میاں نواز شریف ،ماضی اور حال کا آئینہ

میاں نوازشریف نے پاناما اسکینڈل میں سزا یافتہ ہونے کے بعد ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مہم چلائی۔ اس مہم کا مقصد یہ باور کرانا تھا کہ میرا اور میرے پورے خاندان کا دامن ہر طرح کی بدعنوانی سے پاک ہے۔ انہوں نے تاثر دیا کہ مسئلہ بدعنوانی نہیں، اسٹیبلشمنٹ ہے جو انہیں اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ مقدمہ پاناما پر بنایا گیا، سزا اقامہ پر دی گئی۔ اگرچہ اقامہ بھی ایک طرح کی بدعنوانی تھی، مگر میاں صاحب کا کہنا یہ تھا کہ اقامہ مالی بدعنوانی کی مثال نہیں ہے۔ میاں صاحب اور ان کی بیٹی مریم نواز کو ایون فیلڈ کیس میں سزا ہوئی تو میاں صاحب اور ان کے خاندان کی ’’پاک بازی‘‘ ایک بار پھر عود کر سامنے آئی۔ ایون فیلڈ کیس اربوں روپے کے فلیٹوں کا کیس ہے اور اس کیس میں میاں صاحب، ان کے دو فرزند اور ان کی دخترِ نیک اختر خود اپنے خلاف گواہ بن کر کھڑے ہوگئے تھے۔ اس لیے کہ جب یہ سوال اٹھا کہ اربوں روپے کے فلیٹس میاں صاحب اور ان کے بچوں کی ملکیت ہیں تو میاں صاحب کے بیٹے حسن نواز نے بی بی سی ورلڈ کے اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ فلیٹس ہمارے نہیں، ہم ان فلیٹس میں کرائے پر رہتے ہیں۔ مریم نواز نے پاکستانی ٹی وی اینکر ثنا بُچّہ کے پروگرام میں ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ میری لندن میں کیا پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں ہے۔ میاں صاحب کے دوسرے فرزند حسین نواز نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ارشاد کیا کہ لندن میں موجود فلیٹس ہماری ملکیت ہیں۔ میاں نوازشریف کو وزیراعظم کی حیثیت سے جوش چڑھا تو وہ قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جن سے فلیٹس خریدے گئے۔ ظاہر ہے کہ اتنے متضاد دعوے جھوٹے، مکار، بدنیت، بدطینت، شیطان صفت، اخلاق و کردار سے عاری اور بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ اس کے باوجود میاں نوازشریف اور اُن کے اہلِ خانہ یہی تاثر دے رہے ہیں کہ وہ تو پاک صاف ہیں، بس اسٹیبلشمنٹ ان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم نے گزشتہ 27 سال میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اتنا لکھا ہے کہ اس لکھے سے کئی کتابیں مرتب ہوسکتی ہیں، مگر یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ میاں نوازشریف اور ان کے اہلِ خانہ سے بدعنوانی بہرحال اسٹیبلشمنٹ نے نہیں کرائی، اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ نے شریفوں سے وہ متضاد بیانات دلوائے جو ٹیلی ویژن کی اسکرین پر کروڑوں لوگ ہزاروں بار سن اور دیکھ چکے ہیں۔
ہم نے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ بد اچھا بدنام بُرا کا سلسلہ عجیب ہے۔ آصف زرداری بد ہیں اور بدنام بھی ہیں، مگر میاں صاحب آصف زرداری سے ہزاروں گنا زیادہ بد ہونے کے باوجود بدنام نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کی یادداشت بہت کمزور ہے۔ ہمیں چند ماہ پہلے کی باتیں یاد نہیں رہتیں تو برسوں پہلے کے مستند قصے کیسے یاد رہیں گے! ایسا نہ ہوتا تو پوری قوم کو معلوم ہوتا کہ میاں نوازشریف کی بدعنوانیوں اور لوٹ مار کے قصے 1991ء میں بھی عام تھے۔ ان میں سے ایک قصے پر ایک بہت ہی بڑی اور مضبوط تحریری گواہی آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
