عمران خان کا نیا پاکستان یا “یُوٹرنستان”؟

پاکستان کے حکمرانوں کا معاملہ قدیم داستانوں کے کرداروں جیسا ہے۔ داستانوں میں اچانک شہزادہ مکھی بن کر دیوار پر جا بیٹھتا ہے اور مکھی اچانک شہزادی بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں جتنے جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کیا، خود کو ’’نجات دہندہ‘‘ باور کرایا۔ مگر سارے نجات دہندہ بالآخر صرف آمر اور غاصب بن کر رہ گئے۔ میاں نوازشریف شہری تمدن کی علامت تھے، مگر صرف بدعنوانی اور ملک دشمنی کی علامت بن کر رہ گئے۔ بے نظیر بھٹو ’’روشن خیال‘‘ تھیں مگر وہ ’’روشن وبال‘‘ سے زیادہ کچھ ثابت نہ ہوسکیں۔ الطاف حسین ’’متوسط طبقے‘‘ کا استعارہ بن کر ابھرے تھے، مگر بالآخر ’’عفریت‘‘ میں ڈھل کر رہ گئے۔ عمران خان دس بارہ سال سے نیا پاکستان نیا پاکستان کررہے تھے، مگر بالآخر وہ اپنی جیب سے ’’یوٹرنستان‘‘ نکال کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ تو کیا نئے پاکستان کا مطلب اسلامی جمہوریۂ یوٹرنستان ہے؟
عمران خان کے ’’یوٹرنستان‘‘ کا قصہ بیک وقت دلچسپ، شرمناک اور ہولناک ہے۔ پہلے مرحلے میں عمران خان نے اسلام آباد میں سینئرصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لیڈر یوٹرن نہ لے وہ لیڈر نہیں بیوقوف ہے۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ ہٹلر اور مسولینی اس لیے شکست سے دوچار ہوئے کہ انھوں نے یوٹرن نہ لیا۔
(روزنامہ جنگ کراچی، 17نومبر 2018ء)
بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ کے مصداق عمران خان کے مذکورہ بالا بیان کے اگلے روز صدر مملکت عارف علوی خم ٹھونک کر سامنے آگئے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں خود کئی بار یوٹرن لے چکا ہوں۔ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کا بیان درست ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ جب تک لیڈر یوٹرن نہ لے وہ بڑے فیصلے کرہی نہیں سکتا۔
(دی نیوز کراچی، 18نومبر 2018ء)
اب تک عمران خان اور ان کے ’’رفقاء‘‘ یوٹرن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے، مگر عمران خان کو صرف ہاتھ دھونا گوارا نہ ہوا، چنانچہ انھوں نے اگلے ہی دن ٹوئٹر کے ذریعے یوٹرن کی گنگا میں چھلانگ لگادی۔ وہ یوٹرن کی گنگا سے واپس ہوئے تو ان کے ہاتھ میں یہ بیان تھا:
’’مقاصد کے حصول کے لیے یوٹرن لینا ’’عظیم قیادت‘‘ کی پہچان ہے۔ اہداف حاصل کرنے کے لیے یوٹرن لینا ’’بڑے لیڈر‘‘ کی نشانی ہے۔
(روزنامہ جنگ کراچی، 19نومبر 2018ء)
