امت ِمسلمہ اور قیادت کا زوال

سلیم احمد نے اقبال کی معرکہ آراء نظم ’’شکوہ‘‘ کو مسلمانوں کے دل کا چور قرار دیا ہے۔ یعنی اقبال نے شکوہ میں جو کچھ کہا ہے وہ مسلمانوں کے دل کی آواز ہے، مگر مسلمان اپنے دل کی آواز کو زبان دینے پر قادر نہ تھے۔ سلیم احمد کے استاد پروفیسر کرار حسین نے سلیم احمد کی کتاب ’’اقبال۔ ایک شاعر‘‘ میں ’شکوہ‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شکوہ انہیں کبھی بھی پسند نہیں تھی اور اسے وہ اپنے شعری ذوق کی پختگی خیال کرتے تھے، مگر شکوہ کے بارے میں سلیم احمد کی رائے پڑھ کر انہوں نے شکوہ کے سلسلے میں اپنی رائے پر نظرثانی کی۔ شکوہ کے بارے میں سلیم احمد کی رائے اہم ہے مگر ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کی معنویت کو اور زیادہ گہرائی میں دیکھا اور بیان کیا جاسکتا ہے۔
انسانوں کا ہی نہیں قوموں کا بھی ایک تصورِ ذات یا Concept of Self ہوتا ہے۔ لیکن یہ تصور موضوعی یا Subjective ہوتا ہے۔ اس کے برعکس افراد ہی نہیں قوموں کی بھی ایک حقیقت یا Reality ہوتی ہے۔ یہ حقیقت معروضی یا Objective ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ’’شکوہ‘‘ مسلمانوں کا اجتماعی تصورِ ذات ہے۔ اس کے برعکس ’’جوابِ شکوہ‘‘ مسلمانوں کی اجتماعی حقیقت یا ان کی اصل ہے۔ ان کی معروضی حقیقت۔ کیسے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
شکوہ میں اقبال مسلمانوں کی طرف سے خدا سے مخاطب ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں:

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر، کہیں معبود شجر
خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر؟
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوتِ بازوئے مسلم نے کیا کام ترا!
آ گیا عین لڑائی میں اگر وقتِ نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قومِ حجاز
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے!
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے!
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں، تُو بھی تو دلدار نہیں!
امتیں اور بھی ہیں، ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں، مستِ مئے پندار بھی ہیں
ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
سیکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!
تجھ کو چھوڑا کہ رسولِؐ عربی کو چھوڑا؟
بت گری پیشہ کیا؟ بت شکنی کو چھوڑا؟
عشق کو، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسمِ سلمانؓ و اویسؓ قرنی کو چھوڑا؟َ
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں!
زندگی مثلِ بلالِ حبشیؓ رکھتے ہیں!
عشق کی خیر، وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی
مضطرب دل صفتِ قبلہ نما بھی نہ سہی
اور پابندیٔ آئینِ وفا بھی نہ سہی
کبھی ہم سے، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تُو بھی تو ہرجائی ہے!

کہنے کو یہ اقبال کی ’’شکوہ‘‘ کے بند ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کا اجتماعی تصورِ ذات ہے۔ موضوعی تصورات، ایک موضوعی حقیقت، جو ’’اجتماعی خود پسندی‘‘ سے آراستہ ہے۔ اب آپ جوابِ شکوہ کے چند بند ملاحظہ فرمائیے۔ ان بندوں میں خدا مسلمانوں سے مخاطب ہے۔ وہ کہہ رہا ہے:

ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گِل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائیِ پیغمبرؐ ہیں
بت شکن اُٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیمؑ پدر، اور پسر آذر ہیں
بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن، تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے؟
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟
وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود!
یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتائو تو مسلمان بھی ہو
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

