سلیم احمد نے کہا تھا ؎
سلیم میرے حریفوں میں یہ خرابی ہے
کہ جھوٹ بولتے ہیں اور خراب لکھتے ہیں
جھوٹ بولنے اور خراب لکھنے کی بُرائی صرف سلیم احمد کے حریفوں ہی میں نہیں تھی۔ پاکستان کے سیکولر عناصر بھی جھوٹ اور بُرا لکھنے کر رسیا ہیں۔ ان کی عظیم اکثریت جب بھی قلم اُٹھاتی ہے ان کا قلم جھوٹ اُگلتا ہے اور ان کی تحریر دامن دل کو اپنی طرف نہیں کھینچتی۔ مگر پاکستان کے سیکولر دانش وروں اور صحافیوں میں ایک اور خرابی بھی ہے۔ وہ اسلام، اسلامی شعور، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کو پیش قدمی کرتے دیکھتے ہیں تو ماتم پر اُتر آتے ہیں۔ ان سے اسلام اور مسلمانوں کی پیش قدمی دیکھی نہیں جاتی۔ پرویز ہود بھوئے پاکستان کے معروف سیکولر دانش ور ہیں۔ انہیں اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور اہل اسلام سے سخت نفرت ہے اور وہ کھل کر اس نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں اس نفرت کے اظہار کے لیے ڈان جیسا اخبار میسر ہے۔ اسلام اور مسلمانوں سے پرویز ہود بھوئے کی نفرت کے اظہار کا تازہ ترین مظہر 6 مارچ 2021ء کے ڈان میں شائع ہونے والا ان کا مضمون ہے۔ مضمون کا عنوان ہے “Invenfing Cultural Nostalgia” ۔
مضمون کا مرکزی حوالہ ترکی سے درآمد ہونے والا ٹی وی سیریل ارطغرل غازی ہے۔ ارطغرل غازی پاکستان آیا تو سیکولر عناصر نے اس کے خلاف زبردست پروپیگنڈا کیا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ ایک آدھ ماہ میں پروپیگنڈے کا شور تھم جائے گا، مگر پرویز ہود بھوئے کے مضمون سے ثابت ہوا ہے کہ پاکستان کے سیکولر عناصر اب تک پاکستان میں ارطغرل غازی کی بے پناہ عوامی مقبولیت کو قبول نہیں کرسکے ہیں۔ پرویز ہود بھوئے نے مضمون کے آغاز میں لکھا ہے کہ میں نے ابھی جنوبی پنجاب کے ایک 10 سالہ سرائیکی لڑکے کی مختصر سی ویڈیو دیکھی ہے۔ ویڈیو میں لڑکا تلوار لہراتے ہوئے فخر سے کہہ رہا ہے میں مسلمان ہوں۔ میری تلوار کافروں کے سر قلم کرنے کے لیے ہے۔ انٹرویو لینے والے نے پوچھا۔
’’اور تمہارا نام کیا ہے‘‘
’’ارطغرل‘‘ لڑکے نے کہا۔
پرویز ہود بھوئے نے لکھا ہے کہ اس طرح کی درجنوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ ہود بھوئے نے افسوس کے ساتھ لکھا ہے کہ دو سال قبل کوئی پاکستان میں ارطغرل کا نام بھی نہیں جانتا تھا مگر آج ارطغرل کے طوفان نے پاکستان کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ عوامی مقامات پر ارطغرل کے ایسے مجسمے نصب کیے جارہے ہیں جن میں وہ گھوڑے پر سوار ہے اور تلوار لہرا رہا ہے۔
پاکستان 70 سال سے امریکی، بھارتی فلموں کا مرکز ہے۔ ہالی ووڈ کی فلمیں چوں کہ انگریزی میں ہوتی ہیں اس لیے ان کے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں ہے مگر بھارتی فلمیں چوں کہ تقریباً اردو فیچر فلمیں ہوتی ہیں اس لیے ان کے ناظرین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں بھارتی اداکار اور اداکارائیں ہی نہیں گلوکار، فلم ڈائریکٹرز اور فلم پروڈیوسرز تک مقبول ہیں۔ لیکن ہم نے آج تک کسی سیکولر دانش ور یا کالم نگار کو یہ کہتے نہیں سنا کہ امریکی اور بھارتی اداکار ہمارے یہاں کیوں مقبول ہیں مگر ارطغرل کی مقبولیت سے سیکولر اور لبرل افراد حواس باختہ ہوگئے ہیں اور ان کے پاکستان میں ارطغرل کے کردار کی مقبولیت ہضم نہیں ہورہی۔ اس کی وجہ خود ارطغرل نہیں ہے۔ اس کی وجہ اسلام ہے۔ ارطغرل کی وابستگی ہے۔ ارطغرل نہ صرف یہ کہ ایک مذہبی انسان ہے بلکہ وہ جہاد کا استعارہ بھی ہے۔ چناں چہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش وروں کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ ارطغرل معاشرے کے ہر طبقے میں یکساں مقبول ہے۔ اسے نہ صرف یہ کہ پختہ عمر کے لوگ پسند کررہے ہیں بلکہ وہ پاکستانی بچوں کا بھی ’’ہیرو‘‘ بنا ہوا ہے۔ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے ہیروز سیکولر اور لبرل ہوتے ہیں اس لیے سیکولر اور لبرل افراد ان کی کسی ’’ادا‘‘ پر اعتراض نہیں کرتے۔ وہ معاشرے میں بے راہ روی پھیلائیں تو ٹھیک، وہ معاشرے میں تشدد کو عام کریں تو خوب۔ پرویز ہود بھوئے ارطغرل غازی کی لہراتی ہوئی ’’تلوار‘‘ کو وحشت اور درندگی کی علامت کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں اکبر الٰہ آبادی کا مشہور زمانہ شعر یاد آگیا۔ اکبر نے فرمایا ہے۔
یہی کہتے رہے تلوار سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
امریکا، یورپ اور بھارت کی سیکڑوں نہیں ہزاروں فلمیں بدترین سفاکی، درندگی اور وحشت سے بھری ہوئی ہیں۔ ان میں تلواریں ہی ہیں بندوقیں، توپیں، ٹینک اور طیارے بھی تباہی پھیلاتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر آج تک کسی سیکولر اور لبرل دانش ور نے یہ نہیں کہا کہ امریکا، یورپ اور بھارت کی فلمیں معاشرے میں تشدد، درندگی اور سفاکی کو عام کررہی ہیں۔ مگر ارطغرل غازی کی تلوار ان کے نزدیک امریکا کے ایٹم بم سے زیادہ ہولناک ہے۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی معروضیت یا Objectivity ہے؟ بھارت نے گزشتہ 25 برسوں میں پاکستان کے خلاف دو درجن سے زیادہ توہین آمیز فلمیں بنائی ہیں مگر ہم نے کبھی سیکولر اور لبرل دانش ور کو ان فلموں پر بھی اعتراض کرتے نہیں دیکھا۔
پرویز ہود بھوئے نے اپنے کالم میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ترکی اور عربوں کا کلچر ’’ہمارا کلچر‘‘ نہیں ہے اور ان کے ہیروز بھی ’’ہمارے ہیروز‘‘ نہیں ہیں۔ اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ اگر کوئی ’’مقامی حقیقت‘‘ ہوتی تو پرویز ہود بھوئے کی بات درست ہوتی مگر اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ ایک ’’عالمگیر حقیقت‘‘ ہے اور اس نے کم و بیش پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ ہود بھوئے یہ بات بھی بھول گئے کہ مسلمان کوئی ’’قوم‘‘ نہیں ہیں ایک ’’امت‘‘ ہیں۔ چناں چہ اسلام کا ’’کلچر‘‘ اور اسلام کے ’’ہیروز‘‘ بھی عالمگیر ہیں۔ کیا رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین کی شخصیات پوری امت کا سرمایہ نہیں ہیں؟ کیا امام غزالی پوری امت کے امام نہیں ہیں؟ کیا امام ابوحنیفہ پوری امت کے ’’ہیرو‘‘ نہیں ہیں؟ کیا برصغیر کے مسلمانوں نے 20 ویں صدی کے اوائل میں ’’خلافت تحریک‘‘ برپا کرکے ترکی کی خلافت سے اپنی روحانی، جذباتی اور ذہنی وابستگی کا ثبوت نہیں دیا تھا۔ پرویز ہود بھوئے کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ کارل مارکس جرمن تھا مگر وہ پوری کمیونسٹ دنیا کا ہیرو تھا۔ لینن اور اسٹالن روسی تھے مگر وہ پوری کمیونسٹ دنیا میں پوجے جاتے تھے۔ جدید مغربی تہذیب کی بڑی شخصیات میں سے کوئی امریکی ہے، کوئی فرانسیسی ہے، کوئی برطانوی ہے، کوئی جرمن ہے مگر وہ پورے یورپ کیا پوری مغربی دنیا کا ہیرو ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ عالمگیر ہے تو ارطغرل ترکی کا ہو کر پاکستانی قوم کا ہیرو کیوں نہیں ہوسکتا؟ پرویز ہود بھوئے نے یہ بات بھی زور دے کر کہی ہے کہ پاکستان کا ’’حقیقی کلچر‘‘ ہماری مٹی سے نمودار ہونے والا کلچر ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہود بھوئے بتائیں کہ ہم پینٹ شرٹ کیوں پہنتے ہیں؟ ہم ٹائی کیوں لگاتے ہیں؟ کیا یہ چیزیں پاکستان کی مٹی سے نمودار ہوئی ہیں؟ ہود بھوئے فرمائیں کہ ہم پوپ موسیقی کیوں سنتے ہیں، کیا پوپ موسیقی نے ہماری مٹی سے جنم لیا ہے؟ ہم انگریزی کیوں پڑھتے ہیں؟ کیا وہ پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کی مٹی سے اُبھری ہے؟ ہم شراب کیوں پیتے ہیں؟ کیا پاکستان کی مٹی نے ہمیں شراب پینا سکھایا ہے؟ ہم جمہوریت کیوں استعمال کررہے ہیں، کیا جمہوریت کا پودا ہماری مٹی سے پھوٹا ہے؟ ہم سیکولر ازم اور لبرل ازم کے پجاری کیوں بنے ہوئے ہیں؟ کیا سیکولر ازم اور لبرل ازم ہماری مٹی کی عطا ہے؟ آخر ہود بھوئے کتنا جھوٹ بولیں گے؟ کتنا خراب لکھیں گے؟ اور اسلام کی پیش قدمی سے کتنا حسد کریں گے؟
ہود بھوئے اپنے مضمون میں ارطغرل کو گرانے میں کامیاب نہ ہوسکے تو انہوں نے ایک علمی چال چلی۔ انہوں نے مغرب کے ایک دانش ور کی کتاب کا سہارا لیتے ہوئے ارطغرل کی مقبولیت کو Nostalgia سے منسلک کردیا نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے Nostalgia کو ایک ’’بیماری‘‘ قرار دے ڈالا۔ نوسیٹلجیا کا ایک ترجمہ ’’ماضی کی یاد‘‘ ہے۔ دوسرا ترجمہ ’’ماضی کی محبت‘‘ ہے۔ تیسرا ترجمہ ’’ماضی پرستی‘‘ ہے۔ ماضی کی یاد یا ماضی کی محبت ایک فطری اور عام بات ہے۔ ہر آدمی کو اپنا بچپن اور جوانی یاد آتی ہے؟ کیا یہ ’’بیماری‘‘ ہے؟ ہر آدمی کو گزرے ہوئے کل کی کامیابی یا ناکامی یاد آتی ہے۔ کیا یہ ’’بیماری‘‘ ہے۔ جی نہیں۔ یہ ایک نارمل انسانی رویہ ہے۔ ماضی کو یاد رکھنا انسانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر انسان اپنے ماضی کو فراموش کردے گا تو وہ اپنے حال کے معنی بھی متعین نہیں کرسکے گا اور پھر ماضی، حال اور مستقبل ایک وحدت میں نہیں ڈھل سکیں گے۔ جو قومیں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہیں ان قوموں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کا اپنے ماضی سے اس لیے گہرا تعلق ہے کہ مسلمانوں کا ماضی بہترین سے بھی بڑھ کر ہے۔
اس ماضی میں رسول اکرمؐ ہیں، خلفائے راشدین ہیں، صحابہ کرام ہیں، تابعین ہیں، تبع تابعین ہیں۔ اس ماضی میں ہزاروں بڑے مفکرین، دانش ور، شاعر، ادیب اور فاتحین ہیں۔ مسلمان اس ماضی کو بھول جائیں تو ان کے پاس رہ کیا جائے گا؟ اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا ماضی ان کے لیے ایک آئینہ بھی ہے اور ایک تحرک یا Motivation بھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اپنے ماضی کی بازیافت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ماضی افراد یا قوموں کے لیے اس وقت خطرناک بنتا ہے جب افراد یا قومیں ماضی میں پھنس کر رہ جائیں اور ان کے حال اور مستقبل سے ان کے ماضی کا رشتہ ٹوٹ جائے۔ سیکولر دانش وروں کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کا ماضی مذہبی ہے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے ماضی سے دور رہیں۔ مسلمانوں کا ماضی خدانخواستہ سیکولر ازم اور لبرل ازم میں ڈوبا ہوا ہوتا تو سیکولر عناصر مسلمانوں کو ماضی کی محبت کا درس دے رہے ہوتے۔