سیاست کو روحانیت، اخلاقیات اور علم سے رشتہ توڑے عرصہ ہوگیا ہے۔ چنانچہ سیاست میں یوٹرن کا تجربہ عام ہے۔ امریکہ کا رہنما جارج بش اقتدار میں آنے سے قبل کہتا تھا کہ وہ نئے ٹیکس نہیں لگائے گا، مگر اسے اقتدار میں آتے ہی نئے ٹیکس لگانے پڑ گئے۔ امریکہ کا ایک اور صدر اوباما اقتدار میں آنے سے قبل کہا کرتا تھا کہ وہ صدر بنتے ہی گوانتاناموبے بند کردے گا، مگر وہ آٹھ سال صدر رہنے کے باوجود گوانتاناموبے کو بند کرنا تو دور کی بات، اسے ہاتھ بھی نہ لگا سکا، اس لیے کہ گوانتا ناموبے سی آئی اے اور پینٹاگون کا بچہ ہے۔ آصف زرداری ایک بار فرما چکے ہیں کہ بیانات قرآن و حدیث نہیں ہوتے کہ بدلے نہ جاسکیں۔ میاںنوازشریف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کی جائداد خریدی گئی۔ اب وہ سپریم کورٹ سے کہہ رہے ہیں کہ میری اس تقریر کو تقریر نہ سمجھو، میں نے یہ تقریر اپنے بیٹے کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر کی تھی۔ اب میاں صاحب بدنامِ زمانہ ’’قطری خط‘‘ کے بھی منکر ہوگئے ہیں۔ خود عمران خان کہا کرتے تھے کہ میں خودکشی کرلوں گا مگر آئی ایم ایف وغیرہ سے قرض نہیں لوں گا، مگر اب وہ بھکاری کی طرح در در پھررہے ہیں اور آئی ایم ایف کے آگے بھی انھوں نے ہاتھ پھیلایا ہوا ہے۔ عمران خان کہا کرتے تھے کہ نوازشریف اور پیپلز پارٹی والے سرمائے اور Electablesکی سیاست کرتے ہیں، میں سرمائے اور Electablesکی سیاست نہیں کروں گا۔ مگر حالیہ انتخابات سے قبل انھوں نے ڈان کراچی کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ سرمائے اور Electables کے بغیر انتخابات نہیں جیتے جاسکتے۔ عمران خان کبھی کہا کرتے تھے کہ میں شیخ رشید کو اپنا چپراسی بھی نہیں رکھوں گا، آج شیخ رشید عمران خان کے ’’اتحادی‘‘ اور ریلوے کے ’’وفاقی وزیر‘‘ ہیں۔ یہ جرائم بھی کم بڑے نہیں، مگر عمران خان اینڈ کمپنی ان جرائم سے کہیں زیادہ بڑے جرم کی مرتکب ہوچکی ہے۔ انسان چوری کرتا ہے اور ڈاکا ڈالتا ہے مگر چوری اور ڈاکے کا جواز مہیا نہیں کرتا۔ انسان قتل کرتا ہے مگر قتل کو جائز باور کرانے کی کوشش نہیں کرتا۔ انسان زنا کرتا ہے مگر اسے عفت مآبی باور نہیں کراتا۔ انسان بے اصولی کرتا ہے مگر بے اصولی کو ’’اصول‘‘ ثابت کرنے کی خباثت نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے عمران خان، صدرِ مملکت عارف علوی اور سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے یہی کیا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ بے اصولی ہی اصول ہے۔ دھوکا دہی ہی رہنمائی ہے۔ جھوٹ بولنا عظیم قیادت کی نشانی ہے۔ دروغ گوئی سے کام لینے والا بڑا لیڈر ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک دن سیدنا حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ کیا شیطان کی بخشش کی کوئی صورت ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہاں ہوسکتی ہے بشرطیکہ وہ آدم کو سجدہ کرلے۔ حضرت موسیٰؑ نے فرمایا: یہ کیسے ممکن ہے؟ حضرت آدم تو موجود نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہوا: جائو! ابلیس سے کہو آدم کی قبر کو سجدہ کرلے۔ روایت کے مطابق حضرت موسیٰؑ ابلیس کے پاس پہنچے اور اس کو ساری بات بتائی۔ ابلیس نے سارا قصہ سنا اور کہا کہ میں نے آدم کو سجدہ نہیں کیا تو آدم کی قبر کو کیا سجدہ کروں گا؟ مطلب یہ کہ ابلیس تک نے یوٹرن لینے سے انکار کردیا۔ مگر عمران خان اور ان کے اندھے مقلد یوٹرن پر اصرار کیے چلے جارہے ہیں اور اسے ایک ’’عظیم اصول‘‘ باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں۔ تو عمران خان صلابت کردار کے حوالے سے ابلیس سے بھی کم تر سطح پر کھڑے ہوئے ہیں؟