یہ ہے اقبال کا ’’جوابِ شکوہ‘‘۔ یہ ہے مسلمانوں کی اصل حقیقت۔ ان کی معروضی حقیقت۔ یہ ہے مسلمانوں کا آئینہ۔ اس آئینے میں مسلمانوں کا ’’ظاہر‘‘ بھی صاف نظر آرہا ہے اور باطن بھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری تہذیب، ہماری تاریخ اور ہماری شعری روایت میں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ مگر ان باتوں کا ہمارے عصر سے کیا تعلق ہے؟
آپ نے کبھی غور کیا کہ سعودی عرب کے حکمرانوں کا تصورِ ذات کیا ہے؟ ایک سطح پر وہ مکۂ معظمہ اور مدینہ منورہ کے وارث اور والی ہیں۔ دوسری سطح پر وہ خادمین حرمین الشریفین ہیں۔ تیسری سطح پر وہ پوری امت کو مالی معاونت فراہم کرنے والے ہیں۔ چوتھی سطح پر وہ امت کے اتحاد کی علامت ہیں۔ پانچویں سطح پر سیاسی استحکام کی علامت ہیں۔ چھٹی سطح پر ان کا اقتدار دائمی نظر آتا ہے۔ مگر یہ سعودی حکمرانوں کا تصورِ ذات ہے۔ ان کا Concept of Self ہے۔ اور یہ تصورِ ذات یا Concept of Self ایک موضوعی حقیقت یا ایک Subjective Reality ہے۔ معروضی حقیقت کیا ہے؟ ملاحظہ کیجیے:
’’امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے حکمران امریکہ کے فراہم کردہ فوجی تحفظ کے بغیر دو ہفتے بھی باقی نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے امریکی ریاست مسی سپی میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب کے شاہ سلمان کو مخاطب کیا اور کہا کہ مجھے آپ سے محبت ہے مگر امریکہ کے بغیر آپ کا اقتدار دو ہفتے بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ سعودی حکمرانوں کو سعودی عرب میں موجود امریکی فوج کا مالی بوجھ برداشت کرنا چاہیے‘‘۔(ڈیلی ڈان کراچی۔ 4 اکتوبر 2018ء)
ایک ہے سعودی حکمرانوں کا تصورِ ذات، اور ایک ہے وہ اصل یا معروضی حقیقت… وہ حقیقت جو امریکہ کے باطن ڈونلڈ ٹرمپ ہی کی زبان پر آسکتی تھی۔
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا دوست قرار دیا، تاہم کہا کہ دوست ہمیشہ آپ کی تعریف نہیں کرتے بلکہ وہ آپ پر تنقید بھی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے بلوم برگ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب امریکہ کے قیام سے کئی دہائیوں پہلے وجود رکھتا تھا۔ سعودی عرب 1744ء میں وجود میں آیا اور امریکہ اس کے 30 سال بعد دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے لیے جن خطرات کا ذکر کیا ہے ان کے حقیقت بننے میں دو ہزار سال لگ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب امریکہ سے کوئی چیز مفت نہیں لیتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حفاظت کے سلسلے میں امریکہ کو کچھ بھی ادا نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے حال ہی میں امریکہ سے 110 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کیا ہے، بلکہ امریکہ کے ساتھ ہمارے 400 ارب ڈالر کے معاہدے ہوئے ہیں۔
(ڈیلی دی نیوز کراچی۔ 7 اکتوبر 2018)
تجزیہ کیا جائے تو ولی عہد محمد بن سلمان نے اس انٹرویو میں سعودی حکمران طبقے کی تکریم کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ امریکہ اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا ’’دوست‘‘ قرار دیے بغیر نہ رہ سکے۔ اہم بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ کہا اگر کسی اور ملک بالخصوص کسی مسلم ملک نے ایسا کہا ہوتا تو سعودی حکمران اس ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرچکے ہوتے۔ حماس اور اخوان المسلمون عرب دنیا کی روح ہیں، اُس کا دل ہیں، اس کا ضمیر ہیں، اس کا شعور ہیں، اس کا شاندار ماضی، حال اور مستقبل ہیں۔ مگر اس کے باوجود سعودی حکمران انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے چکے ہیں، لیکن امریکہ جو سعودی عرب ہی کا نہیں پوری امت کا دشمن ہے وہ سعودی بادشاہ کی کھلی توہین کرنے کے باوجود ابھی تک شہزادہ محمد بن سلمان کا ’’دوست‘‘ ہے۔
بدقسمتی سے یہ مسئلہ صرف سعودی حکمرانوں کا نہیں ہے، یہ پوری امتِ مسلمہ کے حکمرانوں کا مسئلہ ہے۔ مسلم دنیا کے جرنیل، جمہوری حکمران اور بادشاہ امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل کے سامنے بھیگی بلی بنے رہتے ہیں اور اپنی قوم کے لیے وہ آدم خور شیر بن جاتے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم کو فتح کرکے اپنی ’’بہادری‘‘ کا اعلان کرتے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے:

