امت کا تصور اور برصغیر کے مسلمان — شاہنواز فاروقی

قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے لیے امت کا تصور انتہائی اہم تھا۔ ان کا تصور امت یہ تھا کہ مکہ اور مدینہ روئے زمین کا مرکزی نکتہ ہیں اور پوری زمین اس نکتے کی توسیع ہے۔ مسلمانوں کے اس تصور نے قبیلوں اور قوموں کو کیا ایک فرد کو بھی امت بنا کر کھڑا کر دیا۔ چنانچہ مسلمان جہاں گئے انہوں نے امت کے تصور کی فصل کاشت کی اور ایک ایسا انسانی تجربہ تخلیق کیا جس کی اس سے پہلے کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی تھی۔ کہنے کو اسلام ساری دنیا میں پھیلا مگر برصغیر کے مسلمانوں نے…

مزید پڑھئے

زندگی — شاہنواز فاروقی

انسانی زندگی ایک سمندر کی طرح ہے، لیکن انسان کی مشکل یہ ہے کہ وہ اس سمندر کے کسی ایک جزیرے پر مقیم ہوجاتا ہے اور زندگی کو سمندر کے بجائے جزیرہ سمجھنے لگتا ہے، یہاں تک کہ جزیرہ اس کی زندگی کا ’’تناظر‘‘ بن جاتا ہے۔آ پ نے اس ملکہ کا قصہ سنا ہی ہوگا جسے بتایا گیا کہ ملک میں روٹی کی قلت ہوگئی ہے اور لوگ روٹی کی قلت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ یہ سن کر ملکہ نے کہا کہ ملک میں روٹی کی قلت ہوگئی ہے تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟ ملکہ کی…

مزید پڑھئے

اتحادِ اُمت… کیوں اور کیسے؟ — شاہنواز فاروقی

اسلام کے ظہور سے قبل دنیا خاندان‘ قبیلے‘ قوم اور ملّت کے تصورات سے آگاہ تھی۔ خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی تھا۔ قبیلہ خاندان کی توسیعی صورت تھا۔ قوم نسل، جغرافیے اور زبان کی وحدت کا نام تھا، اور ملّت جغرافیے، زبان اور بڑی حد تک نسل کی ’’براعظمی‘‘ صورت تھی۔ اس منظرنامے میں اسلام نے دنیا کو امت کا عظیم الشان اور انقلابی تصور دیا۔ ان تمام تصورات کے مقابلے میں امت ایک بین الاقوامی اور آفاقی حقیقت تھی۔ اسلام کی نظر میں خاندان ایک مقامی سطح کی امت تھا، اور امت بین الاقوامی خاندان تھا جس میں پوری…

مزید پڑھئے

ڈائجسٹوں کی مقبولیت کا راز — شاہنواز فاروقی

یہ زیادہ پرانی بات نہیں، برصغیر میں ایسے ادبی رسالے موجود تھے جن کی ماہانہ اشاعت پچاس، ساٹھ ہزار سے زیادہ تھی۔ دوسرے ادبی رسائل کے لیے چار پانچ ہزار کی اشاعت معمولی بات تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب معاشرے میں ادب کا شوق ہی نہیں ذوق بھی پایا جاتا تھا۔ آج اسرار الحق مجاز کو جاننے والے کم ہیں، مگر جس عہد کی ہم بات کررہے ہیں اُس دور میں مجاز نوجوانوں میں دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کی طرح مقبول تھے۔ نوجوان اُن کی وضع قطع کی نقل کرتے۔ مجاز بلا کے مے نوش تھے۔ وہ بسا…

