تہذیبوں کا تصادم اور برنارڈ لیوس

مغربی دنیا کے ممتاز مؤرخ اور مستشرق برنارڈ لیوس 19 مئی 2018ء کو انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 102 سال تھی۔ مغرب میں مستشرقین کی روایت اپنی اصل میں اسلام دشمنی کی روایت ہے۔ مستشرقین کی عظیم اکثریت نے اسلام کی تفہیم کی کوششیں کیں، اس لیے نہیں کہ وہ اسلام کی عظمت، اس کی معنویت اور اس کے جلال و جمال سے آگاہ ہونا چاہتے تھے، بلکہ ان کی کوشش کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسلام کو سمجھو، تاکہ اسے تباہ یا کم از کم بدنام کرنے کی سبیل پیدا ہوسکے۔ برنارڈ لیوس کو اسلام اور مسلمانوں سے ایسی نفرت تھی کہ ان کا بس چلتا تو وہ ان دونوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتے۔ برنارڈ لیوس نے تقریباً 100 کتب تصنیف کیں۔ ان میں اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ سے متعلق کتب شامل ہیں۔ ایسا نہیں کہ برنارڈ لیوس نے اسلام اور اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی تعریف ہی نہیں کی۔ اسلام دنیا کے تین بڑے مذاہب میں سے ایک ہے۔ اسلامی تہذیب واحد زندہ مذہبی تہذیب ہے اور مسلمان حقیقی معنوں میں ایک عالمگیر امت ہیں، چنانچہ ان پر شیطان بھی گفتگو کرے گا تو کہیں نہ کہیں ان کی تعریف پر ’’مجبور‘‘ ہوگا۔ مگر مجبوری کی تعریف اور حقیقی تعریف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ برنارڈ لیوس کی مسلمانوں سے نفرت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اس نے اپنی تصنیف The Muslim Discovery of Europe میں لکھا ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز کے وقت مسلمانوں کی انفرادی صحت و صفائی یا ان کی Personal Hygiene یورپی باشندوں سے اتنی بہتر تھی کہ مسلمان اس حوالے سے یورپی باشندوں کی حفظانِ صحت کے اصولوں سے دوری پر معترض ہوئے تھے۔ لیکن برنارڈ لیوس نے اس تصنیف میں مسلم اسپین کے ایک سیاح ابن جبیر کے دورۂ شام کا ذکر کیا ہے۔ اُس وقت شام صلیبیوں کے قبضے میں تھا۔ ابن جبیر نے شام کے ایک بڑے شہر کا ذکر کیا ہے۔ اُس نے لکھا ہے کہ شہر کی گلیاں اور بازار ایسے لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں جن کے ساتھ چلنا محال ہوتا ہے، کیوں کہ وہ گندے سندے ہوتے ہیں۔ اس شہر کے لوگ ایمان اور تقوے سے عاری ہیں۔ اس شہر کی گلیوں میں گندگی اور فضلہ پڑا ہوتا ہے اور جگہ جگہ خنزیر اور چیلیں نظر آتی ہیں۔ (The Muslim Discovery of Euorpe, Page-98)
اس اقتباس پر تبصرہ کرتے ہوئے برنارڈ لیوس نے لکھا ہے کہ ابن جبیر شہر کی گلیوں اور شاہراہوں میں موجود جس گندگی کی بات کررہا ہے اسے لغوی معنوں یا Literal Sense میں نہیں لینا چاہیے بلکہ ابن جبیر کی اس سے مراد شراب کی بوتلیں، خنزیر، آلاتِ موسیقی اور گرجا گھر تھے۔ یہ وہ چیزیں تھیں جو مسلمانوں کی نگاہوں کو نہیں بھاتی تھیں۔ آپ نے دیکھا برنارڈ لیوس نے ابن جبیر سے وہ بات منسوب کی جو اُس نے کہی ہی نہیں۔ بالخصوص اُس نے گرجا گھروں کا تو ذکر تک نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں کبھی دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں یعنی گرجوں یا مندروں سے نفرت نہیں کی، اور نہ کسی مسلمان حکمران، وزیر، ادیب، شاعر یا دانشور سے یہ بات منسوب ہے کہ گرجوں اور مندروں کا نظارہ اس کی آنکھوں کو برا لگتا ہے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ برنارڈ لیوس کے انتقال کے بعد ہم ان کی تصنیف The Muslim Discovery of Euorpe کا مطالعہ کررہے تھے کہ فرائیڈے اسپیشل کا ایک دس سال پرانا شمارہ نہ جانے کہاں سے نکل کر ہمارے سامنے آگیا۔ یہ اکتوبر 2008ء کا شمارہ ہے اور اس شمارے میں برنارڈ لیوس کے ایک انٹرویو کا ترجمہ موجود ہے، اس انٹرویو میں برنارڈ لیوس نے کئی ایسی باتیں کہی ہیں جو غلط بھی ہیں اور ان کی علمی جانب داری کی شہادت بھی۔
تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح سیموئل ہن ٹنگٹن سے منسوب ہوگئی ہے، مگر اصل میں یہ اصطلاح سب سے پہلے برنارڈ لیوس نے اپنے ایک مضمون میں استعمال کی تھی۔ اپنے انٹرویو میں برنارڈ لیوس نے ایک بات یہ کہی ہے کہ اسلامی اور عیسائی تہذیب کا تصادم ناگزیر ہے۔ اس کی وجہ برنارڈ لیوس کے بقول یہ ہے کہ اسلام اور عیسائیت کے سوا تمام مذاہب مقامی اور نسلی نوعیت کے حامل ہیں۔ صرف مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس خوش نصیبی کا دعویٰ ہے کہ بنی نوع انسان کے لیے اللہ نے اپنے آخری پیغام کے لیے ان ہی کو منتخب کیا اور یہ ان کا فرض ہے کہ وہ راستے کی رکاوٹ دور کرتے ہوئے اللہ کا پیغام پوری انسانیت تک پہنچائیں اور یہودیوں، بدھسٹوں اور ہندوئوں کی طرح خودغرضی کا مظاہرہ نہ کریں۔
تہذیبوں کا تصادم ایک تاریخی حقیقت تھی، ایک تاریخی حقیقت ہے اور ایک تاریخی حقیقت رہے گی۔ لیکن برنارڈ لیوس نے اسلامی تہذیب اور عیسائی تہذیب کے باہمی تعلق کے حوالے سے درست رائے نہیں دی۔ عالم اسلام اور مغرب کے باہمی تعلق کی تاریخ کا ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ صلیبی جنگیں بھی مغرب نے ایجاد کیں، نوآبادیاتی دور بھی مغرب نے تخلیق کیا، اور 20 ویں صدی میں اسلام اور مغرب کی آویزش کی پشت پر بھی مغرب ہی موجود ہے۔ پوپ اربن دوم کوئی معمولی انسان نہیں تھا، وہ وقت کا پوپ تھا، یعنی عیسائیت کی سب سے بڑی روحانی اور فکری شخصیت۔ پوپ اربن دوم نے 1095ء میں اسلام اور عیسائیت کو مساوی حقیقتیں نہیں سمجھا۔ اس نے صاف کہا کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے۔ اس بات کا مفہوم یہ تھا کہ اسلام جھوٹا مذہب ہے۔ چنانچہ پوپ اربن نے پوری عیسائی دنیا سے کہا آئو جھوٹے مذہب اسلام اور اس کے پیروکاروں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دو۔ پوپ اربن کی یہ آواز صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوئی بلکہ یورپ کی تمام اقوام 1099ء میں ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوئیں اور انھوں نے اُن صلیبی جنگوں کا آغاز کیا جو دو سو سال جاری رہیں۔ تاریخ کے اس مرحلے پر مسلمانوں نے صرف دفاعی جنگ لڑی۔ اس دفاعی جنگ نے بالآخر سلطان صلاح الدین ایوبی کو جنم دیا اور صلاح الدین ایوبی نے نہ صرف یہ کہ بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کرایا بلکہ وہ عیسائیوں کو دھکیلتے ہوئے یورپ تک لے گئے اور قسمت یاوری کرتی تو پورے یورپ کا فتح ہوجانا ممکن تھا۔
اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں یورپ کی عیسائی طاقتیں ایک بار پھر غاصب اور نوآبادیاتی طاقتیں بن کر ابھریں اور مسلمانوں کی جانب سے کسی اشتعال انگیز کارروائی کے بغیر انھوں نے کم و بیش پورے عالم اسلام پر قبضہ کرلیا۔ تاریخ کے اس مرحلے پر مسلمانوں نے ایک بار پھر ’’دفاعی جنگ‘‘ لڑی۔ اس جنگ اور دو عالمی جنگوں کے اثرات و نتائج نے یورپی طاقتوں کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو مغرب اور عالم اسلام کا تعلق ظالم اور مظلوم کا تعلق ہے، جارح اور مجروح کا تعلق ہے، اخلاقی فضیلت کے حامل وجود اور اخلاقی فضیلت سے محروم وجود کا تعلق ہے۔
اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ عیسائیت تو کچھ نہ کچھ زندہ ہے مگر عیسائی تہذیب اب زندہ تہذیب نہیں ہے۔ مغرب میں جدید سیکولر مغربی تہذیب نے خود اپنے ہاتھوں سے عیسائی تہذیب کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ اب نہ علمیت عیسائی تہذیب کی چل رہی ہے، نہ اس کا سیاسی نظام کہیں موجود ہے، یہاں تک کہ اس کی اخلاقیات بھی عرصہ ہوا فنا ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ پوپ فرانسس نے اپنے ایک بیان میں بڑے دکھ کے ساتھ یورپ کی نئی نسلوں کو روحانی معنوں میں ’’گم شدہ نسلیں‘‘ یا Lost Generation کہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یورپ جہاں سیاسی، عسکری اور مالی طاقت ہے وہاں عیسائیت کا کوئی مستقبل نہیں۔ بلاشبہ ایشیا اور افریقہ میں عیسائیت پھیل رہی ہے مگر پیسے کے بل پر، اور یہ بات خود عیسائیت اور عیسائی تہذیب کی موت کا اعلان ہے۔ اس لیے کہ جو مذہب اپنے پھیلائو کے لیے اپنی روحانی، تہذیبی اور کرداری کشش کو استعمال نہ کرے بلکہ پیسے پر انحصار کرے وہ مذہب کبھی بھی زندہ تہذیبی تجربہ خلق کرسکتا ہے نہ ایسا تجربہ زیادہ عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اسلامی تہذیب ایک زندہ تہذیب ہے، اس تہذیب کے عقائد زندہ ہیں، اس تہذیب کی عبادات زندہ ہیں، اس تہذیب کی اخلاقیات زندہ ہے، اس تہذیب کی زبانیں اور علوم و فنون زندہ ہیں۔ بلاشبہ اس تہذیب کے دائرے میں سیاسی اور معاشی نظام مغرب کے زیراثر ہیں، مگر مسلمان ان دائروں میں بھی ابھی تک اصولوں اور اپنی اصل کو بھولے نہیں ہیں۔ جب تک اصولوں پر یقین رہتا ہے اُن کی بازیافت اور اُن کے مؤثر ہونے کا امکان باقی رہتا ہے۔ اس تناظر میں بھی اسلامی تہذیب اور عیسائی تہذیب مساوی حیثیت کی حامل نہیں۔ آخر ایک زندہ اور مُردہ تہذیب مساوی کس طرح ہوسکتی ہیں! اور مُردہ تہذیب کے علَم بردار جب حریف تہذیب کو زندہ دیکھتے ہیں تو اُن میں حسد اور نفرت کے جذبات کا پیدا ہونا سمجھ میں آتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہونے والے انٹرویو میں برنارڈ لیوس سے پوچھا گیا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، بہت لوگ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کی بڑی وجہ امریکی پالیسیاں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں برنارڈ لیوس نے ایک اور علمی بددیانتی کا ثبوت دیا۔ انھوں نے کہا کہ انہیں مذکورہ خیال سے اتفاق نہیں۔ ان کے بقول جب تک عالم اسلام پر مغربی طاقتوں کا قبضہ تھا تب تک یہ کہا جاسکتا تھا کہ دہشت گردی نوآبادیاتی طاقتوں کے قبضے کا نتیجہ ہے، مگر اب مسلم دنیا آزادی حاصل کرچکی ہے چنانچہ وہ اپنی غلطیوں کا الزام دوسروں پر نہیں دھر سکتی۔
تجزیہ کیا جائے تو یہاں بھی برنارڈ لیوس کسی مؤرخ یا دانش ور کے بجائے مغرب کے ایک متعصب پادری یا سیاست دان نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ مسلم ممالک کی اکثریت مغرب کی غلامی سے آزاد ہوگئی، مگر مغرب نے ہر مسلم معاشرے میں سیاہ فام غلاموں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کررکھا ہے جو مسلم ریاستوں کو ابھی تک مغرب کا غلام بنائے رکھنے میں مرکزی کردار ادا کررہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کہیں مغرب کا آلۂ کار کوئی بادشاہ یا شہزادہ ہے، کہیں کوئی جرنیل ہے، کہیں کوئی نام نہاد سیاسی و جمہوری رہنما ہے۔
