بچپن اور زندگی

ہم بچوں کو بچہ سمجھتے ہیں اور انہیں خاطر میں نہیں لاتے۔ حالانکہ بچے بڑوں کے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ان میں وہ بھی ہوتا ہے جو ان کے بڑوں میں ہوتا ہے، اور وہ بھی جو ان کے بڑوں میں نہیں ہوتا۔ زندگی کی تین اہم منازل ہیں: بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ غور کیا جائے تو بچپن زندگی کا اجمال ہے اور جوانی و بڑھاپا بچپن کی تفصیل۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان کو جو کچھ بننا ہوتا ہے بچپن میں بن جاتا ہے۔ باقی زندگی میں صرف اس کی وضاحت سامنے آتی ہے۔ لیکن اس سلسلے کی سب سے اہم بات کا مفہوم اس حدیث شریف میں بیان ہوا ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے، البتہ اس کے والدین اسے یہودی اور عیسائی بنادیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس حدیث شریف میں والدین کا مفہوم والدین بھی ہے اور خارجی ماحول بھی جو ایک بہت بڑی قوت ہے اور انسانوں بالخصوص بچوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔
شیخ عبدالقادر ؒ کے بچپن کا واقعہ مشہور ہے۔ آپ کی والدہ نے آپ کو ایک تجارتی قافلے کے ساتھ غالباً بغداد سے شام بھیجا۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ بچے تھے اس لیے ان کی والدہ نے حفاظت کے نقطۂ نظر سے کچھ دینار ان کی قمیص یا صدری کے ساتھ سی دیے، لیکن ہدایت فرمائی کہ ہرحال میں سچ بولنا۔ قافلہ راستے میں تھا کہ اس پر ڈاکوئوں نے حملہ کیا اور لوٹ مار کرنے لگے۔ ایک ڈاکو نے شیخ عبدالقادر کو دیکھا کہ قافلے سے الگ کھڑے ہیں۔ وہ شیخ عبدالقادر کے پاس گیا اور کہا کہ کیا تیرے پاس بھی کچھ ہے؟ شیخ عبدالقادر نے کہا کہ ہاں میرے پاس کچھ دینار ہیں۔ ڈاکو شیخ عبدالقادر کو اپنے سردار کے پاس لے گیا اور کہا کہ یہ بچہ کہتا ہے کہ اس کے پاس کچھ دینار ہیں۔ ڈاکوئوں کے سردار نے سوال کیا کہ دینار کہاں ہیں؟ شیخ عبدالقادر نے صدری اتاری اور اسے ادھیڑ کر دینار ڈاکوئوں کے سردار کے سامنے ڈال دیے۔ سردار نے کہا کہ تُو چاہتا تو یہ دینار ہم سے آسانی کے ساتھ چھپا سکتا تھا پھر تُو نے ہمیں ان پر کیوں مطلع کیا؟ شیخ عبدالقادر نے جواب دیا کہ میری والدہ نے مجھ سے کہا تھا کہ ہمیشہ سچ بولنا۔ ڈاکوئوں کے سردار پر اس بات کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ اس نے لوٹا ہوا مال واپس کردیا۔ یہ بچے پر ماں کے مثبت اثرکی ایک بڑی مثال ہے۔ لیکن بچوں پر مائوں کے منفی اثرات کی بڑی مثالیں بھی موجود ہیں۔
نٹشے جدید مغربی فلسفے کا اہم ترین نام ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے اعلان کیا تھا کہ نعوذباللہ خدا مرگیا ہے۔ نٹشے کی تحریر نے یورپ میں جو مذہب بیزاری پیدا کی اس نے عیسائیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ مگر نٹشے بچپن میں بہت مذہبی تھا اور ننھا پادری کہلاتا تھا۔ نٹشے نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ ایک دن اس نے چرچ کے احاطے سے پھول توڑا۔ چرچ کے پادری نے اسے پھول توڑنے پر مارا۔ وہ روتا ہوا اپنی ماں کے پاس گیا اور کہا کہ اسے پادری نے پھول توڑنے پر مارا ہے۔ مگر نٹشے کی ماں پادری کی اتنی قائل تھی کہ اس نے نٹشے کی بات کا یقین نہ کیا۔ وہ نٹشے کو لے کر پادری کے پاس پہنچی اور پوچھا کہ کیا آپ نے پھول توڑنے پر نٹشے کو مارا ہے؟ پادری صاف مکر گیا اور کہنے لگا کہ میں نے تو اس سے صرف یہ کہا ہے کہ پھول توڑنے سے پہلے پوچھ لیا کرو۔ نٹشے کے ذہن پر اس واقعے کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ اس کو کبھی فراموش نہ کرسکا۔
ژاں پال سارتر فرانس کا مشہور فلسفی ہے۔ اسے جدید مغربی تہذیب کا آخری صورت گر بھی کہا گیا ہے۔ مغربی فلسفے پر اس کے اثرات فیصلہ کن رہے ہیں۔ سارتر خدا اور مذہب کا منکر تھا مگر شاید اس انکار کی جڑیں سارتر کے بچپن میں پیوست تھیں۔ سارتر نے اپنی خودنوشت Words میں لکھا ہے کہ اس کے دادا اور دادی میں سے ایک کیتھولک تھا اور ایک پروٹسٹنٹ۔ سارترکے بقول یہ دونوں صبح ناشتے کی میز پر بیٹھتے تو ایک دوسرے کے عقائد کو برا بھلا کہتے۔ سارتر ان کی باتیں توجہ سے سنتا رہتا تھا، اور اس کے ذہن نے بالآخر اپنے دادا اور دادی کی گفتگوئوں سے جو نتیجہ نکالا وہ یہ تھا کہ یہ دونوں ہی غلط ہیں۔ یعنی مذہب ہی ٹھیک نہیں۔ لیکن یہاں سوال تو یہ بھی ہے کہ بچوں پر بڑوں کے اتنے گہرے اثرات کیوں مرتب ہوتے ہیں؟
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بچوں کے پاس عمل کے نمونوں کی کمی ہوتی ہے۔ ان کا مطالعہ صفر اور مشاہدہ نہایت محدود ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کے ماحول میں موجود ان کے بڑے ہی ان کے لیے نمونۂ عمل ہوتے ہیں۔ بڑے جو کرتے ہیں بچے اس کو درست سمجھتے ہیں اور اس کی تقلید کرتے ہیں۔ بچوں کی تجزیاتی صلاحیت بھی محدود اور سطحی ہوتی ہے اور وہ دو ایک جیسی نظر آنے والی چیزوں میں مشکل ہی سے فرق کرپاتے ہیں۔
بچوں پر بڑوں کے اثرات کا ایک سبب یہ ہے کہ بچے بڑوں کو عقل اور علم کا سرچشمہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے لیے ان کے والدین اور اساتذہ محض والدین اور اساتذہ نہیں ہوتے، وہ ان کے لیے ’’سند‘‘ ہوتے ہیں، بالخصوص اساتذہ۔ بچے اپنے اساتذہ کی عقل اور علم کے اتنے قائل ہوتے ہیں کہ وہ ان کے سامنے اپنے والدین تک کی باتوں کو غلط سمجھتے ہیں۔
بچوں کے بڑوں سے اثرات قبول کرنے کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ بڑے حقیقی اور مصنوعی ماحول میں فرق کرسکتے ہیں لیکن بچے حقیقی اور غیرحقیقی ماحول میں فرق نہیں کرتے۔ وہ ماحول کو اس کی ہر صورت میں حقیقی سمجھتے ہیں۔ اس لیے بچوں پر ماحول کا گہرا اور فوری اثر ہوتا ہے۔
بچوں کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ بچے سر سے پیر تک سنجیدہ ہوتے ہیں۔ وہ کھیلتے بھی ہیں تو پوری سنجیدگی کے ساتھ اس طرح جیسے کھیل ہی زندگی ہو۔ کوئی بھی بات ہو ان کا پورا وجود اس سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ روتے ہیں تو ان کا پورا وجود روتا ہے، وہ ہنستے ہیں تو ان کا پورا وجود ہنستا ہے۔ چنانچہ ان کا ماحول جیسا ہوتا ہے وہ ویسے ہی بن جاتے ہیں یا اس کے گہرے اثرات قبول کرتے ہیں۔

Leave a Reply