میاں نواز شریف کی امریکہ پرستی اور بھارت نوازی

میاں نوازشریف نے اپنی شخصی اور خاندانی تاریخ اور توقع کے عین مطابق پورس کا ہاتھی بن کر پاکستان کو روند ڈالا ہے۔ انہوں نے روزنامہ ڈان کراچی کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا ہے کہ ’’ہم نے غیر ریاستی عناصر کو بھارت جانے اور ممبئی میں حملہ کرکے 150 افراد کو مارنے کی اجازت دی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ممبئی حملے کے ملزموں کا جو مقدمہ راولپنڈی کی عدالت میں زیرسماعت ہے ’’ہم‘‘ ابھی تک اسے مکمل کیوں نہیں کرسکے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’یہ صورتِ حال ناقابلِ قبول ہے اور ہم اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔‘‘ (ڈان کراچی۔ 12 مئی 2018ء)
میاں نوازشریف نے ممبئی حملے کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ بھارت اور اُس کے اتحادیوں امریکہ اور یورپ کا مؤقف ہے،
چنانچہ میاں صاحب کے بیان پر بھارت میں جشن کا سماں پیدا ہوگیا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ ابلاغی رقص کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ لیجیے پاکستان کے سابق وزیراعظم نے وہی کہہ دیا جو بھارت کہتا آیا ہے۔
میاں نوازشریف نے یہ انٹرویو 11 مئی کو دیا، انٹرویو 12 مئی کے ڈان میں شائع ہوا، اور 13 مئی کی رات تک میاں نوازشریف، ان کا خاندان اور ان کی جماعت نون لیگ انٹرویو کے مندرجات پر خاموش تھی، لیکن جیسے ہی جنرل باجوہ نے انٹرویو کے مندرجات پر غور کے لیے 14 مئی کو قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا، نواز لیگ اچانک ’’زندہ‘‘ اور ’’موجود‘‘ ہوگئی۔ اس نے ایک بیان جاری کیا جس میں ڈان کے انٹرویو کے مندرجات کو مسترد کردیا اور کہا کہ ریاست پاکستان اور تمام ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد کھڑے ہیں۔ نون لیگ نے کہا کہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے انٹرویو کے مندرجات کی غلط تعبیر کی اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ بھی اس غلط تعبیر کو لے اڑے۔ میاں شہبازشریف نے بھی انٹرویو کی اشاعت کے تقریباً 36 گھنٹے بعد زبان کھولی اور فرمایا کہ ڈان نے میاں صاحب کا انٹرویو توڑمروڑ کر پیش کیا ہے۔ مگر میاں نوازشریف کی دخترِ نیک اختر مریم نواز نے نواز لیگ اور شہبازشریف کے بیانات کا دھڑن تختہ کردیا۔ انہوں نے 13 مئی کو رات 9 بج کر 27 منٹ پر ایک Tweet کیا۔ ٹوئٹ یہ تھا:
’’جو میاں صاحب نے کہا، ملک کے بہترین مفاد میں کہا۔ ملک کو کیا بیماری کھوکھلا کررہی ہے میاں صاحب سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ وہ علاج بھی بتا رہے ہیں۔‘‘
مریم نواز کے ٹوئٹ سے تین چیزیں ثابت ہوگئیں:
-1 نواز لیگ اور شہبازشریف نے میاں نوازشریف کے انٹرویو کے حوالے سے جو کہا وہ جھوٹ بھی ہے، منافقت بھی اور ملک دشمنی کی ایک صورت بھی۔
-2 ڈان نے میاں صاحب سے جو خیالات اور الفاظ منسوب کیے ہیں وہ سو فیصد درست ہیں، ایسا نہ ہوتا تو میاں صاحب کی عزیز از جان مریم نواز ان کی تصدیق کیوں کرتیں؟ اور میاں صاحب کے خیالات کو ملک کا ’’بہترین مفاد‘‘ اور ’’بیماری کا علاج‘‘ کیوں قرار دیتیں؟
-3 مریم نواز کے ٹوئٹ سے ثابت ہوگیا کہ ’’بھارت پرستی‘‘ اور ’’ملک دشمنی‘‘ کے حوالے سے میاں نوازشریف اور مریم نواز میں کوئی فرق نہیں۔ اس سلسلے میں شہبازشریف اور نواز لیگ کا معاملہ بھی مختلف نہیں، مگر ان میں جھوٹ اور منافقت کا غلبہ ہے یا وہ ’’حکمت عملی‘‘ کے تحت وہ کچھ کہہ رہے ہیں جو نوازشریف نے ہرگز نہیں کہا۔
بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں علم و فہم کا کال پڑا ہوا ہے اور صحیح تناظر ایک نایاب شے بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ لوگ میاں نوازشریف کی ’’غداری‘‘، ملک دشمنی، امریکہ نوازی اور بھارت پرستی کو ’’نئی چیز‘‘ سمجھ رہے ہیں، حالانکہ میاں صاحب اور ان کے اہلِ خانہ مذکورہ ’’امراض‘‘ میں گزشتہ ’’20 سال‘‘ سے مبتلا چلے آرہے ہیں، اور اس کی ناقابلِ تردید شہادتیں موجود ہیں۔ اتفاق سے ہم نے ’’19 سال‘‘ قبل روزنامہ جسارت کے ادارتی صفحے پر مختلف اوقات میں چار ایسے کالم تحریر کیے تھے جن سے میاں نوازشریف اور ان کے اہلِ خانہ کا امریکہ و یورپ مرکز، بھارت پرست اور ملک و فوج کا دشمن ہونا پوری طرح آشکار ہے۔ ان کالموں کی حیثیت تاریخی شہادتوں کی سی ہے، اس لیے کہ یہ شہادتیں قوم کے ’’زندہ حافظے‘‘ کا حصہ نہیں۔ چنانچہ قومی تاریخ کے اس اہم مرحلے پر ہم اپنے چاروں کالم فرائیڈے اسپیشل کے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ پہلے کالم کا عنوان ہے “Made in America, Loved in India but hated in Pakistan”
