اردو ہے جس کا نام

معروف ماہر لسانیات طارق رحمن نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ابتدائی درجوں کی تعلیم کے لیے ہماری علاقائی یا مادری زبانیں کافی ہیں۔ البتہ جہاں تک جامعات کی سطح کی تعلیم کا تعلق ہے تو یہ تعلیم انگریزی میں ہونی چاہیے۔ انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ انگریزی صحافت اردو صحافت کے مقابلے میں لبرل اقدار کی زیادہ بہتر ترجمانی کررہی ہے۔ ان سطور کو غور سے پڑھا جائے تو طارق رحمن نے ایک ہی جملے میں اردو کی گردن مار دی ہے۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک اردو کی ضرورت نہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم میں ہے نہ اعلیٰ درجے کی تعلیم میں۔ انہوں نے اردو صحافت کو بیک جنبش قلم مسترد تو نہیں کیا مگر اس کی سطح کو انگریزی سے بہت گھٹا دیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہم فارسی کے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ پڑھو فارسی بیچو تیل۔ حالات یہی رہے تو کچھ برسوں کے بعد اردو کے حوالے سے بھی یہی کہا جائے گا کہ پڑھو اردو بیچو تیل۔ ہم کبھی کبھی غور کرتے ہیں تو ہمیں اردو کا قصہ کچھ کچھ اسلام کے معاملے سے ملتا جلتا محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً ہم اسلام کی طرح اردو کی تعریف تو کرتے ہیں مگر اردو کو گہرائی کے ساتھ اختیار نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں اردو کا حسن و جمال اپنی طرف کھینچتا ہے مگر ہمیں لگتا ہے کہ اسلام کی طرح اردو بھی ہمیں مستقبل میں لے جانے کے بجائے ماضی میں لے جائے گی۔ جہان تک سیکولر اور لبرل طبقات کا تعلق ہے تو انہیں اردو سے یہ خوف محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمیں مذہبی بنادے گی اور وہ ہمارا تعلق جدید مغربی تہذیب سے توڑ کر ہمیں مسلمانوں کی ’’پسماندہ تہذیب‘‘ سے منسلک کردے گی۔ اردو کے سلسلے میں بعض لوگوں کی گفتگو صرف صوبائی طبقات اور ثقافتی تعصبات کا مظہر ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اردو کی اہمیت اور معنویت پر تواتر کے ساتھ گفتگو ناگزیر ہے۔
اردو کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ اردو دنیا میں لسانی تاریخ کے ایک معجزے کی حیثیت رکھتی ہے، دنیا میں بڑی زبانیں کئی ہیں، عربی دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے۔ اس لیے کہ عربی قرآن اور حدیث کی زبان ہے، فارسی دنیا کی عظیم زبان ہے، اس لیے کہ فارسی میں شاعری کی اتنی بڑی روایت موجود ہے کہ دنیا کی کوئی اور زبان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ سنسکرت ایک اعلیٰ زبان ہے، اس لیے کہ سنسکرت ویدوں اور گیتا کی زبان ہے، مہا بھارت کی زبان ہے، انگریزی دنیا کی ایک بڑی زبان ہے اس لیے کہ انگریزی جدید علم و فنون بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ انگریزی ادب کی روایت بھی غیر معمولی ہے۔ لیکن ان تمام زبانوں کی عظمت ہزاروں سال کے ارتقاء کا حاصل ہے۔ سنسکرت کی تاریخ پانچ چھ ہزار سال پرانی ہے۔ عرب کی عمر ڈھائی تین ہزار سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ فارسی دو ہزار سال کی تاریخ رکھتی ہے۔ انگریزی کی عمر ایک سے ڈیڑھ ہزار سال ہے۔ اردو کے ارتقاء کو اگرچہ بعض ماہرین پانچ سو سال پر محیط قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں سے اردو کا تشخص متعین ہوا وہ زمانہ ڈھائی سو سے تین سو سال سے زیادہ نہیں۔ یہ اتنی کم مدت ہے کہ اتنے عرصے میں تو زبانیں ٹھیک سے چلنا بھی نہیں سیکھ پاتیں مگر اردو نے اتنے کم عرصے میں مذہبیات اور شعر و ادب کا ایک سمندر تخلیق کر ڈالا ہے۔
