بچوں کو مطالعہ کرنے والا کیسے بنایا جائے؟

ہمارے زمانے میں اکثر بڑے اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے بچے کہنے کے باوجود مطالعہ نہیں کرتے۔ لیکن عام طور پر یہ شکایت 15، 20 سال کے ’’بچوں‘‘ کے بارے میں کی جاتی ہے اور شکایت کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ انسان کو جو کچھ بننا ہوتا ہے 8، 10 سال کی عمر تک بن جاتا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ سامنے آتا ہے وہ بچپن کی تفصیل ہوتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہم اپنی نئی نسل کو مطالعے کا شوقین بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو 4، 5 سال کی عمر سے پڑھنے والا بنانا ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 4، 5 سال کی عمر کے بچوں کو پڑھنے والا کیسے بنایا جاسکتا ہے۔؟

‎بچوں کو مطالعہ کرنے والا کیسے بنایا جائے؟ — شاہنواز فار وقی ہمارے زمانے میں اکثر بڑے اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے بچے کہنے کے باوجود مطالعہ نہیں کرتے۔ لیکن عام طور پر یہ شکایت 15، 20 سال کے ’’بچوں‘‘ کے بارے میں کی جاتی ہے اور شکایت کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ انسان کو جو کچھ بننا ہوتا ہے 8، 10 سال کی عمر تک بن جاتا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ سامنے آتا ہے وہ بچپن کی تفصیل ہوتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہم اپنی نئی نسل کو مطالعے کا شوقین بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو 4، 5 سال کی عمر سے پڑھنے والا بنانا ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ 4، 5 سال کی عمر کے بچوں کو پڑھنے والا کیسے بنایا جاسکتا ہے۔؟ اس مسئلے کا تمام روایتی تہذیبوں باالخصوص اسلامی تہذیب نے ایک زبردست حل تلاش کیا ہوا تھا اور وہ یہ کہ پڑھنے والوں کو پہلے ’’سننے والا‘‘ بنائو۔ یعنی Reader کو پہلے Listener کے ’’مرتبے‘‘ پر فائز کرو۔ برصغیر کے مسلمانوں کی ہند اسلامی تہذیب نے اس کی ابتدائی صورت یہ پیدا کی تھی کہ بچوں کو شیرخوارگی کی عمر سے طرح طرح کی ’’لوریاں‘‘ سنائی جائیں۔ مثلاً ایک لوری تھی۔<br /><br /><br /> حسبی ربیّ جل اللہ مافی قلبی غیر اللہ ; نور محمد صل اللہ لا الہٰ الا اللہ<br /><br /><br /> غور کیا جائے تو چار مصرعوں کی اس لوری میں پوری توحید اور رسالت موجود ہے۔ اس میں جامعیت بھی ہے اور اختصار بھی۔ اس لوری میں صوتی حُسن بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ جو بچے اس لوری کو سنتے تھے وہ اسلام کی بنیاد سے بھی آگاہ ہوتے تھے ان کے مزاج میں ایک شاعرانہ آہنگ بھی پیدا ہوجاتا تھا اور زبان کا ایک سانچہ بھی انہیں فراہم ہوجاتا تھا۔ ایک بچہ تین، چار سال کی عمر تک یہ لوری ہزاروں بار سنتا تھا اور یہ لوری اس کے شعور میں راسخ ہوکر اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی تھی۔ لیکن لوریوں کی دنیا صرف اس لوری تک محدود نہ تھی۔ ایک لوری جو ہم نے ہزاروں بار سنی یہ تھی۔