تخفیفِ آبادی کی مغربی سازش

تاریخی، تہذیبی اور اسلامی تناظر

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خوب صورت قالین میں جدیدیت کے ٹاٹ کا بدصورت اور بھونڈا پیوند سب سے پہلے جنرل ایوب خان نے لگایا۔ یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے قرآن و سنت سے متصادم عائلی قوانین ایجاد کیے۔ جنرل ایوب ہی نے سب سے پہلے سود کو ’’حلال‘‘ کرنے کی سازش کی۔ انہی کے دور میں سب سے پہلے خاندانی منصوبہ بندی یا تخفیفِ آبادی کا نعرہ بلند ہوا۔ ان چیزوں کے سلسلے میں انہیں نظریہ سازی کے لیے ڈاکٹر فضل الرحمن فراہم ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن مغرب زدگی کا شاہکار تھے اور وہ حق و باطل یعنی ’’اسلام اور مغرب کے امتزاج‘‘ کے قائل تھے۔ خوش قسمتی سے ڈاکٹر فضل الرحمن کے خلاف خواص و عوام میں ردعمل پیدا ہوا تو انہوں نے پاکستان سے فرار ہونے ہی میں عافیت سمجھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنرل ایوب کی مغرب پرستی پہلے سے زیادہ کھوکھلی ہوگئی۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے ہار نہ مانی، چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو کیا، ’’اسلام پرست‘‘ کہلانے والے جنرل ضیا الحق کے زمانے میں بھی خاندانی منصوبہ بندی یا تخفیفِ آبادی کا ’’مغربی پراجیکٹ‘‘ جاری رہا۔ ریاست مدینہ کے علَم بردار عمران خان اقتدار میں آئے تو صرف انہی کو نہیں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی یاد آیا کہ آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ چنانچہ عمران خان اور ثاقب نثار نے مل جل کر اس حوالے سے اسلام آباد میں ایک کانفرنس کر ڈالی اور 2019ء کے آغاز کے تیسرے دن جسٹس ثاقب نثار نے فرمایا کہ آبادی میں اضافہ تو ڈیم بنانے سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ یہ راز عیاں ہے کہ پاکستان میں تخفیفِ آبادی کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ بھی موجود ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی یا تخفیفِ آبادی جرنیلوں، کرکٹر اور ججوں کی سطح کا مسئلہ نہیں۔ اس پر گفتگو اور اس کی تفہیم کے لیے انسان کو تھوڑا بہت الٰہیات سے آگاہ ہونا چاہیے، اسے کچھ نہ کچھ قرآن و سنت کا علم ہونا چاہیے، اسے کچھ نہ کچھ مغرب کی علمی بنیادوں پر مطلع ہونا چاہیے، اسے کچھ نہ کچھ مغرب کے عالمی ایجنڈے اور اس کے عالم گیر سازشی کردار سے واقف ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارا عہد علم کے ’جمہوریانے‘ یا Democratization of knowledge کا زمانہ ہے، چنانچہ صرف کرکٹ میں مہارت رکھنے والے عمران خان بھی خاندانی منصوبہ بندی پر کلام کررہے ہیں، اور صرف مغربی قانون کا سرسری فہم رکھنے والے جسٹس ثاقب نثار بھی خاندانی منصوبہ بندی پر علامہ اقبال بن کر گفتگو فرما رہے ہیں۔ آیئے اس مسئلے کو علمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انگریزی ادب کے بے مثال ناول نویس، نقاد اور شاعر ڈی ایچ لارنس نے کہیں لکھا ہے کہ اگر حضرت عیسیٰؑ نے شادی کی ہوتی تو مغربی دنیا سگمنڈ فرائیڈ کے عذاب سے محفوظ رہتی، اور اگر حضرت عیسیٰؑ نے تجارت کی ہوتی تو شاید کارل مارکس پیدا نہ ہوتا۔ اس پر کسی ستم ظریف نے یہ اضافہ کیا کہ اگر حضرت عیسیٰؑ نے جہاد کیا ہوتا تو شاید مغربی دنیا ہٹلر کا مزا نہ چکھتی۔ ”اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ“ کے مصداق ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر حضرت عیسیٰؑ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہوتے تو شاید انگلستان میں مالتھس (Malthus) نہ پیدا ہوا ہوتا۔
مالتھس کے ذکرِ خیر کی وجہ یہ ہے کہ تخفیفِ آبادی کی بحث اسی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مالتھس سے ہزاروں سال پہلے بھی دنیا میں تخفیف آبادی کے مختلف طریقے رائج تھے، لیکن ان طریقوں کی نوعیت انفرادی رجحانات کی تھی، مثال کے طور پر رومیوں کے بارے میں جو تاریخی شہادتیں دستیاب ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں وضع حمل سے بچنے کے مختلف طریقے رائج تھے۔ خود عرب دنیا میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل اور آپؐ کے زمانے میں بھی کچھ لوگ ’’عزل‘‘ کیا کرتے تھے، لیکن مالتھس انسانی تاریخ میں پہلا شخص ہے جس نے آبادی کے تصور کو پیداوار کے ساتھ مربوط کرکے ایک باضابطہ نظریے کی صورت دی۔ مالتھس کا خیال تھا کہ افزائش نسل کے امکانات لامحدود اور معاشی وسائل محدود ہیں۔ اس نے خیال ظاہر کیا کہ انسانی آبادی حسابی طریقے سے یعنی ایک، دو، چار، آٹھ، سولہ کی صورت میں بڑھ رہی ہے اور انسانی وسائل عددی طریقے یعنی دو، چار، چھے، آٹھ کی صورت فروغ پا رہے ہیں۔ چنانچہ آبادی اور وسائل کا ایک ہولناک عدم توازن ہمارا منتظر ہے۔ مالتھس کے نظریہ آبادی نے اپنے زمانے میں ایک نوع کی علمی سنسنی تو ضرور پیدا کی، لیکن اسے مقبولیت تقریباً 80 سال بعد حاصل ہوئی۔ تاہم یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغرب کے صنعتی و تکنیکی انقلاب نے مالتھس کے نظریے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا، لیکن تیسری دنیا اور بالخصوص مسلم ممالک میں مُردوں کو پوجنے کی روایت ہے، چنانچہ ہمارے یہاں ابھی تک بہت سے لوگ ایٹمی دھماکے کے طرز پر آبادی کے دھماکے یا Population Explosion کی اصطلاح استعمال کرکے اپنے جہل کے ذریعے کم علم لوگوں کو خوف زدہ کررہے ہیں۔ تاہم بیشتر صورتوں میں یہ معاملہ اتفاقی نہیں۔ اس کی پشت پر مغربی دنیا کے سازشی ذہن کو پوری شدت کے ساتھ کام کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
اس سے قبل کہ ہم مغرب کی سازش اور اس کے سازشی ذہن کا ذکر کریں، مالتھس کی فکر پر مزید گفتگو ضروری ہے۔
مالتھس کے تصورات کو درست مان لیا جائے تو اس کا فطری نتیجہ کیا ہوگا؟ خالد بیگ اور تسنیم احمد سے سنیے:
اس قدرتی نظام کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر ابتدا میں خوراک انسانی آبادی کے لیے کافی ہو تو بھی دو نسلوں کے بعد انسانوں کی تعداد اتنی بڑھ جائے گی کہ اضافہ شدہ خوراک کے ذخیرے ان کے لیے ناکافی ہوجائیں (آبادی دو نسلوں میں 2 سے بڑھ کر 8 ہوگی جب کہ خوراک 2 سے بڑھ کر صرف 6 تک ہی پہنچے گی)۔ یوں اس نے ”ثابت“ کردیا کہ اگر انسانی آبادی کو بڑھنے سے نہ روکا گیا تو پوری دنیا قحط اور بھوک کا شکار ہوجائے گی!!
