اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہب پر سیاست کا غلبہ

مسلمانوں کی تاریخ کے بہترین زمانوں میں مذہب اور سیاست کا تعلق استاد اور شاگرد، رہنما اور مقلد کا رہا ہے۔ ریاستِ مدینہ کا تجربہ یہی بتاتا ہے۔ خلافتِ راشدہ کے تجربے کا مفہوم یہی ہے۔ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی تو اس لیے کہ سیاست نے اپنا قد کاٹھ مذہب سے بلند کرلیا تھا۔ اس کہانی میں برصغیر کا قصہ یہ ہے کہ عہدِ ملوکیت میں بھی مذہب سیاست پر غالب آتا رہا ہے۔ مجدد الف ثانیؒ اور جہانگیر کی آویزش کا پس منظر یہی ہے، اور اس آویزش میں بالآخر جہانگیر کو مجدد الف ثانیؒ کے مذہبی مطالبات کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ اورنگ زیب اور داراشکوہ کی کشمکش کو جن عنوانات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے اُن میں سے ایک عنوان مذہب اور سیاست کی کشمکش بھی ہے۔ اورنگ زیب بادشاہ تھا مگر اپنے عہد میں مذہب اور مسلم تہذیب کی بقا و سلامتی کی علامت تھا۔ اس کے برعکس داراشکوہ مذہب سے انحراف اور سیاست کو مذہب پر غالب کرنے کا استعارہ تھا۔
برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ خلافت ترکی میں ختم ہورہی تھی اور اس کے خلاف تحریک برصغیر
کے مسلمان چلا رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ برصغیر بالخصوص دِلّی، یوپی اور سی پی کے مسلمانوں کا مذہبی شعور بہت گہرا تھا۔ وہ امت کے تصور سے منسلک تھے اور ان کا تناظر حقیقی معنوں میں عالمگیر تھا۔ اسلام مکہ اور مدینہ سے اٹھا تھا مگر ترکی میں خلافت کے تجربے کے خاتمے پر عالمِ عرب میں کوئی ارتعاش نہیں تھا، بلکہ اہلِ عرب ترکی میں خلافت کو فنا ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔ خود ترکی میں خلافت کے انہدام کی مزاحمت موجود نہ تھی۔ البتہ برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت کے سلسلے میں اتنی بڑی تحریک منظم کی کہ گاندھی جیسے ہندو رہنما کو بھی خلافت تحریک کی حمایت کرنی پڑ گئی۔ سیکولر عناصر کہتے ہیں کہ قائداعظم نے تحریکِ خلافت میں حصہ نہیں لیا بلکہ ایک طرح سے اس کی مخالفت کی۔ یہ بات درست ہے مگر اس کا سبب یہ ہے کہ اُس وقت قائداعظم کانگریس میں تھے اور اُن کا وہ روحانی، علمی اور نظریاتی ارتقاء شروع نہیں ہوا تھا جو بالآخر انہیں قیام پاکستان کی جدوجہد تک لے گیا۔
پاکستان کا مطالبہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر کیا گیا، اور دو قومی نظریے کی بنیاد اسلام تھا۔ بیسویں صدی کے تناظر میں دیکھا جائے تو مذہب کے نام پر ایک ریاست کا مطالبہ ایک ’’انہونی بات‘‘ تھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ بیسویں صدی کی سیاست میں دو ہی سکّے چل رہے تھے، ایک قوم پرستی کا سکہ اور دوسرا سوشلزم کا سکہ۔ چنانچہ قائداعظم اور برصغیر کے مسلمانوں کو ’’عصر کے تقاضوں‘‘ کے تحت یا تو قوم پرستی کے تصور کے تحت الگ ملک کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا، یا پھر انہیں سوشلزم کے تحت انقلابی جدوجہد کرکے ایک سوشلسٹ ریاست کے لیے تن، من، دھن قربان کرنا چاہیے تھا، مگر برصغیر کے مسلمانوں کا شعور 20 ویں صدی میں پورے عصر کو پھلانگ کر کھڑا ہوگیا۔ اس شعور نے کہا: مسلمانوں کی اصل اسلام ہے اور مسلمان مذہب کی بنیاد پر ایک الگ قوم ہیں اور انہیں اپنے مذہب کے مطابق اجتماعی زندگی بسر کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہ اپنی اصل میں سیاست پر مذہب کے کامل غلبے کا اعلان اور منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ عصر کے تناظر میں ’’نیا‘‘ مگر مسلمانوں کی تاریخ کے تناظر میں بہت ’’قدیم‘‘ تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ جس طرح خلافت ترکی میں ختم ہورہی تھی مگر اس کے لیے تحریک برصغیر بالخصوص دلی اور یوپی میں چل رہی تھی، اسی طرح پاکستان ڈھاکا، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں بننے والا تھا مگر اس کے قیام کی تحریک دلی، یوپی اور سی پی میں چل رہی تھی۔
قائداعظم کے انتقال کے بعد پاکستان کے حکمران طبقے نے مذہب کو پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش کی، مگر قراردادِ مقاصد کی منظوری نے نظری اور فکری سطح پر ملک کی سمت کا تعین کردیا۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری سیاست پر مذہب کے غلبے کی دستاویز ہے، اور اس دستاویز نے ملک میں برپا ہونے والی نظریاتی جدوجہد کو بڑا سہارا دیا۔ پاکستان میں سیاست پر مذہب کے غلبے کی ایک علامت یہ ہے کہ ملک میں کئی بڑی تحریکیں مذہبی تناظر میں برپا ہوئیں۔ بھٹو جیسا سیکولر اور سوشلسٹ رہنما ملک کو جیسا بھی سہی، ایک مذہبی آئین دینے پر مجبور ہوا۔ یہاں تک کہ بھٹو نے قوم کے مذہبی جذبات کی تسکین کے لیے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا، جمعہ کی تعطیل کا اعلان کیا، اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی اور شراب پر پابندی لگائی۔ لیکن معاشرے کے نظریاتی، فکری، علمی اور اخلاقی زوال نے ملک میں ایک ایسی فضا پیدا کردی ہے کہ سیاست مذہب پر غالب آتی چلی جارہی ہے اور اس کا غلبہ کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں مذہب پر سیاست کے غلبے کی ایک مثال یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے ختم نبوت کے تصور پر حملہ کیا۔ یہ ایک شرمناک اور ہولناک جسارت تھی۔ بلاشبہ اس مسئلے پر معاشرے میں ردعمل پیدا ہوا، لیکن اگر اس ردعمل کو 10 پوائنٹس کے پیمانے پر ناپا جائے تو اس ردعمل کو بمشکل تین یا زیادہ سے زیادہ چار نمبر دیے جاسکتے ہیں، حالانکہ اس مسئلے پر اتنا بڑا ردعمل سامنے آنا چاہیے تھا کہ اس ردعمل کو 10 میں سے 10 یا 10 میں سے 9 نمبر دیے جاسکتے۔ ختمِ نبوت کے تصور پر حملہ اسلام اور مسلمانوں کی بنیاد پر حملہ ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے تک اس حملے کا ’’تصور‘‘ بھی محال تھا۔ لیکن میاں نوازشریف اور ان کی پارٹی نے نہ صرف یہ کہ اس حملے کے ’’تصور‘‘ کی ’’جرأت‘‘ کی، بلکہ عملاً اس تصور پر حملہ کرکے دکھا دیا۔ بلاشبہ یہ حملہ ناکام ہوگیا، مگر اس حملے کے مرتکبین کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور موجود تھی کہ ’’اب‘‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہبی شعور اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ ختمِ نبوت کے تصور پر حملے کا ’’خطرہ‘‘ یا “Risk” لیا جاسکتا ہے۔ ختمِ نبوت پر حملے کے حوالے سے مذہبی طقبات نے جو بیانات جاری کیے ان کی نوعیت ’’ہلکی پھلکی سیاسی موسیقی‘‘ سے زیادہ نہ تھی۔ یہ بات اس تناظر میں افسوس ناک تھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قادیانیت کے رد اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے مذہبی طبقات نے طویل، صبر آزما اور شان دار جدوجہد کی ہے، اور ختم نبوت کا دفاع کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ اس منزل تک گئے ہیں جہاں یقینی موت ان کے سامنے کھڑی تھی۔ میاں نوازشریف نے صرف ختمِ نبوت کے تصور پر ہی حملہ نہیں کیا، بلکہ ان کے دورِ حکومت میں اقوام متحدہ کی جانب سے آنے والی زنا بالرضا کی تجویز کو ’’قابلِ غور‘‘ بھی قرار دیا گیا۔ یہ بجائے خود اسلام کے بنیادی تصور پر ایک خوفناک حملہ تھا، اور اس حملے پر بھی مذہبی کہلانے والے معاشرے میں زبردست ردعمل سامنے آنا چاہیے تھا، مگر یہ مسئلہ تو ملک میں ’’بڑی خبر‘‘ بھی نہ بن سکا۔ یعنی اس مسئلے پر سامنے آنے والے ردعمل کو اگر 10 پوائنٹس کے معیار یا اسکیل پر پرکھا جائے تو اس ردعمل کو 10 میں سے ایک پوائنٹ دینا بھی مشکل ہوگا۔ اس کے برعکس میاں نوازشریف نے ممبئی حملوں کے مبینہ ذمے داروں کے نامکمل عدالتی عمل کے حوالے سے سوال اٹھایا تو ملک میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ممبئی حملے اور ریاست پاکستان کا تعلق اپنی اصل میں ایک سیاسی مسئلہ ہے، جس طرح میاں صاحب نے پورے اعتماد سے ختم نبوت کے تصور پر حملہ کیا اور کسی تشویش کے بغیر ان کی حکومت نے زنا بالرضا کی تجویز پر ’’قابلِ غور‘‘ لکھا، ٹھیک اسی طرح میاں صاحب نے ممبئی حملوں کے مسئلے پر بھی گفتگو کی، مگر سیاسی مسئلے کے حوالے سے ردعمل کی جو شدید صورت سامنے آئی اس نے نواز لیگ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ نواز لیگ کے جو رہنما ٹیلی ویژن چینلز پر ہر معاملے میں میاں نوازشریف کا دفاع کرتے تھے، وہ پانچ، چھے دن تک ٹی وی اسکرین سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب رہے۔ یہاں تک کہ کئی چینلز کے اینکرز یہ شکایت کرتے ہوئے پائے گئے کہ ہم نواز لیگ کے رہنمائوں کو اپنے پروگراموں میں بلا رہے ہیں مگر کوئی بھی ہمارے پروگرام میں نہیں آرہا۔ کالم نگاروں میں میاں صاحب کے ’’عاشقوں‘‘ اور ’’زرخریدوں‘‘ کی فوج موجود ہے مگر قابلِ ذکر لکھنے والوں کی بڑی تعداد نے ممبئی حملوں کے حو الے سے میاں صاحب کے مؤقف کو مسترد کردیا۔ معروف کالم نگار عبدالقادر حسن میاں صاحب کے ہمدردوں میں سے ہیں مگر انہوں نے میاں صاحب کے ڈان میں شائع ہونے والے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے میاں صاحب سے کہا کہ وہ جس بھارت سے آئے ہیں وہیں واپس چلے جائیں۔ سفرناموں اور ٹیلی ڈراموں سے شہرت پانے والے مستنصر حسین تارڑ نے میاں نوازشریف کے انٹرویو کو ’’غداری‘‘ قرار دیا ہے۔ ہارون رشید نے کہا ہے کہ میاں صاحب نے مرنے والا کام کیا ہے۔ جاوید چودھری نے اس سلسلے میں کہا کہ میاں صاحب اپنی سیاست اور جان دونوں کے لیے خطرات پیدا کررہے ہیں۔ محمود شام نے لکھا ہے کہ میاں صاحب الطاف حسین کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ ایاز امیر نے فرمایا ہے کہ کوئی سندھی رہنما وہی کچھ کہتا جو میاں صاحب نے کہا ہے تو ہم اس کو کچا چبا جاتے۔ انصار عباسی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ میاں صاحب نے جو کہا غلط کہا۔ یہ ردعمل قومی سلامتی کے حوالے سے شان دار اور قابلِ تعریف ہے اور اس کو جتنا حوصلہ افزا کہا جائے، کم ہے۔ مگر بہرحال یہ ردعمل ایک ’’سیاسی مسئلے‘‘ کے حوالے سے سامنے آنے والا ردعمل ہے۔ اس ردعمل کو 10 پوائنٹس کے معیار پر پرکھنا ہو تو اسے 10 میں سے 8 یا 9 نمبر دینے پڑیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا قومی شعور بحیثیتِ مجموعی مذہبی تناظر کے حوالے سے غیر حساس یا بہت کم حساس ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس سیاسی مسائل کے سلسلے میں اس کی حساسیت مذہبی حساسیت سے بہت زیادہ ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے یہ ایک افسوس ناک صورتِ حال ہے۔ سیاسی تناظر مذہبی تناظر کا محض ایک جزو ہے، اور کُل کے مقابلے پر جزو کے حوالے سے ہماری حساسیت کم ہونی چاہیے، مگر جو کچھ ہورہا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ معاشرہ جزو کے سلسلے میں زیادہ حساس ہے اور کُل کے سلسلے میں اس کی حساسیت کم ہے۔ معاشروں کے اندر ایسے ’’سانحات‘‘ چار دن میں رونما نہیں ہوتے۔ ان کی پشت پر برسوں کا عمل موجود ہوتا ہے۔ یادش بخیر ایک وقت وہ تھا جب پاکستان میں اسلام اور سوشلزم کی کشمکش برپا تھی۔ اس کشمکش کی وجہ سے ہماری سیاست کیا، ادب تک ’’نظریاتی‘‘ ہوگیا تھا۔ اس فضا میں ہر بات، ہر کام، ہر مسئلے اور جدوجہد کی ہر صورت کا ایک نظریاتی تناظر ہوتا تھا۔ یہ نظریاتی تناظر کتنا گہرا یا کتنا سرسری تھا، اس پر بحث کی بڑی گنجائش موجود ہے، مگر اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ یہ زمانہ نظریات کا زمانہ نہیں تھا۔ لیکن سوویت یونین ٹوٹا اور سوشلزم تحلیل ہوا تو یہ تلخ حقیقت آشکار ہوئی کہ مذہبی شعور باطل کو صرف ایک صورت میں پہچاننے کے قابل تھا۔ باطل صورت بدل کر ہمارے سامنے آیا تو مذہبی شعور اسے ایک حریف، ایک دشمن کی حیثیت سے پہچان ہی نہ سکا۔ وہ نئے دشمن کی تاویلوں میں الجھ گیا، حالانکہ جدید مغربی تہذیب یا سرمایہ دارانہ فکر کی حیثیت سے سامنے آنے والا باطل صاف کہہ رہا تھا کہ اسلامی تہذیب جدید مغربی تہذیب کی دشمن ہے اور جدید مغربی تہذیب نے جس طرح کمیونزم یا سوشلزم کو شکست دی اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ یہ صورتِ حال اس امر کی متقاضی تھی کہ مسلم معاشرے بالخصوص پاکستانی معاشرہ عصر کے اس چیلنج کو سمجھے اور اس کا اسی طرح جواب دے جس طرح اس نے سوشلزم کے چیلنج کا جواب دیا تھا۔ مگر عام مذہبی لوگوں نے کیا، اسلامی تحریکوں تک نے معاشرے میں ایک نئی نظریاتی کشمکش برپا کرنے سے گریز کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جس طرح جرنیلوں نے معاشرے کو غیر سیاسی بنایا، یا Depoliticized کیا، ٹھیک اسی طرح نئے فکری اور نظریاتی چیلنج سے صرفِ نظر کرنے کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ غیر نظریاتی ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس صورتِ حال سے جرنیلوں کو بھی فائدہ ہورہا ہے اور پیپلزپارٹی، نواز لیگ اور تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعتوںکو بھی۔ مگر جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ جیسی نظریاتی تنظیموں کو اس کا شدید نقصان ہورہا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک ہم نظریاتی کشمکش کا حصہ تھے معاشرے کو ’’نظریاتی بیانیہ‘‘ مہیا کرنے والی شخصیت مولانا مودودیؒ کی تھی اور سیاسی دائرے میں معاشرے کو نظریاتی بیانیہ صرف جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے فراہم ہوتا تھا۔ مگر اب معاشرے میں کوئی نظریاتی بیانیہ موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ زیادہ سے زیادہ ’’سیاسی‘‘ ہوتا جارہا ہے۔ نظریاتی معاشرہ ایک ’’باشعور‘‘ معاشرہ ہوتا ہے، اور سیاسی معاشرہ اپنی اصل میں ’’مفاد پرست‘‘ معاشرہ ہوتا ہے۔ صوبائی، لسانی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور اداراتی تعصبات کی زبان بولنے والا معاشرہ ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے کی سیاست میں دولت کا غلبہ ہوتا ہے، ایسے معاشرے پر نام نہاد Electables راج کرتے ہیں، ایسے معاشروں نے انبیا و مرسلین تک کی بات پر کان نہیں دھرے تو ایسا معاشرہ میری یا آپ کی بات کیا سنے گا! چنانچہ معاشرے کو نظریاتی بنانا اہلِ مذہب کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ نظریاتی معاشروں میں انسان اہم ہوتے ہیں، جبکہ سیاسی معاشروں میں سیاسی حیوان اجتماعی زندگی کا مرکز ہوتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ معاشرے میں رونما ہونے والے اہم تغیرات کو علمی اور دانش ورانہ سطح پر بیان کرنے والے لوگ ہمارے درمیان موجود نہیں۔ ہوتے تو پورے معاشرے کو یہ بات معلوم ہوتی کہ صرف امریکہ اور ہمارے سول اور فوجی حکمران ہی نہیں ہمارے ذرائع ابلاغ بھی معاشرے کو سیاسی بنانے میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ آپ ملک کے دس بڑے اخبارات اور دس بڑے ٹیلی ویژن چینلز کے مواد کا تجزیہ کرائیں گے تو معلوم ہوگا کہ ان ذرائع پر 90 فیصد خبریں سیاسی ہوتی ہیں، 90 فیصد کالم سیاسی ہوتے ہیں، 90 فیصد اداریے سیاسی ہوتے ہیں، 90 فیصد انٹرویوز سیاسی ہوتے ہیں، 90 فیصد ٹاک شوز سیاسی ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس سیاسی مواد کی کوئی علمی، تہذیبی، فکری، اخلاقی بنیاد نہیں ہوتی۔ چنانچہ پاکستان کے کروڑوں لوگ برسوں سے سرسری اور سطحی سیاسی مواد کھا رہے ہیں، سیاسی مواد پی رہے ہیں، سیاسی مواد اوڑھ رہے ہیں، سیاسی مواد بچھا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ کروڑوں لوگ کوئی گہری، علمی، فکری اور تہذیبی بات سننے، سمجھنے اور اس پر غور کرنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں۔ اسلام کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ انسانوں کو غیر انسانی اور اشرف المخلوقات کو اسفل السافلین میں تبدیل کرنے کی ایسی سازش ہے جسے کوئی سازش نہیں سمجھتا۔ بڑے بڑے علما، بڑے مذہبی و سیاسی رہنما اور بڑے بڑے دانش ور تک نہیں۔ اقبال نے کہا تھا:

تُو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی اپنے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

مگر اب جسے دیکھیے ’’حاضر و موجود‘‘ پر قناعت کرنے والا بلکہ حاضر و موجود پر ’’اترانے‘‘ والا بنا ہوا ہے، اور جیسا وہ خود ہے ویسا ہی دوسروں کو بنانا چاہتا ہے۔ ایسے لوگ ہمارے درمیان سے اٹھ گئے ہیں جو خلق کو حاضر و موجود سے بے زار کرکے مثالیوں یا Ideal کی طرف لے جانے والے ہوں۔

Leave a Reply