<br /><br /><br /> آری نندیا آجا<br /><br /><br /> ’’فلاں‘‘ کو سُلا جا<br /><br /><br /> فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے<br /><br /><br /> فلاں کا سوہنا نام بتا جا<br /><br /><br /> آتی ہوں بھئی آتی ہوں<br /><br /><br /> فلاں کو سلاتی ہوں<br /><br /><br /> فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے<br /><br /><br /> فلاں کا سونا نام بتاتی ہوں<br /><br /><br /> آگئی لو آگئی<br /><br /><br /> فلاں کو سلا گئی<br /><br /><br /> فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے<br /><br /><br /> فلاں کا سوہنا نام بتا گئی<br /><br /><br /> لائو جی لائو میری مزدوری دو<br /><br /><br /> لو جی لو تم لڈو لو<br /><br /><br /> لڈو میں سے نکلی مکھی<br /><br /><br /> فلاں کی جان اللہ نے رکھی<br /><br /><br /> اس لوری میں لوری سننے والے کا نام بدلتا رہتا تھا مگر مگر لوری یہی رہتی تھی۔ کہنے کو یہ لوری مذہبی نہیں ہے مگر اس لوری میں مذہب سطح پر موجود ہونے کے بجائے اس کی ’’ساخت‘‘ اور اس کی معنوی بُنت میں موجود ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ یہ لوریاں بچوں میں مذہبی شعور، شاعرانہ مزاج اور زبان وبیان کی عمدہ اہلیت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔<br /><br /><br /> بچے 4، 5 سال کی عمر کے ہوتے تھے تو ان پر کہانیوں کی دنیا کا در کھل جاتا تھا۔ کہانیاں سنانے والے گھر کے لوگ ہوتے تھے۔ بظاہر دیکھا جائے تو کہانی پڑھنے اور سننے میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کہانی پڑھنے او رسننے کے اثرات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کہانی سننے کے عمل میں کہانی سنانے والے کی شخصیت سے منسلک ہوجاتی ہے اور اس میں ایک ’’انسانی عنصر‘‘ در آتا ہے جو کہانی کو حقیقی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کہانی کی سماعت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ کہانی سنتے ہوئے سامع کا تخیل پوری طرح آزاد ہوتا ہے اور وہ کہانی کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ کہانی سنانے والی کی آواز کا اتار چڑھائو کہانی میں ڈرامائیت پیدا کردیتا ہے جس سے کہانی کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ عام طور پر کہانی سنانے والا کہانی سناتے ہوئے ہاتھوں کی مخصوص حرکت اور چہرے کے تاثرات کو بھی کہانی کا حصہ بنا دیتا ہے۔ جس سے ایک جانب کہانی کی فضا اور ماحول پیدا ہوتا ہے اور دوسری جانب کہانی کو برجستگی کا لمس فراہم ہوتا ہے۔ کہانی پڑھنے کے اپنے فوائد ہیں مگر کہانی کی سماعت کا اپنا لطف اور اپنا اثر ہے اور بچپن میں کہانی کی سماعت کہانی کو پڑھنے سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔<br /><br /><br /> بچپن میں یہ بات کبھی ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کہانی سنانے والے رات ہی کو کیوں کہانی سناتے ہیں۔ دن میں کہانی کیوں نہیں سناتے۔ بلکہ ہم ان سے دن میں کہانی سنانے کی ضد کرتے تھے تو وہ مسکراتے تھے اور کہتے تھے دن میں کہانی نہیں سنتے ورنہ ماموں راستہ بھول جاتے ہیں اور ہم ماموں کو راستے پر گم ہونے سے بچانے کے لیے کہانی سننے کی ضد ترک کردیتے تھے۔ لیکن اب اس عمر میں تھوڑا بہت پڑھنے اور غور کرنے سے معلوم ہوا کہ کہانی اور رات کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دن میں کہانی کا اثر گھٹ کر آدھے سے بھی کم رہ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات اسرار کا سمندر ہے اور رات کا لمس عام کہانی کو بھی پراسرار بنا دیتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو رات کی کہانی میں جہاں عمودی جہت یا Vertical Dimension پیدا کرتی ہے وہیں دوسری جانب وہ کہانی میں وہی کردار ادا کرتی ہے جو فلم یا ٹیلی ڈرامے میں سیٹ اور روشنیاں پیدا کرتی ہیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ کہانی کی سماعت بچوں کو مطالعے پر مائل نہیں ’’مجبور‘‘ کر دیتی ہے۔ اس لیے کہ سماعت شاعری اور کہانی کو سامع کی شخصیت کا جز بنادیتی ہے۔ چنانچہ جو لوگ اپنے بچوں کو پڑھنے والا بنانا چاہتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ وہ بچوں کو ابتداء ہی سے ادب کی مختلف ہستیوں یا Forms کا سامع بنائیں۔ سماعت مطالعے کو صرف شوق نہیں بناتی ذوق بھی بناتی ہے۔ آج سے 30، 40 سال پہلے عام اسکولوں کے طلبہ بھی 10، 12 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ایک ڈیڑھ درجن نظموں کے ’’حافظ‘‘ ہوجاتے تھے۔ ان میں سے اکثر کا یہی حافظہ انہیں ’’مشاعروں‘‘ تک لے جاتا تھا اور مشاعرے انہیں ’’شعری مجموعوں‘‘ کے مطالعے پر مجبور کردیتے تھے۔ لیکن ہماری معاشرتی زندگی سے ادب کی سماعت کا پورا منظر نامہ غائب ہوچکا ہے۔ اب نہ کہیں لوریاں ہیں۔ نہ کہانیاں۔ پہیلیاں ہیں نہ نظموں کا حافظ ہے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ جس بچے نے دس، پندرہ سال تک شاعری یا کہانی کے ذیل میں کچھ بھی نہیں سنا وہ اچانک ادب پڑھنے والا بن جائے۔ یہ دیوار میں در بنانے کی خواہش ہے۔ اس کے برعکس بچپن سے فراہم ہونے والی شعر وادب کی ’’سماعت‘‘ شخصیت کو ایک ایسی عمارت بنا دیتی ہے جس میں دروازے اور کھڑکیاں فطری طور پر عمارت کے نقشے کے حصے کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔<br /><br /><br /> بچوں کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول میں موجود بڑوں کی نقل کرتے ہیں چنانچہ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی معاشرے میں بڑے کتاب نہ پڑھ رہے ہوں اور بچوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ کتاب پڑھیں۔ اس سلسلے میں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری بنیادی ہے۔ والدین اور اساتذہ بچوں کو کتاب پڑھتے ہوئے اور کتاب کی اہمیت پر اصرار کرتے ہوئے نظر آئیں گے تو بچوں میں مطالعے کا رحجان شوق بنے گا اور شوق ذوق میں تبدیل ہوگا۔ کتاب کے سلسلے میں بچوں ہی کو نہیں بڑوں کو بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کتاب بیک وقت دنیا کی سب سے مہنگی اور سب سے سستی چیز ہے۔ کتاب دنیا کی مہنگی ترین چیز اس لیے ہے کہ ایک کھرب ڈالر صرف کرکے بھی ایک شیکسپیئر ایک میر تقی میر اور ایک مولانا مودودیؒ پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ کتاب دنیا کی سستی ترین چیز اس لیے ہے کہ جو کلیات میر ایک کھرب ڈالر خرچ کر کے بھی تخلیق نہیں کی جاسکتی وہ ہمیں بازار سے 5سو روپے میں مل جاتی ہے۔‎” width=”485″ height=”329″ />

اس مسئلے کا تمام روایتی تہذیبوں باالخصوص اسلامی تہذیب نے ایک زبردست حل تلاش کیا ہوا تھا اور وہ یہ کہ پڑھنے والوں کو پہلے ’’سننے والا‘‘ بنائو۔ یعنی Reader کو پہلے Listener کے ’’مرتبے‘‘ پر فائز کرو۔ برصغیر کے مسلمانوں کی ہند اسلامی تہذیب نے اس کی ابتدائی صورت یہ پیدا کی تھی کہ بچوں کو شیرخوارگی کی عمر سے طرح طرح کی ’’لوریاں‘‘ سنائی جائیں۔ مثلاً ایک لوری تھی۔
حسبی ربیّ جل اللہ
مافی قلبی غیر اللہ
نور محمد صل اللہ
لا الہٰ الا اللہ