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ابتدائے آفرینش سے مالتھس کے زمانے تک انسانوں کی دو نسلوں سے زیادہ گزر چکی تھیں۔ اگر مالتھس کا نظریہ ایک سائنسی حقیقت ہوتا تو پوری انسانیت اس کے زمانے تک پہنچنے سے بہت پہلے ہی قدرتی قانون کے تحت عدم آباد کی راہ لے چکی ہوتی۔ مالتھس کے معذرت خواہ یہ کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں بیماریوں، قدرتی آفات اورجنگوں نے انسانی آبادی کو بڑھنے سے روکے رکھا۔ اب چوں کہ سائنس کی ترقی کے سبب انسان ان بیماریوں پر قابو پاچکا ہے اس لیے یہ قدرتی قانون اب پوری طرح کارفرما ہے جو پہلے نہیں تھا۔ اس افسانے کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم عرض کرتے ہیں کہ مالتھس کے زمانے سے اب تک انسانی آبادی کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے لیکن خوراک کی پیداوار میں اضافہ اس سے بھی زیادہ ہوا ہے۔ مثلاً 1950ء سے 1990ء تک دنیا کی آبادی دگنی ہوگئی لیکن اسی عرصے میں خوراک کی پیداوار تین گنی ہوگئی۔“
مالتھس کے بعد تخفیفِ آبادی کے سلسلے میں دوسرا نام پال اہرلک (Paul Ehrlich) کا تھا۔ اُس نے اس سلسلے میں پروپیگنڈے کی طاقت کو پوری قوت سے استعمال کیا۔ اس نے کہا کہ ”دنیا میں معدنیات، سونا، چاندی، لوہا، تیل وغیرہ محدود مقدار میں ہیں اور اگر آبادی ایک حد سے بڑھ گئی تو ان کی مقدار انسانی ضروریات کے لیے کافی نہیں رہے گی۔ 1968ء میں اس نے ایک کتاب ”آبادی کا بم“ کے نام سے لکھی جو پوری دنیا میں پھیلائی گئی۔ پیشن گوئی کے مطابق آج سے دو عشرے قبل ہی دنیا کو اپنی آبادی کے بوجھ تلے دب کر ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ اس نے لکھا کہ 1985ء تک دنیا میں قحط پھیل جائے گا، سمندر سوکھ جائیں گے، اور متوقع عمر (Life Expectancy) 32سال رہ جائے گی۔ ایک اور موقع پر اس نے یہ بھی کہا کہ میں یہ شرط لگانے کو تیار ہوں کہ 2000ء تک برطانیہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ امریکی ماہر معیشت جولین سائمن نے، جس کا کہنا تھا کہ اہرلک کی کتاب جھوٹ کا پلندہ ہے، اسے چیلنج کیا کہ وہ کوئی بھی دس معدنیات چن لے۔ اگر دس سال بعد ان کی قیمت، افراطِ زر کو منہا کرکے، نہ بڑھی تو اہرلک کا جھوٹ ثابت ہوجائے گا۔ یہ شرط اہرلک نے بڑی خوشی سے قبول کی اور دس دھاتیں چن لیں۔ 1990ء میں ان کی قیمت کا موازنہ 1980ء کی قیمت سے کیا گیا تو پتا چلا کہ افراطِ زر کو منہا کیے بغیر ہی قیمتیں کم ہوچکی تھیں۔ لیکن یہ شخص جھوٹ کے علاوہ ڈھٹائی کے وصف سے بھی مالامال ہے۔ اس نے شرط کے پیسے ادا کیے لیکن اپنے جھوٹے پروپیگنڈے سے باز نہیں آیا۔“(ماہنامہ نشور‘ دسمبر 2018)
مغربی دنیا کا معاملہ عجیب ہے۔ مارٹن لوتھر پادری تھا اور وہ عیسائیت میں اصلاح کا خواہش مند تھا، لیکن اس کی اصلاحِ مذہب کی تحریک بالآخر مذہب کی تردید پر منتج ہوئی۔ مالتھس بھی ایک مذہبی شخص تھا اور وہ افزائش نسل کے خلاف بھی تھا، یہی وجہ ہے کہ مولانا مودودیؒ کے بقول اس نے تخفیف آبادی کے لیے ایک طرح کے برہم چریے کا تصور پیش کیا، لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ یہ کہ مختلف وجوہ کی بنا پر یورپ کی آبادی کم ہوتی چلی گئی اور وسائل بڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ یورپ میں سفید فاموں کی بقا کا سوال پیدا ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مغرب میں خاندان کا ادارہ شکست و ریخت کا شکار ہوگیا۔ اس سے اور باتوں کے علاوہ تخفیف آبادی اور خاندان کے ادارے کے ارتباطِ باہمی یعنی Corelation کی حقیقت عیاں ہو کر سامنے آتی ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اہلِ مغرب نے انسانیت کے خلاف جو سازشیں کی ہیں اس کی کوئی دوسری مثال دنیا میں موجود نہیں۔ مغرب میں تخفیف آبادی کا نظریہ بیسویں صدی کے وسط تک دلیل، منطق اور تجربے کی سطح پر اذکارِ رفتہ ثابت ہو کر رد ہوگیا تھا، یہاں تک کہ وہاں آبادی میں اضافے کی آوازیں شدت سے بلند ہونے لگی تھیں۔ لیکن جس طرح مغرب کے تاجر اور صنعت کار اپنے یہاں مضرِ صحت قرار پانے والی دوائیں اور اجناس تیسری دنیا کو برآمد کرتے رہتے ہیں اسی طرح انہوں نے اپنے یہاں علمی بنیادوں پر رد ہوجانے والے تخفیف آبادی کے ہولناک نظریے کو تیسری دنیا میں نہ صرف برآمد کردیا بلکہ تیسری دنیا کے لوگوں کو یہ بھی باور کرانا شروع کردیا کہ تمہاری نجات اسی میں ہے۔
تخفیف آبادی اور اس اعتبار سے ضبطِ ولادت کا نظریہ غلط ہے۔ لیکن یہ اپنی نہاد میں ایک معاشی اور پیداواری نظریہ ہے، مغرب نے تیسری دنیا میں یہ نظریہ سیاسی نظریے کے طور پر برآمد کیا۔ سفید فام اقوام غیر سفید فام اقوام کے سمندر میں ایک جزیرے کی حیثیت رکھتی ہیں، اور سمندر اور جزیرے کا تناسبی رشتہ مسلسل بدل رہا ہے، اس لیے کہ سمندر کی حدود وسیع ہورہی ہیں اور جزیرہ سکڑ رہا ہے۔ سفید فام اقوام کے لیے اس صورت حال کے عالمگیر تہذیبی، سیاسی اور معاشی مضمرات ہیں۔ یہ مضمرات عیاں تو ہمیشہ سے تھے لیکن نوآبادیاتی دور کے خاتمے نے انہیں نمایاں کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری دنیا میں ضبطِ ولادت کی تحریک گزشتہ پچاس برسوں کے دوران زیادہ شدید ہوئی ہے۔ اس حوالے سے مغرب کے اندیشوں کی مختصر سی فہرست تیار کرنا دشوار نہیں۔
(1) مغرب جمہوریت کا علم بردار ہے اور جمہوریت کا اصول اکثریت ہے۔ اگرچہ مغرب نے بنیادی عالمی ادارے یعنی اقوام متحدہ کی تشکیل تک میں اس جمہوری اصول کی سخت خلاف ورزی کی ہے اور سلامتی کونسل کے پانچ ارکان کی معمولی سی اقلیت کو پوری عالمی برادری پر مسلط کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اُس کی اس نوع کی چال بازی کب تک چل سکتی ہے؟ چنانچہ اقوام متحدہ میں اکثریتی رائے کی بنیاد پر فیصلوں کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ مغرب نے اقوام متحدہ کی تشکیل میں جمہوری اصول کو نظرانداز کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جلد ہی ایسے حالات بھی پیدا کردیے کہ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی۔ یہ تقسیم ختم ہوئی ہے تو تیسری دنیا نے کئی حوالوں سے اپنی خودی اور مفادات پر اصرار شروع کردیا ہے۔ کین کون میں ہونے والی کانفرس اس کا ٹھوس ثبوت تھی۔ اس کانفرنس میں تیسری دنیا کے ملکوں نے ترقی یافتہ مغربی ملکوں کے تجارتی ٹیرف اور شرائط کو ماننے سے صاف انکار کردیا تھا۔
مغرب جمہوریت کا علم بردار ضرور ہے لیکن اس نے گزشتہ پچاس سال کے دوران ہمیشہ تیسری دنیا کی اکثریتی آبادی کو فوجی اور نیم سول آمریتوں کے حوالے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ تجربہ بھی اپنی عمر پوری کرچکا ہے۔
