے۔ اس بھیانک جرم میں مصنوعات پیدا کرنے والے، اشتہار تیار کرنے والے اور اشتہارات کو نشر اور شائع کرنے والے برابر کے شریک ہیں۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ بھارت کی سیکولر اداکارہ شبانہ اعظمی نے کہا تھا کہ فلموں میں آئٹم سانگ عورت کی تذلیل کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت کی ایک اور اداکارہ کنگانا رناوت نے کہاکہ وہ ہرگز نہیں چاہے گی کہ اس کی بیٹی آئٹم سانگ دیکھے۔ مگر پاکستانی فلموں میں بھارت کی فلموں کی نقالی کرتے ہوئے آئٹم سانگ شامل کیے جارہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس صورت حال پر علما بھی خاموش ہیں، دانش وروں نے بھی چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے، سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی اس سلسلے میں لب سیے ہوئے ہیں، اور پاکستان کے ’’غیور عوام‘‘ بھی اس سلسلے میں ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ قرآن میں مسلمانوں کو نیکی کی تبلیغ اور برائی کی مزاحمت کی ہدایت کی گئی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: برائی کو ہاتھ سے روک دو، یا کم از کم اس کے خلاف زبان سے جہاد کرو، یہ بھی ممکن نہ ہو تو اسے دل میں برا خیال کرو، مگر یہ ایمان کا سب سے پست درجہ ہے۔ بدقسمتی سے ذرائع ابلاغ کا ابلاغی طوفان ہمارے مذہب، ہمارے اخلاق، ہماری اقدار، ہماری تہذیب اور ہماری معاشرت کے پرخچے اڑا رہا ہے مگر معاشرے کے تمام ’’حساس طبقات‘‘ اندھے، بہرے اور گونگے بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں ایک ممتاز عالمِ دین نے فون کرکے بتایا کہ انہوں نے ہمارا کالم پڑھ کر ایک اور ممتاز عالمِ دین سے کہاکہ آیئے ہم اس صورتِ حال پر مشترکہ پریس کانفرنس کرڈالیں، مگر ان عالمِ دین نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔
ممکن ہے آپ موسیقی نہ سنتے ہوں، مگر پاکستان میں دس پندرہ کروڑ لوگ موسیقی سنتے ہیں۔ برصغیر میں موسیقی سننے والوں کی تعداد ستّر، اّسی کروڑ ہوگی، اور دنیا میں کم از کم پانچ ارب انسان موسیقی سنتے ہیں۔ چنانچہ اس تناظر میں یہ سوال اہم ہوجاتا ہے کہ جدید موسیقی انسانوں کی شخصیت، فکر، نفسیات اور جذبات پر کیسے اثرات مرتب کررہی ہے اور انہیں کیسا انسان بنارہی ہے۔ ہندو ازم میں موسیقی مذہب کا حصہ ہے۔ ہندو ازم میں موسیقی کا تصور یہ ہے کہ جب انسانوں کی روحانی قوت زوال پذیر ہوگئی اور اپنی روحانی قوت کی بنیاد پر برہما یعنی خالقِ کائنات سے تعلق پیدا کرنے کے قابل نہ رہے تو خالقِ کائنات نے ان کی مدد کے لیے موسیقی پیدا کی۔ یعنی ہندو ازم میں موسیقی وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے انسان خدا کے قریب ہوتا ہے۔ اس کے باوجود جب ہندوستان کی ممتاز گلوکارہ لتا منگیشکر سے پوچھا گیا کہ کیا آپ جدید موسیقی سنتی ہیں؟ تو انہوں نے اس کا جواب نفی میں دیا اور کہاکہ جدید موسیقی میں کچھ بھی سننے کے لائق نہیں ہوتا۔ بعض مغربی محققین کے مطابق راک اینڈرول موسیقی شیطانی اثرات کی حامل ہے اور انسانوں میں خدا کے خلاف بغاوت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ایک مغربی گلوکار Marilyn Manson کے مطابق جو شخص میری البم اینٹی کرائسٹ سپراسٹار سنتا ہے اُس کے ذہن میں خدا کا تصور نیست و نابود ہوجاتا ہے۔ اینڈریو یونیورسٹی کے پروفیسر آف تھیولوجی سیموئل بچوچی کے مطابق راک اینڈرول موسیقی جنسی جذبات کو بھڑکاتی ہے اور سامعین میں غیر ذمے دارانہ رویوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ ہپ ہاپ موسیقی میں پُرتشدد خیالات و جذبات کا بیان بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ یہ موسیقی مادیت پرستی سکھاتی ہے۔ ہپ ہاپ ٹائپ گیتوں میں گالیوں کی بھرمار ہوتی ہے اور اس موسیقی میں عورت کو Sex object کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
بھارت کی فلمی صنعت نے فلمی موسیقی کی ایک بڑی روایت تخلیق کی ہے۔ اس روایت میں ہزاروں رومانوی گیت بھی ہیں۔ چونکہ ان تمام گیتوں کی پشت پر اردو غزل کی عظیم الشان روایت کھڑی ہے اس لیے ان گیتوں میں موجود رومانویت ’’انسانی‘‘ محسوس ہوتی ہے۔ ساحر لدھیانوی کا لکھا ہوا ایک گیت ہے:
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے
آنکھوں میں سرور آجاتا ہے
جب تم مجھے اپنا کہتے ہو
اپنے پہ غرور آجاتا ہے
……
تم حسن کی خود ایک مورت ہو
شاید یہ تمہیں معلوم نہیں
محفل میں تمہارے آنے سے
ہر چیز پہ نور آجاتا ہے
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے
……
ہم پاس سے تم کو کیا دیکھیں
تم جب بھی مقابل آتے ہو
بیتاب نگاہوں کے آگے
پردہ سا ضرور آجاتا ہے
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے
……
جب تم سے محبت کی ہم نے
تب جا کے کہیں یہ راز کھلا
مرنے کا سلیقہ آتے ہی
جینے کا شعور آجاتا ہے
چہرے پہ خوشی چھا جاتی ہے
اب آپ پاکستان کے ایک بینڈ ’’اسٹرنگز‘‘ کا گایا ہوا گیت ملاحظہ فرمائیے:
اک دن میں اُڑ جائوں
بہتے بادلوں میں کھو جائوں
چاہا ہے
چاہا ہے
چاہا ہے
ہوں
اک دن میں اُڑ جائوں
نیلی وادیوں میں کھو جائوں
چاہا ہے
چاہا ہے
چاہا ہے
ہوں،
باندھی ہے دل سے
اک انجانی سی ڈور
کھینچتی ہے مجھ کو
نہ جانے کس کی اور
کھول کے کھڑکی
آج میں اُڑ جائوں
اُڑ جائوں
چاہا ہے
چاہا ہے
اُڑ جائوں
چاہا ہے
چاہا ہے
چاہا ہے
چاہا ہے
چاہا ہے
ہوں،
یہ ’’جدید گیت‘‘ انور مقصود کے فرزندِ ارجمند بلال مقصود کا لکھا ہوا ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے، اس گیت میں نہ شاعری ہے، نہ وزن ہے، نہ بحر ہے، نہ آہنگ ہے، نہ معنی ہیں۔ یہ سارے ’’عیب‘‘ ہی جدید موسیقی اور اس سے پیدا ہونے والی شاعری کا ’’ہنر‘‘ ہیں۔
اب آپ امریکی گلوکارہ آریانہ گرانڈے، مائلی سائرس اور لانا ڈیلولے کا ایک گیت اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
گیت کا عنوان ہے Dont Call me angle
Boy, don’t call me angle
you aint got me right
Don’t call me angle
You can’t pay my price
Ain’t from no Heaven
Yeah, you head me right
Even though you know we fly
Don’t call me angel
uh, don’t call me angel when I’m a mess
you know I, I don’t like that, boy
uh, I make my money, and I write the cheques
so say my name with a little respect
All my girls successful, and you’re just our guest.