غور کیا جائے تو چار مصرعوں کی اس لوری میں پوری توحید اور رسالت موجود ہے۔ اس میں جامعیت بھی ہے اور اختصار بھی۔ اس لوری میں صوتی حُسن بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ جو بچے اس لوری کو سنتے تھے وہ اسلام کی بنیاد سے بھی آگاہ ہوتے تھے ان کے مزاج میں ایک شاعرانہ آہنگ بھی پیدا ہوجاتا تھا اور زبان کا ایک سانچہ بھی انہیں فراہم ہوجاتا تھا۔ ایک بچہ تین، چار سال کی عمر تک یہ لوری ہزاروں بار سنتا تھا اور یہ لوری اس کے شعور میں راسخ ہوکر اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی تھی۔ لیکن لوریوں کی دنیا صرف اس لوری تک محدود نہ تھی۔ ایک لوری جو ہم نے ہزاروں بار سنی یہ تھی۔
آری نندیا آجا
’’فلاں‘‘ کو سُلا جا
فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے
فلاں کا سوہنا نام بتا جا
آتی ہوں بھئی آتی ہوں
فلاں کو سلاتی ہوں
فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے
فلاں کا سونا نام بتاتی ہوں
آگئی لو آگئی
فلاں کو سلا گئی
فلاں کی آنکھوں میں گھُل مل کے
فلاں کا سوہنا نام بتا گئی
لائو جی لائو میری مزدوری دو
لو جی لو تم لڈو لو
لڈو میں سے نکلی مکھی
فلاں کی جان اللہ نے رکھی
اس لوری میں لوری سننے والے کا نام بدلتا رہتا تھا مگر مگر لوری یہی رہتی تھی۔ کہنے کو یہ لوری مذہبی نہیں ہے مگر اس لوری میں مذہب سطح پر موجود ہونے کے بجائے اس کی ’’ساخت‘‘ اور اس کی معنوی بُنت میں موجود ہے۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ یہ لوریاں بچوں میں مذہبی شعور، شاعرانہ مزاج اور زبان وبیان کی عمدہ اہلیت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔
بچے 4، 5 سال کی عمر کے ہوتے تھے تو ان پر کہانیوں کی دنیا کا در کھل جاتا تھا۔ کہانیاں سنانے والے گھر کے لوگ ہوتے تھے۔ بظاہر دیکھا جائے تو کہانی پڑھنے اور سننے میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کہانی پڑھنے او رسننے کے اثرات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کہانی سننے کے عمل میں کہانی سنانے والے کی شخصیت سے منسلک ہوجاتی ہے اور اس میں ایک ’’انسانی عنصر‘‘ در آتا ہے جو کہانی کو حقیقی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کہانی کی سماعت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ کہانی سنتے ہوئے سامع کا تخیل پوری طرح آزاد ہوتا ہے اور وہ کہانی کے ساتھ سفر کرتا ہے۔ کہانی سنانے والی کی آواز کا اتار چڑھائو کہانی میں ڈرامائیت پیدا کردیتا ہے جس سے کہانی کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ عام طور پر کہانی سنانے والا کہانی سناتے ہوئے ہاتھوں کی مخصوص حرکت اور چہرے کے تاثرات کو بھی کہانی کا حصہ بنا دیتا ہے۔ جس سے ایک جانب کہانی کی فضا اور ماحول پیدا ہوتا ہے اور دوسری جانب کہانی کو برجستگی کا لمس فراہم ہوتا ہے۔ کہانی پڑھنے کے اپنے فوائد ہیں مگر کہانی کی سماعت کا اپنا لطف اور اپنا اثر ہے اور بچپن میں کہانی کی سماعت کہانی کو پڑھنے سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