اسلام بتاتا ہے کہ ایک چیز ہے ’’اصول ایک چیز ہے ’’حکمت عملی‘‘۔ آسمان بھی ٹوٹ پڑے تو اصول نہیں بدل سکتا، البتہ حکمت عملی بدل سکتی ہے۔ مگر عمران خان اینڈ کمپنی کے یوٹرن کا مطلب ہے کہ اصول بھی بدلا جاسکتا ہے۔ ان کے بار بار یوٹرن لینے سے بھی یہی ثابت ہے کہ وہ اصول بدلتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ وہ سرمائے اور Electables کی سیاست کے خلاف تھے، اور ایک وقت یہ ہے کہ وہ سرمائے اور Electables کی سیاست پر ’’ایمان‘‘ لائے ہوئے ہیں۔
عمران خان اپنی مذہبیت کا مظاہرہ اسی طرح کرتے ہیں جس طرح نودولتیے اپنی دولت کی نمائش کرتے پھرتے ہیں۔ محاورہ ہے ’’اوچھے کے تیتر باہر باندھوں کہ بھیتر‘‘۔ مگر بہرحال عمران کے اپنے دعوے کے مطابق وہ ایک مذہبی انسان ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ جس اسلام پر عمران خان ایمان رکھتے ہیں وہ یوٹرن کے حوالے سے کیا کہتا ہے؟
تمام نمازی ہر روز کئی بار سورۂ فاتحہ پڑھتے ہوئے دہراتے ہیں:
’’ہمیں سیدھے راستے پر چلا، اُن لوگوں کے راستے پر جن پر تُو نے انعام کیا، نہ کہ اُن لوگو ں کے راستے پر جن پر تیرا غضب نازل ہوا۔‘‘
یہ وہ آیات ہیں جن سے قرآن پاک شروع ہوتا ہے، اور جیسا کہ ظاہر ہے صراطِ مستقیم یا سیدھے راستے پر نہ کوئی یوٹرن تھا، نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک دن ایک خدا پر ایمان لائے، پھر یوٹرن لے کر عیسائیوں کی طرح ایک خدا کو تین خدائوں میں تبدیل کردے، پھر مزید یوٹرن لے کر ہندوئوں کی طرح 33کروڑ خدائوں کو ماننے لگے۔ سورۂ فاتحہ کے مطابق جو صراطِ مستقیم پر چلے گا اللہ کے انعام کا مستحق ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہوں گے جو سیدھے راستے کو چھوڑ کر اللہ کے غضب کے مستحق ہوجائیں گے؟ اس سلسلے میں دو ہی امکانات ہیں، ایک یہ کہ یہ لوگ صراط مستقیم کو چھوڑ کر غلط راستے پر چلنے والے ہوں گے، یا پھر وہ لوگ جو یوٹرن لینے والے ہوں گے۔
یہاں ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشادِ مبارک یاد آرہا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہے: مومن سب کچھ کرسکتا ہے مگر جھوٹ نہیں بول سکتا۔ یعنی مومن چوری کرسکتا ہے، ڈاکا ڈال سکتا ہے، زنا کرسکتا ہے مگر جھوٹ اتنی بری چیز ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ بولے گا تو مومن نہیں رہے گا۔ مگر عمران خان جھوٹ کو یوٹرن کی آڑ میں ایک ’’ریاستی فلسفہ‘‘ بنائے دے رہے ہیں۔ اصول ہے: ایک جھوٹ انسان سے سو جھوٹ بلواتا ہے۔توکیا عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جھوٹ کے ’’تھوک فروش‘‘ بن کر ابھریں!