(2) اہلِ مغرب جانتے تھے کہ تیسری دنیا میں آبادی کا دبائو بڑھے گا تو اس کا اثر ان کے معاشروں پر بھی پڑے گا۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوگی اور اسے روکا نہیں جا سکے گا۔ اس سے ان کی معاشرت اور تہذیبی دائرے میں اجنبی عنصر کا اضافہ ہوگا جو بالآخر ان کے تہذیبی و ثقافتی سانچوں، یہاں تک کہ ان کی سیاست پر بھی اثر ڈالے گا۔ یہ اگر کوئی سانحہ تھا تو یہ سانحہ بھی مغرب کے ساتھ ہوچکا ہے۔
(3) مغرب تیسری دنیا کی آبادی کے عدم استحکام کو اپنے منظور کردہ بین الاقوامی نظام کے لیے ایک خطرہ سمجھتا تھا اور سمجھتا ہے۔ یہ عدم استحکام ابھی تک سیاسی اور معاشی فکر میں تبدیل نہیں ہوسکا ہے۔ لیکن بالفرض اگر کل کو تیسری دنیا کے صرف چار ملک مغرب کے ہولناک قرضوں کی ادائیگی سے انکار کرتے ہوئے خود کو دیوالیہ قرار دے دیں تو مغرب کا بین الاقوامی مالیاتی نظام دو ہفتوں میں زمین بوس ہوجائے گا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغربی دنیا نے تیسری دنیا میں صرف ضبطِ ولادت کے ذریعے ہی آبادی کو کم کرنے کی سازش نہیں کی، بلکہ اس نے علاقائی اور داخلی بحرانوں پر قابو پانے میں بھی کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کیا۔ روانڈا میں ہوتو اور تتسی قبائل کے مابین ہونے والی خانہ جنگی چند ماہ میں بیس لاکھ افراد کو نگل گئی، اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا یہ بیان آن ریکاڈ ہے کہ امریکہ نے اس خانہ جنگی کو بند کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی، یہاں تک کہ اقوام متحدہ بھی اس سلسلے میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی۔
مغربی دنیا چیخ رہی ہے کہ ایڈز افریقہ کو نگل رہا ہے، لیکن مغرب کے دوا ساز ادارے سستی دوائیں بنانے پر آمادہ نہیں، جبکہ اس سلسلے میں صورتِ حال یہ ہے کہ ایڈز کے مرض کا پھیلائو بھی مغرب کی سازش سمجھا جارہا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ افریقہ کے کئی ملکوں میں تیل اور قیمتی معدنی وسائل کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں اور خیال ہے کہ مغرب افریقہ کو ایڈز زدہ کرکے اسے معذوری میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے۔ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ تیسری دنیا میں تخفیف آبادی کا نعرہ اور اس کی مہم مغرب کے سیاسی ایجنڈے کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے تو یہاں تخفیفِ آبادی کی سازش کا دائرہ مزید وسیع ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں بنیادی حقائق کا تجزیہ دلچسپی اور معنی خیز صورت حال کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔
زیر بحث موضوع کے حوالے سے ہمارے کالم میں بار بار مغرب، اُس کے سازشی ذہن اور اُس کے سازشی نظریات کا ذکر آیا ہے۔ یہ ذکر بلاسبب نہیں ہے۔ تخفیف آبادی کی پشت پر امریکہ اور یورپ کا عالمی تناظر بھی موجود ہے اور عالمی ایجنڈا بھی۔ اتفاق سے اس سلسلے میں اتنی ٹھوس شہادتیں دستیاب ہیں کہ دنیا کا کوئی معقول شخص تخفیف آبادی کے سلسلے میں مغرب کی سازش کے انکار کی جرأت نہیں کرسکتا۔
برٹرینڈ رسل 20 ویں صدی کے عظیم ترین مغربی فلسفیوں میں سے ایک ہے۔ رسل نے ایک موقع پر کہا:
’’یہ توقع کرنا عبث ہے کہ دنیا کی طاقتور ترین اقوام ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھی رہیں گی اور دنیا کی دوسری اقوام محض افزائش (یا آبادی میں اضافے) سے طاقت کا (عالمی) توازن بدل دیں گی۔‘‘
(Marriage and Moral.By Bertrand Russal. Page-16, London-1985)
(بحوالہ ’’طاقت اور مفادات کا کھیل‘‘ از الزبتھ لیاگن۔ صفحہ 17)
اس سلسلے میں امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے بھی چند فقرے ملاحظہ کرلیجیے۔ کسنجر صرف امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہی نہیں ہیں بلکہ وہ مغرب کا ایک شہ دماغ بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے:
’’چونکہ (دنیا کی) ایک طاقت کی حتمی سلامتی کا مطلب (دنیا کی) باقی طاقتوں کی غیر سلامتی ہے، اس لیے اس (سلامتی) کا حصول صرف فتح سے ممکن ہے۔ مبنی برانصاف فیصلے سے ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘
(The Might of the Nations,World Politics in our Time. By John Stossinger,Page-219NewYork-1965)
(بحوالہ طاقت اور مفادات کا عالمی کھیل۔ الزبتھ لیاگن۔ صفحہ 17)
آپ نے دیکھا کہ مغرب کے مفکرین اور مدبرین کیا فرما رہے ہیں۔ رسل نے صاف کہا ہے کہ دنیا کی کمزور اقوام کی آبادی بڑھے گی تو اس سے قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر طاقت کا توازن بدل جائے گا اور دنیا کی طاقت ور ترین (مغربی) اقوام یہ ہرگز نہیں ہونے دیں گی۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغرب 70 سال سے طاقت کے توازن کو اپنے حق میں رکھنے کے لیے جنگیں اور جارحیتیں بھی ایجاد کررہا ہے، مختلف ممالک میں مخالفین کی حکومتیں بھی گرا رہا ہے، اپنے ایجنٹ جرنیلوں، سیاست دانوں اور بادشاہوں کو اقتدار میں بھی لا رہا ہے، اور پوری تیسری دنیا بالخصوص مسلم ممالک میں خاندانی منصوبہ بندی اور تخفیف آبادی کی مہم بھی چلا رہا ہے۔ جہاں تک ہنری کسنجر کا تعلق ہے تو انہوں نے بھی صاف کہہ دیا ہے کہ امریکہ کی سلامتی اسی وقت تک محفوظ رہ سکتی ہے جب تک دوسری اقوام کی سلامتی غیر محفوظ رہے۔ دوسری اقوام کی سلامتی ’’محفوظ‘‘ ہوگئی تو امریکہ کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ سلامتی کے تصور کا تعلق صرف عسکری دفاع سے نہیں ہے۔ اس میں اقتصادیات، سماجیات، تہذیبی و سیاسی غلبے اور مغربی اقدار کی بالادستی بھی شامل ہیں۔ کسنجر کے فقروں کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی اقوام کی بالادستی صرف ’’جارحیت‘‘ سے حاصل ہونے والی ’’فتح‘‘ کا نتیجہ ہوسکتی ہے، اس کا کسی نام نہاد مکالمے یا انصاف کے تصور سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے کہ جس دنیا میں امریکہ اور یورپ اور ان کے اتحادی بالادست ہوں گے اس دنیا میں حقیقی مکالمے اور حقیقی انصاف کا کوئی وجود نہیں ہوسکتا۔ چونکہ تیسری دنیا بالخصوص مسلم دنیا کی آبادی سے امریکہ اور یورپ اور ان کے مقامی فوجی، سیاسی اور ابلاغی ایجنٹوں کی سلامتی متاثر ہوسکتی ہے اس لیے مغربی دنیا کمزور اقوام کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے چالیس پچاس سال سے متحرک ہے۔
امریکی سی آئی اے اور سازش کا گہرا تعلق ہے۔ جہاں سی آئی اے ہوتی ہے وہاں سازش ضرور ہوتی ہے۔ بہت سے کم علم لوگ سمجھتے ہیں کہ سی آئی اے صرف جاسوسی کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ سی آئی اے حکومتیں گراتی ہے، حکومتیں بناتی ہے، علمی رجحانات کو کنٹرول کرتی ہے، دانش وروں، اسکالرز اور صحافیوں کو اپنے مقاصد کے لیے بروئے کار لاتی ہے، یہاں تک کہ تخفیف آبادی کے منصوبے سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔ ذرا دیکھیے تو سی آئی اے کی ایک ’’ڈی کلاسیفائیڈ‘‘ دستاویز میں سی آئی اے کیا کہہ رہی ہے:
