امریکیوں کی ’’معصومیت‘‘

امریکیوں سے زیادہ ’’معصوم‘‘ لوگ دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ نائن الیون ہوا تو امریکا کے صدر جارج بش نے معصومیت کے ساتھ پوچھا۔
’’وہ‘‘ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ اس فقرے میں ’’وہ‘‘ سے مراد مسلمان تھے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ امریکا نائن الیون سے پہلے کے پچاس برسوں میں مسلمانوں کی سیاست کو قبضے میں لیے ہوئے تھا۔ ان کی معیشت کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھا۔ ان کی فوجوں کو اپنی مٹھی میں بند کیے ہوئے تھا۔ امریکا پچاس سال سے اسرائیل کا اندھا سرپرست بنا ہوا تھا۔ لیکن جارج بش کے ’’معصوم قلب‘‘ اور ’’معصوم ذہن‘‘ پر ان چیزوں کا رتّی برابر بھی اثر نہ تھا۔ ان کے نزدیک اُمت مسلمہ کے پچاس برسوں کو ہڑپ کرجانے میں کوئی برائی نہ تھی۔ نائن الیون کے بعد امریکا کے ممتاز ٹیلی وژن چینل سی این این کے سب سے مقبول اینکر لیری کنگ نے ایک پروگرام کیا۔ اس پروگرام کا مرکزی خیال یہ تھا کہ اگر خدا موجود ہے تو پھر نائن الیون کیوں ہوا؟۔ اس خیال میں موجود ’’امریکی معصومیت‘‘ بالکل عیاں ہے۔ امریکا جاپان میں دو ایٹم بم استعمال کرکے دو لاکھ لوگوں کو ایک لمحے میں مار ڈالے تو کسی امریکی کو یہ خیال نہیں آتا کہ کہیں امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں ظلم تو نہیں کر ڈالا؟ امریکا عراق پر اقتصادی پابندیاں لگا کر پانچ لاکھ بچوں اور پانچ لاکھ سول افراد کو بھوک اور دواؤں کی قلت سے ہلاک کر دے تو کسی امریکی کو خیال نہیں آتا کہ امریکا چنگیز خان سے بھی بدتر ہے۔ لیکن نائن الیون میں تین ہزار امریکی مارے جائیں تو امریکا کا سب سے بڑا ٹیلی وژن اینکر سوال اُٹھا دیتا ہے کہ اگر خدا موجود ہے تو اس نے نائن الیون جیسا واقعہ کیوں ہونے دیا؟

مغرب اور باالخصوص امریکا کی ’’معصومیت‘‘ اس امر سے بھی عیاں ہے کہ امریکا کے سیاست دان اور ذرائع ابلاغ 1975ء سے پاکستان کے ایٹم بم کو ’’اسلامی بم‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ چلیے مان لیا کہ پاکستان کا ایٹم بم ’’اسلامی بم‘‘ ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر اسرائیل کا ایٹم بم ’’یہود بم‘‘ بھارت کا ایٹم بم ’’ہندو بم‘‘ اور امریکا، برطانیہ اور فرانس کا ایٹم بم ’’عیسائی بم‘‘ یا ’’سیکولر بم‘‘ کیوں نہیں ہے؟ یہی قصہ دہشت گردی کا ہے۔ امریکا یا یورپ میں دہشت گردی کی کسی واردات میں کوئی مسلمان ملوث ہوتا ہے تو دہشت گردی ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ ہو جاتی ہے۔ لیکن ہندو، یہودی اور عیسائی دہشت گردی کریں تو ان کی دہشت گردی ہندو، یہودی اور عیسائی نہیں ہوتی۔ ان باتوں سے بھی اہل مغرب بالخصوص امریکیوں کی ’’معصومیت‘‘ پوری طرح ظاہر ہے۔
