بیت المقدس پر ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی و سفارتی ’’حملہ‘‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تھے تو ہم نے انھی کالموں میں عرض کیا تھا کہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں امریکہ کا باطن جیت گیا ہے اور امریکہ کے ظاہر کو شکست ہوگئی ہے۔ امریکہ کا ظاہر سفارت کاری کو پردے کے طور پر استعمال کرتا ہے، مگر امریکہ کا باطن صاف کہتا ہے:
ہمارا کام ہے ہم تو سرِ بازار ناچیں گے
اہم بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے ہر مرحلے پر ثابت کیا کہ وہ اصل اور حقیقی امریکہ کا مظہر ہیں۔ انہوں نے کئی مسلم ملکوں کے شہریوں کے امریکہ آنے پر پابندیاں لگائیں، انہوں نے شمالی کوریا کے ڈھائی کروڑ افراد کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کی دھمکی دی، انہوں نے پاکستان کو دھمکایا اور صاف کہا کہ اگر اس نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا تو اس کے سنگین مضمرات ہوں گے، یہاں تک کہ انہوں نے مسلمانوں کے قبلۂ اوّل بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ صورتِ حال بتا رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگرچہ امریکہ کے صدر ہیں مگر ان کے اقدامات سے پوری مغربی دنیا کا باطن آشکار ہورہا ہے۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کا تاریخی شعور ناگفتہ بہ حالت میں ہے، چنانچہ مسلمانوں کو یاد ہی نہیں کہ مغرب تاریخ کے مختلف ادوار میں ان کے ساتھ کیسا ہولناک سلوک کرتا رہا ہے۔ مسلمان آج ڈونلڈ ٹرمپ کو رو رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ مغرب کے اصل نمائندے نہیں۔ یہ طرزِ فکر سرسری ہی نہیں، غلط بھی ہے۔ قرونِِ وسطیٰ میں یورپ کی سب سے بڑی شخصیت پوپ تھا۔ 1095ء میں عیسائیوں کا پوپ اربن دوئم تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان کسی طرح کی کشمکش موجود نہ تھی۔ اس فضا میں اچانک پوپ اربن نے مسلمانوں پر نہیں ان کے دین پر ایٹمی حملہ کیا۔ انہوں نے کسی شہادت کے بغیر فرمایا کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ اس ’’شیطانی مذہب‘‘ اور اس کے پیروکاروں کو روئے زمین سے فنا کردیں۔ یہ مغرب کے باطن کا رقصِ ابلیس تھا۔ اس رقص کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ کی تمام عیسائی اقوام 1099ء میں ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئیں اور انہوں نے پوپ کی ہدایت کے عین مطابق بیت المقدس پر حملہ کردیا۔ یہ بیت المقدس پر یہودیوں یا صہیونیوں کا نہیں، عیسائیوں کا حملہ تھا اور اس کا کوئی روحانی، اخلاقی، سیاسی، عسکری جواز موجود نہ تھا۔ یورپ کی عیسائی اقوام نے بیت المقدس میں مسلمانوں کا اس بڑے پیمانے پر قتلِ عام کیا کہ بیت المقدس کی گلیاں خون سے بھر گئیں اور گلیوں میں گھوڑے دوڑانا مشکل ہوگیا۔
مغربی طاقتوں نے 18 ویں صدی میں ایک بار پھر عالم اسلام کے خلاف رقصِ ابلیس پیش کیا۔ یہ طاقتیں مسلمانوں کی جانب سے کسی اشتعال کے بغیر اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور کم و بیش پورے عالم اسلام پر قابض ہوگئیں۔ فرق یہ تھا کہ کہیں انگریز قابض تھے، کہیں فرانسیسی، کہیں پرتگالی، اور کہیں ولندیزی۔