’’دنیا کی شرح آبادی کا ان مقامی پُرتشدد واقعات اور بین الاقوامی مناقشوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ ہوگا جو امریکی مفادات کو بری طرح متاثر کریں گے۔ آبادی کی نمو (Growth) بین الاقوامی اقتصادی تعلقات کو سیاسی رنگ دینے میں بھی تقویت کا باعث ہوگی، اس سے (یعنی آبادی میں اضافے سے) ترقی پذیر ممالک کے اس میلان اور پیش قدمی میں بھی اضافہ ہوگا کہ دولت اور بین الاقوامی امور میں اختیارات کی ازسرنو تقسیم ہو۔‘‘
(Central Intelligence Agency- Political Perspective on Key Global Issues. March 1977- Declassified in part-January 1995- Page-4)
(بحوالہ: طاقت اور مفادات کا عالمی کھیل۔ از الزبتھ لیاگن۔ صفحہ 39)
چلتے چلتے امریکی سی آئی کا ایک اور بیان ملاحظہ فرما لیجیے۔ سی آئی اے نے کہا:
’’طاقت ور ہونا اور دوسروں کو بھی اپنی طاقت کا احساس دلانا افراد اور اقوام کی خود توقیری یا Self esteem میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔ طاقت اپنے عامل کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ ماحول کو اپنی خواہش اور مفاد کے مطابق ڈھال سکے۔ طاقت مملکت کو اپنی سلامتی کی حفاظت کے قابل بناتی ہے۔ طاقت ریاست کو یہ موقع بھی فراہم کرتی ہے کہ اپنی قدریں دوسری اقوام میں رائج کی جائیں اور بین الاقوامی منظر اس طرح ڈھالا جائے کہ وہ طاقت ور قوم کی قدروں کا عکاس ہو۔‘‘ (Why International Primacy Matters published in International Security No-4, Page-68- 1990) (بحوالہ: طاقت اور مفادات کا عالمی کھیل، صفحہ 4)
عالمی بینک امریکہ اور یورپ کے عالمگیر غلبے کی علامت بھی ہے اور ان کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بھی۔ ذرا سنیے عالمی بینک کا سابق صدر لیوس پیٹرسن کیا کہہ رہا ہے:
’’امریکہ کو نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اس فکر نے پریشان کر رکھا ہے کہ آبادیوں کے حجم اور تقسیم میں واقع ہونے والے فرق کی وجہ سے وہ دنیا کی امامت سے معزول یا محروم ہوجائے گا۔ (چنانچہ) فی الواقع امریکہ نے عالمی بینک پر اپنے اثر رسوخ کو بہت مؤثر طریقے سے استعمال کیا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک پر آبادی سے متعلق غیر مقبول پالیسیاں ٹھونسے…… عالمی بینک نے 1980ء میں تخفیف آبادی کے لیے 10 کروڑ ڈالر کی رقم مہیا کی تھی مگر اس کا منصوبہ تھا کہ وہ 1995ء تک آبادی کے شعبے کے لیے رقم کو بڑھا کر ڈھائی ارب ڈالر کر دے گا۔‘‘
(عالمی بینک کے صدر لیوس پیٹرسن کا خطاب، ورلڈ بینک کانفرنس۔ ورلڈ بینک آڈیٹوریم، واشنگٹن ڈی سی، 9 مارچ 1992ء۔ بحوالہ طاقت اور مفادات کا عالمی کھیل۔ از: الزبتھ لیاگن۔ صفحہ 106)
مغرب کی سازش کے سلسلے میں مغرب کے ایک دانش ور کی شہادت بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ اس دانش ور کا نام ہے بن ویٹن برگ، جو اپنی تصنیف The Birth Dearth یعنی قحط اطفال میں لکھتا ہے:
’’مغربی ثقافت کم و بیش چالیس سال پہلے (جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی) ایک غالب ثقافت اور تہذیب تھی۔ اُس وقت دنیا کی آبادی میں مغرب کا حصہ 22 فیصد تھا۔ آج ہمارا حصہ 15 فیصد ہے اور ہم اب بھی غالب ہیں۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ 2025ء میں ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا صرف 9 فیصد ہوگی اور 2100ء میں ہم صرف 5 فیصد ہوں گے۔ چنانچہ یہ کہنا غیر حقیقت پسندانہ ہوگا کہ ہماری قدریں جوں کی توں رہیں گی جب کہ ہماری تعداد کم سے کم ہوتی چلی جائے گی اور ہماری اقتصادی اور فوجی طاقت روبہ زوال ہوگی… اگر مغرب کی تولیدی صلاحیت اگلی دہائیوں میں بلند ہو بھی گئی تب بھی تیسری دنیا کی آبادی دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ ہوگی۔ تیسری دنیا کے یہی ممالک نسبتاً خوش حال اور طاقت ور بھی ہوں گے۔ کیا ہم چینیوں، ہندوستانیوں، انڈونیشینز، نائیجرینز اور برازیل کے باشندوں کے بارے میں مناسب علم رکھتے ہیں؟ کیا ہم ان کی زبانیں جانتے ہیں؟ کیا ہمیں ان کی ثقافتوں کا پتا ہے؟ ہمیں یہ سب معلوم ہونا چاہیے، کیوں کہ یہی تو اگلی صدی کی آبادیاتی عظیم طاقتیں یا آبادی کے اعتبار سے سپر پاورہیں۔‘‘ (The Birth Dearth- by Bin Wattenberg-Page-97-98, New York-1987) (بحوالہ: طاقت اور مفادات کا عالمی کھیل۔ از: الزبتھ لیاگن۔)
بن ویٹن برگ کے اس اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ آبادی کا عالمی غلبے سے گہرا تعلق ہے اور مغرب اس بات سے بخوبی آگاہ ہے۔ مغرب کے حکمران اور پالیسی ساز ہی نہیں، دانش ور بھی جانتے تھے کہ عالمی اسٹیج پر امریکہ کا زوال اس کا مقدر ہے۔ نہ صرف امریکہ کا، بلکہ پورے مغرب کا۔ یہ امر بھی عیاں تھا کہ اس زوال کے بعد جو طاقتیں مغرب کی جگہ لیں گی وہ سب کی سب غیر مغربی ہوں گی۔ بن ویٹن برگ کو یہ بات 1987ء میں معلوم تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تخفیف آبادی کا پورا منصوبہ تیسری دنیا بالخصوص مسلم ممالک کے خلاف ایک عظیم سازش ہے۔ ایسی سازش جس کو ثابت کرنے کے لیے شہادتوں کا انبار لگا ہوا ہے۔
تخفیف آبادی کے سلسلے میں مغرب کی استعماری سازش صرف ہمیں ہی نظر نہیں آرہی بلکہ کیوبا کے عظیم رہنما فیڈل کاسترو نے بھی ایک بار اس سازش پر کھل کر اظہار خیال کیا تھا۔ کاسترو نے 1968ء میں کیا کہا تھا، پڑھیے اور مغرب اور اس کے مقامی ایجنٹون کا سر دھنیے۔ امریکہ کے اُس وقت کے وزیر خارجہ ڈین رسک نے اپنے ایک بیان میں ضبطِ ولادت کو ’’استحکام کا ذریعہ‘‘ کہا تو کاسترو نے ایک تقریر میں مغرب کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا:
’’ایک ایسے وقت میں جب سائنس اور ٹیکنالوجی میں عظیم الشان پیش رفت ہورہی ہے، امریکی ٹیکنالوجی کو انقلابات شکنی کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ وہ سائنس کی مدد سے آبادی میں اضافہ روکنا چاہتے ہیں۔ قصہ مختصر استعمار چاہتا ہے کہ لوگ انقلابات سے ہاتھ اٹھا لیں، عورتیں بچے پیدا کرنا چھوڑ دیں۔ یہی استعمار کے فلسفے کا خلاصہ ہے۔‘‘ (Fidel Castro to Havana Congress-12 January-1968)
کاسترو کی اس تقریر سے ظاہر ہے کہ انقلاب کا بھی آبادی سے ایک تعلق ہے۔ ملک کی آبادی بوڑھی ہوگی تو معاشرے پر مُردنی چھا جائے گی، ملک میں نوجوانوں کی فراوانی ہوگی تو معاشرہ توانائی سے بھرپور ہوگا اور انقلاب کے لیے فضا سازگار ہوگی۔ مغرب اس بات کو سمجھتا ہے۔ کاسترو کو بھی یہ بات معلوم تھی، اسی لیے انہوں نے آبادی میں کمی کے امریکی منصوبے کو استعماری اور انقلاب کُش قرار دیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کو احساس ہونا چاہیے کہ آبادی کے تناظر میں بساطِ عالم پر ان کی حیثیت کیا ہے۔