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء و مرسلین کی سیرتوں سے ثابت ہے کہ کسی نبی نے مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی حق سے رتی برابر انحراف نہ کیا۔ اسلام میں تو صداقت ہی سب کچھ ہے۔ انسان کامیاب ہو یا ناکام، انسان زندہ رہے یا مر جائے، صداقت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ہماری تہذیب کی تعلیم یہ ہے کہ جان کا صدقہ مال ہے، اور ایمان کا صدقہ خود جان۔ یعنی اگر جان کے عوض سارا مال چلا جائے تو کوئی بات نہیں، مگر ایمان اتنا اہم ہے کہ اگر جان چلی جائے اور ایمان بچ جائے تو یہ معمولی قیمت ہے۔ مگر عمران خان معاشرے کو یہ سبق پڑھا رہے ہیں کہ ہر مرحلے پر یوٹرن سے کام لو… فرد کی سطح پر بھی، قوم کی سطح پر بھی، حکومت کی سطح پر بھی اور ریاست کی سطح پر بھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ جیسا بھی بنانا چاہتے ہیں، تو کیا عمران خان جھوٹ عرف یوٹرن سے اپنی ریاست مدینہ کی تعمیر کریں گے؟ یہ توہینِ رسالتؐ ہے۔ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی ایسی عدالت نہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ریاست مدینہ کی محبت میں ازخود نوٹس لیتے ہوئے یا تو عمران خان کو ریاست مدینہ کا مقدس نام استعمال کرنے سے روک دے، یا کوئی فیصلہ سناکر اعلان کردے کہ عمران نے ایک بھی یوٹرن لیا تو انہیں ان کو عہدے سے معزول کردیا جائے گا۔
عمران خان آئے دن خود کو اقبال اور قائداعظم سے منسلک کرتے رہتے ہیں۔ یہ اقبال اور قائداعظم دونوں کی توہین ہے۔ کہاں فخرِ ملت، فخرِ دیں، فخرِ وطن، اور کہاں ننگِ ملت ، ننگِ دیں، ننگِ وطن! مگر بہرحال چونکہ عمران خان اقبال کا نام لیتے ہیں اس لیے یہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں کہ اقبال جھوٹ یعنی یوٹرن کی ضد صداقت کے بارے میں کیا فرما گئے ہیں۔ اقبال کا ایک شعر ہے ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اس شعر میں اقبال ایک ایک مسلمان اور پوری امتِ مسلمہ سے بیک وقت مخاطب ہیں اورکہہ رہے ہیں کہ تجھ سے کسی ایک قوم کی امامت یا قیادت کا نہیں بلکہ پوری دنیا کی امامت کا کام لیا جانا ہے۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ تُو اپنے بزرگوں کی طرح صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق یاد کرے۔ عمران خان اور ان جیسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس شعر میں اصل لفظ صداقت ہے۔ صداقت ہوگی تو عدالت ہوگی۔ صداقت ہوگی تو شجاعت ہوگی۔ صداقت ہوگی تو دنیا کی امامت یا دنیا کی قیادت ہوگی۔ صداقت نہیں ہوگی تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ یوٹرن ہوگا تو نہ صداقت ہوگی، نہ عدالت کا کوئی وجود ہوگا، اور نہ شجاعت کہیں میسر آسکے گی۔ چنانچہ دنیا کیا، پاکستان کی قیادت بھی خود فراہم نہیں ہوگی، البتہ اسٹیبلشمنٹ بھیک میں کسی کو ملک کا وزیراعظم بنادے تو اور بات ہے۔ یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ عمران یوٹرن، یوٹرن کھیلیں گے تو اسٹیبلشمنٹ کی بھیک بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی اور دنیا و آخرت کی ذلت اس کے علاوہ ہوگی۔