محمد صلاح الدین نہ صرف یہ کہ روزنامہ جسارت کے مدیر تھے بلکہ ان کا شمار ملک کے ممتاز صحافیوں میں ہوتا تھا۔ جسارت کی انتظامیہ سے اختلاف کے بعد وہ نہ صرف یہ کہ جسارت سے الگ ہوگئے بلکہ انہوں نے ’تکبیر‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ جاری کیا جو پاکستان کا سب سے مقبول ہفت روزہ تھا۔ صلاح الدین صاحب جنرل ضیا الحق کے بے حد قریب تھے۔ چوں کہ میاں نوازشریف ایک زمانے میں خود کو جنرل ضیا الحق کا ’’روحانی بیٹا‘‘ کہتے تھے، اس لیے صلاح الدین صاحب نے میاں نوازشریف اور اُن کی سیاست کے لیے بیک وقت تلوار اور ڈھال کا کام کیا۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد صاحب نے اسلامی فرنٹ کے نام سے ایک نیا سیاسی تجربہ کیا اور یہ تجربہ کامیاب نہ ہوسکا تو قاضی صاحب کے خلاف ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اس ہنگامے میں ایک مرحلے پر صلاح الدین صاحب اور ان کا صحافتی کردار بھی زیربحث آیا اور اس پر جسارت میں تنقید ہوئی تو صلاح الدین صاحب نے اپنے ایک مضمون میں یہ تک لکھا کہ میں کبھی بھی جماعتی نہیں تھا بلکہ میں تو ہمیشہ سے مسلم لیگی ہوں۔ ان واقعات کے ذکر کا مقصد یہ بتانا ہے کہ صلاح الدین صاحب کا میاں نوازشریف سے اور خود مسلم لیگ سے کیا تعلق تھا۔ اس کے باوجود ان سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا:
’’ بعض واقعات پر ’تکبیر‘ بالکل خاموش ہے۔ مثلاً مسلم کمرشل بینک کی خریداری میں ہونے والی بدعنوانی، الائیڈ بینک کی ملازمین کے ہاتھوں مہنگے داموں فروخت اور کوآپریٹو سوسائٹیز کے اسکینڈل کا ذکر ہوا تو آپ نے ذمے دار وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائین کو ٹھیرایا۔ جب کہ ساری گھپلے بازی میاں نوازشریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں ہوئی؟‘‘
اس سوال کا جو جواب محمد صلاح الدین نے دیا، انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
محمد صلاح الدین: ’’کوآپریٹو سوسائٹیز میں بدعنوانی کی ذمے داری بھی اصل میں پیپلز پارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم اس میں نوازشریف بھی شامل ہیں‘‘۔
(ماہنامہ ساحل، کراچی۔ نومبر 1991ء۔ صفحہ 9)
ان حقائق سے کئی باتیں روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہیں۔ میاں نوازشریف دو چار برسوں سے بدعنوان نہیں بلکہ وہ 1990ء کی دہائی میں بھی مالی اسکینڈلز کا حصہ تھے۔ اس بدعنوانی کی گواہی میاں صاحب کے سب سے بڑے صحافتی وکیل محمد صلاح الدین نے خود دی۔ بدقسمتی سے یہ گواہی دے کر بھی صلاح الدین صاحب میاں صاحب کے لیے تلوار اور ڈھال کا کردار ادا کرتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے ہفت روزہ تکبیر کے ایک سرورق پر میاں صاحب کی شان میں یہ شعر شائع کیا:
ہیں سرنگوں ترے آگے ترے تمام حریف
خدا نواز رہا ہے تجھے نواز شریف
جماعت اسلامی کی تاریخ کئی حوالوں سے شاندار ہے۔ اس تاریخ کا ایک پہلو یہ ہے کہ آج تک جماعت اسلامی کی قیادت پر کسی کو مالی بدعنوانی کا الزام لگانے کی جرأت نہیں ہوئی، مگر بدعنوانی میں گلے گلے تک دھنسے ہوئے میاں نوازشریف نے 1993ء میں جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد پر مالی بدعنوانی کا گھنائونا الزام لگایا۔ اس الزام کی تفصیل میاں نوازشریف کے صحافتی وکیل مجیب الرحمن شامی نے اپنے ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ میں مزے لے لے کر شائع کی۔ شامی صاحب نے کیا لکھا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’قاضی حسین احمد کے بارے میں نوازشریف کا پیمانۂ صبر لبریز ہوتا جارہا ہے۔ اخبارات میں اس مضمون کا اشتہار بھی چھپوا دیا گیا ہے کہ نوازشریف نے اسلام کی خدمت کے لیے قاضی صاحب کو دس کروڑ روپے دیے۔ انہوں نے 20 کروڑ روپے مزید مانگے تو جھگڑا ہوگیا۔ اس اشتہار سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ دس کروڑ کہاں سے دیے گئے؟ اتفاق فائونڈری کے اکائونٹ سے، یا قومی خزانے سے؟ اگر قومی خزانے سے دیے گئے تو یہ اشتہار قاضی صاحب کے خلاف ہے یا نوازشریف کے خلاف؟ انہوں نے کس مد سے اتنی بڑی رقم ’’اسلامی رشوت‘‘ کے طور پر دی؟ اور جو شخص سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے اتنی بڑی رقم ایک پارٹی کے سربراہ کو عطا کرسکتا ہے اُس کے ہاتھ میں قومی خزانے کی چابی پھر کس خوشی میں دی جائے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسری سیاسی جماعتوں کی حمایت کے لیے بھی نوازشریف صاحب نے یہ نسخہ استعمال کیا ہے؟ قاضی صاحب اس الزام کے جواب میں جو چاہے کہیں یہ اُن کا معاملہ ہے، ایک پاکستانی کی حیثیت سے میرا مسئلہ یہ ہے کہ قومی خزانے کو کن کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ اشتہار ظاہر ہے کہ میاں نوازشریف کی مرضی کے بغیر شائع نہیں ہوا‘‘۔
(ہفت روزہ زندگی۔ شمارہ 2 تا 8 اکتوبر 1993ء۔ صفحہ 13)
اس تحریر میں شامی صاحب نے جو ’’باریک کام‘‘ کیا ہے وہ ظاہر ہے، مگر یہاں ہمارا موضوع میاں صاحب ہیں۔ میاں صاحب بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر وہ قاضی حسین احمد جیسی شخصیت اور رہنما پر ’’اسلامی رشوت‘‘ کا الزام لگاتے ہیں اور پھر اسے اخبارات میں شائع بھی کراتے ہیں۔ اب وہ خود بدعنوانی کے مقدمے میں جیل پہنچے ہیں تو فرما رہے ہیں: میں نے کیا کیا؟ بدقسمتی سے ان کے خفیہ اور کھلے صحافتی وکیل بھی میاں صاحب کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض سیاسی رہنما بھی میاں صاحب کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ یہاں بھی کچھ لوگ میاں صاحب کے ’’کھلے ساتھی‘‘ ہیں اور کچھ ’’خفیہ ساتھی‘‘۔
میاں نوازشریف 1990ء کی دہائی میں صرف کوآپریٹو سوسائٹی کے اسکینڈل میں ملوث نہیں تھے اور وہ صرف قاضی حسین احمد جیسی شخصیت پر الزام لگاکر جماعت اسلامی کی پوری تاریخ پر نہیں تھوک رہے تھے بلکہ وہ اور بھی بہت کچھ کررہے تھے۔ کیا کررہے تھے؟ اس کی ایک جھلک 1993ء میں جسارت کے ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے ہمارے ایک کالم میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ہم نے اپنے کالم میں مستند خبروں اور حوالوں کے ساتھ لکھا:
’’میاں نوازشریف اراکینِ قومی اسمبلی کو اغوا کرکے فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھوائیں، انہیں شراب اور عورتیں مہیا کریں تو صرف اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ جی ہاں نوازشریف میں بھی کچھ کمزوریاں ہیں۔ اور ان کے بارے میں نئے سرے سے اس طرح گفتگو کا آغاز کیا جاتا ہے جیسے اس سے پہلے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کروڑوں روپے سالانہ کمانے والے جناب نوازشریف ڈھائی ہزار روپے سے بھی کم ٹیکس ادا کریں تو اس خبر کے بھی کوئی معنی نہیں۔ جناب نوازشریف کے مشیرِ خاص جناب مجید نظامی کے انگریزی اخبار ’’The Nation‘‘ کے اداریے میں تسلیم کیا جائے کہ جناب نوازشریف نے اپنے مفادات کے لیے جماعت اسلامی کے متاثرین کی ایک جعلی تنظیم صوت الحق بنوائی ہے تو اس کا کوئی نوٹس نہ لیا جائے‘‘۔