امریکیوں کی ’’معصومیت‘‘ کا تازہ ترین واقعہ لاس ویگاس میں ہونے والے کنسرٹ پر حملہ ہے۔ اس حملے میں حملہ آور اسٹیفن گریگ پیڈک نے فائرنگ کرکے 59 افراد کو ہلاک اور 527 کو زخمی کردیا ہے۔ اس حملے کو امریکا میں انفرادی نوعیت کے قتل عام کی سب سے بڑی واردات قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ امریکا کے صدر، نائب صدر، وزیر خارجہ یا امریکا کے کسی اہم اخبار یا ٹیلی وژن چینل نے اتنے بڑے واقعے کو ’’عیسائی دہشت گردی‘‘ کیا سرے سے ’’دہشت گردی‘‘ ہی قرار نہیں دیا۔ اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکیوں کو اب تک یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ ایک 64 سالہ ’’سفید فام بوڑھا‘‘ بھلا دہشت گردی کیونکر اختیار کرسکتا ہے؟۔ اس ’’معصومانہ خیال‘‘ کی بنیاد یہ ہے کہ امریکی خود کو بڑا مہذب، تعلیم یافتہ، پرامن، انسانی اقدار کا حامل، انسان دوست اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا امریکی واقعتاً ایسے ہی ہیں؟۔ آئیے امریکی معاشرے کے چند حقائق ملاحظہ کرتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق سن 2015 میں امریکا کی جیلوں میں 22 لاکھ 85 ہزار سزائیں بھگت رہے تھے۔ جیلوں کے اعتبار سے قیدیوں کی تفصیل یہ ہے۔
ریاستی جیلوں میں 13 لاکھ 59 ہزار قیدی قید تھے۔ مقامی جیلوں میں موجود قیدیوں کی تعداد 6 لاکھ 46 ہزار تھی۔ وفاقی جیلوں میں 2 لاکھ 11 ہزار قیدی تھے۔ بچوں کی جیلوں میں 69 ہزار کم عمر مجرم قید تھے۔ یہ اعداد و شمار بتارہے ہیں کہ امریکا کے سیاست دان، جرنیل اور سی آئی اے کے افسران و اہلکار ہی جرائم پیشہ نہیں۔ بلکہ امریکا کا معاشرہ بھی جرائم پیشہ افراد سے بھرا ہوا ہے۔ ہم سب اپنے مشاہدے، علم اور تجربے کی بنیاد پر جانتے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد کی بہت کم تعداد جیلوں تک پہنچ پاتی ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں جرائم ایسے ہوتے ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوپاتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جرائم میں ملوث ہونے والے بہت کم لوگ پکڑے جاتے ہیں۔ پکڑے جانے والوں میں سے اکثر کے خلاف شواہد مہیا نہیں ہوپاتے۔ چناں چہ وہ عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں۔ مجرموں کی بہت کم تعداد ایسی ہوتی ہے جو جیل جاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا کی جیلوں میں 22 لاکھ 85 ہزار قیدی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ امریکا میں کم از کم 25 سے 30 لاکھ جرائم پیشہ افراد ابھی تک آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا میں کم از کم 50 لاکھ لوگ جرائم پیشہ ہیں۔ یہ امریکا کی ایک حقیقی مگر ہولناک تصویر ہے۔ اس ہولناکی میں مزید اضافہ کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ امریکا دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں خواندگی کی شرح 100 فی صد ہے۔ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ امریکا کا شمار دنیا کے چند امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ امریکا کو ایک قانون پسند معاشرہ کہا جاتا ہے۔ امریکا کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ امریکا میں جرائم کے محرکات بہت کم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی امریکی معاشرہ مجرموں سے بھرا ہوا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکی معاشرے میں لاس ویگاس کے واقعے میں ملوث مجرم اسٹیفن گریگ پیڈک کا پیدا ہونا ’’معمولی بات‘‘ ہے۔ اس حوالے سے امریکی معاشرے سے مزید ’’ٹھوس شواہد‘‘ مہیا کیے جاسکتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق سن 2015 میں امریکا میں 15 ہزار 696 افراد قتل ہوئے۔ آبرو ریزی یا Rape کے 90 ہزار 185 واقعات ہوئے۔ چوری کی 3 لاکھ 27 ہزار 374 وارداتیں ہوئیں۔ یہ اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں لیکن ان اعداد و شمار کا مزید تجزیہ کیا جائے تو امریکی معاشرے کی بدصورتی انتہاؤں کو چھونے لگتی ہے۔ مثلاً پاکستان جیسے غریب ملک میں اگر لوگ چوریاں کرتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ امریکا گزشتہ 100 برسوں سے دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شامل ہے۔ امریکا کی ’’فلاحی ریاست‘‘ بیروزگار اور غریب لوگوں کی مالی مدد کرتی ہے مگر اس کے باوجود وہاں ایک سال میں چوری کے تقریباً ساڑھے تین لاکھ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ مغربی دنیا کے ’’ماہرین‘‘ آئے دن بتاتے رہتے ہیں کہ مسلم معاشرے مذہبی تعلیمات کی وجہ سے ’’جنسی گھٹن‘‘ کا شکار ہیں۔ مغرب کے زیر اثر مسلم معاشروں کے سیکولر اور عناصر بھی یہ راگ الاپتے رہتے ہیں۔
بلاشبہ مغربی ممالک بالخصوص امریکا میں بہت جنسی آزادی ہے۔ اتنی جنسی آزادی کے وہاں کسی بھی عمر میں جنسی تعلق کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکا میں زنا بالجبر یعنی Rape کا ایک واقعہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اعداد و شمار کے مطابق سن 2015میں امریکا میں آبرو ریزی کے 90 ہزار 185 واقعات ہوئے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ بھی ’’رپورٹ‘‘ ہونے والے واقعات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال امریکی معاشرے کو کتنا مہذب، کتنا معصوم، کتنا تعلیم یافتہ، کتنا عورت دوست ثابت کررہی ہے؟۔ امریکی اپنے ملک کو امن پسند، مہذب، تعلیم یافتہ، انسانی حقوق کا پاسدار کہتے ہیں مگر اعداد و شمار کے مطابق سن 2015 میں امریکا میں 15 ہزار 696 افراد قتل ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک مہذب، قانون پرست اور انسان دوست معاشرے میں جو معاشی مسائل کا شکار بھی نہ ہو 15 ہزار سے زیادہ افراد کا قتل ہوجانا بہت ہی ہولناک بات نہیں؟ کیا ایسے معاشرے میں لاس ویگاس کے واقعے میں ملوث اسٹیفن گریگ پیڈک کا پیدا ہونا حیران کن ہے؟۔

زیر بحث موضوع کے اعتبار سے اس امر کی نشاندہی بھی کی جاسکتی ہے کہ امریکا میں خاندان کا ادارہ ناگفتہ بہ حالت میں ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سن 2014 میں امریکا کے 25.8 فی صد خاندان single parent family پر مشتمل تھے۔ ٹوٹے ہوئے خاندانوں بالخصوص شادی کی ابتدا میں ٹوٹ جانے والے خاندانوں کے بچے ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی طور پر ’’متوازن‘‘ نہیں ہوتے۔ ان کا جرائم بالخصوص قتل و غارت گری کی طرف مائل ہونا آسان ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکا کے 25 فی صد سے زیادہ خاندان غیر متوازن شخصیتوں کو پیدا کرنے والے کارخانے بنے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود امریکا میں کوئی سفید فام شخص قتل و غارت گری کرتا ہے تو امریکا کے حکمران، دانش ور، ذرائع ابلاغ اور عام امریکی حیران ہو کر سوچتے ہیں کہ بھلا کوئی سفید فام امریکی جرم کیسے کرسکتا ہے۔

Leave a Reply