یہ کالم روزنامہ جسارت کے ادارتی صفحے پر 16 اگست 1999ء کو شائع ہوا۔ دوسرے کالم کا عنوان ہے ’’غیر معمولی حکمت عملی اور بے مثال تدبر‘‘۔ یہ کالم روزنامہ جسارت کے ادارتی صفحے پر 18 اگست 1999ء کو شائع ہوا۔ تیسرے کالم کا عنوان ہے ’’یا امریکہ مجھے بچا لے‘‘۔ یہ کالم 13 اکتوبر 1999ء کو شائع ہوا۔ چوتھے کالم کا عنوان ہے ’’کشمیر لے لو، نوازشریف دے دو‘‘۔ یہ کالم روزنامہ جسارت کے ادارتی صفحے پر 27 اکتوبر 1999ء کو شائع ہوا۔ لیجیے ایک ایک کرکے 19 سال پرانے چاروں کالم پڑھیے اور میاں نوازشریف اور ان کے اہلِ خانہ کو تاریخی تناظر میں دیکھتے ہوئے اپنی رائے بہتر بنائیے۔ 19 سال قبل میاں صاحب کے حوالے سے لکھا گیا پہلا کالم عنوان سمیت یہ تھا:
Made in America, Loved in India but hated in Pakistan
میاں نوازشریف کی شخصیت اور سیاست کو بھرپور تاثر کے ساتھ بیان کرنا ہو تو انگریزی سے استفادہ ضروری ہے۔ اس اجمال کی تفصیل صرف اتنی ہے کہ میاںصاحب کے بارے میں اب وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو Made in America Loved in India but heted in Pakistan کے دائرے میں مقید ہوچکا ہے۔
دیکھا جائے تو میاں صاحب کا سیاسی کاروبار، جسے عرفِ عام میں سیاسی کیریئر کہا جاتا ہے، چار ادوار سے گزرا ہے۔ وہ کسی زمانے میں سرتاپا ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ تھے۔ میاں صاحب نے بہت عرصے تک اس تاثر کے مزے لوٹے، لیکن ان کے میڈ اِن امریکہ ہونے کی حقیقت زیادہ دنوں تک راز نہ رہ سکی اور اب اس امر پر کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ وہ سرتاپا میڈ اِن امریکہ ہیں۔
امریکہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا کون سا حکمران ہے جو میڈاِن امریکہ نہیں رہا! ایوب خان اپنے جاہ و جلال کے ساتھ امریکہ ہی کے اشارے پر آئے تھے، بھٹو صاحب کی عوامی مقبولیت اور ان کی شخصیت کا کرشمہ اپنی جگہ، مگر وہ بھی امریکہ کے اشارۂ ابرو پر اقتدار کے ایوان میں براجمان تھے، جنرل ضیاالحق بھی اپنے اسلام سمیت امریکہ کی آشیرواد سے آئے تھے۔ لیکن ان رہنمائوں کی اس کہانی کا ایک رُخ اور بھی ہے۔ ایوب خان کے لیے امریکہ پرستی ایسا نفسیاتی مسئلہ بنی کہ انہیں Friends not Masters لکھنی پڑی اور پھر ’’جس رزق سے آتی ہو‘‘ کے عنوان سے اس کا ترجمہ بھی کروانا پڑا۔ بھٹو کا حال یہ ہوا کہ امریکہ اُن کا دشمن بن گیا اور کہنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ ان کی رخصتی کا تمام تر پس منظر امریکی ہے۔ جنرل ضیا الحق کا جو حال ہوا وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ لیکن میاں صاحب کا قصہ یہ ہے کہ وہ ڈھائی سال پہلے جتنے امریکی ساختہ تھے آج اس سے سو گنا زیادہ امریکی ساختہ ہیں۔ ہرچند کہ جناب مجید نظامی یہ فرماتے ہیں کہ بل کلنٹن میاں صاحب کو ایٹمی دھماکوں کی سزا دینا چاہتا ہے، لیکن اب ایسے تجزیوں اور قیاس آرائیوں کا وقت گزر چکا ہے۔
ہمارے یہاں سیاسی حوالے سے Loved in India کی بھی ایک ’’تاریخ‘‘ رہی ہے، اور اس تاریخ میں بھٹو خاندان گویا سرفہرست رہا ہے۔ بھٹو صاحب کے بارے میں تو اب تک ایسے شواہد سامنے لائے جاتے رہتے ہیں جن کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ بھارتی ایجنٹ تھے اور پاکستان میں پلانٹ کیے گئے تھے۔ بھٹو خاندان کے بھارت سے گہرے اور پراسرار روابط کے بھی بڑے چرچے رہے ہیں اور بے نظیر بھٹو کو بھی بھارت پسند قرار دیا جاتا رہا ہے۔
یادش بخیر سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک عروج پر تھی کہ اندرا گاندھی نے ایم آر ڈی کی تحریک کی حمایت میں ایک بیان داغ دیا۔ یہ بیان اس کی تحریک کو لے ڈوبا اور گویا اس بات پر ایک بار پھر مہرِ تصدیق ثبت ہوگئی کہ بھٹو خاندان بھارت میں بڑا پسندیدہ ہے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھا، راجیو گاندھی بے نظیر کے پہلے دور میں پاکستان آئے اور اسلام آباد میں کشمیر ہائوس کا بورڈ اتار لیا گیا۔ بے نظیر کے دورِ حکومت میں ہی سکھوں کی فہرست کا مسئلہ بھی اٹھا اور یہ قصہ آج تک چل رہا ہے۔ یہ ساری باتیں درست ہوسکتی ہیں، لیکن اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ Loved in India کے حوالے سے میاں صاحب بھٹو خاندان اور بے نظیر کو بھی میلوں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔
کارگل کا معاملہ سامنے آیا تو بھارت کے ذرائع ابلاغ اور وزیروں کی زبان پر تین ہی نام تھے: پاکستان، پاک فوج اور مجاہدین۔ بھارت کے وزیر دفاع نے بار بار کہا کہ اس سارے قصے سے میاں نوازشریف کا کوئی تعلق نہیں، جو کچھ ہوا ہے فوج کا کیا دھرا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ میں پاک فوج کے خلاف بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوئے اور میاں صاحب کی حکومت اس ساری صورتِ حال پر مکمل خاموشی اختیار کیے رہی اور اس طرح گویا اس نے بھارت کے اس مؤقف پر مہرِ تصدیق ثبت کردی کہ جو کچھ کیا ہے فوج نے کیا اور جو کچھ ہوا ہے اس سے میاں نوازشریف کا کوئی تعلق نہیں۔ کارگل کا قصہ گویا ختم ہوچکا ہے لیکن بھارت سے میاں صاحب کی حمایت میں مسلسل آوازیں بلند ہورہی ہیں، اور بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ جے این ڈکشٹ صاحب نے تو صاف کہا ہے کہ میاں صاحب اور ان کی حکومت بھارت کی ضرورت ہے، اور بقول ان کے ’’ہم میاں صاحب کے لیے ہر وہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں جس سے میاں صاحب کو تو فائدہ پہنچے مگر بھارت کا نقصان نہ ہو‘‘۔ اس مؤقف کی وضاحت بھی جے این ڈکشٹ نے خود کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نہیں ہوں گے تو اندیشہ ہے کہ بنیاد پرست اقتدار میں آجائیں گے جن سے معاملہ کرنا دشوار ہوگا۔
