قیامِ پاکستان بیسویں صدی کا معجزہ

پاکستان اسلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔ تحریک ِپاکستان کے دوران کلمۂ طیبہ پورے برصغیر کی فضا میں گونج رہا تھا اور مسلمانوں کو ان کی تاریخ اور تہذیب سے مربوط کررہا تھا۔ مسلمانوں کو لگ رہا تھا کہ ان کی تاریخ اور تہذیب پاکستان کے عنوان سے ایک بار پھر نئی توانائی کے ساتھ زندہ ہونے والی ہے، ان کے صدیوں پرانے خواب پورے ہونے والے ہیں۔ لیکن معجزات کے منکر ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں بھی معجزات کے منکرین موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے مطالبے کی بنیاد اسلام نہیں تھا۔ وہ اس سلسلے میں قائداعظم کی 11 اگست1947ء کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان میں جس طرح مسلمان مسجد جانے میں آزاد ہوں گے اسی طرح ہندو مندر اور عیسائی گرجا گھر جانے میں پوری طرح آزاد ہوں گے۔
تجزیہ کیا جائے تو قائداعظم کا یہ فرمان اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ اسلام انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دائرے میں جبر کا مخالف ہے اور وہ تمام انسانوں کو عقیدے کی آزادی دیتا ہے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی اور کسی ہندو کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا۔ مسلمانوں نے اسپین پر چھ سو سال حکومت کی اور کسی عیسائی کو جبر کرکے مسلمان نہیں کیا۔ چنانچہ جو لوگ قائداعظم کی اس تقریر کو سیکولر یا لبرل معنی دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ اسلام کے ساتھ شدید زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں، اور قائداعظم کے ساتھ بھی انصاف نہیں کرتے۔ اہم بات یہ ہے کہ قائداعظم کی ایسی درجنوں تقریریں موجود ہیں جن میں انہوں نے اسلام کے تناظر میں دو قومی نظریے کی تشریح کی ہے۔ مثلاً ایک تقریر میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان تو اُسی روز بن گیا تھا جس دن پہلے مسلمان نے برصغیر میں قدم رکھا۔ ایک اور تقریر میں انہوں نے اسلامی اور ہندو تہذیب کا موازنہ کرتے ہوئے لوٹے تک کی مثال دی ہے اور کہا ہے کہ مسلمانوں کے لوٹے میں ٹینٹو ہوتا ہے اور ہندوئوں کے لوٹے میں ٹینٹو نہیں ہوتا۔ لیکن اسلام اور پاکستان کے باہمی تعلق کو چار ٹھوس شہادتوں کی روشنی میں دیکھا اور بیان کیا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے کی سب سے اہم شہادت خود دو قومی نظریہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد جغرافیے پر نہیں تھی‘ اقتصادیات پر نہیں تھی… دو قومی نظریے کی بنیاد صرف اسلام پر تھی۔ مسلمانوں کی تہذیب الگ تھی تو اسی بنیاد پر۔ مسلمانوں کی تاریخ جدا تھی تو اسی وجہ سے۔ مسلمانوں کے ہیروز انفرادیت کے حامل تھے تو اسی حوالے سے۔
بعض لوگ تحریک ِپاکستان کے ’’جمہوری‘‘ ہونے کا حوالہ دیتے ہیں تو یہ بھی غلط ہے۔ مسلمان جمہوریت کے اصول کو مان لیتے تو پاکستان کے قیام کا مطالبہ ہی نہیں ابھرتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تحریک ِپاکستان کے مخصوص حالات میں جمہوریت مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا خوف تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک ِپاکستان کو اس کی مقبولیت کی وجہ سے جمہوری نہیں ’’عوامی‘‘ کہنا چاہیے۔ ایسی عوامی تحریک جس کی جڑیں اسلام اور اس کی تہذیب و تاریخ میں پیوست تھیں۔ اقبال نے کہا ہے:

بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

تحریک ِپاکستان اور دو قومی نظریہ اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر تھے۔
برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا یہ پہلو بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ان کی تاریخ میں جتنی بڑی تحریکیں چلی ہیں وہ اپنی نہاد میں مذہبی تھیں۔ ٹیپو اگرچہ سلطان تھا مگر اس کی شخصیت میں مجاہد کا جلال و جمال تھا۔ اس نے انگریزوں کے خلاف تن تنہا جس طرح دادِ شجاعت دی وہ مذہبی جوش و جذبے اور مذہبی شعور کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔
1857ء کی جنگ ِآزادی کا غالب رنگ بھی مذہبی تھا۔ اس کی قیادت بیشتر جگہوں پر جہاد سے متاثر افراد کے ہاتھوں میں تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس جدوجہد میں ہندو بھی شریک ہوئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں ہندوئوں کی شرکت علامتی ہے۔ یہ جدوجہد اوّل و آخر مسلمانوں کی جدوجہد تھی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جنگ ِآزادی کے اختتام پر انگریزوں کے انتقام کا نشانہ صرف مسلمان بنے، یا یہ کہ انگریزوں کے انتقام کا نشانہ بننے والوں کی عظیم اکثریت مسلمان تھی۔ سوال یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا اصل اور غالب رنگ اگر مذہبی تھا تو تحریک ِپاکستان اس رنگ سے کیسے بے نیاز ہوسکتی تھی؟
دنیا میں سیکولرازم اور لبرل ازم کی بھی ایک تاریخ ہے۔ دنیا میں جہاں بھی سیکولر فکر ابھری ہے، مذہب کو رد کرکے ابھری ہے اور برصغیر کے مسلمانوں میں ایسا سانحہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا۔ چنانچہ تحریک ِپاکستان اور پاکستان کے قائدین کو سیکولر اور لبرل رنگ میں بیان یا Paint کیا ہی نہیں جاسکتا۔ برصغیر کے مسلمانوں میں سیکولرازم اور لبرل ازم کی کوئی فکری بنیاد اور فکری تاریخ ہی نہیں ہے۔
شائستہ اکرام اللہ سہروردی نے اپنی کتاب ’’پردے سے پارلیمنٹ تک‘‘ میں کئی اہم باتیں لکھی ہیں، مثلاً انہوں نے ایک بات یہ لکھی ہے کہ ان کا خاندان انگریزوں سے قریبی رابطے میں اور انگریزوں کی تہذیب کے زیراثر تھا۔ اس کے باوجود جب انہیں انگریزی اسکول میں داخل کرایا گیا تو ان کے خاندان والوں نے اس کی سخت مخالفت کی۔ شائستہ اکرام اللہ نے ایک بات یہ لکھی ہے کہ وہ اگرچہ کیمبرج سے تعلیم حاصل کرکے آئی تھیں مگر ان کی شادی سو فیصد والدین کی طے کردہ تھی اور ان کے ذہن میں پسند کی شادی کا تصور تک نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے قدامت پسند معاشرے میں کوئی ایسی تحریک چل ہی کیسے سکتی تھی جس کی بنیاد مذہب پر نہ ہو؟قیام پاکستان کے بعد مسلم کش فسادات میں مسلمانوں کا جس بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس قتل عام میں شہید ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ ایسے تھے جنہوں نے گھربار چھوڑ کر پاکستان کے لیے ہجرت کی۔ عام طور پر اتنے بڑے واقعات کے گہرے نفسیاتی اور جذباتی اثرات ہوتے ہیں اور قومیں کئی کئی دہائیوں تک معمول کے مطابق زندگی بسر نہیں کرپاتیں یا ’’نارمل‘‘ نہیں ہوپاتیں۔ لیکن چونکہ پاکستان کی پشت پر اصل قوت اسلام کی تھی اس لیے پاکستانی قوم نے مذہب کی قوت کے ذریعے اتنے بڑے بڑے واقعات کو بھی جذب کرلیا اور پاکستانی معاشرہ دیکھتے ہی دیکھتے نارمل ہوگیا۔

Leave a Reply