1993ء میں شائع ہونے والے کالم کے اس اقتباس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ میاں نوازشریف 1993ء میں نہ صرف یہ کہ دوسری جماعتوں کے اراکین کا ضمیر خرید رہے تھے بلکہ انہیں پُرتعیش مقامات پر ٹھیرا رہے تھے، انہیں بازاری عورتیں اور شرابیں مہیا کررہے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے جماعت اسلامی کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک جعلی تنظیم بھی بنوائی ہوئی تھی، اور اس بات کی گواہی میاں صاحب کے ایک بڑے صحافتی وکیل مجید نظامی کا انگریزی اخبار Nation فراہم کررہا تھا۔
آج میاں صاحب اس بات پر ماتم کررہے ہیں کہ ان کی بیٹی مریم کو ان کے ساتھ جیل میں ڈال کر تکلیف دی جارہی ہے۔ مریم اپنے بیان کی رو سے مالی بدعنوانی میں میاں صاحب کی شریکِ جرم ہیں، مگر بہرحال وہ عورت بھی ہیں اور بیٹی بھی۔ مگر بے نظیر بھٹو بھی عورت تھیں اور کسی کی بیٹی بھی۔ تاہم میاں نوازشریف اور ان کے کیمپ نے 1990ء کی دہائی میں ایک مرحلے پر بے نظیر کی خودساختہ ’’ننگی تصاویر‘‘ بنوائیں اور انہیں ہیلی کاپٹر سے پنجاب کی مختلف بستیوں میں پھینکا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ بے نظیر کا ’’سیاسی نقصان‘‘ ہو۔ سوال یہ ہے کہ میاں صاحب اور ان کے کیمپ کی ’’عورتوں‘‘ اور ’’بیٹیوں‘‘ سے متعلق حساسیت اُس وقت کیوں بیدار نہ ہوئی؟ خدا کا شکر ہے کہ مریم نواز کا جو بھی حریف ہے وہ اُن کے والد کی طرح نہیں ہے۔
میاں نوازشریف، اُن کے اہلِ خانہ، اُن کی جماعت کے رہنمائوں اور اُن کے صحافتی وکیلوں کی پست مزاجی کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ میاں نوازشریف اور مریم جب تک لندن میں تھے وہ کلثوم نواز کی بیماری کے سلسلے میں بڑے ’’حساس‘‘ تھے۔ بیگم صاحبہ کی حالت کی خبر صبح، دوپہر، شام کے اصول پر قوم کو مہیا کی جارہی تھی۔ کہا جارہا تھا کہ میاں صاحب اور مریم کلثوم نواز کی تیمارداری میں لگے ہوئے ہیں۔ میاں صاحب 13 جولائی کو پاکستان کے لیے روانہ ہوئے۔ اس سے ایک روز قبل کلثوم نواز نے کچھ دیر کے لیے آنکھیں کھولیں۔ میاں صاحب 14 جولائی کو پاکستان پہنچے اور جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں، 28 جولائی کا دن شروع ہوچکا ہے۔ ان چودہ دنوں میں میاں صاحب، مریم نواز، میاں صاحب کے بیٹوں، روزنامہ جنگ، جیو نیوز یا میاں صاحب کے کسی صحافتی وکیل نے ایک بار بھی قوم کو یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ کلثوم نواز زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا ہیں، وہ وینٹی لیٹر پر ہیں، وہ ابھی تک وینٹی لیٹر پر ہیں یا وینٹی لیٹر ہٹا لیا گیا۔ انہیں ہوش آیا یا نہیں۔ تسلیم کہ میاں صاحب اور مریم نواز جیل میں ہیں مگر وہ جیل سے طرح طرح کے پیغامات جاری کررہے ہیں تو کلثوم نواز کی صحت سے متعلق خبر بھی جاری کرسکتے ہیں۔ چلیے میاں صاحب کے بیٹے تو لندن میں آزاد ہیں اور شہبازشریف بھی، مگر چودہ دنوں میں کسی نے بھی کلثوم نواز کی ہولناک بیماری اور افسوس ناک حالت کا ذکر نہیں کیا۔ اس کا مطلب اِس کے سوا کیا ہے کہ میاں صاحب، اُن کی دخترِ نیک اختر، اُن کا پورا خاندان اور نواز لیگ کلثوم نواز کی بیماری کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہے تھے۔ اب سیاسی مقاصد کے لیے ’’دوسرے حربے‘‘ میسر آگئے ہیں تو کلثوم نواز اور ان کی بیماری ’’شریفوں‘‘ کے راڈار سے غائب ہوگئی ہے۔ اللہ اکبر۔ ان للہ وانا راجعون۔

Leave a Reply