عمران خان کی حکومت

سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے برپا کیے ہوئے ’’سیاسی کلچر‘‘، اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ ’’سیاسی قیادت‘‘، اور اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق کردہ ’’سیاسی جماعتوں‘‘ اور خوداسٹیبلشمنٹ کی ناکامی کا سبب کیا ہے؟

عمران خان اور اُن کی حکومت کو ایک فقرے میں بیان کرنا ہو تو اس سے بہتر فقرہ کوئی نہیں ہوسکتا:
’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘۔
عمران خان اور اُن کی حکومت کی ’’عزت افزائی‘‘ مقصود ہو تو غالب کا ایک شعر یاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ غالب نے کہا ہے:

ہاں، کھائیو مت فریبِ ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے

عمران خان کی حکومت کے حوالے سے اس شعر کو اس طرح بھی پڑھا جاسکتا ہے:

ہاں، کھائیو مت فریبِ حکومت
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے

کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس شعر میں لفظ ’حکومت‘ استعمال کرنے سے مصرع بے وزن ہوگیا ہے۔ مگر یہ صورتِ حال عمران خان کی حکومت کے ’’احوال‘‘ کے عین مطابق ہے۔ حکومت سے عمران خان کی شخصیت بے وزن ہوگئی ہے۔ مگر عمران خان اور اُن کی حکومت کی ناکامی کو ایک وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست کے اہم کرداروں پر اسٹیبلشمنٹ کا سایہ رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کی کابینہ کا حصہ تھے اور انہیں ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ نوازشریف جنرل ضیا الحق کو اپنا ’’روحانی باپ‘‘ قرار دیتے تھے۔ الطاف حسین کی شخصیت پر جگہ جگہ اسٹیبلشمنٹ کی مہر لگی ہوئی تھی۔ عمران خان کے اندر یہ امکان تھا کہ وہ اپنی قوتِ بازو سے اقتدار میں آکر دکھا سکتے تھے، مگر ان کی ہوسِ اقتدار اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ انہوں نے مزید دوچار سال انتظار کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کا لباس زیب تن
کرلیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھٹو، نوازشریف، الطاف حسین اور عمران خان کی ناکامی صرف ان لوگوں کی ناکامی نہیں ہے، بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی بھی ناکامی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی نرسری کا کوئی پودا بھی درخت بن کر پھل کیوں نہیں دیتا؟ آخر اسٹیبلشمنٹ کی نرسری کا ہر پودا کیکر کیوں بن کر رہ جاتا ہے؟

پاکستان کی سیاست میں سیاسی رہنمائوں اور ان کی جماعتوں کو ایک خاص تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ بھٹو صاحب کے بارے میں خیال تھا کہ وہ اصل میں وڈیرے تھے اور وہ کبھی بھی اپنے جاگیردارانہ پس منظر سے اوپر نہ اٹھ سکے۔ اس سلسلے میں مغرب کی اعلیٰ ترین تعلیم بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی، بلکہ اس تعلیم نے انہیں اخلاقی طور پر کمزور کیا۔ اسی تناظر میں میاں نوازشریف کو یہ کہہ کر ابھارا گیا کہ وہ ’’مذہبی‘‘ بھی ہیں، ’’صنعت کار‘‘ بھی ہیں اور پاکستان ساختہ یا Made in Pakistan بھی ہیں، مگر میاں نوازشریف نہ ’’مذہبی‘‘ ثابت ہوئے، نہ انہوں نے صنعت کار کی ’’ذہنیت‘‘ کا مظاہرہ کیا، اور نہ وہ پاکستانی ساختہ یا Made in Pakistan ہی ثابت ہوسکے۔ میاں صاحب نے ابھی چند ماہ پہلے یہ لطیفہ سنایا تھا کہ وہ ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے ہیں۔ مگر وہ جتنے بھی ’’نظریاتی‘‘ ہوئے تھے اس کا تعلق مذہب سے نہیں سیکولر اور لبرل فکر کے ساتھ تھا۔ ہم جیسے ’’بے خبر‘‘ شخص کو بھی گھر بیٹھے معلوم تھا کہ میاں صاحب کس کس سیکولر اور لبرل دانش ور، ادیب اور صحافی سے سیکولرازم اور لبرل ازم کا درس لے رہے تھے۔ جہاں تک ان کے پاکستانی ساختہ ہونے کا تعلق تھا، تو اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے پاک بھارت تعلقات کو مودی اور نوازشریف کے تعلقات بنادیا تھا، حالانکہ پاک بھارت تعلقات دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے تعلقات ہیں۔ ان کا پاکستان سے ’’عشق‘‘ اس بات سے بھی عیاں ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی میاں شہبازشریف بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ کے ساتھ پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کی گھنائونی سازش پر عمل کررہے تھے۔ اس کی اطلاع آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب ’اسپائی کرونیکلز‘ میں دی ہے۔ اس کتاب کو شائع ہوئے عرصہ ہوگیا، مگر ’’شریفوں‘‘ نے ابھی تک جنرل درانی کے الزام کی تردید نہیں کی۔

