دنیا جرائم سے کیوں بھر گئی؟

انسان روحانی اعتبار سے ترقی کرتا ہے تو فرشتوں سے بہتر ہوجاتا ہے، لیکن روحانی تنزل کا شکار ہوتا ہے تو شیطان سے بدتر نظر آنے لگتا ہے۔ اسی لیے انسان کو ایک جانب اشرف المخلوقات اور خلیفۃ اللہ کہا گیا ہے، اور دوسری طرف اسے اسفل السافلین قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کے موجودہ منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو ہر طرف جرائم کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ اس سیلاب نے انسان کے اصل تشخص کو اتنا مسخ کردیا ہے کہ بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی۔ اسی لیے سلیم احمد نے کہا ہے ؎

دیکھ کر انسان کو کہتی ہے ساری کائنات

یہ تو ہم میں سے نہیں ہے یہ کوئی باہر کا ہے

اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے انحرافات نے اسے پوری کائنات کے لیے اجنبی بنادیا ہے، یہاں تک کہ زمین پر انحرافات، جرائم اور گناہوں کے بوجھ کو دیکھ کر شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ؎

زمیں کا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہے

قیامت ہے قیامت کا نہ آنا

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ دنیا جنتِ ارضی کا منظر پیش کررہی ہے۔ سرسید نے برطانیہ اور فرانس کا دورہ کیا تو انہیں دونوں ملک دیکھ کر خیال آیا کہ جنت ان ملکوں سے یقینا بہتر نہیں ہوگی۔ مگر یہ انسان کی مادّی ترقی کا قصہ ہے۔ لیکن مادّہ اور مادّیت پرستی انسان کا اصل تشخص نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی مادّی ترقی جتنی بڑھ رہی ہے انسان کی روحانی، نفسیاتی اور جذباتی پیاس میں اتنا ہی اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتِ حال نے زندگی کو ناقابلِ برداشت بنادیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات اور دن کا فرق مٹ گیا ہے اور جنت و جہنم اس طرح آمیز ہوگئے ہیں کہ ان کی تمیز باقی نہیں رہ گئی، اور شاعر احتجاج کرتے ہوئے کہہ رہا ہے ؎

رات میں دن کی آمیزش ہے، دن میں رات کی شرکت ہے

جنت جیسی دوزخ دنیا، دوزخ جیسی جنت ہے

سوال یہ ہے کہ جنت جیسی دوزخ اور دوزخ جیسی جنت کا انسان کیا کرے؟ یقینا اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ جنت جیسی دوزخ اور دوزخ جیسی جنت کیوں وجود میں آئی ہے؟ آخر انسان جرم کیوں کرتا ہے اور ہماری دنیا جرائم کے سیلاب میں کیوں ڈوب گئی ہے؟

قرآن مجید فرقانِ حمید کا ارشاد اس سلسلے میں واضح ہے۔ قرآن مجید نے انبیاء و مرسلین کی بعثت کے دو اسباب بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، اور دوسرا یہ کہ وہ نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کتاب و حکمت کی تعلیم اور نفس کے تزکیے کے بغیر دنیا کا کوئی انسان حقیقی معنوں میں انسان نہیں بن سکتا۔ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان دراصل وہی ہے جس کی زندگی خدا مرکز ہو۔ اور انسان کو حقیقی معنوں میں خدا مرکز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی زندگی کو علم مرکز بنایا جائے، اور نفس کے تزکیے کے ذریعے اس کے روحانی، اخلاقی، علمی، نفسیاتی، جذباتی اور احساساتی ارتقا کو ممکن بنایا جائے۔ ایک سطح پر علم اور حکمت ہم معنی الفاظ ہیں، دوسری سطح پر کتاب کے علم کی اصطلاح مخلوق مرکز، اور حکمت کی اصطلاح خالق مرکز ہے اور اس کا تعلق خالق کی ذات اور صفات کے فہم سے ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ علم مخلوق مرکز ہو یا خالق مرکز، اس کا تعلق بہرحال ’’الکتاب‘‘ ہی سے ہے۔ نفس کا تزکیہ بھی علم کے بغیر ممکن نہیں، لیکن تزکیے کا مرکز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت ہے جو ریاضت اور عزیمت کے سفر کو ممکن بناتی ہے۔ اصول ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اسی کی طرح ہوجاتا ہے۔ صوفیہ نے نفس کو روح اور جسم کے درمیان ایک برزخ قرار دیا ہے، اور فرمایا ہے کہ نفس روح کے قریب ہوتا ہے تو منور ہوجاتا ہے، جسم کے قریب ہوتا ہے تو تاریک ہوجاتا ہے، اس لیے کہ روح ایک روشنی ہے اور جسم تاریکی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نفس کے تزکیے کے بغیر نفسِ امارہ نفس لوامہ میں، اور نفسِ لوامہ نفسِ مطمئنہ میں تبدیل نہیں ہوسکتا، اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو انسان کا ظاہر خواہ کتنا ہی ’’مذہبی‘‘ یا ’’روحانی‘‘ نظر آنے لگے، اُس کے باطن کی ’’مذہبیت‘‘ اور ’’روحانیت‘‘ اور اس کی اصل ’’انسانیت‘‘ میں کوئی جوہری فرق واقع نہیں ہوگا۔ لیکن ان باتوں کا زیرِ بحث موضوع سے کیا تعلق ہے؟

قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں صاف کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بدی (فجور) اور پرہیزگاری (تقویٰ) انسان کے نفس پر الہام کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی صاف صاف کہی ہے کہ وہ شخص فلاح پاگیا جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور وہ شخص نامراد ہوا جس نے نفس کو دبا دیا۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک اور طرح بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے اسے دونوں راستے بتادیے۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں بھی باَلفاظِ دیگر یہی بات کہی گئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی۔ یہاں ایک اور حدیث شریف کا ذکر ضروری ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ اپنی فطرت، ایک اور حدیث شریف کے مطابق دینِ حنیف پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے عیسائی، یہودی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ اس منظرنامے میں شیطان بھی موجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کا کھلا دشمن قرار دیا ہے اور اس کا کام انسان کو گمراہ کرنا ہے۔ ان حقائق کو دیکھا جائے تو انسان کا نفس خلقی طور پر نیکی و بدی کا مرکز ہے۔ انسان کو علمِ صحیح حاصل ہوگا اور وہ علم قوی ہوگا اورانسان کا نفس تزکیہ یافتہ ہوگا تو انسان پر خیر اور نیکی غالب ہوگی۔ انسان کا علم ناقص اور کمزور ہوگا اور اس کا نفس تزکیے سے محروم ہوگا تو کسی خارجی ترغیب کے بغیر بھی انسان بدی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔ ایسا شخص آسانی کے ساتھ شیطان کا شکار بن سکتا ہے۔ اگر انسان کے والدین اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ماحول بھی ایک بہت بڑی قوت ہے۔ ماحول اچھا ہوگا تو انسان پر خیر غالب ہوگا۔ ماحول پر باطل کا غلبہ ہوگا تو انسانوں کی عظیم اکثریت ہر طرح کی خرابیوں اور گمراہیوں میں مبتلا ہوگی۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہدِ مبارکہ اس لیے بے مثال ہے کہ اس عہد میں علم بھی قوی تھا، نفوس کے تزکیے کے لیے انسانی تاریخ کی عظیم ترین ہستی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں موجود تھی۔ ان دو وجوہ کے باعث خارجی ماحول بھی خیر، معنویت اور حسن و جمال سے بھر گیا تھا۔ اس کا نتیجہ وہ صحابۂ کرام ہیں جن سے بہتر انسان انبیاء و مرسلین کے سوا دنیا نے کبھی نہیں دیکھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حکم پر جہاد سے انکار کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف کہا کہ آپ کو جہاد کرنا ہے تو آپ کریں اور آپ کا خدا کرے، ہم تو دشمن سے پنجہ آزمائی کرنے والے نہیں، کیونکہ ہمارا دشمن قوی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے ایک ایسا تھا جس کی مخبری کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام گرفتار ہوئے اور عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق انہیں پھانسی دے دی گئی۔ اس کے برعکس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا یہ عالم تھا کہ وہ پروانوں کی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے گرد طواف کرتے رہتے تھے۔ جہاد کا مرحلہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے کہا کہ ہم حضرت موسیٰؑ کے اصحاب کی طرح نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ دیں۔ چنانچہ غزوۂ بدر میں 313 بے سروسامان صحابۂ کرام ایک ہزار کے لشکر جرار کے سامنے جاکھڑے ہوئے اور کسی ایک صحابیؓ نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ کہا کہ سازو سامان کے اعتبار سے کمزور لوگوں کو ’’قوی دشمن‘‘ کے سامنے کیوں لاکھڑا کیا گیا ہے؟ بے مثال علم، بے مثال رہبر اور بے مثال ماحول ہی ایسے بے مثال لوگ پیدا کرسکتا ہے۔