بھارت میں میاں صاحب کی پسندیدگی کا معاملہ عوامی سطح تک پہنچ گیا ہے۔ حال ہی میں روزنامہ ڈان کراچی میں بھارت کے ایک ہندو شہری کا خط شائع ہوا ہے جس میں اُس نے کہا ہے کہ بھارت میں میاں صاحب کو امن پسند سمجھا جاتا ہے اور اس کی یہ وجہ بیان کی جاتی ہے کہ چونکہ وہ بھارت کے ساتھ کاروبار کررہے ہیں اس لیے وہ کبھی بھی بھارت سے جنگ نہیں چاہیں گے۔
میاں نوازشریف سے اختلاف کرنے والوں کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی لیکن اُن سے نفرت بہرحال نہیں کی گئی، تاہم اب وہ اس مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اور کارگل کے معاملے سے اس عمل کی ابتدا ہوگئی ہے۔ یہ سلسلہ کتنا آگے جائے گا اور اس کا انجام کیا ہوگا، اس بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن میاں صاحب یقینا خوش قسمت ہیں کہ ان سب باتوں کے باوجود نہ صرف اقتدار میں ہیں بلکہ وہ اب تک طویل حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ میاں صاحب کی جگہ کوئی اور ہوتا تو نہ جانے اب تک اس کا کیا حشر ہوچکا ہوتا۔
(16 اگست 1999ء)
یہ تھا 19 سال قبل میاں صاحب کے حوالے سے شائع ہونے والا پہلا کالم۔ یہ کالم بتا رہا ہے کہ میاں صاحب چند سال پہلے سے نہیں 19 سال پہلے سے امریکہ مرکز اور بھارت پرست ہیں، اور اسی لیے دونوں جگہ 19 سال قبل بھی اُن کی بڑی ’’عزت‘‘ اور ’’اہمیت‘‘ تھی۔ اب آپ ملاحظہ کیجیے 19 سال قبل شائع ہونے والا دوسرا کالم:
غیر معمولی حکمت عملی اور بے مثال تدبر
بھارت نے میاں نوازشریف کی مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر ’’اجاگر‘‘ کرنے کی خواہش کے’’احترام‘‘ میں تباہ کن ایٹمی ہتھیار لے جانے والے میزائل فوج کے حوالے کردیے ہیں اور بھارت کے صدر کے آر نارائنن نے یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان بھارت پر اچانک حملہ کرسکتا ہے اس لیے فوج چوکس رہے۔ بھارت کے صدر نے کہا کہ ہمیں آئندہ بھی کارگل جیسے کئی محاذوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس لیے بھارت کے جنگی بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے۔ بی بی سی نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کے جنگی بجٹ میں اضافے کے اعلان سے علاقے میں خطرات بڑھ گئے ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ پورا منظرنامہ نوازشریف کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ پہلے انہوں نے کارگل میں کامیابیوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا، پھر انہوں نے کارگل سے پسپائی کے ذریعے بین الاقوامی برادری کی توجہ مسئلہ کشمیر کی جانب مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ اصولی نقطہ نظر سے پاک بحریہ کے طیارے کی تباہی اور ہمارے 16 قیمتی افراد کی شہادت بھی میاں صاحب کے ’’کاز‘‘ سے ہم آہنگ ہے، کیونکہ اس واقعے کے ذریعے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ اگر مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو ’’اٹلانٹک‘‘ کی تباہی جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ اس سلسلے میں بھارت کے مذکورہ اقدامات بھی یقینا میاں صاحب کو پسند آئے ہوں گے کیونکہ ان سے ایک جانب بھارت کے عزائم کا اظہار ہورہا ہے اور دوسری جانب خطے میں خطرات بڑھنے سے مسئلہ کشمیر ازخود ’’اجاگر‘‘ ہورہا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو میاں صاحب کے مزے آگئے ہیں اور امکان یہ ہے کہ حالات یہی رہے تو میاں صاحب کے مزے آتے رہیں گے۔
میاں صاحب ’’مسجدِ واشنگٹن‘‘ سے امن کی جو فاختائیں لائے تھے وہ اب شرمندہ ہونے کی صلاحیت سے یکسر محروم نہ ہوجانے والے بعض چہروں پر ہوائیاں بن کر اُڑ رہی ہیں، البتہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو بے ضمیری تیرا ہی آسرا، مفاد پرستی تیرا ہی سہارا اور تعصب تیرا ہی بھروسا کے نعرے لگاتے ہوئے امن کی فاختائیں اُڑاتے چلے جارہے ہیں۔ لیکن غالباً یہ سلسلہ بھی زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا، اس لیے کہ بھارت ایک بار پھر اپنے حقیقی رنگ ڈھنگ میں آتا جارہا ہے۔