مسلمانوں کی مذہبی زبانیں صرف تین ہیں، عربی، فارسی اور اردو۔ مذہبیات کے سلسلے میں عربی اور فارسی کی فوقیت ہمیشہ برقرار رہے گی لیکن گزشتہ ڈیڑھ، دو سو سال میں اردو نے تفسیر، علم حدیث اور سیرت طیبہؐ کے دائروں میں جو مواد تخلیق کیا ہے ویسا مواد گزشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران عربی اور فارسی میں بھی تخلیق نہیں ہوا۔ اسی عرصے کے دوران اردو میں عربی اور فارسی سے ترجمے کا سلسلہ بھی تواتر کے ساتھ جاری رہا ہے۔ یہ کہنا تو درست نہ ہوگا کہ عربی اور فارسی کی ہر اہم کتاب اردو میں ترجمہ ہوگئی ہے۔ لیکن عربی اور فارسی کے مذہبی علم کا ایک بڑا حصہ اردو کے دامن میں سما چکا ہے۔ چناں چہ مذہبیات کے حوالے سے اردو دنیا کی امیر ترین زبان بن چکی ہے۔ اس تناظر میں جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اردو ہر سطح پر ذریعہ نہیں ہوگی تو وہ برصغیر کے پچاس کروڑ مسلمانوں کے مذہبی شعور کے خلاف سازش کرتا ہے۔ اس لیے کہ اگر اردو تعلیم نہیں ہوگی تو اردو سمجھنے اور بولنے والوں کی لسانی استعداد سکڑ کر اتنی محدود ہو جائے گی کہ وہ اردو کے مذہبی ادب سے استفادے کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔ سیکولر، لبرل اور لسانی تعصبات میں مبتلا لوگوں کی اکثریت اردو پر دوسری زبانوں بالخصوص انگریزی کو فوقیت دیتی ہے تو اسی لیے کہ اردو ہمارے مذہبی شعور کو جس طرح سیراب کرتی ہے کوئی اور زبان اس طرح سیراب نہیں کرسکتی۔ انگریزی نہ کبھی اسلام کی زبان تھی، نہ ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس بات کا کوئی امکان ہے کہ وہ ہماری مذہبی زبان بنے گی۔ انگریزی میں مذہبی ادب فراہم بھی ہوجائے تو ہم اس سے اس طرح مذہب نہیں سیکھ سکتے جس طرح اردو سے سیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ عربی اور فارسی کے مذہبی ادب کی اکثر اصطلاحیں اردو لغت کا حصہ ہیں۔ یہ اصطلاحیں انگریزی میں جائیں گی تو ان کا ترجمہ کرنا پڑے گا اور تراجم بہت کم صورتوں میں تصور یا اصطلاح کے جوہر کو منتقل کرنے کا سبب بن پاتا ہے۔ انگریزی کو ہمارے یہاں رائج ہوئے اب ڈیڑھ سو سال ہوچکے ہیں۔ اس عرصے میں ہم نے دیکھا ہے کہ جو لوگ ’’صرف‘‘ انگریزی کی فضا میں سانس لینے لگتے ہیں ان کا مذہبی شعور پختہ اور گہرا نہیں ہو پاتا۔ انگریزی کا تہذیبی مزاج اسلامی حسیت یا Islamic Sensibility کی مزاحمت کرتا ہے اور اسے راسخ نہیں ہونے دیتا۔
اردو صرف ہماری مذہبی زبان نہیں ہے اردو ہماری تہذیبی اور تاریخی زبان بھی ہے۔ انسان کی زندگی میں مادری زبان کی اہمیت غیر معمولی ہے لیکن ہر مادری زبان پوری تہذیب اور پوری تاریخ کے تجربے کو نہ اظہار میں لا پاتی ہے اور نہ ہی اس کی ترسیل اس کے بس کا روگ ہوتی ہے۔ برصغیر کی ہند اسلامی تہذیب اور برصغیر کی ملت اسلامیہ ایک بیسط حقیقت ہے۔ اس حقیقت کے اجزا کا بیان تو برصغیر کی بہت سی زبانوں میں ہوا ہے مگر اس حقیقت کی کلیت کا جیسا اظہار اردو میں ہوا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہ موجود ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔ لیکن اس بات کا شعور عام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ اردو کو محض ایک زبان سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ اردو ایک زبان ہے لیکن اردو ایک تہذیب اور ایک تاریخ بھی ہے۔
(جاری ہے)
اس زبان میں پورے برصغیر کی وحدت اور تنوع کلام کررہا ہے۔ کیا انگریزی یا برصغیر کی کوئی اور زبان ہمارے لیے یہ کام کرتی ہے، کررہی ہے یا کرسکتی ہے؟
اردو نے ڈھائی سو تین سو سال میں شعر و ادب کی جتنی بڑی روایت پیدا کی ہے اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ اردو کی شعری روایت اتنی بڑی اور متنوع ہے کہ فارسی کی شعری روایت کے سوا اسے دنیا کی کسی بھی شعری روایت کے سامنے رکھا جاسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس شعری روایت نے برصغیر کے کسی ایک خطے کے مزاج کو جذب اور آشکار نہیں کیا بلکہ اس نے برصغیر کے کئی خطوں کے مزاج کو اپنا حصہ بنا کر دکھایا ہے۔ انگریزی کیا برصغیر کی کوئی اور زبان بھی یہ کارنامہ انجام دے سکی ہے یا دے سکتی ہے؟۔ ہم کہتے ہیں کہ اردو کے بڑے شاعر تین ہیں۔ یعنی میر، غالب اور اقبال۔
