اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’عدل‘‘ پر ’’سودے بازی‘‘ کا سانحہ

اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ میں عہدے اور مناصب اپنی مراعات، اپنی سہولیات اور اپنی شہرت سے نہیں بلکہ اپنی اخلاقیات، اپنی تہذیب، اپنی ذمے داریوں اور اپنی آزمائش سے پہچانے جاتے ہیں۔ حضرت ابوذر غفاریؓ جلیل القدر صحابہ میں سے ایک تھے۔ ان کی شان اور عظمت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذرؓ کے بارے میں فرمایا کہ ابوذر دنیا میں بھی تنہا رہے گا اور میدانِ حشر میں بھی وہ تنہا کھڑا ہوگا۔ یعنی مثلاً میدانِ حشر میں ایک صدیقین کا گروہ ہوگا، ایک شہداء کا گروہ ہوگا، مگر حضرت ابوذرؓ ان میں سے کسی گروہ میں نہ ہوں گے، بلکہ ان کی انفرادی شان ایسی ہوگی کہ وہ سب سے الگ ہوں گے۔ اس کے باوجود ایک بار حضرت ابوذرؓ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عہدہ طلب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا۔ مطلب یہ کہ آپ اس عہدے کا بوجھ نہ اٹھا سکیں گے۔ حضرت عمرؓ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔ مگر حضرت عمرؓ کے لیے خلافت کا بوجھ ایسا تھاکہ ایک بار کہنے لگے ’’کاش میں کوئی تنکا ہوتا‘‘۔ حضرت عمرؓ کی شہادت کا وقت قریب آیا تو کسی نے کہا کہ آپ کے فرزند عبداللہ ابن عمرؓ خلافت کے لیے موزوں ہیں۔ فرمایا: عمر کے خاندان میں یہ بوجھ عمر نے اٹھالیا۔ کسی نے جانشین کے تقرر کی بات کی تو فرمایا: ابوعبیدہ ابن جراح ہوتے تو کوئی مشکل نہ تھی۔ مطلب یہ کہ وہ یہ بوجھ اٹھا لیتے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کی نظر میں ابوعبیدہؓ ابن جراح خلافت کے منصب کے حوالے سے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ پر بھی فوقیت رکھتے تھے۔ بہرحال بالآخر انہوں نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ سمیت پانچ لوگوں کے نام تجویز کیے اورکہا کہ ان میں سے جس کو چاہو خلیفہ منتخب کرلو۔ ہماری تاریخ کی عظیم الشان شخصیتوں کی تو بات ہی اور ہے، قائداعظم تک نے عہدے اور منصب کی اخلاقیات، تہذیب اور Mannerism کو نبھا کر دکھادیا۔ قائداعظم زیارت میں بیمار تھے اور ان کا کھانا پینا بری طرح متاثر ہوچکا تھا۔ ایسی صورتِ حال میں ایک باورچی لاہور سے بلایا گیا۔ اس کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا قائداعظم نے رغبت سے کھایا مگر پوچھا کہ کھانا کس نے بنایا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ لاہور سے باورچی بلایا گیا ہے۔ کہنے لگے کہ اس کے اخراجات سرکاری خزانے سے نہیں میری جیبِ خاص سے ادا ہوں گے۔