امن کی خواہش بری چیز نہیں لیکن بھارت کے ساتھ امن کی آرزو ایک درندے کو پالتو بنانے کی خواہش کے مترادف ہے، اور درندوں کو پالتو بنانے کے تجربات بتاتے ہیں کہ اس کام کا ایک ہی طریقہ ہے، ہنٹر اور مسلسل محنت۔ لیکن اس کے بعد بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوگا، کیونکہ ایسے واقعات اکثر رونما ہوئے ہیں کہ پالتو درندہ اپنے مالک پر حملہ آور ہوا اور اسے ہڑپ کر گیا۔
پاکستان کی ایٹمی قوت کے اظہار کے بارے میں بنیادی بات یہ کہی گئی ہے کہ اس سے خطے میں ’’طاقت کا توازن پیدا ہوگیا تھا‘‘۔ ایسا ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا یہ تو ہمیں معلوم نہیں، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ اس کے بعد پاکستان کے حوالے سے ایک ایسا ابہام پیدا ہوگیا تھا جس سے بھارت ہی کو نہیں، بڑی بڑی قوتوں کو بھی خوف لاحق ہوسکتا تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے قبل بھارت آزاد کشمیر پر حملے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے تھا، اور اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو بھارت اپنے منصوبے پر ضرور عمل کرتا، لیکن ایٹمی دھماکوں کے خوف سے زیادہ اُن کے ابہام نے بھارت کو اپنے منصوبے سے باز رکھا اور پاکستان کے سلسلے میں بھارتی قیادت کا لب و لہجہ چار دن میں متوازن ہوگیا۔ ایڈوانی کا ’’ہاٹ پرسوٹ‘‘ اچانک ’’کولڈ پرسوٹ‘‘ میں تبدیل ہوگیا اور بھارت میں ایک ایسی خاموشی چھا گئی جسے عام طور پر موت کا سناٹا کہا جاتا ہے۔
اس بارے میں دو آرا کا اظہار ممکن نہیں کہ کارگل میں بھارت کو اپنی تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ بھارت نے 1962ء میں بھی بدترین شکست کا ذائقہ چکھا تھا، لیکن یہ ذائقہ چین جیسی بڑی قوت سے ٹکرانے کا حاصل تھا، لیکن کارگل میں بھارت کو جو شکست ہوئی وہ چند سو مجاہدین کا کارنامہ ہے اور بھارت پاکستان کے حوالے سے اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا، چنانچہ کارگل کے زخموں کے حوالے سے بھارت کی ’’تکلیف‘‘ کا اندازہ بھی دشوار ہے، لیکن کارگل سے پسپائی کا جو انداز اختیار کیا گیا اس نے نہ صرف یہ کہ ہماری کمزوریوں اور محدودات کو نمایاں کردیا بلکہ ان پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ چنانچہ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، بھارت ہمیں دیوار سے لگا دینے کے تمام حربے استعمال کررہا ہے۔ پاک فوج کے خلاف عالمی سطح پر ایک مہم چلائی گئی ہے۔ امریکہ میں بھارت کی لابی پاکستان کے خلاف فضا بنانے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہی ہے۔ بھارت میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر ہے۔ پاکستان کے خلاف فلمیں بن رہی ہیں اور پہلے سے موجود فلموں کو بار بار دکھایا جارہا ہے۔ فوجی سطح پر یہ صورتِ حال ہے کہ بھارت ہمارا ایک غیر مسلح طیارہ گرا چکا ہے اور اس نے ایٹمی ہتھیار لے جانے والے میزائل فوج کے حوالے کردیے ہیں اور جنگی بجٹ میں اضافے کا اعلان کردیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میاں صاحب نے ازراہِ تفنن یہ بات کہی تھی کہ بھارت نے سبق نہ سیکھا تو مجاہدین دس نئے کارگل پیدا کرلیں گے۔ حُسنِ اتفاق اور ضرورت کے تحت بھارت نے یہ پروپیگنڈا Buy کرلیا ہے اور اب خود بھارت کے صدر نے کہا ہے کہ ہمیں کارگل جیسے نئے محاذوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امن کی فاختائوں کے حوالے سے یہ ایک خطرناک بیان ہے اور بھارتی صدر کے اس بیان میں کہ پاکستان بھارت پر اچانک حملہ کرسکتا ہے، پاکستان کی سلامتی کے لیے بڑے خطرات مضمر ہیں۔ ہم نے کارگل سے پسپائی کے وقت انہی کالموں میں بار بار عرض کیا تھا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ جنگ صرف ٹلی ہے اور وہ ہماری طرف پلٹے گی اور اُس وقت پلٹے گی جب ہم آج سے کہیں زیادہ کمزور ہوں گے۔ کیا ہم اسی صورتِ حال کی جانب بڑھ رہے ہیں؟
یہ ایک عجیب منظر ہے کہ اٹلانٹک کی تباہی پر امریکہ نے صرف افسوس کے اظہار پر اکتفا کیا اور میاں صاحب بھی افسوس کے اظہار سے آگے بڑھنے پر تیار نہ ہوئے۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ ایٹمی ہتھیار فوج کے حوالے کیے جانے کے واقعے پر میاں صاحب خاموش ہیں اور جنرل پرویزمشرف نے بھارت کو یاد دلایا ہے کہ ایسے میزائل ہمارے پاس بھی ہیں۔ بھارت میں ’’چماروں‘‘ المعروف ’’ہری جنوں‘‘ کے حوالے سے ایک بات مشہور ہے، اور وہ یہ کہ آپ انہیں ایک تھپڑ ماریں تو وہ کہتے ہیں کہ اب کے مار کے دکھا۔ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ میاں صاحب اور ان کے حمایتیوں کو دیکھا جائے تو بھارت کے حوالے سے ان کی کوشش یہی نظر آتی ہے کہ پاکستانی قوم کا بچہ بچہ ’’اب کے مار کے دکھا‘‘ کہنے والے میں تبدیل ہوجائے۔ کیا یہ ایک غیر معمولی حکمت عملی اور بے مثال تدبر نہیں ہے؟
(18 اگست 1999ء)
