اسلامی تہذیب، خوشی کا دائمی منشور اور ہمارے تہوار

جدید مغرب کے اثرات نے مسرت کے حقیقی تصور کو مسخ کر دیا ہے

انسانی تہذیب میں خوشی کا تصور معروضی یا Objective نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خوشی کے تصور کا تعلق کسی تہذیب کے تصورِ حقیقت، تصورِ انسان اور تصورِ زندگی سے ہے۔ اگر کسی تہذیب کا تصورِ حقیقت یا Concept of Reality روحانی ہوگا تو اس تہذیب میں مسرت اپنی اصل میں روحانی ہوگی۔ اس کے برعکس اگر کسی تہذیب کا تصورِ حقیقت مادی ہوگا تو اس تہذیب میں خوشی کا تصور بھی مادی چیزوں سے منسلک ہوگا۔ اس کی ایک مثال اسلامی اور جدید مغربی تہذیب ہے۔ اسلامی تہذیب کا تصورِ حقیقت روحانی یا مابعدالطبعیاتی ہے، اس لیے اسلامی تہذیب میں خوشی اپنی اصل میں روحانی اور اخلاقی ہے۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب میں اصل اور حتمی حقیقت مادہ ہے، چنانچہ اس تہذیب کے دائرے میں خوشی کا تصور اپنی اصل میں مادی ہے۔ تصورِ انسان کا قصہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں انسان روح، نفس اور جسم کا مجموعہ ہے، چنانچہ اس کی خوشیوں میں بھی یہ درجہ بندی ظاہر ہوتی رہے گی۔ اسی طرح اسلامی تہذیب کے دائرے میں انسانی شخصیت کی دو جہتیں ہیں: شعورِ حق اور شعورِ بندگی۔ چنانچہ اسلامی تہذیب میں انسان کی خوشی کا ایک دائرہ شعورِ حق سے متعلق ہوگا اور دوسرا دائرہ شعورِ بندگی سے۔ اس کے برعکس جدید مغربی تہذیب میں انسان صرف ایک جسمانی حقیقت ہے، چنانچہ اس کی خوشیاں بھی جسمانی دائرے سے متعلق ہیں، یا زیادہ سے زیادہ ذہنی دائرے تک۔ مگر ذہن بھی جدید مغربی تہذیب میں ایک مادی شے ہے اس لیے ذہنی خوشی بھی بدلے ہوئے عنوان کے باوجود اپنی اصل میں مادی خوشی ہی ہے۔ انسان کا تصورِ زندگی چونکہ اس کے تصورِ حقیقت اور تصورانسان ہی کی فرع ہے، اس لیے تصورِ زندگی پر بھی انسان کے تصورِ حقیقت اور تصورِ انسان ہی کا اثر ہوگا۔ اسلام کے تصورِ حیات میں انسان کے چار بنیادی رشتے ہیں:
-1 انسان کا خدا سے رشتہ
-2 انسان کا انسان سے رشتہ
-3 انسان کا خود اپنی ذات سے رشتہ
-4 انسان کا کائنات سے رشتہ
اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلامی تہذیب کے دائرے میں انسان کی خوشیوں کا تعلق بھی انہی رشتوں سے ہوگا، اس احتیاط کے ساتھ کہ انسان کے ہر رشتے پر خدا کے ساتھ تعلق کا سایہ ہوگا۔ خدا انسانوں کے باہمی رشتوں کے درمیان سے نکل جاتا ہے تو رشتوں کی نوعیت یکسر بدل کر رہ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ خود اپنی ذات اور کائنات سے بھی انسانی تعلق کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے۔ خیر یہ ایک الگ ہی قصہ ہے، یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تہذیب میں مسرت کا کوئی دائمی منشور پایا جاتا ہے؟ اگر ہاں، تو اس کی نوعیت کیا ہے؟
ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں سورۂ العصر مسرت اور غم کے دائمی منشور کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ الگ بات کہ مفسرین نے اسے اس تناظر میں نہیں دیکھا۔ لیکن سورۂ العصر کے حوالے سے اس دعوے کی بنیاد کیا ہے؟ انسان کی زندگی میں آنے والا ہر خسارہ غم انگیز ہوتا ہے، اور اگر انسان خسارے سے محفوظ ہوجائے اور اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچ جائے تو اس سے بڑی مسرت کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس حوالے سے سورۂ العصر کی اہمیت یہ ہے کہ وہ انسان کو چار اتنی بڑی نعمتوں اور مسرتوں سے ہم کنار کرتی ہے کہ ان مسرتوں کے آگے ہر مسرت ہیچ ہے، اور جس شخص کو یہ چار نعمتیں مسرتوں کی صورت میں حاصل ہوجائیں وہ دنیا کا کامیاب ترین اور مسرور ترین انسان ہے۔ آیئے سورۂ العصر کا ہزاروں بار پڑھا ہوا ترجمہ ایک نئے زاویے سے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں:
’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘
اس سورۂ مبارکہ کا پہلا فقرہ اس اعتبار سے ہولناک ترین فقرہ ہے کہ وہ دنیا کے آغاز سے دنیا کے اختتام تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کو خسارے اور اس اعتبار سے ٰغموں میں مبتلا دیکھتا ہے۔ لیکن اس خسارے سے بچنے کی چار شرائط ہیں، ایک یہ کہ انسان اللہ، اس کے تمام رسولوں اور اُن تمام امور پر ایمان لائے جن کا ذکر قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ لیکن خسارے سے بچنے کے لیے صرف ایمان لانا کافی نہیں۔ ایمان کا نتیجہ عملِ صالح کی صورت میں برآمد ہونا چاہیے۔ یہاں یہ حقیقت بھی آشکار ہوکر سامنے آتی ہے کہ اعمالِ صالحہ ایمان ہی سے برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایمان کے بغیر کسی عملِ صالح کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ مگر ایمان اور عملِ صالح بھی کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جس حق تک ہم پہنچ گئے ہیں اس کو خود تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کو عام کریں، اسے دوسروں تک پہنچائیں اور اس کی تبلیغ کا حق ادا کریں۔ مگر یہ حق وہی ادا کرسکتا ہے جو ایمان لائے اور عملِ صالح کرنے والا ہو۔ اس لیے کہ قرآن صاف کہتا ہے کہ تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں۔ انسان کا جب قول اور عمل ایک ہوجاتا ہے تب ہی وہ دین یا حق کی تبلیغ کے قابل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی ایمان لائے گا، عملِ صالح کرے گا اور حق کو بیان کرے گا تو تمام باطل پرست ضرور ناراض ہوں گے اور وہ حق کی تلقین کرنے والوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ جب ایسا ہوگا تو صبر کی ضرورت ہوگی۔ یہاں پہنچ کر انسان کے روحانی ارتقا کا دائرہ مکمل ہوجاتا ہے۔ روحانی دائرے کے مکمل ہونے سے روحانی مسرت بھی کامل ہوجاتی ہے۔
اب آپ اس سورۂ مبارکہ کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ فرض کیجیے پوری دنیا روشنی میں جگمگا رہی ہے، اچانک ایک ندائے غیب پوری دنیا میں بلند ہوتی ہے: ’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی پوری دنیا اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے۔ خسارہ اندھیرا ہے، خسارہ غم ہے، اس لیے کہ خسارہ انسان کو نقصان پہنچانے والا ہے۔ جس چیز سے انسان کو نقصان ہو وہ غم انگیز اور درد انگیز ہوتی ہے۔ بہرحال پوری دنیا گھپ اندھیرے، گہرے ترین خسارے کے احساس میں ڈوب گئی ہے۔ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دے رہا۔ ہر دل کچھ جانے اور کچھ انجانے خوف سے دھڑک رہا ہے۔ کچھ وقت اسی کیفیت میں گزرتا ہے، اچانک وہی ندائے غیب پھر بلند ہوتی ہے:
’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے‘‘۔ اس فقرے کے ادا ہوتے ہی دنیا میں جہاں جہاں ایمان تھا وہاں 40 فیصد روشنی لوٹ آئی۔ ایمان والوں کا 40 فیصد اندھیرا دور ہوگیا، انہیں 40 فیصد نقصان سے نجات مل گئی اور وہ 40 فیصد خوشی سے ہم کنار ہوگئے۔ لوگ کچھ دیر اسی کیفیت میں رہے، اچانک وہ ندا پھر بلند ہوئی:
’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے۔‘‘
اس اعلان کے ساتھ ہی جہاں جہاں ایمان کے ساتھ صالح اعمال بھی موجود تھے وہاں وہاں 60 فیصد روشنی بحال ہوگئی، 60 فیصد اندھیرے اور 60 فیصد خسارے سے نجات مل گئی اور 60 فیصد مسرت انسانی وجود کا حصہ بن گئی۔ کچھ اور وقت گزرا اچانک وہ ندا پھر فضا میں گونجی:
’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک اعمال کرتے رہے اور حق بات کی تلقین کرتے رہے‘‘۔ اس فقرے نے 80 فیصد روشنی بحال کردی اور 80 فیصد مسرت انسانوں کے دلوں میں رقص کناں ہوگئی۔ چند لمحوں بعد وہ آواز پھر فضا میں ابھری:
’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے، جو اعمالِ صالحہ کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘
اس فقرے کے ساتھ ہی جہاں جہاں ایمان، اعمالِ صالحہ، حق کی تلقین اور صبر کی تاکید موجود تھی وہاں وہاں 100 فیصد روشنی بحال ہوگئی، سو فیصد اندھیرا دور ہوگیا، سو فیصد خسارے سے نجات مل گئی اور سو فیصد مسرت انسانوں کو میسر آگئی۔ اسی لیے ہم نے سورۂ العصر کو اسلامی تہذیب میں خوشی کا دائمی منشور قرار دیا ہے۔
اس سورۂ مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا فائدہ بھی اپنی اصل میں روحانی ہے اور نقصان بھی۔ اسی لیے ان کی مسرت بھی روحانی ہے۔ ایمان، عملِ صالح، حق بات کی تلقین اور صبر میں سے کچھ بھی ’’مادی‘‘ نہیں۔ مگر افسوس اب مسلمانوں کی عظیم اکثریت نہ روحانی نقصان کے حوالے سے فکرمند ہوتی ہے، نہ مادی فائدے کے لیے اس میں بڑا تحرک پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس کی اکثر مسرتیں بھی روحانی نہیں رہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ امتِ مسلمہ روحانی فائدے اور روحانی نقصان اور روحانی مسرت کو بھول گئی ہے، مگر اب روحانی تصورات صرف اس کا ’’قول‘‘ ہیں۔ اس کا عمل ’’مادی اشیاء‘‘ ہیں۔ روحانیت صرف اس کی ’’آرزو‘‘ ہے، مگر ’’جستجو‘‘ اسے مادی چیزوں کی لاحق ہے۔ یہ ایک ہولناک تضاد ہے جس نے مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی وجود کو دو نیم کردیا ہے، اسے منقسم شخصیت یا Split Personality میں ڈھال دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوا؟
اس کی وجہ جدید مغرب کے ساتھ ہمارا تعلق ہے۔ جدید مغرب اوّل و آخر ایک مادیت پسند وجود ہے۔ یہ مادیت پسند مغرب حق کی نقل کرتے ہوئے کہہ رہا ہے:
’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو جدید مغرب پر ایمان لائے اور مادی ترقی ہی جن کے لیے سب کچھ ہے۔ بے شک کامیاب ہیں وہی لوگ جن کی فی کس آمدنی 20 ہزار ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ ترقی یافتہ ہیں وہی اقوام جن کی مجموعی قومی پیداوار مغرب کے کسی ملک کے برابر ہے، جس کی برآمدات زیادہ اور درآمدات کم ہیں۔ جس کے زرمبادلہ کے ذخائر امریکہ، برطانیہ، جرمنی یا فرانس کے برابر ہیں۔ روشن خیال ہیں وہی لوگ جو خدا اور مذہب کے باغی ہیں، جو صرف اپنی عقل کو پوجتے ہیں، جو آزادی اور جمہوریت پر ایمان لائے اور ان کے مطابق نیک اعمال کرتے رہے اور ضلالت و گمراہی کی ایک دوسرے کو تلقین اور اس سلسلے میں بے صبری کی تاکید کرتے رہے۔‘‘
بلاشبہ امتِ مسلمہ کی عظیم اکثریت ابھی خدا اور مذہب کی ’’باغی‘‘ نہیں ہے، مگر اس کے سارے خواب، اس کے سارے مثالیے‘ اس کے سارے Ideal، اس کی ساری امیدیں، اس کی ساری مسرتیں مادی ہوچکی ہیں۔ امتِ مسلمہ مسرت کے دائمی منشور کو بھول چکی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار سمندرمیں اپنی انگلی ڈبو کر صحابہ کرامؓ سے پوچھا تھا: اس انگلی پر کتنا پانی لگا ہے؟ صحابہؓ نے فرمایا: ایک قطرہ یا اس سے کچھ زیادہ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھو انگلی پر لگا ہوا یہ پانی دنیا ہے، اور آخرت اس سمندر کی طرح ہے جس میں انگلی ڈبوئی گئی۔ مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت سمندر کی محبت میں مبتلا ہونے کے بجائے انگلی پر لگے ہوئے چند قطروں کی محبت میں مبتلا ہوگئی ہے، یہاں تک کہ اسے دنیا اور آخرت کے لیے کیے جانے والے اعمال کے ہولناک فرق اور خوفناک عدم توازن کا بھی شعور نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار صحابہؓ کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ راستے میں بکری کا ایک مرا ہوا بچہ پڑا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے اس مُردہ بچے کے پاس کھڑے ہوگئے۔ آپؐ نے صحابہؓ سے سوال کیا: تم میں سے کون اس بچے کو خریدنا پسند کرے گا؟ صحابہؓ نے کہا: کوئی بھی نہیں، مُردہ بکری کے بچے کو کون خریدے گا! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھنا دنیا بکری کے اس مرے ہوئے بچے سے زیادہ حقیر ہے۔
مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے مرے ہوئے بکری کے بچے سے زیادہ حقیر دنیا کو اپنا کعبہ بنا لیا ہے اور وہ پوری زندگی اسی کعبے کا طواف کرتے رہتے ہیں اور مرتے دم تک تھکتے نہیں، بلکہ مرتے ہوئے بھی انہیں خیال آتا ہے کہ کاش اس کعبے کے دو چار چکر اور کاٹ سکتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور بے مثال ارشاد یاد آیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘۔ اور مال دو طرح سے امت کا فتنہ بنا ہوا ہے۔ ایک طرف امت کا وہ طبقہ ہے جس کے پاس مال کی فراوانی ہے، اور مال کی فراوانی اس کے لیے فتنہ بن گئی ہے۔ اس بات کا اندازہ کرنا ہو تو عرب کے بادشاہوں اور عرب کے شہزادوں اور شہزادیوں کی زندگی کو دیکھیں، ان کی زندگی میں عیش و عشرت کے سوا کچھ نہیں۔ ان میں نہ کوئی روحانی صلاحیت ہے، نہ علمی استعداد، نہ کوئی تخلیقی اہلیت۔ مکہ اور مدینہ کا قرب بھی ان کے حال کو بدل نہیں پا رہا۔ دوسری طرف امت کا وہ بڑا طبقہ ہے جو مال کی قلت کا شکار ہے، اور مال کی قلت اس کے لیے وبال بن گئی ہے۔ اس وبال کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ طبقہ مال کمانے کے سوا کچھ نہیں سوچتا۔ یہ پڑھتا ہے تو مال کمانے کے لیے، محنت کرتا ہے تو مال کمانے کے لیے۔ اس کو مال اور مال سے حاصل ہونے والا عیش مہیا ہوجاتا ہے تو اس طبقے کے اراکین خود کو ’’انسان‘‘ سمجھتے ہیں، خود کو ’’مہذب‘‘ سمجھتے ہیں، خود کو ’’کامیاب‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشادِ پاک یاد آگیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بستیوں کے بہترین مقامات ان کی مساجد ہیں اور بدترین مقامات ان کے بازار‘‘۔ مگر ہم ’’منڈی کی معیشت‘‘ کے عہد میں سانس لے رہے ہیں، اور ہمارے لیے منڈی مسجد سے زیادہ ’’مقدس‘‘ اور ’’متبرک‘‘ ہوگئی ہے۔ ہم نے آج تک کسی کو نہ مسجد کی طرف خوشی خوشی جاتے دیکھا ہے اور نہ خوشی خوشی آتے دیکھا ہے۔ ہم مسجد جاتے ہیں تو ایک ’’عادت‘‘ کے تحت، ایک ’’ذمے داری‘‘ ادا کرنے۔ ہماری نمازوں میں کوئی محبت نہیں ہوتی۔ چونکہ محبت نہیں ہوتی اس لیے ہمیں نمازوں سے روحانی مسرت بھی فراہم نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے لوگ بازاروں میں اتنی خوشی کے ساتھ جاتے ہیں جیسے بازاروں میں ان کی ملاقات خدا سے ہونے والی ہو۔ وہ بازاروں سے چیزیں خرید کر لوٹتے ہیں تو ان کے چہرے کھلے ہوئے ہوتے ہیں، ان سے اتنی مسرت ٹپک رہی ہوتی ہے کہ گلاس کیا بالٹی بھر جائے۔ انسان، سرمائے اور چیزوں کے درمیان یہ تعلق ہے کہ انسان خالق ہے اور سرمایہ اور چیزیں انسان کی مخلوق۔ اصول ہے مخلوق کبھی خالق سے بڑی یا اس سے زیادہ اہم نہیں ہوسکتی، مگر ساری دنیا میں اور خود مسلم دنیا میں مخلوق خالق سے اہم ہوگئی ہے۔ انسان غیر اہم ہیں مگر دولت اور چیزیں بہت اہم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے عزت بھی ملتی ہے، اہمیت بھی اور مسرت بھی۔ ذرا سوچیے کہ جس شخص کی مسرت دولت اور چیزوں سے متعلق ہو اُسے مسلمان کیا انسان بھی کہا جاسکتا ہے؟

تصحیح

فرائیڈے اسپیشل شمارہ نمبر 23، 8تا 14 جون 2018ء میں شاہنواز فاروقی صاحب کا مضمون “جنرل (ر) اسد درانی اور اکھنڈ بھارت کا کھیل” میں صفحہ نمبر 11، کالم نمبر 2کے آخر کے بعد اور کالم نمبر 3 کی ابتدا کے درمیان درج ذیل پیراگراف کمپویٹر کے تیکنیکی سہو کی وجہ سے شائع ہونے سے رہ گیا تھاجس نے مضمون کے بنیادی خیال کو متاثر کر دیا۔ حذف شدہ پیراگراف کو ذیل میںشائع کیا جارہا ہے۔ قارئین اسے مضمون کے ساتھ ملا لیںمکمل مضمون فرائیڈے اسپیشل کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ادارہ اس سہو پر معذرت خواہ ہے۔
’’اکھنڈ بھارت تخیل کا کھیل یا Fantasy نہیں ہے۔ ایم اے جناح کا ناقابل سمجھوتا مقصد یا اصول پاکستان نہیں تھا بلکہ انہوں نے پاکستان کا خیال اس لیے پیش کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے لیے بہترین Deal حاصل کرسکیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری کا حصول ہی بہترین فارمولا ہے، یہی بات امریکہ کے دانش ور اسٹیفن کوہن نے کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھارت کی تقسیم ناگزیر نہیں تھی۔ بعض لوگ تقسیم کو ایک غلطی کہتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ اس تقسیم سے مسلمانوں کو کیا حاصل ہوا؟ تقسیم بلکہ ہمہ جہتی تقسیم سے بنگلہ دیش اور کشمیر کے مسائل پیدا ہوئے۔ میں اب بھی اس بات پر خوش ہوتا ہوں کہ بھارت کی تقسیم کی ذمے دار کانگریس تھی۔‘‘ (اسپائی کرونیکلز۔ باب 32)

Leave a Reply