الطاف حسین قومی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے تو کہا گیا کہ پاکستان کی سیاست میں متوسط طبقے کا سورج طلوع ہوگیا ہے، اور یہ سورج پوری پاکستانی سیاست کو جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں سے پاک کرنے کا سبب بنے گا۔ مگر الطاف حسین ایک ’’شہری وڈیرے‘‘ بلکہ مافیا چیف کے طور پر سامنے آئے اور ان کی جماعت ایک سیاسی مافیا کا روپ اختیار کرگئی۔ چنانچہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست سے ’’شہری تمدن‘‘ ایک گالی بن کر رہ گیا۔
عمران خان کے بارے میں ہماری 20 سال پرانی رائے ہے کہ وہ نہ سیاسی رہنما تھے، نہ ہیں اور نہ ہوسکتے ہیں، مگر انہیں ’’تبدیلی کی علامت‘‘ بناکر ابھارا گیا۔ کہا گیا سب بدعنوان ہیں، صرف عمران خان ’’پاک‘‘ ہیں۔ نوازشریف مودی کے یار ہیں اور عمران خان پاکستانیت کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ ان کی ’’اہلیت‘‘ اور ’’صلاحیت‘‘ بے مثال ہے۔ وہ پاکستان کا مقدر بدل دیں گے۔ ان کے اقتدار میں آنے سے ’’انقلاب‘‘ آجائے گا۔ مگر عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نے صرف آٹھ ماہ میں لفظ ’’تبدیلی‘‘ کی ایسی تذلیل کی ہے کہ اگر اس لفظ کے لیے ممکن ہو تو وہ لغت کو چھوڑ کر بھاگ نکلے اور خودکشی کرلے۔ عمران خان اور ان کی حکومت کی ’’اہلیت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ خود عمران خان نے آٹھ ماہ میں اپنی آدھی کابینہ بدل ڈالی ہے۔ عمران خان سے قبل ہر سیاسی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے بے توقیر ہوتی تھی، مگر عمران خان کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی کسی خاص کوشش کے بغیر بدنام ہوگئی ہے۔ بلاشبہ عمران خان نے خود آٹھ ماہ میں کوئی بدعنوانی نہیں کی ہے، مگر اُن کے کئی ساتھیوں اور وزیروں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ عمران خان کہا کرتے تھے کہ وہ ملک کو اقتصادی ٹائیگر بنادیں گے، مگر اُن کی حکومت نے پاکستان کو آٹھ ماہ میں اقتصادی اعتبار سے اتنا ’’لاغر‘‘ کردیا ہے کہ اقتصادی ٹائیگر کا تصور ایک لطیفہ بن کر رہ گیا ہے۔ عمران خان کی ’’سیاسی مفلسی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے اپنے وزیر خزانہ کو ہٹاکر پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو سینے سے لگا لیا ہے۔ انہوں نے اپنے ’’نفسِ امّارہ‘‘ اور اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر فواد چودھری سے اطلاعات و نشریات کی وزارت واپس لی تو اُن کی خالی جگہ پیپلزپارٹی کی جیالی فردوس عاشق اعوان نے پُر کی۔ اطلاعات کے مطابق پنجاب میں جن بیوروکریٹس کو یہ کہہ کر ہٹایا گیا تھا کہ یہ شریفوں کے چمچے ہیں وہ تمام بیوروکریٹس اپنے مناصب پر واپس آگئے ہیں۔ اس طرح اب پنجاب عمران خان اور شریفوں کو کرپشن میں مدد دینے والے بیوروکریٹس مل کر چلائیں گے۔ آخر عمران خان مرکز اور پنجاب میں نواز لیگ کے ساتھ مل کر حکومت کیوں نہیں بنا لیتے؟ آخر کرپٹ عناصر سے ’’جزوی مفاہمت‘‘ اور ’’کلی مفاہمت‘‘ میں اخلاقی اعتبار سے کیا فرق ہے؟ اس کو کہتے ہیں ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ عمران خان کی حکومت