قائداعظم کراچی میں محوِ سفر تھے کہ ریلوے کا پھاٹک ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔ قائداعظم کے اے ڈی سی نے یہ دیکھا تو پھاٹک کھلوانے کی کوشش کی۔ قائداعظم نے کہا کہ ایسا مت کرو، میرے لیے پھاٹک کھولا گیا تو یہ ضابطے کی خلاف ورزی ہوگی، اور اگر میں ضابطے کی پابندی نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟ مگر آج ہمارے روحانی، اخلاقی، علمی اور تہذیبی زوال کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ بڑے بڑے عہدوں کو کیا، معمولی معمولی مناصب کو بھی لوگ “Enjoy” کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ریاستی دائرے ہی میں نہیں سیاسی، صحافتی، یہاں تک کہ مذہبی تنظیموں میں بھی عہدوں کی طلب اور ان کو Enjoyکرنے کا مرض عام ہوچلا ہے۔ کوئی نہیں جو یہ سوچے کہ جسے منصب ملا اس کو آزمائش میں مبتلا کردیا گیا، اور جسے آزمائش میں مبتلا کردیا گیا اسے ہلاکت میں ڈال دیا گیا۔ ایک وقت تھا کہ منصب دار اپنے لیے ’’عزیمت‘‘کا راستہ منتخب کرتے تھے اور عوام کے لیے ’’رخصت‘‘ کو بہتر سمجھتے تھے۔ آج صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ بڑے بڑے لوگ اپنے لیے ’’رخصت‘‘ سے کم تر شے پسند کرتے ہیں اور عوام کوعزیمت کا ’’درس‘‘ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کا پورا نظام غیر مؤثر ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس کی وجہ قرآن پاک نے کھول کر بیان کردی ہے۔ قرآن ہم سب سے سوال کرتا ہے کہ تم جو کہتے ہو وہ کرتے کیوں نہیں؟
اسلامی معاشرے میں عدل کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر عدل کے بغیر نہیں۔ مطلب یہ کہ عدل معاشرے کے لیے ہوا اور پانی کی طرح ناگزیر ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو معاشرے میں ’’منصف‘‘ سے بڑا منصب کسی کا بھی نہیں ہوتا۔ حضرت عمرؓ ایک بار ایک منصف کے روبرو حاضر ہوئے تو وہ خلیفۂ وقت کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ میرے احترام میں تمہارا کھڑا ہونا تمہاری جانب سے ہونے والی پہلی ناانصافی ہے۔ ایک مقدمے میں جج نے حضرت علیؓ کے جگر گوشوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی گواہی کو تسلیم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ باپ کے مقدمے میں بیٹوں کی گواہی قابلِ قبول نہیں۔ یہاں تک کہ جج نے حضرت علیؓ کے نوکر کی گواہی بھی قبول نہ کی۔ یہ دیکھ کر وہ یہودی مسلمان ہوگیا جو حضرت علیؓ کے خلاف مدعی بن کر کھڑا تھا۔ خیر یہ تو تاریخ کے عظیم ترین انسانوں کے قصے ہیں، برطانیہ کے وزیراعظم چرچل کی ان کے مقابلے میں اوقات ہی کیا ہے؟ مگر چرچل کو بھی انصاف کی اہمیت کا علم تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں جب جرمن طیارے بمباری کرکے برطانیہ کو ملبے کا ڈھیر بنا رہے تھے، چرچل کو تباہی پر مطلع کیا گیا، چرچل نے اچانک سوال کیاکہ ہماری عدالتوں کا کیا حال ہے؟ اُسے بتایا گیا کہ عدالتوں میں حسب معمول انصاف ہورہا ہے۔ یہ سن کر چرچل نے کہا کہ پھر برطانیہ کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عدلیہ کے ادارے اور ہمارے ججوں کو بے مثال ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہماری ماتحت عدالتوں کا یہ حال ہے کہ اُن کے حوالے سے انصاف کے طالب کہتے ہیں کہ مقدمے میں کامیابی کے لیے وکیل کرنے سے بہتر ہے کہ جج کرلیا جائے۔ سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے مگر اس کے جج فوجی آمروں کے اقتدار اور اقدامات کو تحفظ مہیا کرتے رہے ہیں۔ بھٹو کی پھانسی کو ’’عدالتی قتل‘‘کہنے والوں کی کمی نہیں، لیکن جس طرح معاشرے کے دیگر طبقات تاریخ سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں اسی طرح ہماری اعلیٰ عدالتوں کے معزز جج صاحبان بھی تاریخ سے کچھ سیکھ کر ایک ’’نئی تاریخ‘‘ بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے ہونے والی وہ ’’ملاقات‘‘ ہے جس کے لیے کوئی عنوان تجویز کرنا بھی آسان کام نہیں۔
دنیا کی ہر عدالت کا بنیادی کام ’’انصاف‘‘ کرنا ہوتا ہے۔ عدالت کے ہر فیصلے سے کسی نہ کسی کو فائدہ اور کسی نہ کسی کو نقصان ہوتا ہے۔ مگر عدالت اساسی طور پر کسی کے فائدے یا نقصان کے لیے فیصلہ نہیں کرتی، وہ صرف’’انصاف‘‘ کرتی ہے۔ اس سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوا، یہ عدالت کا مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ مگر جسٹس ثاقب نثار نے وزیراعظم سے ملاقات کرکے انصاف کی پوری تاریخ پر سیاہی پھینک دی ہے۔ عدل کی تاریخ میں عدالت کبھی ’’فریق‘‘ نہیں ہوتی، مگر شاہد خاقان عباسی اور جسٹس ثاقب نثار کی ملاقات کی جو تصویر جاری ہوئی ہے اُس میں عدل کے دو فریق نظر آرہے ہیں، ایک سیاسی فریق، ایک عدالتی فریق۔ عدل کی تاریخ میں کبھی ’’مذاکرات‘‘ نہیں ہوتے۔ مگر شاہد خاقان عباسی اور جسٹس ثاقب نثار کی تصویر دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ’’عدل‘‘ پر ’’مذاکرات‘‘ ہورہے ہیں۔ ایک مذاکرات کار سیاسی ہے اور دوسرا عدالتی۔ عدل کی تاریخ میں عدل کبھی شے یا “Product” نہیں ہوتا، مگر شاہد خاقان عباسی اور جسٹس ثاقب نثار کی ملاقات میں عدل ایک Productنظر آرہا ہے۔ اس Product کا ایک ’’خریدار‘‘ ہے اور ایک ’’دکاندار‘‘۔ عدل کی تاریخ میں عدل کی مرغی ’’دو ملاّئوں‘‘ کے درمیان ’’حرام‘‘ نہیں ہوتی، مگر شاہد خاقان عباسی اور جسٹس ثاقب نثار کی تصویر میں عدل کی مرغی دو ملاّئوں کے درمیان حرام ہوتی نظر آرہی ہے۔ ایک طرف ’’سیاسی ملاّ‘‘ ہے اور وسری جانب ’’عدالتی ملاّ‘‘۔ عدل کی تاریخ میں کبھی عدل پر Dons کا معرکہ برپا نہیں ہوتا۔ مگر شاہد خاقان عباسی اور جسٹس ثاقب نثار کی تصویر میں عدل دو Dons کے درمیان ’’مسئلہ‘‘ بنا نظر آرہا ہے۔ ایک طرف ’’سیاسی ڈان‘‘ ہے، دوسری طرف ’’عدالتی ڈان‘‘۔ عدل کی تاریخ میں کبھی عدل ’’بھیک‘‘ نہیں ہوتا، مگر شاہد خاقان عباسی اور جسٹس ثاقب نثار کی تصویر میں ایک ’’بھیک مانگنے والا‘‘ ہے، اور ایک ’’بھیک دینے والا‘‘۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جسٹس ثاقب نثار نے شاہد خاقان عباسی کو ’’سائل‘‘ قرار دیا ہے۔ سائل کا آسان اردو ترجمہ بھکاری بھی ہے۔ مگر بہرحال عدل ’’بھیک‘‘ ہوتا ہے نہ بھیک میں دیا جاتا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے شاہد خاقان عباسی کو ’’فریادی‘‘ بھی قرار دیا ہے، مگر عدل کی تاریخ میں فریاد ’’ایوانِ عدل‘‘ میں پوری دنیا کے ’’سامنے‘‘ کی جاتی ہے، ’’نجی ملاقاتوں‘‘ میں نہیں۔ شاہد خاقان عباسی فریادی تھے تو سپریم کورٹ کے جج صاحبان اُن کے باس کی ’’فریاد‘‘ مدتوں سے سپریم کورٹ میں سن رہے ہیں۔ اس فریاد نے کچھ ’’انڈے بچے‘‘ دے دیے ہیں تو انہیں بھی سپریم کورٹ میں ساری دنیا کے روبرو پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ مگر شاہد خاقان عباسی نے کیا، چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی فریاد کے انڈے بچوں کو دنیا کے سامنے لانے کی زحمت نہیں کی۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ نوازشریف کے مقدمے میں پوری قوم چیف جسٹس کے ساتھ ہے۔ اس کے برعکس میاں نوازشریف، اُن کی دختر نیک اختر اور نواز لیگ کے رہنمائوں نے چیف جسٹس کو ’’چیپ جسٹس‘‘ باور کرانے کی سازش کی ہے، مگر شاہد خاقان عباسی سے نجی ملاقات کرکے جسٹس ثاقب نثار نے باور کرایا ہے کہ انہیں قوم کی جانب سے دی گئی عزت کی زیادہ فکر نہیں۔
چلیے چیف جسٹس کو جو کرنا تھا، کر گزرے۔ لیکن اب ان کی ذمے داری ہے کہ ماتحت عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک جب بھی کوئی ’’سائل‘‘ یا ’’فریادی‘‘ متعلقہ جج سے نجی ملاقات کا خواہش مند ہو تو اُسے اتنے ہی وقت کی ملاقات مہیا کی جائے جتنے وقت کی ملاقات جسٹس ثاقب نثار نے میاں نوازشریف کے ’’سائل‘‘ یا ’’فریادی‘‘ کو مہیا کی ہے۔ ایسا نہ ہوا تو لوگ عدلیہ کی دہری یا دورنگی اور دوغلی پالیسی پر شدید اعتراض کریں گے اور ملک میں عدلیہ کا ادارہ رہا سہا وقار بھی کھودے گا۔
یہ امر بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپنی ملاقات کو ’’خوش آئند‘‘ قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ، ملک کی تمام ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتیں جب دیگر ’’سائلوں‘‘ اور ’’فریادیوں‘‘ کو بھی متعلقہ ججوں سے ملاقات کا وقت دیں گی تو ہمیں یقین ہے کہ لاکھوں سائل اور لاکھوں فریادی بھی شاہد خاقان عباسی کی طرح اپنی ملاقاتوں کو ’’خوش آئند‘‘ قرار دیں گے۔ اس سے عدلیہ کی ’’عزت‘‘ میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ اس کی ’’تکریم‘‘ کروڑوں گنا بڑھ جائے گی۔
شاہد خاقان عباسی ایک بیان میں اس بات پر بہت بھڑکے ہیں کہ حزبِ اختلاف نے اُن کی چیف جسٹس سے ملاقات پر اعتراض کیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے چیخ چیخ کر کہا ہے کہ ملک جتنا زرداری اور عمران خان کا ہے اتنا ہی ان کا ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے یہ بات بالکل درست کہی ہے۔ ملک واقعتا سب کا ہے، مگر ’’عدل‘‘ صرف اُس کا ہے جو اس کا ’’مستحق‘‘ ہے۔
میاں نوازشریف ’’نجکاری‘‘ کے بڑے علَم بردار ہیں۔ چنانچہ انہوں نے سینکڑوں صحافیوں اور درجنوں اخبارات و رسائل اور ٹیلی وژن چینلز کی ’’نجکاری‘‘ کی ہوئی ہے۔ اب ایک ’’سائل‘‘ اور ’’فریادی‘‘ کے ذریعے انہوں نے ’’سپریم کورٹ‘‘ اور چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھی نجی شعبے میں لینے کی کوشش کی ہے اور شاہدخاقان عباسی کا خیال ہے کہ چیف جسٹس سے ان کی ملاقات ’’خوش آئند‘‘ رہی ہے۔ اس سے قبل جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں سپریم کورٹ نے میاں صاحب کے ہاتھوں ’’نجکاری‘‘ سے انکار کردیا تھا تو سپریم کورٹ پر نواز لیگ کے غنڈوں نے حملہ کردیا تھا۔ اس تناظر میں بہت سے لوگوں کو شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس کی ملاقات بھی سپریم کورٹ پر حملہ ہی نظر آرہی ہے۔ 30 مارچ 2018ء کے روزنامہ جسارت کی ایک خبر کے مطابق چیف جسٹس نے فرمایا ہے کہ وہ عدلیہ اور وکلا کو مایوس نہیں کریں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھ پر اعتبار کریں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جج نہ کسی کو خوش کرتا ہے، نہ غمزدہ کرتا ہے، نہ کسی کو ’’پُرامید‘‘ کرتا ہے، نہ ’’مایوس‘‘ کرتا ہے، وہ تو صرف ’’انصاف‘‘ کرتا ہے۔ بدقسمتی سے شاہد خاقان عباسی کے ساتھ چیف جسٹس کی ملاقات انصاف کیا ’’ناانصافی‘‘ کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے کہ ناانصافی کرنے والے جج بھی ناانصافی کرنے سے قبل ’’سائل‘‘ اور ’’فریادی‘‘ سے ’’نجی ملاقاتیں‘‘ نہیں کرتے۔ فرض کیجیے جسٹس ثاقب نثار نے میاں نوازشریف اور ان کے خاندان کو ’’ریلیف‘‘ دے دیا تو یقینا ملک کا نظام عدل نہ جانے کب تک بے توقیر ہوجائے گا، لیکن اگر جسٹس ثاقب نثار نے میاں نوازشریف اینڈ کمپنی کو ’’مجرم‘‘ پاتے ہوئے سزا دے دی تو بھی ان کی شاہدخاقان عباسی کے ساتھ نجی ملاقات کبھی بھی تاریخ کے صفحات سے محو نہ ہوسکے گی۔ ’’انسانوں‘‘ کی مشکل یہ ہے کہ وہ ’’معاف‘‘ تو کرسکتے ہیں مگر ’’بھول‘‘ نہیں سکتے۔ ایک وقت تھا کہ بادشاہ بھی اس بات کے لیے فکرمند رہتے تھے کہ تاریخ انہیں کن الفاظ میں یاد کرے گی، مگر اب علماء، دانش وروں اور ججوں کو بھی اس بات کی پروا نہیں کہ تاریخ انہیں کن الفاظ میں یاد کرے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے صرف ’’آج‘‘ اہم ہے۔ گزرا ہوا کل اور آنے والا کل اب لوگوں کا مسئلہ نہیں۔ ایک مسلم معاشرے کے لیے یہ ایک ہولناک بات ہے۔ اس لیے کہ گزرا ہوا کل تاریخ ہے، اور آنے والا کل ’’آخرت‘‘۔
میاں نوازشریف کے صحافتی عاشق انہیں عہدِ حاضر کا داراشکوہ قرار دیتے ہیں، اور میاں نوازشریف نے اس خطاب پر خاموش رہ کر ثابت کیا ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو دورِ حاضر کا داراشکوہ خیال کرتے ہیں۔ مگر میاں صاحب کی ’’سیاسی پیاس‘‘ داراشکوہ کے خطاب کے کوزے میں موجود پانی سے نہیں بجھتی۔ چنانچہ وہ خود کو ’’نظریاتی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس دن میاں صاحب کا ’’سائل‘‘ اور ’’فریادی‘‘ چیف جسٹس یا مبینہ طور پر اُن کی پشت پر موجود قوتوں سے ’’انصاف کی بھیک‘‘ مانگ رہا تھا اُسی دن میاں صاحب فرما رہے تھے کہ میں ماضی میں ’’نظریاتی‘‘ تھا یا نہیں مگر اب ’’نظریاتی‘‘ بن چکا ہوں۔ مگر بدقسمتی سے میاں صاحب نظریاتی شخصیت کیا نظر آتے، ’’شخصیت‘‘ بھی نہیں ہیں۔ اس لیے کہ نظریاتی شخصیت کبھی ’’سائلوں‘‘ اور ’’فریادیوں‘‘ کا ’’کاروبار‘‘ نہیں کرتی۔ یہاں ہمیں میاں صاحب کے حوالے سے سلیم احمد کے دو شعر یاد آگئے:
دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہوگئے
اب ذرا نیچے اتریے آدمی بن جایئے
وسعتوں میں لوگ کھو دیتے ہیں خود اپنا شعور