بچپن میں یہ بات کبھی ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کہانی سنانے والے رات ہی کو کیوں کہانی سناتے ہیں۔ دن میں کہانی کیوں نہیں سناتے۔ بلکہ ہم ان سے دن میں کہانی سنانے کی ضد کرتے تھے تو وہ مسکراتے تھے اور کہتے تھے دن میں کہانی نہیں سنتے ورنہ ماموں راستہ بھول جاتے ہیں اور ہم ماموں کو راستے پر گم ہونے سے بچانے کے لیے کہانی سننے کی ضد ترک کردیتے تھے۔ لیکن اب اس عمر میں تھوڑا بہت پڑھنے اور غور کرنے سے معلوم ہوا کہ کہانی اور رات کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دن میں کہانی کا اثر گھٹ کر آدھے سے بھی کم رہ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات اسرار کا سمندر ہے اور رات کا لمس عام کہانی کو بھی پراسرار بنا دیتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو رات کی کہانی میں جہاں عمودی جہت یا Vertical Dimension پیدا کرتی ہے وہیں دوسری جانب وہ کہانی میں وہی کردار ادا کرتی ہے جو فلم یا ٹیلی ڈرامے میں سیٹ اور روشنیاں پیدا کرتی ہیں۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ کہانی کی سماعت بچوں کو مطالعے پر مائل نہیں ’’مجبور‘‘ کر دیتی ہے۔ اس لیے کہ سماعت شاعری اور کہانی کو سامع کی شخصیت کا جز بنادیتی ہے۔ چنانچہ جو لوگ اپنے بچوں کو پڑھنے والا بنانا چاہتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ وہ بچوں کو ابتداء ہی سے ادب کی مختلف ہستیوں یا Forms کا سامع بنائیں۔ سماعت مطالعے کو صرف شوق نہیں بناتی ذوق بھی بناتی ہے۔ آج سے 30، 40 سال پہلے عام اسکولوں کے طلبہ بھی 10، 12 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ایک ڈیڑھ درجن نظموں کے ’’حافظ‘‘ ہوجاتے تھے۔ ان میں سے اکثر کا یہی حافظہ انہیں ’’مشاعروں‘‘ تک لے جاتا تھا اور مشاعرے انہیں ’’شعری مجموعوں‘‘ کے مطالعے پر مجبور کردیتے تھے۔ لیکن ہماری معاشرتی زندگی سے ادب کی سماعت کا پورا منظر نامہ غائب ہوچکا ہے۔ اب نہ کہیں لوریاں ہیں۔ نہ کہانیاں۔ پہیلیاں ہیں نہ نظموں کا حافظ ہے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ جس بچے نے دس، پندرہ سال تک شاعری یا کہانی کے ذیل میں کچھ بھی نہیں سنا وہ اچانک ادب پڑھنے والا بن جائے۔ یہ دیوار میں در بنانے کی خواہش ہے۔ اس کے برعکس بچپن سے فراہم ہونے والی شعر وادب کی ’’سماعت‘‘ شخصیت کو ایک ایسی عمارت بنا دیتی ہے جس میں دروازے اور کھڑکیاں فطری طور پر عمارت کے نقشے کے حصے کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔
بچوں کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول میں موجود بڑوں کی نقل کرتے ہیں چنانچہ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی معاشرے میں بڑے کتاب نہ پڑھ رہے ہوں اور بچوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ کتاب پڑھیں۔ اس سلسلے میں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری بنیادی ہے۔ والدین اور اساتذہ بچوں کو کتاب پڑھتے ہوئے اور کتاب کی اہمیت پر اصرار کرتے ہوئے نظر آئیں گے تو بچوں میں مطالعے کا رحجان شوق بنے گا اور شوق ذوق میں تبدیل ہوگا۔ کتاب کے سلسلے میں بچوں ہی کو نہیں بڑوں کو بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کتاب بیک وقت دنیا کی سب سے مہنگی اور سب سے سستی چیز ہے۔ کتاب دنیا کی مہنگی ترین چیز اس لیے ہے کہ ایک کھرب ڈالر صرف کرکے بھی ایک شیکسپیئر ایک میر تقی میر اور ایک مولانا مودودیؒ پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ کتاب دنیا کی سستی ترین چیز اس لیے ہے کہ جو کلیات میر ایک کھرب ڈالر خرچ کر کے بھی تخلیق نہیں کی جاسکتی وہ ہمیں بازار سے 5سو روپے میں مل جاتی ہے۔

Read the article on Jasarat website: http://beta.jasarat.com/columns/news/37667

,

Leave a Reply