اس سلسلے میں ہابیل اور قابیل کے قصے پر ایک نظر ڈال لینا ضروری ہے۔ ہابیل اور قابیل دونوں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، مگر ہابیل خیر، قوی علم اور تزکیہ یافتہ نفس کی علامت ہے، اور قابیل شر، کمزور علم اور غیر تزکیہ یافتہ نفس کی علامت ہے۔ اس قصے میں ماحول کا جبر کہیں موجود نہیں۔ یعنی اس قصے کی پشت پر نہ کوئی سماجیات موجود ہے، نہ معاشیات… اس کی پشت پر نہ کسی سیاست کا شائبہ موجود ہے اور نہ کسی ابلاغیاتی نظام کا اس سلسلے میں کوئی کردار ہے۔ قابیل صرف اپنے نفسِ امارہ کی گرفت میں ہے، اور شیطان کی ترغیب و تحریص نفسِ امارہ پر ہی کارگر ہوتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نہ رحمن خود کسی انسان کو کہیں لے جاتا ہے، نہ شیطان۔ قرآن کہتا ہے: انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ بقول مولانا ظفر علی خان ؎

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے نفس میں موجود خیر کے داعیے کو پہچانتا ہے، اس کی طرف رغبت رکھتا ہے، خدا اسی کی مدد کرتا ہے، اور بے شک خدا بے پناہ مدد کرنے والا ہے۔ مگر مدد کی شرط حق اور خیر کی طرف رغبت اور اس کے لیے کوشش ہے۔ شیطان انسان کے نفس کو اپنی ترغیبات و تحریصات کے لیے سازگار (Receptive) پاتا ہے تو وہ اپنا کام شروع کرتا ہے۔ وسوسے ڈالتا ہے، شر سے تعمیر ہونے والے حالات و جذبات کو انسان کے قلب، ذہن اور نفس پر وارد کرتا ہے۔ قابیل کے ساتھ یہی ہوا۔ قابیل کے نفس نے اُسے گمراہ کردیا اور اُس نے ایک عورت کے لیے اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا۔ اس کے برعکس ہابیل نے صاف کہا کہ میں تجھے مارنے والا نہیں کیونکہ میں اپنے رب سے ڈرتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہابیل کا علم بھی قوی تھا اور نفس بھی مزّکی تھا۔ خارجی ماحول کا ہابیل کی تلاشِ فکر اور قابیل کی گمراہی اور ضلالت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب واضح ہے کہ انسان جرم کیوں کرتا ہے؟ اس سوال کا جواب بھی عیاں ہے کہ دنیا جرائم کے سیلاب میں کیوں غرق ہوگئی ہے؟