مغرب جمہوریت اور آزادی کی بات ضرور کرتا ہے مگر اس نے مسلم ممالک میں سیاسی، معاشی آزادی اور جمہوریت کو بھی ایک تماشا بنایا ہوا ہے۔ جب تک مسلم ممالک میں سیکولر، لبرل اور مغرب کے آلۂ کار عناصر اقتدار میں آتے رہتے ہیں مغرب مسلم معاشروں میں جمہوریت کی پشت پناہی کرتا رہتا ہے، لیکن جیسے ہی اسلام اور امتِ مسلمہ کی حقیقی ترجمان کوئی اسلامی تحریک جمہوری طریقے سے اقتدار میں آتی ہے یا آنے کی کوشش کرتی ہے، مغرب جرنیلوں، سیکولر اور لبرل جماعتوں، عدلیہ، سیکولر پریس کے ذریعے اسلامی تحریک کے خلاف سازش برپا کردیتا ہے اور اسلامی تحریکوں کا راستہ روک دیتا ہے، یا اسلام پسندوں کو اقتدار سے ہٹوا دیتا ہے۔ الجزائر میں یہی ہوا، فلسطین میں یہی ہوا، ترکی میں یہی ہوا، مصر میں یہی ہوا۔ چنانچہ پوری مسلم دنیا میں مغرب کے خلاف زبردست اشتعال پایا جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ریکارڈ پر ہے کہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل 70 سال بعد بھی حل نہیں ہوسکے بلکہ مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب ان مسائل کا حل چاہتا ہی نہیں، البتہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے مسائل پیدا ہوئے اور مغرب کی اعانت سے چند برسوں میں وہاں عیسائی ریاستیں قائم ہوگئیں۔ مغرب کا معاشی، ابلاغی، سفارتی اور تہذیبی جبر اس کے سوا ہے، نتیجہ یہ کہ مسلم ممالک آزاد ہوکر بھی آزاد نہیں۔ مسلم ممالک اسلامی ہوکر بھی اسلامی نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برنارڈ لیوس نے مسلم ممالک کی آزادی اور دہشت گردی کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے اس کی حیثیت سفید جھوٹ سے زیادہ نہیں۔
برنارڈ لیوس نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلمان اپنے ممالک میں اپنی طرح کی جمہوریت کو فروغ دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ مغربی جمہوریت ہماری اپنی تاریخ اور اداروں کا حاصل ہے اور یہ کوئی آفاقی نمونہ نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مغرب جب مسلم ممالک میں مغربی جمہوریت کو بھی صرف اس صورت میں اپنی تائید مہیا کرتا ہے جب وہ جمہوریت مغرب کی آلۂ کار ہو تو وہ ایسی کسی جمہوریت کو مسلم معاشروں میں کیسے پروان چڑھنے دے گا جو مغربی بھی نہیں ہوگی اور جس کے ذریعے مغرب کے آلۂ کار بھی اقتدار میں آتے نظر نہیں آرہے ہوں گے! عجیب بات یہ ہے کہ ایک جانب مغرب یہ کہتا ہے کہ کچھ بھی مطلق یا Absolute نہیں، کچھ بھی معروضی یا Objectve یا آفاقی نہیں، مگر دوسری طرف وہ اپنے تصورِ آزادی، تصورِ جمہوریت اور اپنے کلچر کو مطلق، معروضی اور عالمگیر باور کراتا ہے اور اس نے ان تمام چیزوں کو دنیا پر مسلط کر رکھا ہے۔ بہرحال برناڈ لیوس جیسے لوگوں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ کاش مسلم دنیا کو بھی ایسے دانشور فراہم ہوں جو 102 سال کی عمر پائیں اور اپنی عمر کے 70 سال مغربی فکر اور مغربی تہذیب کے خلاف جہاد کرنے میں بسر کردیں۔ ہم اپنے مذہب، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھ سکتے تو اپنے دشمنوں ہی سے کچھ سیکھ لیں۔

Leave a Reply