1940ء کے آس پاس مسلمانوں کی مجموعی عالمی آبادی صرف 36 کروڑ تھی، آج 78 سال بعد یہ آبادی ایک ارب 60 کروڑ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2050ء میں یہ آبادی دو ارب نفوس پر مشتمل ہوگی۔ اس وقت بساطِ عالم پر نہ صرف یہ کہ 57 آزاد مسلم ریاستیں موجود ہیں بلکہ ان کے پاس دنیا کے تیل کے 60 فیصد، قدرتی گیس کے تقریباً 50 فیصد اور بعض اہم معدنیات کے 25 فیصد ذخائر ہیں۔ مسلم جہاں اقلیت ہیں وہاں ان کی حیثیت بڑی اقلیت کی ہے۔ یورپ میں مسلمانوں نے جڑیں پکڑ لی ہیں۔ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً پچاس لاکھ، برطانیہ اور جرمنی میں 40 لاکھ کے آس پاس ہے اور ان ملکوں میں ان کی حیثیت دوسری بڑی اقلیت کی ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد چند برسوں میں یہودیوں سے بڑھنے والی ہے۔ خود اسرائیل کا یہ حال ہے کہ وہاں آئندہ دس سے پندرہ برسوں میں عرب آبادی اکثریت میں ہوگی اور یہودی اقلیت میں، یہ اور بات کہ اس عرب آبادی میں عیسائی بھی شامل ہیں۔ مغربی دنیا اس صورت حال سے خوف زدہ ہے۔ بلاشبہ مسلم دنیا میں تخفیف آبادی ایک جانب مغرب کا سیاسی ایجنڈا ہے، لیکن اسے صرف سیاسی ایجنڈا سمجھنا غلط ہے۔ مثال کے طور پر ’’کم بچے خوش حال گھرانہ‘‘ کا نعرہ ایک سیاسی یا معاشی نعرہ نہیں ہے، یہ بجائے خود ایک مکمل تصورِ حیات ہے، اور اس تصورِ حیات کو اختیار کرتے ہی خدا، کائنات اور معاشرے سے آپ کا تعلق بدل کر رہ جاتا ہے اور آپ کی اخلاقیات کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ خدا ہی رزق دینے والا ہے، بلاشبہ انسان کوشش کرتا ہے لیکن وہ کوشش کے لیے بھی خدا کا محتاج ہے۔ کم بچے خوش حال گھرانہ کا نعرہ اعلان کیے بغیر اس عقیدے کو چیلنج کرتا ہے اور بہت آہستگی کے ساتھ اسے بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اس نعرے کو اختیار کرکے انسان رزق پر کچھ نہ کچھ اپنا اختیار تسلیم کر لیتا ہے اور یہ شرک کی ایک صورت ہے۔
مغربی اصطلاحوں میں ترقی و خوش حالی بسا اوقات ہم معنی الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے یہاں لوگوں کو اس کا اندازہ بھی نہیں کہ اہلِ مغرب ان الفاظ کو تقریباً انہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں جن معنوں میں ہم ’’نجات‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جس کو نجات ملی اس کو سب کچھ مل گیا۔ مغرب بھی یہی کہتا ہے کہ جس نے ترقی کی اور خوش حال ہوا اُس نے گویا نجات حاصل کرلی۔ بدقسمتی سے ہم بھی ان الفاظ کو لاشعوری طور پر سہی، انہی معنوں میں استعمال کرنے لگے ہیں۔ شاندار گھر، نئے ماڈل کی کار، ٹی وی، ریفریجریٹر، وی سی ڈی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ چیزوں کے نام نہیں… یہ نجات کے حصول کے ذرائع ہیں۔ مگر ہماری جعلی اور مصنوعی مذہبیت اس حقیقت کو آشکار نہیں ہونے دیتی۔
اسلام میں خاندان کے ادارے کی اہمیت بنیادی ہے۔ اسلام کے نزدیک پوری امتِ مسلمہ، یہاں تک کہ پوری انسانیت ایک بڑا خاندان ہے، اور خاندان ایک چھوٹا سا معاشرہ ہے۔ خاندان اسلام میں اصول توحید کا سماجی مظہر یا Social Manifestation ہے۔ یہ معاشرے کی خشتِ اوّل اور بجائے خود ایک کائنات ہے، جس کا اپنا نظامِ شمسی، سورج، چاند اور ستارے ہیں اور اس ادارے کی کمزوری پورے معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
ہمارے یہاں مغربی فکر کی گمراہیوں کا تجزیہ تو بہت ہوا ہے لیکن اس بات پر بہت کم توجہ دی گئی ہے کہ اس فکر کی پشت پر موجود لوگوں کی سماجیات یا Sociology کیا تھی؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ انسان بڑی حد تک اپنے سماجی، جذباتی اور نفسیاتی تجربے کا اسیر ہوتا ہے۔ اور مغرب میں ایسے بے شمار ادیب، شاعر اور مفکرین ہوئے ہیں جن کا سماجی تجربہ ’’نارمل‘‘ نہیں تھا، جن کو محبت سے لبریز خاندانی ماحول فراہم نہیں ہوا، جن کا بچپن خوش گوار نہیں تھا۔ فرانز کافکا نے جدید مغربی فکشن کے زمین و آسمان بدل دیے اور اس کی حیثیت مغرب کے ادب پر بہت بڑے اثر کی ہے۔ کافکا کے یہاں زندگی رینگتے ہوئے کیڑوں کی سطح پر آجاتی ہے۔ لیکن یہ کافکا کا شخصی تجربہ تھا۔ ژاں پال سارتر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ میرے دادا اور دادی میں سے ایک کیتھولک اور دوسرا پروٹسٹنٹ تھا اور وہ ہر صبح ناشتے کی میز پر ایک دوسرے کے مسلک کو برا کہتے تھے۔ اس سے میرے سادہ ذہن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ دراصل دونوں ہی غلط ہیں۔ نٹشے جس کے انکارِ خدا نے مغربی فلسفے کو بدل کر رکھ دیا، وہ اپنے بچپن کے بعض واقعات کو ساری زندگی شدت سے بیان کرتا رہا۔ اسلام میں اس حوالے سے بھی خاندان کے ادارے کی اہمیت بنیادی ہے۔ لیکن خاندان کا ادارہ شادی کے ادارے سے وجود میں آتا ہے اور شادی کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ نصف دین ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں شادی کے ادارے کو غیر معمولی اہمیت دی ہے اور اس کے سلسلے میں حد درجہ سنجیدگی برتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ہر شے کا جوڑا پیدا کیا۔ چنانچہ اسلام میں شادی محض کوئی سماجی ادارہ نہیں۔ اسلام میں شادی ایک کائناتی سطح کا عمل ہے، اور جو افراد کو پوری کائنات کے مزاج سے ہم آہنگ ہونے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے بغیر مرد اور عورت ادھورے ہیں اور شادی کا ادارہ مرد و عورت کے تعلق کے حوالے سے ایک تکمیلی دائرہ بناتا ہے۔ مسلم مفکرین نے شادی کے تصور کو کتنی اہمیت دی ہے اس کا اندازہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے اس قول سے ہوتا ہے:
’’خطاب کرنے والا باپ کی طرح ہے، سامع کی حیثیت ماں کی ہے، اور گویائی بجائے خود شادی ہے، اور اس کے نتیجے میں جو تفہیم میسر آئی وہ بیٹے کی طرح ہے۔‘‘
شیخ اکبر ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’جب کسی فعل کے نتیجے میں کوئی ایسی شے ظہور پذیر ہو جس کا پہلے سے وجود نہیں تھا تو یہ صورت حال شادی کے خصائص میں سے ایک خاصیت ہے۔ دنیا میں کسی ایسے فعل کا وجود نہیں جو اپنی حقیقت اور میلان کے مطابق کسی شے کو جنم نہ دے۔ اس طرح شادی تمام اشیا کی نہاد ہے، چنانچہ یہ ایک ہمہ گیر اور بسیط حقیقت ہے اور اس کی ترجیح ناقابلِ بیان ہے۔‘‘
اس تناظر میں دیکھا جائے تو جدید مغربی تہذیب کا تجربہ اسلامی تہذیب کی ضد نظر آتا ہے۔ مغرب میں پھیلی ہوئی جنسی انارکی اور ان کے مجموعی تصورِ زندگی نے نہ صرف خاندان کے ادارے کو منہدم کیا بلکہ حقیقتاً مغرب میں جنس کی بھی تکذیب ہوگئی ہے۔ ہم جنس پرستی کا ہولناک رجحان جنس کی تردید نہیں تو اور کیا ہے!