اقبال کا ایک اور شعر یاد آیا ؎

یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

یہ شعر یقین محکم یعنی یوٹرن کی ضد پر کھڑا ہوا ہے۔ یقین محکم ہوگا تو عمل پیہم ہوگا، اور جس شخص میں یہ خوبیاں ہوں گی وہی محبت کرنے والا اور اس کے ذریعے دنیا کو فتح کرنے والا ہوگا۔ اقبال کے الفاظ میں یقین محکم، عمل پیہم اور محبت مردوں کی شمشیریں ہیں۔ مردوں کی شمشیریں ہوتی ہیں تو عورتوں اور زنخوں کی شمشیریں بھی ہوتی ہوں گی۔ اقبال کا ایک اور شعر یاد آیا ؎

باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکتِ میانۂ حق و باطل نہ کر قبول

اقبال کہہ رہے ہیں کہ حق اصولِ واحد ہے اور آپ اپنے لیے کافی ہوتا ہے، اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نہ کسی امریکہ کی، نہ کسی یورپ کی، نہ کسی اسٹیبلشمنٹ کی، نہ کسی یوٹرن کی۔ اس کے برعکس باطل اصولِ واحد کے بجائے دو یا اس سے بھی زیادہ اصولوں کو مانتا ہے، چنانچہ مسلمانوں کو حق و باطل کے درمیان کسی قسم کی شراکت داری کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اقبال کے اس شعر کی رو سے بھی یوٹرن اور اس کو لینے والا مردود ہے۔ اسے ملک کا کیا، کسی پارٹی، کسی قبیلے کا لیڈر بھی نہیں ہونا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے لوگ اس خیال کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ اقبال اور قائداعظم نے تو خود یوٹرن لیے ہیں۔ اقبال اور قائداعظم پہلے قوم پرست تھے، پھر اسلام پرست بن گئے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے، مگر یہ یوٹرن نہیں ہے۔ یہ بڑی شخصیتوں کا ارتقاء ہے۔ اقبال اور قائداعظم جب قوم پرست تھے تب بھی سچے تھے، اور جب وہ قوم پرستی کو مسترد کرکے اسلام پرست بنے تو بھی وہ سچے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ جب اقبال اور قائداعظم اسلام پرست ہوگئے تو انہوں نے اپنے مؤقف سے رتی برابر بھی انحراف نہیں کیا۔
زیربحث مسئلے کو دیکھنے، سمجھنے اور بیان کرنے کا ایک اور بہت اہم زاویہ ہے۔ الفاظ کو لوگ صرف الفاظ سمجھتے ہیں، مگر الفاظ پورے انسان اور اس کی ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بیان کرتے ہیں۔ کنفیوشس نے کہا ہے کہ اگر مجھے ساری زندگی صرف ایک کام کرنے کو ملے تو میں الفاظ کے معنی متعین کروں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الفاظ کے معنی متعین نہ ہوں تو زندگی کے معنی متعین نہیں ہوتے۔ زندگی کے معنی متعین نہ ہوں تو زندگی بے معنی ہوجاتی ہے، اس میں انتشار پیدا ہوجاتا ہے اور زندگی مسخ ہونے لگتی ہے۔ یہ الفاظ کے بارے میں ایک اہم مگر سرسری بات ہے۔ الفاظ کے بارے میں گہری بات یہ ہے کہ الفاظ سے خیال پیدا ہوتا ہے، خیال سے عمل جنم لیتا ہے، عمل سے عادت وجود میں آتی ہے، عادت سے کردار تخلیق ہوتا ہے، اور کردار انسان کی تقدیر ہوتا ہے۔ ان حقائق کا اطلاق فرد پر بھی ہوتا ہے اور رہنمائوں پر بھی۔ قوموں پر بھی ہوتا ہے اور تہذیبوں پر بھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان یوٹرن کی پرستش کے ذریعے اپنی تقدیر سے بھی کھیل رہے ہیں، اپنی جماعت کی تقدیر سے بھی، اپنے ملک کی تقدیر سے بھی اور اپنی قوم کی تقدیر سے بھی۔