یہ بات درست ہونے کے باوجود آدھی بات ہے۔ اس کے لیے اردو شاعری کی روایت غزل کی روایت ہے۔ غزل کہنا آسان بھی ہے اور دشوار بھی۔ غزل کی آسانی نے گزشتہ ڈھائی سو سال میں لاکھوں لوگوں کو ’’شاعر‘‘ بنایا ہے۔ غزل کی روایت اتنی بڑی، گہری اور موثر ہے کہ غزل کی روایت میں تیسرے چوتھے اور پانچویں درجے کا شاعر بھی دس بیس سال میں پانچ سات اچھے شعر کہہ ہی لیتا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں۔ غزل کی روایت نے جتنے شاعر پیدا کیے ہیں اس سے کئی سو گنا سامعین پیدا کیے ہیں۔ چناں چہ اردو غزل کی روایت نے ’’مشاعرے‘‘ کا جو تجربہ خلق کیا ہے اس کی مثال شاید ہی دنیا کی کسی زبان کی شعری روایت میں ملتا ہو۔ ایک زمانہ تھا کہ مشاعروں میں ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ لوگ موجود ہوتے تھے۔ اس تجربے نے شاعری کو جس طرح عوام کی چیز بنایا اس نے عوام اور خواص کی تمیز کو ختم کردیا اور شاعری کے ذریعے کروڑوں لوگوں کے جذبات و احساسات اور خیالات کی تہذیب کا اہتمام ہوا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کام اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے بغیر ہوا۔ کیا دنیا کی کوئی اور زبان اس سلسلے میں اردو کی ہم پلہ ہوسکتی ہے؟
میر تقی میر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں زندگی کی بلند ترین سطح بھی ملتی ہے اور پست ترین سطح بھی۔ بلاشبہ یہ میر کی بھی عظمت ہے لیکن میر کی یہ صلاحیت اردو کے وسیلے ہی سے معرض اظہار میں آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو ایک جانب تصفیہ کی زبان ہے۔ حدیث مبارکہ اور سیرت طیبہ کو بیان کرنے والی زبان ہے اور دوسری جانب اس نے برصغیر میں لاکھوں فلمی گیتوں کا خزانہ پیدا کیا ہے۔ کیا دنیا میں اردو کے سوا کوئی ایسی زبان ہے جس کے دائرے میں پچاس سال پہلے لکھے سیکڑوں گیت آج بھی لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ سنتے ہوں؟
اردو کے آغاز کے بارے میں کئی نظریات ملتے ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اردو دلّی اور یوپی میں پیدا ہوئی۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اردو نے حیدر آباد دکن میں جنم لیا۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اردو نے پنجاب میں آنکھ کھولی۔ ان نظریات میں زیادہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ اردو کی پیدائش دلّی اور یوپی کے علاقوں میں ہوئی لیکن اہم بات اردو کی پیدائش کا مقام نہیں، اہم بات یہ ہے کہ اردو اپنے مقام پیدائش، کسی خاص جغرافیے یا کسی خاص طبقے کی اسیر نہ ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پورے برصغیر میں پھیل کر رابطے کی زبان بن گئی۔ اگر یہ کام اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے زمانے میں ہوا ہوتا تو لوگ کہتے کہ ان ذرائع نے اردو کو پورے خطے کی زبان بنایا لیکن اردو ان تمام ذرائع کے عام ہونے سے پہلے ہی پورے برصغیر کی زبان بن چکی تھی۔ ان ذرائع نے اس کی رسائی اور فروغ میں صرف اضافہ کیا۔ اردو کے حسن و جمال اور اس کی کشش کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اردو صرف رابطے ہی کی زبان نہیں بلکہ اردو نے ایک سے زیادہ مقامات پر اپنے تخلیقی مراکز بھی پیدا کرکے دکھائے۔ اگر اردو دلّی اور یوپی کی زبان تھی تو اس نے پنجاب اور سندھ میں بھی اپنے تخلیقی مراکز پیدا کیے اور اگر اردو نے پنجاب میں جنم لیا تو اس نے دلّی، یوپی اور حیدر آباد دکن میں اپنے مراکز تخلیق کرکے دکھائے۔ اہم بات یہ ہے کہ اردو کے اس پھیلاؤ کی پشت پر کوئی سیاسی، عسکری، اقتصادی یا مالی قوت موجود نہیں۔ بلاشبہ اردو برصغیر بالخصوص پاکستان کے اکثر لوگوں کی مادری زبان نہیں لیکن یہ پورے برصغیر بالخصوص پاکستان کے ’’مجموعی ماحول‘‘ کی زبان ضرور ہے اور ماحول کی قوت زبان کو مادری زبان کی ہم پلہ بنادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں ہر درجے میں ذریعہ تعلیم بننے کی پوری پوری اہلیت رکھتی ہے۔ بلاشبہ اردو سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان نہیں لیکن اس میں اردو کا ایک زبان کی حیثیت سے کوئی قصور ہی نہیں۔ برصغیر کے لوگوں نے گزشتہ دو سو سال میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے دائروں میں کوئی قابل ذکر کام کیا ہی نہیں۔ کیا ہوا تو اردو نے اس کام کو یقیناًاظہار کا سانچہ بھی فراہم کیا ہوتا۔

Leave a Reply