مغربی دنیا نے چھوٹے خاندان کے تصور اور تخفیف آبادی کو معاشی خوش حالی سے اس طرح منسلک کیا ہے کہ یہ تصورات لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ آبادی میں مسلسل اضافہ ہماری شرح نمو کو نگل جاتا ہے۔ لیکن چین نے ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی کے باوجود 11 فیصد سالانہ شرح نمو حاصل کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ مسئلہ آبادی کو Manage کرنے سے زیادہ اہلیت اور صلاحیت کا ہے۔ چین نے اپنی آبادی کو ایک بوجھ کے بجائے اپنا سب سے بڑا اثاثہ بھی ثابت کر دکھایا ہے۔ یہی قصہ بھارت کا ہے۔ چین اور بھارت چالیس سال قبل اپنی بڑی آبادی کو ایک بوجھ سمجھتے تھے۔ چنانچہ چین نے عالمی بینک کی امداد سے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کی بڑی کوشش کی۔ چین میں کئی دہائیوں تک ’’بچہ ایک ہی اچھا‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ بھارت کہنے کو استعمار دشمن اور غیر جانب دار ملک تھا مگر تخفیف آبادی کے سلسلے میں چین کی طرح بھارت بھی مغرب کے استعماری ایجنڈے پر عمل کرتا رہا۔ 1970ء کی دہائی میں بھارت پر اندرا گاندھی کی حکومت تھی، مگر 1972ء میں عالمی بینک نے بھارت کو نس بندی اور تخفیف آبادی کے دیگر پروگراموں کے سلسلے میں دو کروڑ بیس لاکھ ڈالر مہیا کیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت میں لاکھوں لوگوں کی زبردستی نس بندی کی گئی اور مردوں کو نامرد بنایا گیا۔ اس سے معاشرے میں زبردست ردعمل پیدا ہوا اور اندرا گاندھی کے خلاف ایک ملک گیر مہم چل پڑی۔ انتخابات ہوئے اور اندرا گاندھی کو انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ چینی حکومت نے 1979ء میں یہ پابندی لگادی تھی کہ کوئی جوڑا ایک سے زائد بچہ پیدا نہیں کرسکے گا۔ اس سخت گیر پالیسی کے نتیجے میں چائنا کم و بیش 40 کروڑ بچے کم پیدا کرنے میں کامیاب تو ہوگیا مگر بوڑھی سوسائٹی کے جنجال میں پھنس گیا۔ لیکن بوڑھی سوسائٹی سے ماسوا چین میں ایک اور پریشانی تھی، اور وہ یہ کہ پیدا ہونے والوں میں لڑکوں کا تناسب لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جوں ہی کوئی لڑکی پیدا ہوتی تو لوگ ڈاکٹروں کی مدد سے یا خود ہی بچی کو مار دیتے تاکہ اُس وقت تک لاولد رہیں جب تک لڑکا پیدا نہ ہوجائے۔ اگر لڑکی پیدا ہوگئی تو پھر دوسرے بچے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چنانچہ نوبت یہاں پہنچی کہ بیس سال اس پالیسی پر عمل کے بعد جوان لڑکوں کو شادی کے لیے مناسب تعداد میں لڑکیاں میسر نہیں رہیں اور لڑکیوں کی تلاش میں لڑکے ملکوں ملکوں مارے مارے پھرنے لگے اور حکومت کو پابندی لگانی پڑی کہ جب تک 35 سال کی عمر تک کے لڑکے شادی نہ کرلیں کم عمر کے لڑکے شادی نہ کریں، کیوں کہ لڑکیاں کم ہیں اور پہلے پیدا ہونے والے لڑکوں کا موجود لڑکیوں پر زیادہ حق ہے۔
اس صورت حال کی وجہ سے چین کو اپنی ”ایک خاندان ایک بچہ“ کی پالیسی کو بدلنا پڑا۔ چنانچہ 24 جولائی 2011ء کو چائنا کے سرکاری پریس نے اپنے ایک ہینڈ آئوٹ میں اس بات کا اعلان کیا کہ آبادی کے بوڑھے ہوجانے کے سبب اب چین کی حکومت کچھ خاندانوں کو ’’صرف ایک بچے‘‘ کی سخت پالیسی سے مستثنیٰ قرار دینے پر آمادہ ہے۔ چائنا کی حکومت اپنے انتہائی گنجان آبادی والے شہر شنگھائی میں اپنے ایسے بے چارے مظلوم جوڑوں پر رحم کھانے پر آمادہ ہوگئی ہے جو اس کی سخت گیر جبر کی پالیسی کی وجہ سے اپنے والدین کی واحد اولاد تھے۔ ان کے والدین پر ظلم کی تلافی اس طرح ہے کہ ان جوڑوں کو اب دو بچے پیدا کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اب انہیں نہ گورنمنٹ کے ڈر سے دوسرے بچے کا حمل ٹھیرنے پر اسقاط کرانا ہوگا، نہ پیدا ہونے والی پہلی اولاد اگر لڑکی ہو تو اُس کے حلق میں روئی رکھ کر اسے جان سے مارنا ہوگا (کہ انہیں تو اپنی نسل کے تسلسل کے لیے بیٹے کی ضرورت ہے)، نہ ہی پہلے بچے کے پیدا ہوتے ہی دونوں ماں باپ کو نس بندی کراکے ہمیشہ کے لیے پیداواری صلاحیت سے دست کش ہونا ہوگا۔ سرکاری پریس کا کہنا ہے کہ ”ہم اس نئے قانون کے مطابق حق دار جوڑوں کی دوسرا بچہ پیدا کرنے کی جرات پر ہمت افزائی کریں گے کہ یہ پالیسی چین کی آبادی میں بوڑھوں کا تناسب کم کرنے میں مدد دے گی اور مستقبل میں چین کو مردانِ کار کی کمی کا شکار نہیں ہونا پڑے گا۔‘‘
شنگھائی میں محکمہ خاندانی منصوبہ بندی کے کارکنان گھر گھر اور اسپتالوں میں پرچے بانٹ رہے ہیں جن میں دوسرا بچہ پیدا کرنے پر گورنمنٹ کی جانب سے مالی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہی کام جرمنی اور یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی خاندانی منصوبہ بندی کے ماہرین کرتے ہیں، وہاں اگر کوئی برسر روزگار لڑکی کسی بچے کی پیدائش کا کارنامہ انجام دیتی ہے تو اسے صرف زچگی کے دوران ہی تنخواہ کے ساتھ چھٹی نہیں ملتی بلکہ پورے ایک سال کی چھٹی پوری تنخواہ کے ساتھ ملتی ہے۔ یہ اس لڑکی کا قوم پر احسان ہے کہ اُس نے اپنی جوانی کی عیاشی اور آزادی کو تج کر بچے کو پرورش کرنے کی ایثار والی ہمت کر ڈالی۔ ایسے معاشرے میں جہاں ہر سال اتنے بچے پیدا نہیں ہو پاتے جتنے لوگ مرتے ہیں، نتیجتاً کم بچوں والے بوڑھوں سے بھرے ہوئے معاشرے پر اس کا احسان ہے کہ اس کے ذریعے انسانی آبادی کے برقرار رہنے کی امید تو ہوئی۔
(بحوالہ: ماہنامہ کشور۔ دسمبر 2018ء صفحہ نمبر 22-(21
بدقسمتی سے مغرب میں آبادی میں اضافہ آسان نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کا معاشرہ Enjoy your self کا چلتا پھرتا اشتہار بن گیا ہے۔ چنانچہ امریکہ اور یورپ میں والدین کو بچوں میں اضافے کی ترغیب دی بھی جاتی ہے تو یہ ترغیب مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔ چنانچہ مغربی معاشرے ’’بوڑھوں کے معاشرے‘‘ بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کے یہاں افرادی قوت کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے اور وہ ساری دنیا سے تارکین وطن کو اپنے یہاں آباد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مگر تارکین وطن کی آمد سے مغربی معاشرے میں تارکین وطن اور مقامی افراد کے درمیان کشمکش برپا ہوگئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یورپ کے اکثر ممالک میں انتہائی دائیں بازو کی نسل پرست جماعتوں کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور یورپ کا چنگیز سے زیادہ تاریک باطن عیاں ہوکر سامنے آنے لگا ہے۔ یورپ کے عیاشانہ مزاج، انفرادیت پرستی اور تعیش میں ڈوبی ہوئی محبت نے یورپ کا کیا حال کردیا ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے وسیلے سے ملاحظہ کیجیے:
“Europe is literally melting away like snow in the sun, slipping from 15.6 percent of the world population in 1950 to 10.2 percent in 1985 and 6.4 percent in 2025.” (World Population at the Turn of Century, United Nations, New York, 1989, Page-8)
ترجمہ: ’’یورپ دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھلتا جارہا ہے، 1950ء میں اس کی آبادی دنیا کی آبادی کا 15.6 فیصد تھی، 1985ء میں کم ہو کر 10.2 رہ گئی اور 2025ء تک یہ 6.4 فیصد رہ جائے گی۔‘‘ اسی خطرے کا اظہار فرانس کے سابق صدر یاک شیراک نے کیا تھا:
“If you look at Europe and then at other continents, the comparison is terrifing. In demographic terms,Europe is vanishing. Twenty or so years from now, our countries will be empty, and no matter what our technological strength, we shall be incapable of putting it to use.”
ترجمہ: ’’اگر آپ یورپ اور دوسرے براعظموں کو دیکھیں گے تو ایک ہولناک موازنہ سامنے آئے گا۔ یورپ غائب ہورہا ہے۔ بیس، بائیس سال میں یورپی ممالک خالی ہوجائیں گے، چنانچہ خواہ ہماری ٹیکنالوجیکل طاقت کیسی ہی کیوں نہ ہو ہم اسے استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔‘‘ (ماہنامہ نشور، دسمبر 2018)
ہمارے ہاں دو، چار برسوں سے چھوٹے خاندان اور کم آبادی کے حوالے سے اسلام کے تناظر میں ایک اور دلیل وضع ہوئی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسلام تعداد یا مقدار پر نہیں معیار یا Quality پراصرار کرتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ انسانی دائرے میں تعداد کو معیار سے مشروط کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس کا بہت کچھ انحصار بچوں پر والدین کی توجہ، خاندانی مراسم کی نوعیت اور والدین کی تربیتی صلاحیت پر ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسلام Quality پر اصرار کرتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تعداد زیادہ Quality پیدا کرنے کا امکان رکھتی ہے۔ فرض کیجیے ایک شخص کا ایک بچہ ہے اور ایک شخص کے چار بچے ہیں، جس شخص کا ایک بچہ ہے اگر وہ نالائق نکل آئے تو اس شخص کے پاس بہتر نسل پیدا کرنے کا امکان صفر ہوگا۔ اس کے برعکس جس شخص کے چار بچے ہیں اگر اس کا ایک بچہ بھی اچھا انسان، اچھا مسلمان اور صاحب علم بن گیا تو انسانیت کی بڑی خدمت کا امکان پیدا ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں معروف کالم نگار جاوید چودھری نے حال ہی میں ایک دل چسپ واقعہ اپنے کالم میں لکھا ہے۔ انہوں نے لکھا:
’’میں نے بے شمار نالائق بچوں کو اپنے والدین کی بے تحاشہ خدمت کرتے دیکھا، اور کامیاب بچوں کو اپنے والدین کو بیماری کے عالم میں اکیلا چھوڑ کر کامیابی کے پیچھے بھاگتے بھی دیکھا۔ میں کراچی میں ایک صاحب کے گھر گیا، اس کا بیٹا عاشق کی طرح ان کی خدمت کررہا تھا۔ میں نے بیٹے کی تعریف کی تو وہ صاحب ہنس پڑے۔ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا: میرے پانچ بیٹے ہیں، چار لائق ہیں اور یہ ایک نالائق۔ آج سارے لائق ملک سے باہر بیٹھے ہیں، جب کہ یہ نالائق دن رات میری خدمت کرتا ہے، میں اسے دیکھتا ہوں اور دل ہی دل میں کہتا ہوں ’’بچے نالائق ہی اچھے۔‘‘ (روزنامہ ایکسپریس، 16 دسمبر 2018ء)
مغرب میں تخفیف آبادی یا خاندانی منصوبہ بندی کا تصور تقدیر اور ارادۂ الٰہی کی یکسر تکذیب کرتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اگر خاندانی منصوبہ بندی پانچ سو سال سے پوری دنیا میں رائج ہوتی اور دنیا کے صرف 100 جینئس اس کی نذر ہوکر پیدا نہ ہوئے ہوتے تو آج ہماری دنیا کیسی ہوتی۔ ایڈیسن ابتر ترین معاشی حالات میں پلا بڑھا، مگر اُس نے دنیا کو تین ہزار سے زائد ایجادات دیں۔ شیکسپیئر اُس زمانے کے زیریں متوسط طبقے کا شخص تھا اور وہ مغربی ادب کا سب سے بڑا نام ہے۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، دنیا کے 80 فیصد سے زائد تاریخ ساز لوگ ابتر معاشی حالات اور بڑے خاندانوں سے آئے ہیں۔ بہترین معاشی پس منظر اور چھوٹے خاندانوں سے کیسے بچے آرہے ہیں اس کا اندازہ پوپ فرانسس کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے یورپ کی جدید نسلوں کو روحانی، مذہبی اور اخلاقی معنوں میں گم شدہ نسلیں یا Lost generations کہا ہے۔ پاکستان کے امیر یا بالائی طبقات میں بھی عموماً ایک یا دو بچے ہوتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ پچاس برسوں میں ان بچوں میں سے نہ کوئی بڑا شاعر پیدا ہوا، نہ بڑا ادیب، نہ ان بچوں میں سے کوئی بڑا عالم دین بنا، نہ بڑا سائنس دان۔ ان تمام حقائق کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ عمران خان اور جسٹس ثاقب نثار جیسے لوگ اور اسٹیبلشمنٹ مغرب کے ایجنٹ کی حیثیت سے اپنے مذہب اور اپنے معاشرے کے خلاف کتنا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔

ضبطِ ولادت اور مادری جبلت

ایک عام شادی شدہ جوڑے کو صاحبِ اولاد ہونا چاہیے۔ جو لوگ اولاد کو موخر کرتے ہیں بعد میں انہیں اس پر نادم ہونا پڑتا ہے۔ لاولد شادی نت نئے مسائل کو جنم دیتی ہے، اور خواہ زوجین ایک دوسرے سے مطمئن ہی ہوں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان پر ایک شدید قسم کی بدمزگی اور بے کیفی مسلط ہوجاتی ہے۔ گویا کہ وہ اپنے سفر کے اختتام پر پہنچ گئے ہیں۔ ماہر عمرانیات ہمیں برابر متنبہ کررہے ہیں کہ شرح طلاق اُن گھروں میں سب سے زیادہ ہے جو اولاد سے محروم ہیں۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے۔ اس صورت میں ماں اور باپ بننے کی بنیادی، فطری اور جبلی خواہش پوری نہیں ہوتی۔ یہ چیز عورت کے معاملے میں خصوصیت سے بڑی اہم ہے۔ ضبطِ اولاد سے اس کی مادری جبلت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، جس سے اس کا نظامِ اعصاب پراگندہ ہوسکتا ہے، اس کی صحت تباہ ہوسکتی ہے، اور زندگی میں اس کی تمام خوشی اور دلچسپی خاک میں مل سکتی ہے۔