اپنی حد میں آیئے اور آگہی بن جایئے
یہاں ہمیں بچوں کے لیے لکھی گئی اپنی نظم ’’کتے بنے رہیے‘‘ بھی یاد آرہی ہے۔ یہ نظم ہم نے 1988ء میں اُس وقت کہی تھی جب ہم کراچی یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ یہ نظم ماہنامہ ’’آنکھ مچولی‘‘ میں شائع ہوئی تھی، اور اب ہمارے بچوں کی نظموں کے مجموعے ’’آبشار‘‘ میں شامل ہے۔ نظم یہ ہے:
اک دن کسی بلی سے یہ کہنے لگا کتا
میں ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا بکرا
دس سینگ تھے، چھے کان تھے، نو پائوں تھے میرے
رہتے تھے مری تاک میں چھبیس لٹیرے
بکروں کی ریاست میں بڑا رعب تھا میرا
ہوتی تھی مرے حکم سے رات اور سویرا
شیروں سے ملاقات رہا کرتی تھی اکثر
دھو دھو کے مرے پائوں پیا کرتے تھے بندر
میں نے کئی بگڑے ہوئے ہاتھی کیے سیدھے
کہتے تھے مری شان میں لنگور قصیدے
آتی تھیں مرے واسطے جنت سے غذائیں
چلتی تھیں مرے واسطے رنگین ہوائیں
تعمیر ہوا کرتی تھی پھولوں سے سواری
خوشبو سے سلا کرتی تھی پوشاک ہماری
بلی نے سنی بات جو کتے کی تو بولی
حضرت کسی نادان کو دیجے گا یہ گولی
باتوں سے مجھے آپ کی اندازہ ہوا ہے
جو آپ کا مالک ہے وہ گپ باز بڑا ہے
انسانوں میں گپ بازی کی عادت ہے بہت عام
لیکن میاں حیوانوں کو گپ بازی سے کیا کام
جو بات حقیقت میں ہو گزری وہی کہیے
بہتر ہے یہی بات کہ کتے بنے رہیے
ایسا نہیں ہے کہ تاریخ میں نظریاتی ’’انسان‘‘ موجود ہی نہیں۔ میاں صاحب اور ان کے کیمپ کی معلومات میں اضافے کے لیے چند نظریاتی لوگوں کا ذکر ناگزیر ہے۔
سقراط ایک نظریاتی آدمی تھا۔ اس کو حق گوئی کی پاداش میں موت کی سزا سنائی گئی تو اس کے شاگردوں نے اسے جیل سے فرار کرانے کا منصوبہ بنایا مگر سقراط نے انکار کیا۔ سقراط کی موت کا وقت قریب آیا تو اس کا ایک شاگرد رونے لگا۔ سقراط نے پوچھا: کیوں روتے ہو؟ کہنے لگا: آپ نے کوئی جرم نہیں کیا پھر بھی مارے جارہے ہیں۔ سقراط نے کہا کہ نالائق کیا تُو یہ چاہتا ہے کہ میں جرم کرتا اور اس کی پاداش میں مارا جاتا! سقراط کا یہ ’’نظریاتی بیان‘‘ ڈھائی ہزار سال سے زندہ ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا قصہ کل کی بات ہے۔ ختمِ نبوت کے دفاع کے جرم میں مولانا کو موت کی سزا سنائی گئی۔ ایک مرحلے پر حکومت نے کہا کہ آپ معافی مانگ لیں موت ٹل جائے گی۔ مولانا نے کہا: جب میں نے کوئی جرم ہی نہیں کیا تو معافی کس بات کی مانگوں؟ روایت ہے مولانا کو جس صبح پھانسی دی جانی تھی اس سے قبل رات میں مولانا خراٹے لے کر سورہے تھے۔ بنگلہ دیش میں مولانا کے کئی کارکنوں کو پاکستان سے محبت کے الزام میں پھانسیاں دی گئیں۔ اُن سے کہا گیا معافی مانگ لو قصہ ختم ہوجائے گا۔ مگر انہوں نے معافی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور موت کو گلے لگالیا۔ ہمیں ایسے درجنوں قصے یاد ہیں، مگر میاں صاحب اور اُن کے کیمپ کے لیے تین قصے بھی کافی ہیں۔ تو ایسی ہوتی ہیں ’’نظریاتی شخصیات‘‘۔