مزید پڑھئے

جدید ذرائع ابلاغ کی طاقت کا راز —- شاہنواز فاروقی

ہماری دنیا ذرائع ابلاغ کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں ذرائع ابلاغ کی طاقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ کبھی ذرائع ابلاغ زندگی کا حصہ تھے مگر آج ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ذرائع ابلاغ کا حصہ بن گئی ہے۔ الٹی گنگا بہنا کبھی ایک محاورہ تھا مگر زندگی اور ذرائع ابلاغ کے تعلق میں یہ محاورہ ایک حقیقت بن گیا ہے۔ یہ ایک انتہائی ہولناک صورتِ حال ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کی قوت، ان کی کشش اور ان کے اثرات کو جتنے زاویوں سے ممکن ہو دیکھا اور سمجھا جائے تاکہ ہم…

مزید پڑھئے

اسلامی تحریکیں…ماضی، حال اور مستقبل —- شاہنواز فاروقی

برصغیر میں اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی پیدائش امتِ مسلمہ میں ایک نئے عہد کے ظہور کی علامت تھی۔ مگر اس دعوے کی دلیل کیا ہے؟ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کو بڑی شخصیت کہا جاتا ہے۔ لیکن بڑے آدمی کی تعریف کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جس کا فہم بسااوقات پوری قوم کیا پوری امت کے فہم سے بڑھ جاتا ہے۔ اقبال نے جب اپنی شاعری کا آغاز کیا تو امت ِمسلمہ یورپی طاقتوں کی غلام تھی اور یورپی طاقتوں کا تسلط کمزور ہونے کے بجائے قوی ہورہا تھا۔ مغربی تہذیب…

مزید پڑھئے

Environment

ماحول — شاہنواز فاروقی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے ماں باپ اسے عیسائی یا یہودی بنادیتے ہیں۔ یہ حدیث ِمبارکہ ماحول کی اہمیت اور اس کی قوت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس حدیثِ پاک کا مفہوم یہ ہے کہ ماحول اتنی زبردست قوت ہے کہ وہ انسان کی فطرت تک کو بدل دیتا ہے۔ ماحول کی قوت یہ ہے کہ انسان جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے اسی کا اسیر ہوجاتاہے۔ اس کے ماحول میں جو مذہب ہوتا ہے وہ…

مزید پڑھئے

America Drowning Super Power

امریکہ زوال پذیر سپر طاقت — شاہنواز فاروقی انسانی تاریخ بڑی طاقتوں کے عروج و زوال کی داستان ہے۔ اس داستان میں بڑی طاقتیں ہمیشہ میر تقی میر کے اس شعر کی عملی تفسیر بنی نظر آتی ہیں ؎ سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا مستند ہے میرا فرمایا ہوا لیکن کبریائی صرف خدا کے لیے زیبا ہے، چنانچہ تاریخ بڑی طاقتوں کے اس دعوے اور زعم کو ان کے منہ پر دے مارتی ہے۔ لیکن بڑی طاقتوں کے عروج کے زمانے میں بڑی طاقتوں کا غلبہ اور تسلط، ان کی ہیبت اور جلال ایسے ہوتے ہیں کہ بڑے…

مزید پڑھئے

Israel

اسرائیل — شاہنواز فاروقی اسرائیل کہنے کو ایک ملک ہے مگر اس کا وجود ایک ’’دائمی سازش ‘‘ ہے ۔ 1948 سے پہلے دنیا کے نقشے پر اسرائیل کا کوئی وجود نہیں تھا۔ لیکن صہیونیوں اور مغربی طاقتوں کی مشترکہ سازش سے اسرائیل روئے زمین پر ایک ملک بن کر ابھر آیا۔ ملک تاریخ بناتی ہے مگر فلسطین میں یہودیوں کی تاریخ کو معطل ہوئے ڈھائی ہزار سال ہوگئے تھے اور پوری دنیا کی تاریخ میں ’’معطل تاریخ‘‘ نے کبھی کسی قوم یا ملک کو جنم نہیں دیا۔ ملک عوامی جدوجہد سے بھی بنتے یہں۔ مگر اسرائیل کے لیے کوئی…

مزید پڑھئے