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

مگر مسلم دنیا کے جرنیلوں، بادشاہوں اور نام نہاد جمہوری رہنمائوں کا معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ وہ اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور امتِ مسلمہ کے دشمنوں کے لیے تو ریشم سے بھی زیادہ نرم ہیں، مگر ان کے دل اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور خود عام مسلمانوں کے لیے پتھر سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کچھ پتھر خوفِ خدا سے گر جاتے ہیں، مگر مسلم حکمرانوں کے دل خدا کے خوف یا محبت سے ایک بار بھی نہیں دھڑک پاتے۔ مصر کے جنرل سیسی نے نہ صرف یہ کہ اخوان کے صدر مرسی کے خلاف سازش کرکے اُن کی حکومت برطرف کی، بلکہ انہوں نے احتجاج کرنے والے اخوان کے کارکنوں پر ٹینک چڑھا دیے اور ان پر براہِ راست فائرنگ کا حکم دیا۔ اس کے نتیجے میں آٹھ سے دس ہزار مرد اور عورتیں مصر کی سڑکوں پر شہید ہوگئے، ہزاروں زخمی ہوگئے، چھے لاکھ سے زیادہ لوگ جیلوں میں ٹھونس دیے گئے، لیکن جس طرح اس صورتِ حال پر امریکہ اور یورپ خاموش رہے اسی طرح سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمران بھی نہ صرف خاموش رہے، بلکہ وہ جابر و قاہر جنرل سیسی کی مدد کے لیے 13 ارب ڈالر کی امداد لے کر حاضر ہوگئے اور فرمایا: ہم مصر کو معاشی بحران میں مبتلا نہ ہونے دیں گے۔
بنگالی پاکستان کے خالق تھے۔ مسلم لیگ دہلی، لاہور، کوئٹہ، پشاور یا کراچی میں قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلم لیگ ڈھاکا میں قائم ہوئی تھی اور 1906ء میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنگالیوں کا سیاسی شعور نام نہاد مہاجروں، نام نہاد پنجابیوں، نام نہاد سندھیوں، نام نہاد پشتونوں اور نام نہاد بلوچوں سے کہیں زیادہ بلند تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پنجاب اور سرحد 1946ء تک انگریزوں اور کانگریس کے ایجنٹوں کے قبضے میں تھے اور راضی بہ دشمن۔ بنگالی اکثریت میں تھے، وہ پاکستان کی آبادی کا 56 فی صد تھے، مگر فوج، بیوروکریسی اور دیگر شعبوں میں 1971ء تک ان کی موجودگی دس پندرہ فی صد سے زیادہ نہ تھی۔ یہ ظلم ہی نہیں کھلی بدمعاشی اور درندگی تھی۔ یہاں تک کہ 1970ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے باوجود شیخ مجیب کو اقتدار نہ دیا گیا اور بنگالیوں کو ’’غدار‘‘ قرار دے کر ان پر فوجی آپریشن مسلط کردیا گیا۔ ’’ٹائیگر‘‘ کہلانے والے جنرل نیازی نے اس مرحلے پر بنگالیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہم ان کی نسل بدل دیں گے، یعنی بنگالی عورتوں کا اتنے بڑے پیمانے پر Rape کیا جائے گا کہ بنگالیوں کی نسل بدل جائے گی۔ جنرل نیازی بنگالیوں کی نسل تو نہ بدل سکے مگر پاکستان کے حکمرانوں کے طویل ظلم و استبداد نے پاکستان کا جغرافیہ اور تاریخ بدل دی۔ ٹائیگر نیازی کا یہ حال ہوا کہ وہ قوم کو فتح کرتے کرتے خود مفتوح ہوگئے اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں کو بھارت کے آگے ہتھیار ڈالتے دیکھا گیا۔ جنرل نیازی اس ہولناک موقع پر بھی بھارتی جنرل کو ’’فحش لطیفے‘‘ سنا رہے تھے۔ کیا ’’ٹائیگر‘‘ واقعتاً ایسے ہوتے ہیں؟ یہ وہی کہانی ہے ’’قوم کے لیے آدم خور شیر اور دشمن کے لیے تر نوالہ‘‘۔ یہاں بھی ’’ٹائیگر نیازی‘‘ تصورِ ذات‘‘ ہے، اور ہتھیار ڈالتا ہوا اور بھارتی جنرل کو فحش لطیفے سناتا ہوا جنرل نیازی ’’اصل حقیقت‘‘۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی قیادت کے زوال کا کیا سبب ہے اور قیادت بڑی کیسے بنتی ہے؟
مسلمانوں کی تاریخ میں ہمیشہ مذہب نے عام انسانوں اور قیادت کو بڑا بنایا ہے۔ اقبال کی نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے دو شعر بنیادی ہیں۔ ایک یہ:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