اب آپ ملاحظہ کیجیے 19 سال قبل میاں صاحب کے حوالے سے شائع ہونے والا تیسرا کالم:
’’یا امریکہ مجھے بچا لے‘‘
امریکہ کے ممتاز اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک خصوی تجزیے کے ذریعے پوری دنیا کو اطلاع دی ہے کہ نہ پاکستان کے عوام میاں نوازشریف کے ساتھ ہیں، نہ پاک فوج میاں صاحب کی پشت پناہی کررہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صورتِ حال میں میاں صاحب صرف اور صرف امریکی حمایت پر تکیہ کیے ہوئے ہیں اور انہوں نے گزشتہ دو ماہ میں تین مرتبہ امریکہ سے ’’مجھے بچالو‘‘ کی درخواست کی ہے۔ میاں صاحب کی حکومت کے ترجمان نے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کو غلط قرار دیا ہے۔ ہمارا خیال بھی یہی ہے کہ رپورٹ میں درست اطلاعات فراہم نہیں کی گئیں۔ مثلاً رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میاں صاحب نے دو ماہ میں تین بار امریکہ سے ’’مجھے بچا لو‘‘ کی استدعا کی ہے، حالانکہ ہمارا کیا عوام کی بہت بڑی تعداد کا خیال ہے کہ میاں صاحب کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اب تو انہیں اٹھتے بیٹھتے امریکہ کی مدد درکار ہے اور گمان غالب ہے کہ وہ روز نہ سہی ہفتے میں ایک بار تو ضرور ہی امریکہ سے کہتے ہوں گے کہ اپنے جلال و جمال کے صدقے ’’مجھے بچا لو‘‘۔ مگر کیا امریکی اہلکاروں کے پاس اتنی فرصت ہوگی کہ وہ ہر ہفتے میاں صاحب کی ’’مجھے بچا لو‘‘ کی کال سن سکیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور میاں صاحب کے ترجمان کو اس پر ضرور تبصرہ کرنا چاہیے۔
دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ اور امریکہ لازم و ملزوم ہیں اور اس کہانی کی ابتدا لیاقت علی خان سے ہوجاتی ہے، مگر اس کہانی میں میاں نوازشریف کا کردار ایسی ’’انفرادیت‘‘ کا حامل ہے جس میں کوئی ان کا شریک نہیں۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ایوب خان کا مارشل لا امریکی سازش ہی کا شاخسانہ تھا، اور ایوب خان یقینا امریکہ کے آلہ کار تھے۔ یہ تاثر رفتہ رفتہ بہ اندازِ دیگر گہرا ہوتا چلا گیا اور ایک مرحلہ وہ آیا کہ ایوب خان کو ایک ایسی کتاب لکھوانی پڑی جس کے عنوان میں یہ کہہ دیا گیا تھا کہ ہم اور امریکہ دوست ہیں اور امریکہ ہمارا آقا نہیں۔ یہ یقینا عملی صورتِ حال نہیں تھی لیکن کم از کم اس سے ایک کتابی غیرت کا اظہار تو ہوا۔ ایوب خان یقینا امریکی آشیرواد سے اقتدار میں آئے تھے لیکن وہ جب اقتدار سے رخصت ہوئے تو امریکہ اُن کے ساتھ نہیں تھا، اور ایوب خان نے امریکی امداد کے حصول کی کوئی کوشش بھی نہیں کی۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی امریکہ ہی کے آلہ کار تھے لیکن رفتہ رفتہ ان کے اور امریکہ کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے اور ایک وقت وہ آیا کہ انہوں نے امریکہ کو سفید ہاتھی قرار دیا۔ بالآخر بھٹو صاحب اقتدار سے محروم ہوئے۔ ان کے زوال میں خود ان کا اپنا کردار بنیادی اہمیت کا حامل تھا، لیکن امریکہ کے تناظر میں ان کی ابتدا اور اختتام میں بڑا فرق تھا۔ وہ امریکی حمایت سے اقتدار میں آئے تھے اور امریکہ کی مخالفت کے ساتھ اقتدار سے محروم ہوئے۔
جنرل ضیا الحق کو امریکہ کا آلہ کار کہنے والوں کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی، اور یہ رائے کچھ ایسی غلط نہیں، امریکہ کے ساتھ ان کے تعلق میں ایک وقت وہ آیا کہ انہوں نے اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر کو پیغام بھجوایا کہ اگر وہ صوبہ سرحد اور بلوچستان کے علاقوں کے ’’دورے‘‘ پر گئے تو وہ جس راستے سے جائیں گے اس راستے سے واپس نہیں آسکیں گے۔ اپنے آخری وقت میں جنرل ضیا اپنے خلاف امریکی عزائم سے پوری طرح باخبر تھے اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں اسلام آباد تک محدود کررکھی تھیں لیکن وہ امریکی سازش کا شکار ہوگئے۔
جنرل ضیا الحق کے بعد غلام اسحاق خان ملک کے صدر بن گئے، اور غلام اسحاق خان اپنی وزارتِ خزانہ کے ابتدائی دور سے اس بات کے لیے بدنام تھے کہ وہ امریکی ایجنٹ ہیں۔ اس کا ثبوت یہ دیا جاتا تھا کہ وہ ہمیشہ اہم مناصب پر فائز رہے اور حکمرانوں کے بدلنے سے انہیں کبھی کوئی فرق نہیں پڑ سکا۔ لیکن اس غلام اسحاق خان نے بھی ایٹمی پروگرام سمیت کئی اہم امور پر سخت مؤقف اختیار کیا اور امریکی ہاتھ جھٹک دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک امریکی جنرل نے ایوانِ صدر میں غلام اسحاق خان سے ملاقات کے بعد باہر نکلتے ہوئے نہایت ناگواری کے ساتھ امریکی اہلکاروں سے کہا کہ اس بڈھے سے نجات ضروری ہے۔ امریکی جنرل نے اس سلسلے میں یہ احتیاط بھی ضروری نہ سمجھی کہ اس کی بات بعض پاکستانی سن رہے ہیں۔ اس کے بعد غلام اسحاق خان کا جو ’’انجام‘‘ ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