ہم بھول گئے کہ اسرائیل کا وجود یورپ کے کسی ایک ملک کا نہیں، پورے مغرب کا رہینِ منت ہے۔ اسرائیل 1948ء میں قائم ہوا مگر اس کی تخلیق کا جواز 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے اعلانِ بالفور میں مہیا کردیا تھا۔ ابھی حال ہی میں اعلانِ بالفور کی صد سالہ تقریبات منائی گئیں۔ اس موقع پر فلسطین کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف جرم پر فلسطینیوں سے معافی مانگے۔ اس مطالبے کا جو جواب برطانیہ سے آیا وہ نہ صرف تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے بلکہ اس سے مغرب کے باطن کی شیطنیت بھی پوری طرح آشکار ہوئی۔ برطانیہ نے کہا کہ اسے اعلان بالفور پر کوئی شرمندگی نہیں بلکہ اس اعلان پر ’’فخر‘‘ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس بات کا فخر؟ کیا اسرائیل مغرب کے تصورِ آزادی کے مطابق قائم ہوا؟ کیا اسرائیل کسی جمہوری جدوجہد کا حاصل تھا؟ کیا اسرائیل کسی بین الاقوامی قانون کے اطلاق کا نتیجہ تھا؟ کیا مسلمانوں یا فلسطینیوں پر جو ظلم ڈھائے تھے ان مظالم کا تقاضا یہ تھا کہ ارضِ فلسطین میں یہودیوں کو ایک ’’قومی ریاست‘‘ مہیا کی جائے؟ ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ تو پھر برطانیہ کی وزیراعظم تھریسامے نے یہ کیوں کہا کہ انہیں قیامِ اسرائیل کے سلسلے میں برطانیہ کے کردار پر فخر ہے۔


تاریخی ریکارڈ بتاتا ہے کہ یہودی سرزمینِ فلسطین کو ’’اپنی سرزمین‘‘ کہہ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 3 ہزار سال پہلے ارضِ فلسطین پر یہودیوں کی حکومت تھی۔ علامہ اقبال نے اسی تناظر میں اسرائیل کے قیام کے مطالبے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ’’ماضی کا قبضہ‘‘ اہم ہے تو پھر اسپین پر کبھی مسلمانوں کی حکومت تھی، چنانچہ حال میں بھی اسپین پر مسلمانوں کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ لیکن یہ مسئلہ صرف اسپین تک محدود نہیں ہے۔ امریکہ ریڈانڈینز کا ملک ہے، چنانچہ تمام سفید فاموں کو امریکہ سے نکال کر وہاں ریڈانڈینز کی حکومت قائم کی جانی چاہیے۔ آسٹریلیا پورا براعظم ہے اور اس پر کبھی ایب اوریجنل باشندوں کی حکومت تھی۔ چنانچہ آسٹریلیا سے بھی تمام سفید فاموں کو کھدیڑ دینا چاہیے اور وہاں ایب اوریجنلزکی حکومت قائم کردینی چاہیے۔ ہندوستان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ہندوستان دراوڑوں کا ملک تھا۔ آریا ’’باہر‘‘ سے آئے اور انہوں نے دراوڑوں کو غلام بناکر ان کے ملک پر قبضہ کرلیا۔ چنانچہ مغرب کی تمام اقوام کو چاہیے کہ وہ ہندوستان پر دراوڑوں کا اقتدار بحال کرائیں۔ یہ حقائق بتاتے ہیں کہ اسرائیل کے قیام کا نہ کوئی اخلاقی جواز تھا، نہ سیاسی جواز تھا، نہ تاریخی جواز تھا، نہ کوئی عقلی جواز تھا۔ چنانچہ مغربی اقوام نے اسرائیل کی تخلیق اور اس کے تحفظ کے سلسلے میں کردار ادا کیا تو اس کی وجہ ان کی اسلام اور مسلم دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بات تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ امریکہ نے 1946ء سے 2010ء تک سلامتی کونسل میں 79 مرتبہ ویٹو کا اختیار استعمال کیا۔ ان میں سے 42 بار امریکہ نے یہ حق اسرائیل کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ امریکہ اسرائیل کو 50 سال سے تین ارب ڈالر سالانہ معاشی امداد مہیا کررہا ہے۔ فوجی امداد اس کے علاوہ ہے۔ یورپی اقوام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ امریکہ کی طرح ’’اسرائیل پرست‘‘ تو نہیں مگر اسرائیل نواز ضرور ہیں۔ انہیں اسرائیل پر اعتراض بھی ہے تو ’’تکنیکی‘‘۔ ایسا نہ ہوتا تو برطانیہ اسرائیل کے ’’70 سالہ مظالم‘‘ کے بعد بھی یہ نہ کہتا کہ اسے اسرائیل کے قیام کے سلسلے میں اپنے کردار پر ’’فخر‘‘ ہے۔ بلاشبہ ہٹلر نے یہودیوں کا قتلِ عام کیا اور مختلف یورپی ممالک میں یہودیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یورپ کو چاہیے تھا کہ وہ یہودیوں کو یورپ کی سرزمین پر کہیں ’’قومی ریاست‘‘ مہیا کرتا۔ اگر فلسطین میں یہودی اقلیت تھے اور ان کی حالت اچھی نہیں تھی تو آج یورپ میں بھی 6 کروڑ مسلمان اقلیت میں ہیں اور یورپ میں ان کے خلاف نفرت سیلاب بن چکی ہے۔ یورپ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواتر کے ساتھ توہین کی جارہی ہے، مسلمانوں کو مساجد تعمیر کرنے سے روکا جا رہا ہے، مسلم خواتین کے پردے پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں، مسلمانوں کی ’’نگرانی‘‘ کی جارہی ہے، اسلامو فوبیا عروج پر ہے۔ تو کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ یورپ کے مسلمان مطالبہ کریں کہ جس طرح یورپ نے یہودیوں کو ارضِ فلسطین میں ’’قومی ریاست‘‘ مہیا کی، اسی طرح مسلمانوں کو بھی یورپ میں کوئی ایسی ریاست مہیا کی جائے جہاں مسلمان اپنے دین کا اور اپنا تحفظ کرسکیں؟


فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی کا ایک پہلو یہ ہے کہ یاسرعرفات اور ان کی پی ایل او کئی دہائیوں تک فلسطین کی جدوجہدِ آزادی کی واحد علامت بنے رہے۔ یاسر عرفات اور ان کی تنظیم سوشلسٹ اور قوم پرست تھے اور مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ اس زمانے میں مغرب یاسرعرفات اور ان کی تنظیم دونوں کو ’’دہشت گرد‘‘ کہتا تھا۔ پی ایل او اور یاسر عرفات ناکام ہوئے تو ان کی ناکامی کے بطن سے حماس نمودار ہوئی۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے حماس ’’انتہا پسند‘‘ اور پی ایل او ’’ماڈریٹ‘‘ ہوگئی۔ یہاں تک کہ یاسرعرفات مغرب کے زیر سایہ آگئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یاسرعرفات اور اسرائیل کے وزیراعظم اسحاق رابین نے اوسلو میں ایک امن سمجھوتے پر دستخط کردییجسے اس حد تک ’’تاریخی‘‘ قرار دیا گیا کہ مغرب نے ماضی کے ’’دہشت پسند‘‘ یاسرعرفات کو ’’امن‘‘ کا ’’نوبل انعام‘‘ دلا دیا۔ اس وقت یاسرعرفات کی پشت پر امریکہ بھی تھا، یورپ بھی… روس بھی تھا، چین بھی… سعودی عرب بھی تھا اور دیگر عرب ریاستیں بھی۔ اس سمجھوتے کو صرف حماس نے نہیں بلکہ یاسرعرفات کے قریبی ساتھیوں نے بھی مسترد کردیا۔ لیلیٰ خالد فلسطین کی جدوجہد آزادی کا ایک بڑا نام تھیں، انہوں نے اوسلو امن سمجھوتے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یاسرعرفات نے فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی کا سودا کرلیا۔ ایڈورڈ سعید ممتاز دانش ور اور امریکہ کی یونیورسٹی میں ادب کے استاد تھے۔ انہوں نے یاسرعرفات پر افسوس ناک سودے بازی کا الزام لگایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اوسلو امن سمجھوتے میں نہ بیت المقدس کے مستقبل کا فیصلہ ہوا تھا، نہ 40 لاکھ سے زیادہ جلاوطن فلسطینیوں کی واپسی کا معاملہ طے پایا تھا، اور نہ اسرائیل مستقبل کی فلسطینی ریاست کو اپنے دفاع کے لیے اقدامات کی اجازت دینے پر تیار ہوا تھا۔ یہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ مغرب کا کتنا بڑا ظلم ہے کہ یہودی 3 ہزار سال کے بعد ساری دنیا سے اپنے وطن اسرائیل لوٹ سکتے ہیں مگر جن 40 لاکھ فلسطینیوں کو اسرائیل کے مظالم سے تنگ آکر جلاوطنی اختیار کرنی پڑی ہے وہ 50 برس کے بعد بھی اپنے وطن نہیں لوٹ سکتے، کیونکہ اس طرح یہودی ارضِ فلسطین میں اقلیت بن جائیں گے۔ کیا یہی مغرب کا امن ہے؟ کیا یہی مغرب کی انسان دوستی ہے؟ کیا یہی مغرب کی مساوات ہے؟ کیا یہی مغرب کی عقل پرستی ہے؟ کیا یہی وہ بین الاقوامی جبر ہے جسے بڑے طمطراق کے ساتھ ’’انٹرنیشنل آرڈر‘‘ کہا جاتا ہے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ مشرق وسطیٰ میں یہودیوں اور فلسطینیوں کی ’’آزاد ریاست‘‘ قائم ہوں اور یہودیوں کی ریاست اسلحہ میں ڈوبی ہوئی ہو مگر فلسطینی ریاست کے بارے میں اسرائیل اور مغرب کہیں کہ اس ریاست کو بری، بحری اور فضائی افواج رکھنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اس ریاست کی ’’حفاظت‘‘ خود اسرائیل کرے گا! یہ اسرائیل اور مغرب کی ایسی شیطنت ہے کہ اس کے آگے شیطان بھی شرما جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس اوسلو امن سمجھوتے کی پشت پر پورا مغرب اور پورا عالم عرب موجود تھا، اور جو امن سمجھوتہ اول تا آخر اسرائیل کے حق میں اور اہلِِ فلسطین کے خلاف تھا اسے بھی اسرائیل نے ایک انچ آگے نہ بڑھنے دیا اور فریقین کے درمیان مذاکرات کے دوسرے مرحلے کی نوبت نہ آسکی، یہاں تک کہ ایک یہودی نے اسرائیلی وزیراعظم رابین کو قتل کردیا اور یاسرعرفات کو اُن کے دفتر میں محصور کردیا گیا۔ یاسرعرفات کا ’’محاصرہ‘‘ تین سال تک جاری رہا۔ بالآخر انہیں فرانس جانے کی ’’اجازت‘‘ دی گئی، مگر انہیں محاصرے کے دوران اتنا زہر کھلایا جا چکا تھا کہ وہ فرانس جاتے ہی بیمار پڑے اور انتقال کرگئے۔ اہم بات یہ ہے کہ پوری مغربی دنیا اس دوران اسرائیل سے کچھ بھی نہ کرا سکی۔ یہاں تک کہ مغربی دنیا کے کسی رہنما کو یہ کہنے کی توفیق بھی نہ ہوئی کہ اوسلو امن سمجھوتے کی ناکامی کا ذمے دار اسرائیل ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ شیطنت نہیں تو شیطنت اور کیا ہوتی ہے؟
ایک زمانہ تھا کہ حماس مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی تنظیم تھی، لیکن اس نے تاریخ کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے خود کو ایک سیاسی تنظیم میں تبدیل کیا۔ اس نے جمہوری عمل کا حصہ بن کر انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ مغرب کو چاہیے تھا کہ وہ حماس کی اس تبدیلی کا خیرمقدم کرتا اور اس کی سیاسی جدوجہد کی حمایت کرتا، مگر امریکہ اور یورپ نے حماس کے سیاسی و جمہوری کردار، سیاسی و جمہوری کامیابی اور سیاسی و جمہوری حق کو تسلیم نہ کیا۔ چنانچہ حماس کی حکومت ایک سال میں اقتدار سے باہر ہوگئی۔ یہ بھی آزادی، جمہوریت اور مساوات کے عَلم بردار مغرب کی شیطنت کی ایک صورت تھی۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کا تازہ ترین اقدام مشرق وسطیٰ میں مغرب کی شیطنت کا تسلسل اور اس کی نئی پیش قدمی ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کے شعور کا یہ عالم ہے کہ وہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ پر گرج برس رہا ہے اور اسے یہ دیکھنے کی فرصت نہیں کہ ٹرمپ نے جو کچھ کیا ہے وہ امریکی کانگریس کی 1995ء میں منظور ہونے والی اُس قرارداد کے مطابق ہے جسے ’’یروشلم ایمبیسی ایکٹ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس قرارداد کا مطلب یہ تھا کہ امریکہ نے اپنے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ چونکہ 1995ء سے 2017ء تک جتنے بھی امریکی صدر اقتدار میں آئے وہ سب امریکہ کا ’’ظاہر‘‘ تھے یعنی انہوں نے ’’ڈپلومیسی کا لباس‘‘ زیب تن کیا ہوا تھا اس لیے امریکہ کا سفارت خانہ تل ابیب میں کام کررہا تھا۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ چونکہ امریکہ کا باطن ہیں اس لیے انہوں نے اور باتوں کی طرح اس سلسلے میں بھی ظاہر کا انکار کردیا، چنانچہ پوری دنیا بالخصوص عالمِ اسلام پر آشکار ہوگیا کہ امریکہ کی ’’حقیقت‘‘ کیا ہے؟ لیکن اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ کیا ہے اُس کے سلسلے میں عرب دنیا بالخصوص سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی تائید و حمایت بھی انہیں حاصل ہے۔ غور کیا جائے تو ولی عہد محمد بن سلمان کے حال ہی میں ’’ایجاد‘‘ ہونے والے ’’ماڈریٹ اسلام‘‘ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عقاید و نظریات اور ماضی کو فراموش کردیا جائے اور حال و مستقبل کو دیکھا جائے۔ حال و مستقبل مغرب کا غلبہ ہے۔ حال و مستقبل ماڈریٹ اسلام ہے۔ سیکولر ازم اور لبرل ازم ہے۔ مغرب کی ذہنی و نفسیاتی غلامی ہے۔ شخصی، خاندانی اور اداراتی اقتدار کا تحفظ ہے۔ بلاشبہ پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ لیکن یہ مذمت مسلم عوام کو دھوکے میں رکھنے کے لیے ہے۔ مسلم ممالک کے عوام اسلام اور قبلۂ اول سے جذباتی تعلق کے حامل نہ ہوتے اور اسلامی تحریکوں نے اس سلسلے میں ایک تناظرکی تشکیل نہ کی ہوئی ہوتی تو مسلم حکمران زبانی جمع خرچ کی زحمت بھی نہ کرتے۔ اس لیے کہ ان کے دل اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے لیے نہیں بلکہ اپنے مغربی آقائوں اور اپنے سیاسی و معاشی مفادات کے لیے دھڑکتے ہیں۔ ٹرمپ کے اقدام کے حوالے سے 13 دسمبر کو اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا اجلاس بھی ہورہا ہے، لیکن ایسے اجلاسوں سے توقع وابستہ کرنا خود کو دھوکے میں مبتلا کرنا ہے۔ روس، چین اور کئی یورپی ممالک نے بھی ٹرمپ کے اقدام پر ’’تشویش‘‘ ظاہر کی ہے۔ لیکن تشویش کے اظہار سے امریکہ کی پیش قدمی اور اس کے مضمرات کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے بھی کسی چیز کی توقع رکھنا عبث ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نے یہ قدم اس لیے اٹھایا ہے کہ امریکہ میں ان کی غیر مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ لیکن یہ ایک سطحی تجزیہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے وہی کیا ہے جو پوپ اربن نے 1095ء میں کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے وہی کیا جو مغرب نے نوآبادیاتی دور کی تخلیق کے لیے 18 ویں صدی میں کیا۔ ٹرمپ نے وہی کیا جو یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں نے 19 ویں اور 20 ویں صدی میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے وہی کیا جو امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے نائن الیون کے بعد کیا۔ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں مغرب کی ذہنیت اور تناظر کا تسلسل ہیں۔ خطرناک بات یہ ہے کہ ان میں اس حوالے سے Risk لینے کی صلاحیت زیادہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس پر سیاسی اور سفارتی حملہ کرکے بتادیا ہے کہ پاکستان کے سلسلے میں ان کی دھمکی کو دھمکی نہ سمجھا جائے۔ وہ شمالی کوریا کے خلاف کچھ کریں یا نہ کریں مگر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے شیطانی اقدام پر عالمی برادری کا ردِعمل زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔ سلامتی کونسل نے ٹرمپ کے اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ عرب لیگ نے ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس سے مشرق وسطیٰ میں تشدد میں اضافہ ہوگا۔ لیکن کوئی بھی ملک یہ نہیں کہہ رہا کہ ٹرمپ نے بیت المقدس کی حیثیت بدل ڈالی ہے اور انہوں نے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو بھی ایک سنگین مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔ امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے بین الاقوامی برادری کا ردعمل دیکھتے ہوئے فرمایا ہے کہ امریکہ ابھی دو سال تک اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل نہیں کرے گا۔ لیکن اہمیت اس بات کی نہیں ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ امریکہ نے بیت المقدس اسرائیل کو تحفے کے طور پر پیش کردیا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں اس امر کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ عیسائیت کا ایک بڑا حصہ بالخصوص ایوانجلیکل چرچ مغرب کی تہذیب کو صرف عیسائی تہذیب نہیں کہتا بلکہ وہ اسے جڑواں یعنی Judo-chi کہتا ہے۔ ایوانجلیکل چرچ سے وابستہ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کے بغیر دنیا میں حضرت عیسیٰؑ کی واپسی ممکن نہیں ہوگی۔ اس عقیدے اور ٹرمپ کے اقدام کو باہم ملا کر دیکھا جائے تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے حال ہی میں یہ بات بھی زور دے کر کہی تھی کہ یہودیوں کی مقدس کتاب سے تعلق استوار کیے بغیر اسرائیل کا کوئی مستقبل نہیں۔

Leave a Reply