دوسرا شعر یہ ہے:

کی محمدؐ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

یعنی مسلمانوں کی زندگی کے دو ہی مراکز ہیں: ایک خدا اور اس کا کلام، دوسرا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ۔ ان دونوں مراکز سے جو جتنا وابستہ ہوا، وہ اتنا عظیم ہو گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تک کا معاملہ یہی ہے، باقی کسی اور کی تو بات ہی کیا ہے۔
کہنے کو جلال الدین خوارزم شاہ ایک شہزادہ تھا، مگر وہ تاتاریوں کی بے پناہ طاقت کے مقابل کھڑا ہوگیا، اور اگر خلیفۂ بغداد اس کی مدد کرتا تو جلال الدین تن تنہا تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑ دیتا اور ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان نہ چنگیزی یلغار سے شہید ہوتے، نہ مسلمانوں کے سیاسی، تہذیبی اور علمی مرکز بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجتی۔ جلال الدین کی ’’عظمت‘‘ پر غور کیا جائے تو اس کا مرکز اسلام کے سوا کچھ نہیں۔ جلال الدین شہزادہ ہونے کے باوجود انتہائی دین دار اور سخت کوش تھا، اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سوتا بھی گھوڑے کی پیٹھ پر ہے۔
اورنگ زیب عالمگیر بھی بادشاہ تھا، مگر اقبال جیسی شخصیت نے اسے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کے ترکش کا آخری تیر قرار دیا ہے۔ اورنگ زیب کی ساری عظمت بھی اس کی دین سے وابستگی میں ہے۔ اس نے چالیس سال کی عمر کے بعد قرآن حفظ کیا۔ وہ تہجد گزار تھا۔ اس کی سخت کوشی کا یہ عالم تھا کہ وہ 80 سال کی عمر میں بھی میدانِ جنگ میں اُترتا تھا اور دادِ شجاعت دیتا تھا۔ اورنگ زیب نہ ہوتا تو برصغیر میں مسلمان فنا ہوجاتے یا ہندوازم کا ایسا حصہ بن جاتے کہ مسلمان اور ہندو کی تفریق مٹ جاتی۔ اورنگ زیب نہ ہوتا تو شاید نہ برصغیر میں قرآن و حدیث کے علم کو زندہ کرنے والے شاہ ولی اللہ اور ان کے فرزند ہوتے، نہ کوئی مولانا مودودی اور اقبال ہوتا، نہ کوئی جناح اور پاکستان ہوتا۔ مگر ایک بادشاہ کی مذہب سے وابستگی نے ہر چیز کو بچالیا۔
شاہ فیصل عصرِ حاضر کے ’’بادشاہ‘‘ تھے۔ اس اعتبار سے اُن کا مرتبہ شاہ سلمان یا ان کے ولی عہد محمد بن سلمان سے بلند نہ تھا، مگر امریکہ شاہ فیصل کے بارے میں یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا کہ آپ کا اقتدار میرے دم قدم سے قائم ہے۔ میں نہ ہوں تو دو ہفتوں میں آپ کی حکومت جاتی رہے۔ ایک وقت آیا کہ شاہ فیصل اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہوئے اور امریکہ نے شاہ فیصل کو دھمکی دی کہ ہم تمہارے تیل کے کنوئوں پر قبضہ کرلیں گے۔ شاہ فیصل نے سعودی عرب میں تعینات امریکی سفیر کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ انہوں نے امریکی سفیر کو محل میں بلانے کے بجائے صحرا میں لگائے گئے خیمے میں طلب کیا۔ شاہ فیصل نے امریکی سفیر کو کھانے کے لیے کھجوریں اور پینے کے لیے قہوہ دیا اور اُس سے کہا کہ ہماری کئی نسلیں اس غذا پر پلی ہیں۔ تم ہمیں تیل کے کنوئوں پر قبضے کی دھمکی دیتے ہو! یاد رکھنا اس سے قبل ہم خود اپنے تیل کے کنوئوں کو آگ لگادیں گے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم زندہ رہنے کے لیے کافی کھجوریں اور قہوہ پیدا کر ہی لیا کریں گے۔ شاہ فیصل کی اس جرأت کی پشت پر بھی مذہب کھڑا تھا۔