بے نظیر بھٹو کے امریکی آلہ کار ہونے کے بارے میں کبھی دو رائے نہیں رہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ انہیں دوسری مرتبہ امریکیوں نے جو ایجنڈا دیا تھا وہ اس پر عمل درآمد نہ کرسکیں، جس کی وجہ سے امریکہ ان سے ناراض ہوگیا اور بے نظیر گزشتہ ڈیڑھ سال سے اسی ناراضی کو دور کرنے کے لیے امریکہ کا طواف کررہی ہیں۔ لیکن میاں نوازشریف کا معاملہ یہ ہے کہ وہ امریکی آشیرواد کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے اور اب جب کہ وہ اپنے زوال کے آخری مرحلے طے کررہے ہیں ان کے لبوں پہ یاخدا کے بجائے ’’یا امریکہ‘‘ ہی ہے۔ وہ امریکہ کو پکارتے ہوئے آئے تھے اور امریکہ کو پکارتے ہوئے ہی جائیں گے۔ میاں صاحب کی یہ مثال اس لیے بھی شرم ناک ہے کہ ایوب خان طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ بھٹو کا مینڈیٹ میاں صاحب کے مینڈیٹ کے مقابلے پر کچھ بھی نہ تھا۔ جنرل ضیا الحق ایک فوجی آمر تھے۔ غلام اسحاق خان کی کوئی عوامی حیثیت ہی نہ تھی۔ اور بے نظیر کا مینڈیٹ میاں صاحب کے مینڈیٹ کی جماہی سے کچھ ہی زیادہ ہوگا، لیکن اس کے باوجود وہ ہر حکمران سے زیادہ امریکی ایجنٹ اور امریکہ کے خوشامدی ثابت ہوئے ہیں۔ میاں صاحب کے خلاف تاریخ میں سب سے بڑا مقدمہ اسی بات پر درج ہوگا۔
(13 اکتوبر 1999ء)
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ 19 سال قبل بھی میاں نوازشریف ’’یا امریکہ مجھے بچا لے‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے، اور جب سے وہ پاناما لیکس کے حوالے سے زیرِ عتاب آئے ہیں، ایک بار پھر امریکہ، امریکہ کررہے ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ میاں صاحب کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ابھی حال ہی میں اپنی بہن کی عیادت کی آڑ میں امریکہ گئے تھے، مگر وہ امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ ایک ایسی ملاقات کرتے دیکھے گئے جس میں امریکہ کے نائب صدر کے مددگار تو موجود تھے مگر شاہد خاقان عباسی کا ’’مددگار‘‘ کوئی نہ تھا۔ یہ اس لیے تھا کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ شاہد خاقان عباسی میاں صاحب کا کیا پیغام لے کر امریکہ گئے ہیں، مگر جو لوگ میاں صاحب کی تاریخ سے آگاہ ہیں انہیں معلوم ہے کہ میاں صاحب نے امریکہ کو کیا پیغام دیا ہوگا؟ انہوں نے کہا ہوگا: نہ پاکستان اسلامی رہے گا، نہ ہم ایٹمی پروگرام جاری رکھیں گے، ہم فوج کو بھی ٹھکانے لگا دیں گے اور ہم بھارت کی بالادستی کو دل و جان سے قبول کرلیں گے، مگر آپ ہمارے اقتدار کو بچا لیجیے۔ اے زمینی خدا! اے ہمارے مددگار امریکہ ہم پر نظرِ کرم فرما۔ خیر اب آپ 19 سال قبل میاں صاحب اور اُن کے فرزندِ ارجمند حسن نواز کے حوالے سے شائع ہونے والا کالم ملاحظہ فرمایئے اور دیکھیے کہ آج سے 19 سال قبل میاں صاحب کا ’’بیٹا‘‘ کیا گُل کھِلا رہا تھا۔ کالم یہ تھا:
کشمیر لے لو، نوازشریف دے دو؟
میاں نوازشریف کو یقینا اپنے فرزندِ ارجمند حسن نواز پر فخر محسوس ہورہا ہوگا۔ مثل مشہور ہے:
باپ پہ پوت، پتا پر گھوڑا
زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا
اس مثل کے تناظر میں میاں نوازشریف کے لیے یقینا یہ فخر کی بات ہے کہ ان کا بیٹا باپ پر تھوڑا تھوڑا نہیں زیادہ سے زیادہ چلا گیا ہے۔ سرِدست اس چلے جانے کی تفصیل صرف اتنی ہے کہ حسن نواز نے بل کلنٹن، ٹونی بلیئر اور خاص طور پر بھارت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے والد کی رہائی اور ان کی حکومت کی بحالی کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔ حسن نواز نے صرف اپیل ہی نہیں کی، کچھ اور باتیں بھی کہی ہیں۔ مثلاً انہوں نے کہا ہے کہ ان کے والد کی حکومت کو فوج نے کسی اصول کے تحت رخصت نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی حکومت عوام میں غیر مقبول بھی ہوجائے تو اسے ہٹانے کا اختیار صرف عوام کو ہے۔ حسن نواز نے مزید کہا کہ ان کی اپیل کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے بلکہ یہ ذاتی سطح پر کی گئی اپیل ہے۔
میاں نوازشریف کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے نقشِ قدم پر چل رہے تھے، لیکن یہ حقیقت تو اب کھلی ہے کہ معاملہ اس سے کہیں آگے بڑھا ہوا ہے، یعنی یہ کہ ’’شریف خاندان‘‘ ملک میں ایک نئے بھٹو خاندان کی حیثیت رکھتا ہے۔ یادش بخیر یہ بھٹو خاندان ہی تھا جس کے رابطے نئی دہلی سے واشنگٹن تک، اور واشنگٹن سے تل ابیب تک دس جگہ تلاش کیے جاتے تھے… اور تلاش کیا کیے جاتے تھے، بھٹو خاندان کے اراکین خود ان رابطوں پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حسن نواز نے بڑی رعایت کی کہ انہوں نے اسرائیل کے صدر یا وزیراعظم سے اپنے والد کی رہائی اور ان کی حکومت کی بحالی کی اپیل نہیں کی۔ کیا خبر انہوں نے یہ کارڈ آئندہ کے لیے رکھ چھوڑا ہو۔
