سرسید کا تصور قرآن و حدیث

سرسید کے تصور خدا سے متعلق کالم میں ثابت کیا جاچکا ہے کہ سرسید خدا کے منکر تو نہ تھے مگر ان کا تصور خدا قرآن مجید کا تصور خدا نہ تھا، رسول اکرمؐ کا تصور خدا نہ تھا، امت کا تصور خدا نہ تھا بلکہ یہ تصور خدا سرسید کی اپنی ایجاد تھا، اس تصور خدا کا ’’امتیاز‘‘ یہ ہے کہ یہ خدا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کا اسیر ہے اور چاہ کر بھی ان سے بلند نہیں ہوسکتا۔ سرسید قرآن کے بھی منکر نہیں تھے مگر ان کا تصور قرآن بھی امت کا تصور قرآن نہیں ہے۔ کیسے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
اس بات پر پوری امت کا ’’اجماع‘‘ ہے کہ قرآن مجید فرقانِ حمید معنی اور ہدایت کی سطح پر ہی نہیں زبان و بیان کی سطح پر بھی ایک معجزہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ قرآن مجید نے خود اپنی سب سے چھوٹی سورہ یعنی سورہ کوثر کے ذریعے ان عربوں کو چیلنج کیا جو خود کو اپنی لسانی اہلیت کی وجہ سے زبان والا اور دوسروں کو لسانی ’’غربت‘‘ کی وجہ سے عجمی یعنی گونگا کہتے تھے۔ قرآن نے کہا کہ اگر تم میں قدرت ہے تو سورہ کوثر کی طرح کی ایک سورہ بنا کر لاؤ۔ زبان اور بیان دونوں کی سطح پر قرآن پاک کے معجزہ ہونے کی ایک بڑی شہادت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ رسول اکرمؐ کے قتل کا ارادہ کرکے گھر سے نکلے تھے مگر اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر میں قرآن مجید کی چند آیات ملاحظہ کرتے ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔ اصول کے غیر معمولی مفہوم کو بیان کرنے والی زبان کا سانچہ بھی کسی نہ کسی اعتبار سے غیر معمولی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری امت قرآن پاک کے نزول کے زمانے سے آج تک قرآن کو لفظ اور معانی دونوں سطحوں پر ایک معجزہ سمجھتی ہے۔ لیکن سرسید اس دائرے میں بھی پوری امت کے اجماع کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ سرسید لکھتے ہیں۔
’’قرآن مجید کی فصاحت بے مثل کو معجزہ سمجھنا ایک غلط فہمی ہے۔ فاتوبسورۃ من مثلہ کا یہ مقصد نہیں ہے۔ (افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ42)
لیکن یہ تو سرسید کے تصور قرآن کے ’’مائل‘‘ کا محض آغاز ہے۔ پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن مجید وحیِ متلو یعنی ایسی وحی ہے جس کی تلاوت کی گئی۔ اس کے ساتھ صحیح احادیث وحیِ غیر متلو یعنی ایسی وحی ہیں جس کی تلاوت نہیں کی جاتی۔ اس لیے کہ خود قرآن مجید نے رسول اکرمؐ کے حوالے سے فرمایا ہے کہ آپ اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتے۔ خود ایک جگہ سرسید نے حدیث کو وحی غیر متلو کہا ہے۔ مگر احادیث مبارکہ کے بارے میں ان کی اصل رائے یہ ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’ تمام کتب احادیث اور بالتخصیص کتب تفاسیر اور سیر اس قسم کی روایات کا مجموعہ ہیں جن میں صحیح اور غیر صحیح اور قابل تسلیم اور ناقابل تسلیم حدیثیں اور روایتیں درج ہیں‘‘ (افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 47-48)
سرسید کی تحریر کے اس اقتباس کو دیکھا جائے تو اس اقتباس میں سرسید نے علم حدیث کی پوری عمارت کو منہدم کردیا ہے۔ ان کے لیے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود احادیث بھی قابل اعتبار نہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے ’’تمام‘‘ کتب احادیث کو مشتبہ قرار دیا ہے۔ سرسید کی اس روش سے کئی ہولناک مسائل ہمارے سامنے آتے ہیں۔ امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے سلسلے میں قرآن کے بعد سب سے اہم احادیث مبارکہ ہیں اس لیے کہ قرآن ’’اجمال‘‘ ہے اور علم حدیث اس کی ’’تفصیل‘‘ ہے۔ اس مسئلے کو اس طرح سمجھیے کہ قرآن مجید میں صرف نماز کا حکم ہے۔ نماز کی تفصیل احادیث میں موجود ہے۔ اب اگر کوئی شخص علم حدیث کا منکر ہوجائے تو نماز سمیت سیکڑوں احکامات کی تفصیل نہیں جان سکتا۔ اسی لیے امت کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ انکار حدیث عہد حاضر کا ایک بہت ہی بڑا فتنہ ہے۔ یہ تو ایک مسئلہ ہوا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خدا نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ قرآن کی حفاظت کرے اور قرآن کی تفصیل اور اس کی بنیادی اور سب سے مستند وضاحت کی حفاظت نہ کرے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سرسید نے وحی غیر متلو کو ناقابل اعتبار قرار دے کر نہ صرف یہ کہ ایک بہت ہی ہولناک جرم اور انحراف کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ انہوں نے وحی متلو کی تفہیم تک لے جانے والے سب سے بڑے راستے کو بند کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ امت کے اجماعی تصور قرآن پر ایک ہولناک حملہ نہیں تو اور کیا ہے؟ اس حقیقت سے امت نے کبھی انکار نہیں کیا کہ جھوٹی احادیث موجود نہیں مگر رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میری امت کبھی ضلالت پر جمع نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے عظیم اہل علم نے گھڑی ہوئی احادیث کو صحیح احادیث سے الگ کرکے دکھادیا اور علم حدیث پوری طرح شفاف ہوگیا۔ انسانی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس میں علم حدیث کے جتنا مستند اور معتبر علم کوئی بھی نہیں۔ اس لیے کہ محدثین نے اپنے زمانے سے رسول اکرمؐ کے زمانے تک حدیث کے ایک راوی کو دوسرے راوی سے منسلک اور مربوط کرکے دکھایا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ محدثین نے احادیث کے راویوں کا بھی ایک روحانی اور اخلاقی معیار متعین کیا ہے اور اگر کوئی راوی اس معیار کے مطابق نظر نہیں آیا ہے تو اس کی روایت قبول نہیں کی گئی ہے۔ مگر سرسید کو حدیث کے عظیم الشان علم کی کوئی بات متاثر نہیں کرتی۔ وہ ملکہ وکٹوریہ اور مغربی مفکرین کے افکار کو تو کسی سند کے بغیر قبول کرتے ہیں مگر ان کی نظر میں امام بخاری اور امام مسلم کی کوئی وقعت ہے نہ انہیں یہ خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کی حفاظت کی ذمے داری لی ہے اور علم حدیث چوں کہ قرآن کے اجمال کی تفصیل پر مشتمل ہے اس لیے اس کی حفاظت بھی کسی نہ کسی درجے میں کی گئی ہوگی۔ لیکن سرسید نے احادیث کے انکار کی جرأت کیوں کی؟ اس کی ایک وجہ خود سرسید نے بیان کی ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’حدیث کی کتابوں میں ایسی حدیثیں مندرج ہیں جو عقل انسانی کے برخلاف یا مافوق الفطرت ہیں‘‘۔ (افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ48)
مسئلہ یہ ہے کہ مافوق الفطرت واقعات صرف احادیث ہی میں موجود نہیں بلکہ قرآن مجید میں موجود انبیا و مرسلین کے تمام معجزات مافوق الفطرت مواد ہی پر مشتمل ہیں۔ ظاہر ہے سرسید ان کا انکار تو کر نہیں سکتے تھے، کرتے تو ’’کھلے کافر‘‘ ہوتے۔ چناں چہ انہوں نے تمام معجزات کی ’’عقلی توجیہات‘‘ پیش کی ہیں۔ یہ قرآن کا بلاواسطہ یا Indirect انکار ہے۔ لیکن چلیے جو بھی ہے سرسید احادیث مبارکہ میں موجود مافوق الفطرت واقعات کی بھی ’’عقلی توجیہ‘‘ کر لیتے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور بحیثیت مجموعی پورے علم حدیث کو مشتبہ قرار دے ڈالا۔ وہ چاہتے تو یہی کہہ دیتے کہ جس حدیث میں مافوق الفطرت مواد ہے میں اسے نہیں مانوں گا مگر دوسری احادیث میرے لیے قابل قبول ہیں۔ تاہم انہوں نے احادیث کے درمیان یہ فرق بھی قائم نہ کیا اور تمام احادیث کو ناقابل اعتبار بنا کر کھڑا کردیا۔ لیکن سرسید کے تصور قرآن کا ایک اور پہلو ہے۔
یہ پہلو سرسید کے مذکورہ بالا اقتباسات میں سے ایک اقتباس کا حصہ ہے۔ لیکن سرسید نے ایک مقام پر اس پہلو کو زیادہ نمایاں کرکے بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔
’’بعض ناسمجھ یہ بحث کرتے ہیں کہ جو تفسیر تم نے بیان کی ہے بدووانِ عرب، صحابہ و تابعین وتبع تابعین بھی ان آیتوں کی یہی تفسیر سمجھتے تھے یا نہیں۔ مگر ایسی حجت کا پیش لانا اصل بات کو نہ سمجھنے کا باعث ہے‘‘۔
سرسید ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔ ’’قرآن مجید کا مقصد اس سے زیادہ اعلیٰ و افضل تھا اور ہر گز مصلحت نہ تھی کہ خدا ایسے باریک مسئلے کو ان بدوؤں اور اونٹوں کے چرانے والوں کے سامنے یا ان عالموں کے سامنے جن کے علم و تجربے نے کافی ترقی نہیں کی تھی، بیان کرکے لوگوں کو پریشانی میں ڈالتا‘‘۔ (افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ42-43)
آپ سمجھے سرسید کیا کہہ رہے ہیں۔ سرسید کہہ رہے ہیں کہ قرآن کو نہ صحابہ سمجھے نہ تابعین سمجھے نہ تبع تابعین سمجھے۔ اس لیے کہ ان تمام کا علم اور تجربہ اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا کہ وہ قرآن مجید کو سمجھ سکتے۔ غور کیا جائے تو یہ بیان امت کے تصور خدا، امت کے تصور رسالت، امت کے تصور صحابہ، امت کے تصور تابعین اور تصور تبع تابعین پر بیک وقت حملہ ہے۔ اس لیے کہ اس بیان میں فرض کیا گیا ہے معاذاللہ خدا نے قرآن کی صورت میں ایک ایسی مشکل کتاب نازل کی جو اسلام کے اولین زمانوں میں کسی کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی تھی۔ اس بیان میں فرض کیا گیا ہے کہ معاذ اللہ رسول اکرمؐ نے صاحب قرآن ہونے کے باوجود اپنے صحابہ کو قرآن کا مفہوم نہ سمجھایا۔ بیان میں فرض کیا گیا ہے کہ صحابہ نے تابعین اور تابعین نے تبع تابعین کو قرآن کے مفاہیم پر مطلع نہ کیا۔ یا یہ کہ یہ لوگ اس قابل ہی نہ تھے کہ وہ قرآن مجید کو سمجھ سکتے۔ قرآن سمجھ میں آیا تو اپنے نزول کے 12 سو سال بعد صرف سرسید کو سمجھ میں آیا۔
باقی صفحہ9نمبر1
شاہنواز فاروقی
اس طرح سرسید نے اپنا پرچم بلند کرنے کے لیے اسلامی تاریخ کے تمام اہم تصورات کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ اس کے برعکس پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن کو سمجھنا ہو تو خود قرآن کو قرآن کی روشنی میں سمجھو۔ مزید مدد درکار ہو تو احادیث مبارکہ اور سنت رسول اکرمؐ کو بروئے کار لاؤ۔ مزید فہم مطلوب ہو تو صحابہ کرام سے رجوع کرو اس لیے کہ صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت رسول اکرمؐ نے فرمائی ہے۔ تابعین وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کی تفہیم کے سلسلے میں صحابہ سے فیض اٹھایا ہے اور تبع تابعین وہ افراد ہیں جو صحابہ کے تربیت یافتہ افراد سے مستفید ہوئے ہیں۔ مگر سرسید نے اس پوری شاندار روایت کو الٹ اور مسخ کردیا۔ ظاہر ہے کہ قرآن کو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین نہیں سمجھے ہوں گے تو بعد کے مفسرین کیا سمجھے ہوں گے؟۔ یہ بات بھی قیاسی نہیں سرسید نے لکھا ہے۔
’’تمام مفسرین کی، سوائے معتزلہ کے یہ عادت ہے کہ اپنی تفسیروں میں محض بے سند اور افواہی روایتوں کو بلا تحقیق لکھتے چلے جاتے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر ہو یا تفسیر کبیر، اور خواہ وہ سیرۃ ابن اسحاق ہو خواہ سیرت ابن ہشام، ان میں اکثر ایسی لغو اور نامعتبر روایتیں اور قصے مندرج ہیں کہ جن کا بیان نہ کرنا بیان کرنے سے بہتر ہے۔ حضرت اما محی الدین ابن عربی کی تفسیر ایسی رکیک تاویلوں سے بھری ہوئی ہے جس کے لیے کوئی قانون ہی نہیں۔ (افکار سرسید ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ44-45)
لیجیے سرسید نے قرآن مجید کی تفسیر احادیث مبارکہ یہاں تک کہ سیرت نگاری کی پوری روایت کو منہدم کردیا۔ سوال یہ ہے کہ جو دین 12 سو سال تک ٹھیک طرح سمجھا ہی نہ گیا ہو وہ بھلا کیا دین ہوگا؟ اللہ اکبر۔

Leave a Reply