مذہب کا عنصر حکمرانوں کے حوالے ہی سے نہیں، عظیم علمی شخصیات اور سیاست دانوں کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ اقبال استاد داغؔ کے شاگرد تھے اور رعایت لفظی کی شاعری کی کھل کر داد دیتے تھے۔ اقبال قوم پرست بھی تھے اور خاکِ وطن کا ہر ذرہ انہیں دیوتا نظر آتا تھا اور رام کو وہ ’’امامِ ہند‘‘ کہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمالہ انہیں پورے ہندوستان کا پاسباں اور سنتری یعنی حفاظت کرنے والا سپاہی نظر آتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی آرزو کو بدل دیا۔ وہ ہندوئوں کی ’’ارضی تہذیب‘‘ کے کنویں سے نکل بھاگے اور اسلامی تہذیب کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئے۔ ان کی زندگی گیتا سے بڑی کتاب قرآن اور شری کرشن اور رام سے کہیں زیادہ بڑی ذات یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسلک ہوگئی اور ان کے انسلاک میں کیفیتِ عشق در آئی۔ چنانچہ داغؔ کا شاگرد، بیسویں صدی کا سب سے بڑا شاعر بن کر کھڑا ہوگیا۔ اکبر الٰہ آبادی کا تجربہ بھی بہت بڑا ہے۔ اکبر کو اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے عشق تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی شاعری میں وہ جنگ جیت کر دکھا دی جسے مسلمان میدانِ کارزار میں ہار چکے تھے۔ مولانا مودودیؒ ابتدا میں صرف ایک صحافی تھے۔ بڑے صحافی۔ لیکن مولانا کو اپنے دین، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے عشق تھا۔ اقبال نے اعتراف کیا ہے کہ وہ گفتار کے غازی ہیں، کردار کے غازی نہیں ہیں، مگر مولانا گفتار کے بھی غازی تھے اور کردار کے بھی۔ چنانچہ ان کے عشق نے انہیں مجددِ وقت بنادیا۔ وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے متکلم اور مسلم دنیا پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والے مفکر ہیں۔
محمد علی جناح اپنے ظاہر میں ایک لبرل انسان نظر آتے ہیں، اور ایک زمانے میں وہ ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے سفیر کہلاتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی محبت عطا کردی، اور اس محبت نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنادیا۔ ایک قومی نظریے کا نعرہ لگانے والا دو قومی نظریے کا سب سے بڑا سیاسی شارح بن گیا، اور انہوں نے امتِ مسلمہ کو پاکستان کی صورت میں جدید مسلم دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست کا تحفہ دیا۔ یہ مذہب سے وابستگی ہی ہے جس کی وجہ سے اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا قلب قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: افغان باقی کہسار باقی۔ اتفاق دیکھیے کہ اقبال کا یہ تجزیہ زمانے کے طویل سفر میں بار بار درست ثابت ہوا۔ افغانوں نے سکندر کو ہرایا، انگریزوں کو شکست دی، سوویت یونین کو پسپا کیا اور اب وقت کی واحد سپر پاور امریکہ 17 سال سے طالبان کے رحم و کرم پر ہے۔ ملاّ عمر کو لوگ ’’ملاّ‘‘ اور ’’دیہاتی‘‘ سمجھتے ہیں، مگر ملاّ عمر کی مذہبیت نے انہیں تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہنے والا کردار بنادیا ہے۔ اقبال نے کہا ہے:

اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی

اقبال کے اس شعر پر پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے تھوک دیا اور ملاّ عمر اس شعر کی تفسیر بن گئے۔ ان سے جنرل پرویز ہی نے نہیں، پاکستان کے بڑے بڑے علماء نے کہا کہ افغانستان کی حکومت بڑی چیز ہے، اسے اسامہ بن لادن کے لیے ضائع نہ کریں۔ مگر ملاّ عمر نے کہا: اگر اسامہ بن لادن کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو ہمیں دیا جائے۔ بصورتِ دیگر ہمارا مذہب اور ہماری روایات ایک ’’مہمان‘‘ کو خوامخواہ کسی طاقت کے حوالے کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ پاکستان کے حکمران سمجھتے تھے کہ امریکہ سے بڑا کچھ نہیں۔ مگر ملاّ عمر کو معلوم تھا کہ خدا ہی سب سے بڑا ہے۔ چنانچہ امریکہ 17 سال میں طالبان کو ختم نہ کرسکا اور اسے افغانستان میں ویت نام سے بڑی شکست کا سامنا ہے۔ یہاں تک کہ وہ طالبان سے آئے دن مذاکرات کی بھیک مانگتا نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس جنرل پرویزمشرف کے سیکولر اور لبرل ذہن کا ’’کارنامہ‘‘ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیا۔ اُن کے بعد آنے والے جرنیل اور سیاسی حکمران بھی امریکہ کی خدائی کے آگے سجدہ ریز رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جنرل پرویز پر ایسی ذلت مسلط کردی گئی ہے کہ کسی سے نہ ڈرنے کا نعرہ بلند کرنے والا کمانڈو آج اپنے ملک واپس آنے کے لیے بھی تیار نہیں۔
انسانوں کو ان کی آرزو اور جستجو بھی بڑا بناتی ہے۔ اقبال اور مولانا مودودی کی مذہب سے وابستگی کے حوالے سے ان کی بڑی آرزو کا ذکر ہوچکا ہے۔ جدید سوشلزم کا بانی کارل مارکس باطل پر کھڑا تھا مگر اُس کی آرزو سوشلسٹ انقلاب تھا۔ اس کی آرزو دنیا کی تبدیلی تھی۔ چنانچہ اس کی بڑی آرزو نے روس میں انقلاب برپا کیا، اور یہ انقلاب 70 سال تک آدھی دنیا پر چھایا رہا اور باقی آدھی دنیا سوشلسٹ انقلاب کی آمد سے کانپتی رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی اَنا بڑی تھی۔ بڑی اَنا بڑے تجربات ہی سے تسکین پاسکتی تھی۔ چنانچہ یہ بڑی اَنا انہیں بڑی آرزو کی طرف لے گئی۔ وہ قائدِایشیا بننا چاہتے تھے، مسلم دنیا کی قیادت کرنا چاہتے تھے، چنانچہ انہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ ان کا خیال تھا کہ عربوں کا سرمایہ اور پاکستان کا ایٹم بم مل جائیں تو وہ مسلم بلاک کے قائد بن کر اُبھر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے میاں نوازشریف، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، جنرل پرویزمشرف اور عمران خان کی آرزوئیں بہت چھوٹی چھوٹی ہیں۔ وہ مطلق العنان حکمران بننا چاہتے ہیں، مال کمانا چاہتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں لوٹ مار کرنی پڑے یا لٹیروں عرف Electables کے ساتھ اتحاد کرنا پڑے۔
آرزو اور جستجوکے حوالے سے مسلم دنیا اور مسلم دنیا کی قیادت کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری آرزو کچھ ہوتی ہے اور جستجو کچھ اور۔ ہماری آرزو مذہب ہے مگر جستجو دنیا۔ ہم آرزو کی سطح پر اللہ اللہ کرتے ہیں اور جستجو کی سطح پر پیسہ، پیسہ، طاقت، طاقت۔ ہم آرزو کی سطح پر مکہ اور مدینہ جانا چاہتے ہیں اور جستجو کی سطح پر نیویارک، لندن، پیرس اور بیجنگ۔ ہماری شخصیتیں ’’دونیم‘‘ ہیں، اور بڑی شخصیت ہمیشہ ایک ’’اکائی‘‘ ہوتی ہے، ایک ہم آہنگ اکائی۔ جس شخص کی شخصیت میں آرزو اور جستجو ایک دوسرے کے خلاف تلواریں لیے کھڑی ہوں وہ اقتدار میں آکر بھی نوازشریف، جنرل پرویزمشرف، آصف علی زرداری اور عمران خان ہی رہتا ہے… رہنما یا قائد نہیں بن پاتا۔ میاں نوازشریف خود کو قائداعظم ثانی کہتے ہیں، اور عمران خان نے ابھی حال ہی میں اپنا موازنہ قائداعظم سے کیا ہے۔ ہمارا معاشرہ زندہ اور ریاست ریاست ہوتی تو وہ میاں نوازشریف اور عمران خان کے دعووں پر کسی اچھے ماہر نفسیات سے ان کا علاج کراتی۔ اس لیے کہ عظمت اور خبطِ عظمت میں فرق ہوتا ہے۔ قائداعظم کو انگریزوں نے ’سر‘ کا خطاب دینا چاہا تو قائداعظم نے فرمایا: مجھے اپنا نام پسند ہے اور میں اس کے ساتھ کوئی لاحقہ نہیں لگانا چاہتا۔ یہ کوئی سیاسی چال نہیں، حقیقی عظمت کے اظہار کی ایک جھلک تھی۔ قائداعظم ایک بار ریل سے سفر کررہے تھے۔ ایک اسٹیشن پر طالب علموں کے ایک غول نے قائداعظم کے ڈبے کو گھیر لیا اور قائداعظم زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ قائداعظم ریل کے ڈبے کے دروازے پر آئے اور کہنے لگے کہ اپنا وقت حصولِ علم پر صرف کرو۔ یہ ایک فطری بے نیازی تھی۔ ہر بڑے آدمی اور رہنما میں یہ فطری بے نیازی موجود ہوتی ہے۔ مسلم دنیا کے موجودہ حکمران اس بے نیازی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
بڑی آرزو ’’اجتماعی آدمی‘‘ کی عطا ہوتی ہے، اور سلیم احمد کے مطابق ہمارے اندر اجتماعی آدمی مر رہا ہے یا مرچکا ہے۔ سلیم احمد کا ایک قطعہ ہے:

ہر طرف سے انفرادی جبر کی یلغار ہے
کِن محاذوں پر لڑے تنہا دفاعی آدمی
میں سمٹتا جا رہا ہوں ایک نقطے کی طرح
میرے اندر مر رہا ہے اجتماعی آدمی

اب ہم میں سے بیشتر افراد فرد ہیں، گروہ ہیں، پارٹی ہیں، طبقہ ہیں، ادارہ ہیں، فرقہ ہیں، مسلک ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی پوری تہذیب نہیں ہے، پوری تاریخ نہیں ہے، پوری امت نہیں ہے، پوری ملّت نہیں ہے، پوری قوم نہیں ہے۔ پاکستان میں کروڑوں لوگ ہیں جو پنجابیت، مہاجریت، سندھیت، پشتونیت اور بلوچیت سے اوپر اُٹھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ اس ماحول میں اجتماعی آدمی مرے گا نہیں تو اور کیا ہوگا! مگر ہمارے اندر اجتماعی آدمی کی موت بلند خیالی کی موت ہے، بڑے اہداف کی موت ہے، بڑے تجربے کی موت ہے۔ یعنی انسان کی عظمت کی موت ہے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ جنرل پرویز گھٹیا تھے، میاں نوازشریف گھٹیا ہیں، آصف علی زرداری گھٹیا ہیں، عمران خان گھٹیا ہیں… بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ انہیں پسند کرنے والے اور انہیں ووٹ دینے والے بھی گھٹیا ہیں۔ اس لیے کہ جس طرح ہمارے رہنمائوں میں کوئی اجتماعی آدمی موجود نہیں، اسی طرح ان رہنمائوں کو پسند کرنے اور انہیں ووٹ دینے والوں میں بھی کوئی اجتماعی آدمی موجود نہیں۔ اجتماعی آدمی کیا ہوتا ہے کسی کو یہ دیکھنا ہو تو اقبال کے مردِ مومن کو دیکھے، اقبال کے عشق سے ملے، اقبال کے شاہین کے ساتھ وقت گزارے، اقبال کے تصورِ اُمت کو اُلٹ پلٹ کر دیکھے۔ میر تقی میرؔ کا تجربہ اقبال کے تجربے سے مختلف ہے، مگر ان کے اندر بھی اجتماعی آدمی زندہ تھا، اس لیے میرؔ کا عشق اور میرؔ کی کائنات کچھ ایسی تھی:

محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نُور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
٭٭
محبت مسبّب، محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
٭٭
دور بیٹھا غبارِ میر اُس سے
عشق بنا یہ ادب نہیں آتا
٭٭
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہِ شیشہ گری کا

شاعر کے اندر سے اجتماعی آدمی مرجاتا ہے یا مرنے لگتا ہے تو پھر ایسی شاعری ہوتی ہے:

کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزمائوں گی
میں اپنے ہاتھ سے اُس کی دلہن سجائوں گی

(پروین شاکر)

سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
نیند آنے لگی ہے فرقت میں
روح نہ عشق کا فریب رہا
جسم کو جسم کی عداوت میں
میرے کمرے کا کیا بیاں کہ یہاں
خون تھوکا گیا شرارت میں

(جون ایلیا)

کمرہ
مجھے نہ کھولو
میرے اندھیرے میں
ایک لڑکی
لباس تبدیل کررہی ہے
(رئیس فروغ)

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

(احمد فراز)

ایک چہرہ تھا کہ اب یاد نہیں آتا ہے
ایک لمحہ تھا کہ جان کا بیری نکلا

(ساقی فاروقی)

بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک شخص
ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص

(عبید اللہ علیم)
ہمارے زمانے تک آتے آتے لفظ روایت بہت غریب ہوگیا ہے۔ مگر روایت اجتماعی انسان کی علامت ہے۔ اور جب کوئی واقعتاً روایت سے وابستہ ہوتا ہے تو اس میں اجتماعی آدمی کا کوئی نہ کوئی رنگ پیدا ہوجاتا ہے۔ رئیس فروغ کی نظم ’’کمرہ‘‘ آپ نے پڑھی۔ یہ ایک ’’فرد‘‘ کی نظم ہے، مگر جب اسی فرد کا تعلق غزل کی روایت سے قائم ہوا تو رئیس فروغ نے کہا:

عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے

ساقی فاروقی کی شاعری گھٹیا خیالات سے بھری ہوئی ہے، مگر ان کے ایک شعر میں شعوری یا لاشعوری طور پر روایت در آئی تو انہوں نے کہا:

میرے لہو میں تیرتا پھرتا ہے ایک نام
یہ نام ہے شبیہ سے باطل نہ کر اسے

یہاں بھی مشاعروں کے موضوعی تصورات یعنی Subjective Reality ، مذہب، تہذیب، تاریخ اور اجتماعی انسانی موت سے فراہم ہونے والی معروضی حقیقت یا Objective Reality کا مسئلہ موجود ہے۔ یعنی جو بھی کچھ ہے “شکوہ ” اور “جواب شکوہ ” کا پھیلائو ہے۔

Leave a Reply