حسن نواز یقینا کم سن ہیں، اس لیے انہیں معلوم نہیں کہ ذاتی سطح کا مفہوم سیاسی سطح کے مفہوم سے کہیں زیادہ خطرناک اور پست ہے۔ آخر ذاتی سطح کا مطلب کیا ہے؟ کیا شریف خاندان بل کلنٹن، ٹونی بلیئر اور واجپائی کے ساتھ خون کے رشتے میں منسلک ہے؟ کیا یہ کوئی دوسرے درجے کی رشتے داری کا معاملہ ہے؟ کیا فریقین کے درمیان کوئی تجارتی یا کاروباری تعلق استوار تھا؟ حسن نواز یا تو ان میں سے کسی پہلو کا اعتراف کریں، یا قوم کو بتائیں کہ ’’ذاتی سطح‘‘ کا مفہوم کیا ہے؟
حسن نواز نے بالکل درست کہا ہے کہ کسی حکومت کے غیر مقبول ہونے کی صورت میں صرف عوام ہی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اس حکومت کو برطرف کریں۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرزندِ نوازشریف عوام کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن یہ کیسی شرم ناک بات ہے کہ نواز حکومت برطرف ہوگئی اور جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ میاں نوازشریف کو ’’حفاظتی تحویل‘‘ میں لے لیا گیا ہے۔ لیکن حسن نواز اپیلیں کلنٹن، ٹونی بلیئر اور واجپائی سے کررہے ہیں، حالانکہ اگر وہ عوام کو اتنی اہمیت دیتے ہیں تو انہیںچاہیے تھا کہ وہ اپنے عوام ہی سے رجوع کرتے، وہ ان سے کہتے کہ دیکھو فوج نے جمہوریت کے اصول کی نفی کرتے ہوئے تمہارے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کو برطرف کردیا، خدارا باہر نکلو اور اپنے حق کی حفاظت کرو۔ لیکن جیسا کہ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ شریف خاندان کے کسی فرد یا نواز لیگ کے کسی قابلِ ذکر لیڈر نے عوام سے رجوع کرنے کی زحمت نہیں کی۔
عوام سے رجوع کرنے کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ نواز لیگ فوج سے تصادم نہیں چاہتی، کیونکہ اس سے بقول نواز لیگ کے لیڈروں کے، ملک کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ نواز لیگ فوج سے تصادم نہیں چاہتی بہت اچھی بات ہے، یہ بھی ٹھیک ہے کہ ایسے تصادم سے ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن تصادم اور احتجاج دو مختلف باتیں ہیں۔ نواز لیگ احتجاج تو کر ہی سکتی ہے، اور اگر کہیں ’’عوام‘‘ اس کے ساتھ ہیں تو انہیں بھی احتجاج میں شریک کرسکتی ہے۔ لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ ہو تو کیسے! مسلم لیگ کے ایک کوٹھے سے دوسرے کوٹھے کے لیے پرواز کرجانے کی افواہیں گرم ہیں اور نواز لیگ میں ہر جگہ ’’موسم لیگیوں‘‘ اور مسلم لیگیوں کی بحث چھڑی ہوئی ہے۔
ہرچند کہ امریکہ نوازشریف کو گڈ بائی کہہ چکا ہے، لیکن اس کے باوجود حسن نواز نے بل کلنٹن سے اپنے والد کی رہائی اور ان کی حکومت کی بحالی کی اپیل کی تو بات سمجھ میں آتی ہے، اس لیے کہ امریکہ واحد عالمی طاقت ہے۔ رہا برطانیہ، تو وہ واحد عالمی طاقت کا ایک اہم چمچہ ہے، اس لیے اُس کا وزیراعظم بھی اہم ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ حسن نواز نے شری واجپائی سے اپیل کیوں کی؟
ہمیں یقین ہے کہ 19 سال پرانے چار کالم پڑھ کر آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ میاں صاحب نے ڈان کے نمائندے سرل المیڈا کو انٹرویو دیتے ہوئے کوئی ’’نئی بات‘‘ نہیں کہی۔ میاں صاحب 19 سال سے امریکہ مرکز ہیں، یورپ مرکز ہیں، بھارت پرست ہیں، ملک اور فوج دشمن ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق میاں صاحب کے مذکورہ امراض پہلے کی نسبت مزید سنگین ہوئے ہیں، بلکہ اب تو میاں صاحب کو ’’غدارِ وطن‘‘ ہی نہیں ’’غدارِِ ختمِ نبوت‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے، اس لیے کہ میاں صاحب امریکہ اور یورپ کے اشارے پر ختمِ نبوت کے تصور پر حملہ آور ہوچکے ہیں۔ اگرچہ وہ اس سلسلے میں ’’کامیاب‘‘ نہیں ہوئے، مگر انہوں نے امریکہ اور یورپ کو بتادیا ہے کہ وہ امریکہ اور یورپ کے اشارے پر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ میاں صاحب صرف پاکستان اور ختمِ نبوت ہی کے غدار نہیں، بلکہ وہ اسلام کے تصورِ اخلاق کے بھی غدار ہیں، اس لیے کہ ان کی حکومت اقوام متحدہ کی جانب سے بھیجی گئی زنا بالرضا کی تجویز کو ’’قابلِ غور‘‘ قرار دے چکی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف میاں صاحب ہی نہیں اُن کا پورا خاندان بلکہ ان کے ’’خفیہ‘‘ اور ’’کھلے‘‘ اتحادی بھی اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے غدار ہیں۔ اصول ہے انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے، چنانچہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میاں صاحب کے ’’سیاسی دوست‘‘ میاں صاحب کے حوالے سے نہ پہچانے جائیں! ذرا غور تو کیجیے کہ میاں صاحب کے کھلے اور خفیہ دوستوں میں کون کون شامل ہے؟

خلائی طاقت پاکستان کی نہیں بیرونی ہے

میاں نواز شریف کے انٹرویو پر اعتزاز احسن کی جیو نیوز میزبان حامد میر سے گفتگو
پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ نواز شریف جن شعلوں سے کھیلے ہیں وہ آگ کافی پھیل سکتی ہے،نواز شریف جس خلائی طاقت کی بات کرتے ہیں وہ پاکستانی نہیں باہر کی ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری پروگرام پر کچھ فیصلے کرنا ہیں، پاکستان میں رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے نواز شریف کو اچھی پوزیشن میں رکھا ہوا ہے،نواز شریف کیخلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا کیس نہیں چلانا چاہئے۔ وہ جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ نواز شریف نے نیوز لیکس کا اعتراف کر کے ثابت کردیا کہ سرل المیڈا اور انگر یز ی اخبار کا کوئی قصور نہیں ہے، انہیں جو اسٹوری دی گئی وہی انہوں نے من و عن شائع کی، نواز شریف تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں ان کی طرف سے ممبئی حملوں پر بات بہت اہم ہے، ن لیگ نواز شریف کے بیان سے خود کو لاتعلق ظاہر کررہی ہے، شہباز شریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ماننے کیلئے تیار نہیں کہ نواز شریف نے ایسی بات کی ہے۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے بیان سے دنیا یہی سمجھ رہی ہے کہ پاکستان کی زمین کو دوسرے ملک میں دہشتگردی کیلئے استعمال کیا گیا اور اس کیلئے غیر ریاستی عناصر کو ریاست پاکستان نے سہولت دی، ایک ایسے وقت جب ایف اے ٹی ایف میں پاکستان گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں جانے والا ہے نواز شریف کا بیان بہت خطرناک ہے، پاکستان بلیک لسٹ ہوگیا تو عام پاکستانیوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، نواز شریف جن شعلوں سے کھیل رہے ہیں وہ آگ کافی پھیل سکتی ہے۔اعتزاز احسن نے کہا کہ نواز شریف کے بیان کا پاکستان پر اندرونی اور بیرونی معاملات پر اثر ہوگا، لگتا ہے اس میں امریکا، برطانیہ، چین ، نریندر مودی اور نواز شریف ہیں، نواز شریف جس خلائی طاقت کی بات کرتے ہیں ان کے اعتماد سے لگتا ہے وہ پاکستانی نہیں باہر کی ہے، ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان کے جوہری پروگرام پر کچھ فیصلے کرنا ہیں، ٹرمپ نے شمالی کوریا کو ڈھیر کردیا ہے جبکہ ایران سے جوہری معاہدہ ختم کردیا ہے اب وہ پاکستان کے جوہری پروگرام پر فوکس کرنا چاہتے ہیں، اس سے پہلے وہ پاکستان میں رائے عامہ ہموار کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے نواز شریف کو انہوں نے اچھی پوزیشن میں رکھا ہوا ہے۔

نوازشریف کا بیان امریکہ میں لکھا گیا

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کی رپورٹ
تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا بیان گہرے اثرات کا حامل ہوسکتا ہے، ان کو سیاسی طور پر فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے، مگر بظاہر لگ رہا ہے کہ اُن کی سیاسی جماعت مزید منتشر ہوسکتی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ میاں نوازشریف عالمی اسٹیبلشمنٹ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں اور یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف سزائوں کے فیصلے کسی بدعنوانی کے سبب نہیں بلکہ عالمی بیانیے کے ساتھ کھڑے ہونے کے سبب ہیں۔ تجزیہ کار بابر ایاز کا کہنا تھا کہ اس اعتبار سے تو خوش آئند بات ہے کہ وزیراعظم کی سطح پر اس بات کا ادراک ہے کہ غیر ریاستی عناصر کو استعمال کرنے کی روش ترک ہونی چاہیے، لیکن موجودہ حالات میں جب پارٹی سے پہلے ہی الیکٹیبلز اُڑان بھر رہے ہیں اُن کو مزید دھچکا پہنچ سکتا ہے، تاہم اس بات کا بھی امکان ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ ان کی مدد کو آئے۔ بھارت کے تجزیہ کار اُشتیندر کمار نے کہا کہ اُن کے ملک میں سابق پاکستانی وزیراعظم کے بیان کو مختلف حوالے سے دیکھا جارہا ہے، کانگریس سے وابستہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بیان امریکہ میں لکھا گیا ہے اور اس کا مقصد بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کو آئندہ انتخابات میں فائدہ پہنچانا ہے، کیوں کہ امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نریندر مودی کے ساتھ متعدد معاہدے کررہی ہے اور ان سے خوش ہے۔ دوسری جانب بھارت دنیا کو باور کرا رہا ہے کہ پاکستان کی حکومت عسکریت پسندوں کی مدد میں ملوث ہے۔ سابق فوجی افسر بریگیڈیئر ٹیپو سلطان نے کہا ’’نوازشریف عدالت میں خود کو بے گناہ ثابت نہیں کرسکے ہیں، اور اس سے پہلے کہ عدالت سے سزا سنائی جائے وہ ایسا بیانیہ پیش کررہے ہیں کہ دنیا سمجھے کہ انہیں کسی بدعنوانی کی نہیں بلکہ اپنے بیانیہ کی وجہ سے سزا ملی ہے‘‘۔ ان کے مطابق ایسے وقت میں جب امریکہ میں صدر ٹرمپ کی قیادت والی انتظامیہ موجود ہے، نوازشریف کا یہ بیان ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ بابر ایاز کہتے ہیں کہ پاکستان میں طاقت کے حصول کے لیے رسّاکشی جاری ہے اور نوازشریف کا بیان امریکہ کو خوش کرسکتا ہے۔
(دنیا نیوز: 15 مئی 2018ء)

Leave a Reply