ترجمہ:
لڑکے مجھے فرشتہ مت کہو
تم مجھے ٹھیک سے سمجھتے نہیں ہو
مجھے فرشتہ مت کہو
تم میری قیمت نہیں دے سکتے
میں کسی جنت سے نہیں آئی
ہاں تم نے مجھے ٹھیک سنا
حالانکہ تمہیں پتا ہے
ہم اُڑتے ہیں
مجھے فرشتہ مت کہو
اف، مجھے فرشتہ مت کہو
جب میں بکھری ہوئی ہوں
تمہیں پتا ہے مجھے، مجھے یہ پسند نہیں ہے
لڑکے،
آہ، میں پیسے کماتی ہوں، چیکس لکھتی ہوں
چنانچہ میرا نام عزت کے ساتھ لو
میری ساری سہیلیاں کامیاب ہیں
اوز تم صرف ہمارے مہمان ہو
تجزیہ کیا جائے تو ان گیتوں کا فرق ’’دو دنیائوں‘‘ کا فرق ہے۔ معانی کے دو سلسلوں کا فرق ہے۔ اس فرق سے، موسیقی بھی بدل کر کچھ سے کچھ ہوگئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جدید تباہ کن موسیقی اربوں لوگ سن اور جذب کررہے ہیں۔
قائداعظم نے کہا تھا کہ صحافت اور قوموں کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے جس طرح ہماری سیاست ’’پالتو‘‘ ہے، اسی طرح ہماری صحافت بھی ’’پالتو‘‘ ہوچکی ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، مگر اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور اسلامی اقدار ہماری صحافت کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہیں۔
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، مگر ہماری صحافت کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ علم قرآن کا حکم اور رسول اکرمؐ کا ورثہ ہے، مگر ہماری صحافت نے کبھی معاشرے میں علم کے فروغ کے لیے کچھ کیا ہی نہیں۔ اسلامی معاشرہ خدا کے سوا کسی کے سامنے سر نہیں جھکاتا، مگر ہماری صحافت اسٹیبلشمنٹ کے آگے سر جھکائے کھڑی رہتی ہے۔ صحافت اپنی اصل میں ایک ’’مشن‘‘ ہے، مگر ذرائع ابلاغ کے مالکان نے اسے ’’کاروبار‘‘ بنادیا ہے۔ اسلامی معاشرے کے ذرائع ابلاغ کو عورت کا محافظ ہونا چاہیے، مگر ہمارے ذرائع ابلاغ عورت کا حسن و جمال فروخت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ایک ’’ابلاغی کوٹھے‘‘ کا منظر پیش کررہے ہیں۔
دنیا بھر میں ٹاک شوز ’’شعور‘‘ کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے ہر ٹاک شو میں انسانوں کو مرغوں کی طرح لڑایا جاتا ہے۔ علم، ادب، فلسفہ، تاریخ اور تہذیب کبھی ہمارے ٹاک شوز میں زیربحث نہیں آتے۔ ہمارے ٹاک شوز قوم کو سیاست کھلا رہے ہیں، سیاست پلا رہے ہیں، سیاست پہنا رہے ہیں۔ اس پر غضب یہ ہے کہ سیاسی موضوعات کبھی علمی تناظر میں زیربحث نہیں آتے۔ کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ نے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض کو مجرم قرار دے کر ان پر 460 ارب روپے کا جرمانہ کیا مگر ہمارے بڑے بڑے اخبارات اور بڑے بڑے چینلز نے جرمانے کی خبر شائع اور نشر کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ذرائع ابلاغ چیختے ہیں کہ ان کے گلے پر حکمرانوں نے سنسر کی چھری رکھی ہوئی ہے، مگر جنگ، دنیا اور روزنامہ ایکسپریس جیسے اخبارات نے ملک ریاض پر جرمانے کی خبر کو شائع نہ کرکے ثابت کیا کہ وہ خود Self Censor کے جرم کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ Self Censor حکومت کے سنسر سے کہیں زیادہ خوفناک اور بدصورت ہوتا ہے۔
مذہبی شعور اپنی اصل میں ’’حاکم شعور‘‘ ہے، مگر ہمارے معاشرے میں اس شعور کا یہ حال ہے کہ وہ مغرب اور اس کے آلۂ کاروں کی تخلیق کی ہوئی دنیا کو بدلنے کی کوشش کے بجائے اِس دنیا میں خود کو ’’Adjust‘‘ کرنے کی تگ و دو کررہا ہے۔ وہ شعور جو دنیا کو بدلنے کے لیے ہے، دنیا اسے بدل رہی ہے۔ وہ شعور جو دنیا کو اپنے جیسا بنانے کے لیے ہے، دنیا اسے اپنے جیسا بنا رہی ہے۔ وہ شعور جو حکمرانی کا حق دار ہے، مغرب اور اُس کے آلۂ کاروں کی دنیا میں چپراسی اور کلرک بن جانے کو زندگی کی معراج سمجھ رہا ہے۔

Leave a Reply