ہر چند کہیں کہ ’’ہے‘‘ نہیں ہے

وسیع تر پس منظر میں دیکھا جائے تو یہاں دیہی وڈیرہ شاہی اور شہری جاگیرداری ہی نہیں، متوسط طبقے کی سیاست اور تبدیلی کا کھوکھلا نعرہ ہی ناکام نہیں ہوا بلکہ ان تمام چیزوں کو ملک و قوم کا مقدر بنانے والی اسٹیبلشمنٹ بھی ناکام ہوگئی ہے۔ اس ناکامی کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اس وقت عمران خان کی ناکامی کے تاثر کو ذرائع ابلاغ میں بیٹھے ہوئے ایسے عناصر بھی ہوا دے رہے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے اشارۂ ابرو پر عمل کرنے والے سمجھے جاتے ہیں۔ اس صورتِ حال کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کو صدارتی نظام کے تجربے کی جانب دھکیلتی نظر آرہی ہے۔ اس کے معنی یہ نہیںکہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے لیے بے معنی ہوگئے، بلکہ عمران خان کی ناکامی کو پارلیمانی نظام کی ناکامی کے کھاتے میں ڈالا جارہا ہے اور صدارتی نظام کی ’’شخصیت‘‘ کو ابھارا جارہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے برپا کیے ہوئے ’’سیاسی کلچر‘‘، اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ ’’سیاسی قیادت‘‘، اور اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق کردہ ’’سیاسی جماعتوں‘‘ اور خود اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی کا سبب کیا ہے؟
پوری انسانی تاریخ میں برتر انسانی شخصیت یا Human Content دو چیزوں سے پیدا ہوا ہے، ایک اخلاقی فضیلت اور دوسری علمی برتری۔ انسانی تاریخ میں قیادت کی تین سطحیں یا تین درجے ہیں، پہلا درجہ یہ ہے کہ قیادت ’’مشہور‘‘ ہوتی ہے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ قیادت ’’مقبول‘‘ ہوتی ہے، تیسرا درجہ یہ کہ قیادت ’’محبوب‘‘ ہوتی ہے۔ قائداعظم کی عظمت اور کامیابی دونوں کا راز یہ ہے کہ وہ ’’محبوب‘‘ ہوگئے تھے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ قائداعظم کے بعد کوئی بھی شخصیت ’’شہرت‘‘ اور ’’مقبولیت‘‘ یا ان کے آمیزے سے آگے نہ بڑھ سکی۔ قائداعظم ’’محبوب‘‘ بنے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس ’’برتر اخلاقی حیثیت‘‘ بھی تھی اور ’’علمی فضلیت‘‘ بھی۔ مگر پاکستان میں گزشتہ ستّر سال کے دوران جو فوجی اور سول قیادت پاکستان کو میسر آئی ہے اُس کی اخلاقیات بھی معمولی تھی اور ’’علم‘‘ بھی ادنیٰ درجے کا تھا۔ جرنیلوں، بھٹوز، شریفوں، الطاف حسین اور عمران خان کی ناکامی کا یہی بنیادی سبب ہے۔
روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والے لینن کی خون آشامی اپنی جگہ، مگر لینن کی شخصیت سوشلزم میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس کی تقاریر اور تحریریں تیس سے زیادہ جلدوں میں شائع ہوئیں۔ ان جلدوں کی فہرست پڑھ کر بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ لینن کا علم غیر معمولی تھا۔ وہ فلسفے، معاشیات، سماجیات اور ادب کا غیر معمولی فہم رکھتا تھا۔ چین میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والے مائو کی شخصیت اخلاقی اعتبار سے مستحکم تھی اور مائو تاریخ اور انسانی نفسیات کا غیر معمولی فہم رکھتا تھا۔ جدید چین کی پوری قیادت اخلاقی اور علمی اہلیت یا اخلاقی اور علمی ’’میرٹ‘‘ کی علامت ہے۔ چین کی قیادت کی علمی فضیلت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کے سابق نگراں وزیراعظم معین قریشی سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ دنیا کے کس ملک کے رہنما اور سفارت کار سب سے زیادہ اہل ہوتے ہیں؟ انہوں نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا: چین کے۔ انہوں نے امریکہ کے رہنمائوں اور سفارت کاروں کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے یورپ کے رہنمائوں اور سفارت کاروں کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے بھارت یا کسی مسلم ملک کے رہنمائوں اور سفارت کاروں کا نام نہیں لیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چین کی ترقی کا راز کوئی ’’اتفاق‘‘، کوئی ’’حادثہ‘‘ نہیں۔ اس کی پشت پر چین کی قیادت کی اخلاقی اور علمی فضیلت موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ چین میں اخلاقیات کا وہ تصور موجود نہیں جو ہمارے یہاں موجود ہے، مگر چین میں کرپشن اور ملک دشمنی کو اخلاقی بیماریوں کے طور پر لیا جاتا ہے اور انہیں کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جاتا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ چین میں بدعنوانی کی سزا ’’موت‘‘ ہے، اور ہمارے یہاں بدعنوانی کی سزا زیادہ سے زیادہ “Plea Bargain” یا ’’سودے بازی‘‘ ہے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاسی رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کی مذمت تو بہت کرتی ہے مگر اُس نے ملک کے سیاسی کلچر میں کبھی ’’اخلاقی اصولوں‘‘ کو داخل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اُس نے کبھی سیاسی جماعتوں کو اس بات کا پابند نہ کیا کہ وہ اپنے اندر جمہوریت کو داخل ہونے کی اجازت دیں تاکہ منفی خاندانی اور شخصی اثرات سے نجات حاصل کی جاسکے۔ اسٹیبلشمنٹ نے کبھی سیاسی نظام کو ’’علمی فضیلت‘‘ مہیا کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور جماعتوں کی اکثریت اخلاقی اور علمی اعتبار سے “Stunted” لوگوں پر مشتل ہے۔ خود ملک پر قبضہ کرنے والے فوجی آمروں کے پاس بھی کوئی اخلاقی اور علمی فضیلت نہیں تھی۔ چنانچہ یہ لوگ قوم کے روحانی، اخلاقی، علمی، ذہنی، سیاسی، جمہوری اور اقتصادی ارتقا میں کوئی کردار ادا نہ کرسکے۔
پاکستان کو ’’مشہور‘‘ اور ’’مقبول‘‘ قیادت کی نہیں ’’محبوب‘‘ قیادت کی ضرورت ہے۔ پاکستان محبوب قیادت ہی نے بنایا تھا اور پاکستان کی تعمیر بھی محبوب قیادت ہی کرسکتی ہے، مگر ’’محبوب قیادت‘‘ نہ اسٹیبلشمنٹ کو ’’سوٹ‘‘ کرتی ہے اور نہ خود پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں کی قیادت میں ’’محبوب‘‘ بننے کی کوئی خواہش موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عرصے سے پاکستان کی سیاست میں چہرے بدلنے کا کھیل کھیل رہی ہے۔ چونکہ چہرے بدلنے کا کھیل بہت کھیلا جاچکا ہے اس لیے اب سیاسی نظام بدلنے کا کھیل کھیلنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ بلاشبہ نظام اہم ہوتے ہیں مگر نظام سے زیادہ اہم نظام چلانے والے ہوتے ہیں۔ نظام چلانے والے ’’اہل‘‘ ہوں تو وہ خراب نظام سے بھی نتائج برآمد کرلیتے ہیں۔ نظام چلانے والے ’’اہل‘‘ نہ ہوں تو وہ بہترین نظام سے بھی کچھ برآمد نہیں کرپاتے۔ چین میں ایک پارٹی کی حکومت ہے، یعنی چین کا سیاسی نظام مغربی اصطلاح میں ’’آمرانہ‘‘ ہے، مگر مغرب کے ’’جمہوری رہنما‘‘ چین کی ترقی کو ’’حیرت اور ہیبت‘‘ سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ چین اگر آئندہ 25 سال تک اسی طرح ترقی کرتا رہا جس طرح وہ گزشتہ 35 سال سے ترقی کررہا ہے تو پوری مغربی دنیا اپنے نام نہاد جمہوری نظام پر تھوک دے گی اور چین کے آمرانہ سیاسی نظام کو گلے لگا لے گی۔ جدید چین کے بانی ڈینگ زیائو پنگ کہا کرتے تھے کہ بلی اگر چوہے پکڑ رہی ہو تو اس کے کالے یا سفید رنگ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چونکہ چین کا نظام نتائج پیدا کررہا ہے اس لیے اس کا آمرانہ ہونا مغرب تک میں سنجیدگی سے زیر بحث نہیں آتا۔
افلاطون نے دو ہزار سال پہلے کہا تھا کہ سیاست کے مسئلے کا حل یہ ہے کہ فلسفی کو حکمران بنادو، یا حکمران کو فلسفی میں ڈھال دو۔ افلاطون کے زمانے میں فلسفہ دانش کی محبت کے ساتھ وابستہ تھا اور اس کی بنیاد مابعدالطبعیات پر تھی، یعنی اس میں اخلاقی اور علمی دونوں پہلو موجود تھے۔ پاکستان جیسے ملک کی سیاست کو مذہب، اخلاق اور علم کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چلنا چاہیے تھا، مگر پاکستان کا حکمران طبقہ پاکستان کی سیاست کو 60 سال سے سیکولرازم، بداخلاقی اور لاعلمی کے خارزار میں گھسیٹ رہا ہے۔ صورتِ حال یہی رہی تو صدارتی نظام کے تجربے سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ صدارتی نظام کی ناکامی کے بعد بھی کوئی کہے گا ’’کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘۔ صدارتی نظام

ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے

Leave a Reply