بلاشبہ میاں نوازشریف نے شاہد خاقان عباسی کے ساتھ چیف جسٹس کو ملاقات پر ’’مائل‘‘ یا ’’مجبور‘‘ کرکے ’’بڑا ہاتھ‘‘ مارا ہے۔ اس ہاتھ کا اپنا ایک پس منظر ہے۔ حذیفہ رحمان میاں نوازشریف کے ترجمان اخبار روزنامہ جنگ کے کالم نگار ہیں۔ انہوں نے 5 اکتوبر 2017ء کے روز شائع ہونے والے اپنے کالم میں دو بڑے دعوے کیے۔ اُن کا پہلا دعویٰ یہ تھا کہ سول اور عسکری تعلقات کے حوالے سے میاں شہبازشریف کے جو نظریات ہیں وہ حذیفہ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ حذیفہ کا دوسرا دعویٰ یہ تھا:
’’پاکستانی سیاست میں پہلی مرتبہ ’’پنجابی سیاست دان‘‘ اور متحرک قوتوں کا آمنا سامنا ہوا ہے۔ اس مرتبہ اکھاڑہ پنجاب ہے، پنجابی سیاست دان کو مائنس کرنا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جارہا ہے۔‘‘
حذیفہ رحمان اپنے دعوے کے مطابق میاں شہبازشریف کے بے حد قریب ہیں، چنانچہ میاں صاحب کے بارے میں اُن کا بیان ’’گھر کی گواہی‘‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ غورکیا جائے تو حذیفہ نے میاں صاحب کی ’’طاقت‘‘ کے ایک ’’اہم پہلو‘‘ کو آشکار کیا ہے۔ مگر یہ پہلو ہمارے اسلامی، تہذیبی اور قومی تشخص کے لیے ’’کلنک کے ٹیکے‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن میاں نوازشریف کے گھر کے بھیدی حذیفہ رحمان کی رائے بھی اچانک تبدیل ہوگئی ہے۔ 5 اکتوبر 2017ء کے کالم میں وہ کہہ رہے تھے کہ متحرک قوتوں کو پنجابی سیاست دان سے نمٹنے کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہے، مگر 20 مارچ 2018ء کے کالم میں حذیفہ رحمن نے لکھا ہے:
’’مسلم لیگ (ن) اور اداروں کے درمیان فاصلے بہت بڑھ چکے ہیں۔ حکمران جماعت کے نمائندے اُڑان بھرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں… مائنس نوازشریف کے بعد اب مائنس نواز لیگ ہوتا نظر آرہا ہے، عام انتخابات کے بجائے ٹکرائو کی پالیسی نے نقصان پہنچایا ہے… … وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سے ملاقات کرکے مثبت پیغام دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حالات جہاں پہنچ گئے ہیں اس میں صرف ایک ادارے سے بات چیت کرکے حالات کو ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ عدلیہ بھی ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہے… مسلم لیگ (ن) نے جس جنگ کا آغاز کیا ہے۔ یہ جنگ دس سال بعد جچتی تھی۔‘‘
حذیفہ رحمان کے کالم کے اقتباسات پڑھنے کے بعد ’’ایمان تازہ‘‘ کرنے کے لیے سلیم احمد کے دونوں شعر اور بچوں کے لیے لکھی گئی ہماری نظم ایک بار پھر پڑھ لیجیے۔ مگر چلتے چلتے اس بات پر غور کرلیجیے کہ نوازشریف کیمپ شاہد خاقان عباسی اور چیف جسٹس کی ملاقات کو ’’مثبت پیغام‘‘ یا “Game Changer” کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شریف کیمپ حذیفہ کے الفاظ میں سپریم کورٹ کو ’’ایوانِ عدل‘‘ نہیں، ملکی سیاست کا ایک ’’اسٹیک ہولڈر‘‘ سمجھتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ سپریم کورٹ کی تعریف نہیں اُس کی مذمت ہے، اس لیے کہ عدلیہ کو Power Politics سے بلند ہونا چاہیے۔ جو عدلیہ ایسی نہیں اُسے عدلیہ کہنا عدلیہ کی توہین ہے۔

Leave a Reply