بدقسمتی سے اسٹیبلشمنٹ اور اس کے تخلیق کیے ہوئے سیاسی رہنما روحانی عسرت، اخلاقی تنگ دستی، تہذیبی غربت اور علمی افلاس کا چلتا پھرتا اشتہار ہیں۔ قوم کی قیادت کا یہ عالم ہوگا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خود قوم کا کیا حال ہوگا؟ اس صورتِ حال کو عمران خان کے یوٹرن کے فلسفے نے مزید سنگین بنادیا ہے۔ ایک ایسی قوم جو عمران خان کا یوٹرن کھائے گی، یوٹرن پیے گی، یوٹرن بچھائے گی، یوٹرن اوڑھے گی اس کے روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور علمی افلاس کا کیا عالم ہوگا! بدقسمتی سے اس افلاس کا ایک زوردار اشتہار سامنے آچکا ہے۔ عمران خان نے یوٹرن کی جگالی شروع کردی تھی تو کم از کم اُن کی جماعت کے سنجیدہ سمجھے جانے والے لوگوں کو انہیں سمجھانا چاہیے تھا۔ مگر صدرِ مملکت عارف علوی اور سندھ کے گورنر عمران اسماعیل یوٹرن کو چار چاند لگانے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور علمی اعتبار سے جتنے غریب ہیں ان کی جماعت کے رہنما اس سے کہیں زیادہ غریب ہیں۔ اندیشہ ہے کہ اگر کل کلاں کو عمران خان چوری، ڈاکے کی حمایت کرنے لگیں گے تو عارف علوی اور عمران اسماعیل کہیں گے کہ چوری اور ڈاکا تو عظیم رہنمائوں کا ورثہ ہے، ذرا یورپ کو دیکھیے، اُس کے رہنمائوں نے اپنی نوآبادیات سے کتنے مالی اور مادی وسائل لوٹے اور ترقی کی منازل طے کیں۔
عجیب بات ہے کہ عمران خان ایک جانب اللہ، رسول کی باتیں کرتے ہیں اور اقبال و قائداعظم کا نام لیتے ہیں اور دوسری جانب انہیں رہنمائوں کی مثالیں دینی پڑیں تو ان کی نظر ہٹلر اور مسولینی پر پڑی۔ عمران خان کہیں تو ہم عالمی تاریخ سے ایسے پچاس رہنمائوں کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جو حقیقی معنوں میں عظیم بھی ہیں اور جنہوں نے کبھی یوٹرن بھی نہیں لیا۔ اقبال نے خوامخواہ تو نہیں کہا ؎

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

ان تمام حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو عمران خان کی شخصیت اور اُن کا اقتدار 22کروڑ پاکستانیوں کی روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور علمی زندگی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ اگر عارف علوی اور عمران اسماعیلجیسے لوگ ایک ہولناک بات پر عمران خان کی تائید کرسکتے ہیں تو لاکھوں عام لوگ بھی عمران خان کی ہاں میں ہاں ملاکر خود کو اور پاکستانی معاشرے کو تباہ و برباد کرسکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ عمران خان نے یوٹرن کا فلسفہ کہاں سے پڑھا ہے؟
اگرچہ خرابیوں کو سیکھنے کے حوالے سے عمران خان کبھی کسی کے محتاج نہیں رہے، مگر یوٹرن کا فلسفہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی بہت پسند ہے۔ چونکہ عمران خان اور ان کا اقتدار اسٹیبلشمنٹ کا رہینِ منت ہے اس لیے عمران کے فلسفۂ یو ٹرن پر اسٹیبلشمنٹ کی مہر لگی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ہمیں یاد ہے 1971ء میں جنرل نیازی نے کہا تھا کہ بھارتی فوجی میری لاش پرسے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوسکیں گے، مگر ہوا یہ کہ بھارتی فوجی ڈھاکا میں داخل ہوئے تو راستے میں کہیں جنرل نیازی کی لاش موجود نہ تھی، اس کے برعکس جنرل نیازی بھارتی جنرل کے ساتھ بیٹھ کر انہیں فحش لطیفے سنا رہے تھے۔ یوٹرن کی نفسیات ایسی ہی ہوتی ہے۔ پاکستانی جرنیلوں نے مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کے فرشتہ صفت نوجوانوں کو البدر اور الشمس کی صورت میں منظم کیا۔ مگر جب سقوطِ ڈھاکا ہوا تو جرنیل بین الاقوامی قوانین کے سائے میں ’’جنگی قیدی‘‘ بن کر محفوظ ہوگئے مگر انھوں نے البدر اور الشمس کے ہزاروں نوجوانوں کو بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ یہ بھی یوٹرن ہی کی ایک قسم تھی۔ پاکستانی جرنیل آئین پر حلف اٹھاتے ہیں اور سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، مگر پھر اچانک یوٹرن لے کر اقتدار پر قبضہ کرلیتے ہیں اور آئین کو معطل کردیتے ہیں۔ یہ بھی یوٹرن کی ’’ثقافت‘‘ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے 1980ء کی دہائی میں اہلِ کشمیر سے کہا کہ تم اپنی تحریک کو تحرّک کی بلند سطح پر لے آئو گے تو پھر ہم تمہاری مدد کریں گے۔ کشمیریوں نے جان کی بازی لگاکر تحرّک کی مطلوب سطح حاصل کرلی تو وہ مدد کے طالب ہوئے، اس پر اُن سے کہا گیا کہ ہم کشمیر کے لیے پاکستان کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ یہ یوٹرن کی تہذیب تھی۔ اسٹیبلشمنٹ امریکہ کی ہدایت پر ’’جہادی‘‘ ہوگئی۔ پھر ایک وقت آیا کہ امریکہ نے جہاد اور جہادیوں کو کچلنے کا حکم دیا اور اسٹیبلشمنٹ جہاد اور جہادیوں کے خلاف ہوگئی۔ یہ ہے یوٹرن کی مذہبیت۔ اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کو ’’اپنے بچے‘‘ قرار دے کر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرایا، پھر ایک وقت آیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ’’اپنے بچوں‘‘ کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا۔ اس کو کہتے ہیں یوٹرن کی سیاست اور یو ٹرن کی سفارت کاری۔ چنانچہ عمران خان بھرپور طریقے سے یوٹرن پر عاشق ہوئے ہیں تو اس کی وجہ ظاہر ہے۔ اصول ہے:

کُند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز بہ باز

مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ آصف نے عمران خان کے یوٹرن سے متعلق بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان یوٹرن کے بیان پر بھی یوٹرن لیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ آصف عمران خان کو ٹھیک طرح پہچانتے نہیں۔ عمران خان یوٹرن کے خلاف ہوں گے مگر اُس وقت جب اسٹیبلشمنٹ خود عمران خان کے حوالے سے یوٹرن لیتے ہوئے کہے گی کہ اب اسے اقتدار میں عمران کے بجائے کوئی اور درکار ہے۔ کوئی شخص یہ کام کراکے دیکھے، عمران خان یوٹرن کے فلسفے کو اتنی گالیاں دیں گے کہ لوگ کانوں میں روئی ٹھونسنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ یعنی جو کام مذہب، اخلاق ، تہذیب اور تاریخ بھی نہیں کرسکتی، وہ کام اسٹیلبشمنٹ کا عمران سے متعلق ایک یوٹرن کرسکتاہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ کے تناظر میں عمران خان کو اس اندیشے سے ڈرنا چاہیے۔

Leave a Reply