(Alexander, james N.The Psychologist Magazine, London June 1968)

امریکی معاشرہ….. بوڑھا معاشرہ

۔2050ء میں پاکستان اور عالم اسلام کا مقابلہ تاریخِ انسانی کے سب سے بوڑھے معاشرے اور سب سے بوڑھی تہذیب مغرب اور امریکہ سے ہو گا اور اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان اس تاریخی جنگ کی قیادت کا اہل ہوجائے اور جغرافیائی، نظریاتی اور تاریخی وجوہات کی بنیاد پر وہ ایک قائدانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک اس مخفی طاقت کو حرکی طاقت میں تبدیل کرنے والی کوئی شخصیت، تحریک یا جماعت موجود نہیں، مگر امکانات مکمل طور پر موجود ہیں۔ مغرب اور امریکہ ان تمام امکانات کے باعث پاکستان کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی نظر اِس وقت کے بظاہر کمزور پاکستان اور کمزور مسلم امت پر نہیں ہے، بلکہ وہ مستقبل کے تناظر میں اس قوم اور اس امت کا تجزیہ کررہے ہیں۔ تاریخ نے یہ بتا دیا ہے کہ مسلم امت ہر مشکل مرحلے سے زندگی پاکر نکلی ہے۔ یہ اپنی خاکستر سے ققنس کی طرح بار بار جی اٹھتی ہے، اس کی مٹی پر پانی کے چند چھینٹے بھی پڑ جائیں تو یہ مٹی لہلہانے لگتی ہے۔ اس کی مثال اس کٹے پھٹے، مضروب، مجروح درخت جیسی ہے جس کے ہر حصہ زخم سے نئی کونپلیں، نئے شگوفے پھوٹتے ہیں، نئی کلیاں مسکراتی ہیں اور نئے پھولوں کی فصلِ بہار لہلہا اٹھتی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں یہ امت چوٹ کھا کر، زخم پا کر، مر کر بھی بار بار زندہ ہوتی رہی ہے۔ یہ ہر نازک دور سے گزر کر اس طرح طلوع ہوتی ہے جس طرح رات کی تاریکی چھٹنے کے بعد اذانِ فجر کے ساتھ ہی سورج جگمگا اٹھتا ہے۔

جینیات میں سرمایہ کاری کا سبب

مغرب میں عیش و عشرت کے فلسفے کے ساتھ ساتھ کم آمدنی، مہنگی زندگی اور طلاق کے سلسلے میں نہایت سخت قوانین کے باعث مرد و عورت قانونی شادیوں سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ طلاق کی صورت میں مرد کے پاس سوائے حیرت، حسرت اور عبرت کے کچھ باقی نہیں بچتا۔ پھر بچے کی پیدائش بہت سی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہے اور آوارہ گردی کی زندگی کے ساتھ ساتھ لذتِ آوارگی سے بھی نجات کی طالب ہوتی ہے، لہٰذا مغرب کی عورتیں بچے کی پیدائش کے عمل کو ایک بوجھ، عذاب اور آفت و مصیبت سمجھتی ہیں۔ آبادی میں مسلسل کمی کے خطرات سے گھبرا کر یہودی النسل سائنس دانوں اور مغربی دانش وروں نے ”جینیات“ کے شعبے میں اربوں کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سرمایہ کاری کے دو مقاصد ہیں۔ پہلا یہ کہ مغربی فلسفہ مادیت جس کا مذہب معیشت ہے، کی روحانی توجیہ بیان کی جائے اور ایک ایسی مابعد الطبعیات تخلیق کی جائے جس کے ذریعے لوگوں کا مذہب اور خالقِ کائنات پر اعتماد و اعتبار مکمل طور پر مجروح کردیا جائے۔ جینیات اس وقت مغربی فلسفے کی روحانی توجیہ کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ مذہب کے متبادل ایک مادی روحانیت کی مابعد الطبعیاتی اساس مہیا کرنے میں کوشاں ہے۔ ڈولی کی صورت میں جرثوموں کے ذریعے ایک ہی قسم کے جانور و انسان تیار کرنے کا تجربہ دراصل ایسی اولاد اور نسل پیدا کرنے کی کوشش ہے جس کے ماں باپ بننے کے لیے کوئی انسان تیار نہیں ہے، مگر جس نسل کی مغرب کے بازار، کاروبار اور منڈیوں کو شدید ضرورت ہے۔ ”جینوم“ منصوبے کا اعلان جس کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہے کہ انسان نے خالقِ کائنات کی کتاب کے تمام اسباق پڑھنے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے اور وہ اس زبان سے واقف ہو گیا ہے جس میں یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ ان بے بنیاد دعووں کی اساس یہ نقطہ نظر ہے کہ خلق نے خالق ہونے کا اعلان کردیا، اور بتادیا جائے کہ زندگی و موت، تخلیق و افزائش، پیدائش و پرورش پر صرف خالقؐ کائنات کی اجارہ داری کا مذہبی دعویٰ بے بنیاد ہے اور انسان دراصل خود اپنا خالق ہے اور وہی خالقِ کائنات بھی ہے، کیونکہ کائنات اس کے زیرِ نگیں ہے۔
(سویدا۔ مارچ 2005ء۔ شمارہ 3)

شرح پیدائش میں کمی، چین کی پریشانی

چینی ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں شرح پیدائش میں کمی کے باعث بزرگوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے 2029 ء￿ تک ا?بادی بڑھ کر 1 ارب 44 کروڑ 20 لاکھ نفوس (1.442 ارب) تک پہنچ جانے کے باوجود افرادی قوت میں کمی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا، حکومت کو افرادی قوت میں کمی کے متوقع بحران سے نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات کرنے چاہئیں۔
چائنہ اکیڈمی ا?ف سوشل سائنسز کی جانب سے شائع کی گئی تازہ ترین کتاب ’’ گرین بک ا?ف پاپولیشن اینڈ لیبر ‘‘ کے مندرجات کے مطابق ملک میں جاری کم شرح پیدائش کے باوجود 2029ء￿ تک ملک کی آبادی 1 ارب 44 کروڑ سے بڑھ جائے گی، ا?بادی میں اضافے کے ساتھ بزرگ افراد کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوجائے گی جس سے کام کرنے والے افراد کا تناسب کم ہوجائے گا جو صنعتی، کاروباری اور دیگر ترقیاتی سرگرمیوں میں رکاوٹ کا باعث بنے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت کام کے قابل افراد کی شرح نمو جمود کا شکار جبکہ بزرگ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو سماجی و اقتصادی ترقی پر منفی اثرات مرتب کرے گا بالخصوص اگر شرح پیدائش اسی طرح کم رہی تو مسئلہ زیادہ گھمبیر ہوجائے گا۔آبادی کم کرنے کی طویل مدتی پالیسی، اور وہ بھی ایسے وقت جب بزرگ افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، سے غیر موافق سماجی و اقتصادی مسائل پیدا ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ چین کی آبادی رواں صدی کے وسط تک کم ہوکر 1 ارب 36 کروڑ تک ا?نے کا امکان ہے جس سے ملکی افرادی قوت میں 200 ملین (20 کروڑ) افراد کی کمی ہوجائے گی، اگر پیدائش کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2065ء تک ملک کی کل آبادی مزید کم ہوکر 1 ارب 17 کروڑ افراد تک ا?سکتی ہے۔

Leave a Reply