تجزیہ کیا جائے تو ہمارے عہد کے 7 ارب انسانوں کی عظیم اکثریت چار بلائوں کی گرفت میں ہے۔ پہلی بلا یہ ہے کہ انسانوں کے پاس کتاب و حکمت کا علم نہیں ہے۔ ہے تو علم کمزور ہے اور مؤثر نہیں۔ دوسری بلا یہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت یا تو نفسِ امارہ کے تصور سے آگاہ ہی نہیں ہے، ہے تو اسے نفس کے تزکیے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی، یا اس کے نفس کے تزکیے کے لیے کوئی دستیاب ہی نہیں۔ تیسری بلا یہ ہے کہ نفوس کے غیر مزّکی ہونے کی وجہ سے شیطان کی قوت بہت بڑھ گئی ہے۔ چوتھی بلا یہ ہے کہ ہمارے عہد میں ماحول کا جبر اتنا بڑھ گیا ہے کہ ماحول کے مطابق ڈھل جانے کو Normal بات سمجھا جاتا ہے، اور ماحول کے خلاف بغاوت کو Abnormal رویہ گردانا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال نے نیکی کو بہت ہی مشکل اور انحرافات اور گناہ کو انتہائی سہل بنادیا ہے۔ ماحول کے جبر کا اندازہ کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ ایک طرف سیاسی جبر ہے، دوسری طرف عمرانی جبر ہے، تیسری طرف معاشی جبر ہے ، چوتھی طرف ابلاغی جبر ہے، پانچویں طرف گھر، محلے، آس پاس موجود لوگوں اور ملکی نظام کا جبر ہے، چھٹی طرف باطل میں ڈوبی ہوئی دنیا کا بین الاقوامی جبر ہے۔ جبر کی ان تمام صورتوں نے مل کر ایک اتنا بڑا اجتماعی جبر تخلیق کرڈالا ہے جس کی عالمی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس جبر نے انسانوں سے اُن کا خدا چھین لیا ہے۔ اس جبر نے انسانوں سے کتاب و حکمت کا علم چھین لیا ہے۔ اس جبر نے خدا اور کتاب اور نبوت کے ادارے کو اربوں لوگوں کے لیے ماضی کی چیز بنادیا ہے۔ اس جبر نے انسان کو روحانی زندگی کے تصور سے محروم کردیا ہے۔ اس جبر نے انسان کو نفس کے مراتب اور اس کے تزکیے کے تصور اور ضرورت سے لاتعلق کردیا ہے۔ اس جبر نے انسان کو سیاسی حیوان بنادیا۔ اس جبر نے انسان کو معاشی حیوان بنادیا۔ اس جبر نے انسان کو طاقت اور مال کا پجاری بنادیا۔ اس جبر نے انسان کو جنسی درندہ بنادیا۔ اس جبر نے انسان کو متبادل نظام، متبادل زندگی اور متبادل تصورات تک، ہر تصور سے محروم کردیا۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا ہر طرح کے جرائم اور گناہوں سے بھر گئی ہے۔ عصرِ حاضر کی غالب قوتوں کے برپا کیے ہوئے نظام کے جبر کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ افراد کیا اقوام بھی یہ سوچ نہیں سکتیں کہ وہ مغرب کے تصورِ آزادی یا مغرب کے تصورِ جمہوریت کی مخالفت کریں گی۔ وہ ایسا کریں گی تو اسے ’’عہدِ حاضر کا کفر‘‘ سمجھا جائے گا اور اس کی سزا موت ہوگی۔ سیاسی موت، معاشی موت، سفارتی موت، ابلاغی موت۔ یہ نظام کا جبر ہے جس کے تحت امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے نائن الیون کے بعد کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر افغانستان پر حملہ کرکے اسے تاراج کردیا۔ یہ نظام کا جبر ہے کہ امریکہ نے ’’مفروضہ‘‘ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی آڑ میں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور دنیا میں اس کی مزاحمت تو کیا ہوتی اس کی ’’مذمت‘‘ تک نہ ہوسکی۔ بلاجواز جنگ کھلی انسان دشمنی اور بین الاقوامی سطح کا جرم ہے، مگر مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات ایرک فرام کی تصنیف The Anatomy of Human Destructivenessکے مطابق جدید مغرب گزشتہ چار سو سال میں 2600 سے زیادہ جنگیں ایجاد کرچکا ہے، مگر اس کے غلبے، اس کے پروپیگنڈے اور اس کے تخلیق کیے ہوئے نظام کا جبر یہ ہے کہ کوئی مغرب کو ’’انسان دشمن‘‘ اور ’’جنگ پرست‘‘ نہیں کہتا، بلکہ سب اسے ’’مہذب‘‘ اور ’’انسان دوست‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلام سراسر امن ہی امن ہے اور مسلمان گزشتہ دو سو سال سے دفاعی جنگ لڑنے کے سوا کچھ نہیں کررہے، مگر مغرب نے پراپیگنڈے کے زور پر مغرب میں اسلام کا خوف یا ’’اسلاموفوبیا‘‘ تخلیق کر ڈالا ہے، اور اس نے مذہب کی بات کرنے والوں کو بھی ’’دہشت گرد‘‘ اور نام نہاد ’’سیاسی اسلام‘‘ کے علَم بردار بنادیا ہے۔ اکبر نے ڈیڑھ سو سال پہلے کیا خوب کہا تھا ؎

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

مغرب نے خدا اور مذہب کے انکار کے بعد جو دنیا تخلیق کی، وہ مادی اعتبار سے تو بلاشبہ ’’ترقی یافتہ‘‘ ہے مگر اس کے روحانی، علمی، اخلاقی، نفسیاتی اور جذباتی زوال کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اس کا ایک ’’ثبوت‘‘ مغرب میں برپا ہونے والا جنسی طوفان ہے۔ اس طوفان کے برپا ہونے سے بہت پہلے مغربی تہذیب بھی ایک خدا مرکز تہذیب تھی۔ ایک مذہب مرکز تہذیب تھی۔ اس کی ایک اخلاقیات تھی، اور یہ اخلاقیات مطلق یا Absolute تھی۔ مغربی تہذیب کا انسان ایک روحانی انسان تھا، ایک اخلاقی انسان تھا۔ لیکن مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کیا تو روحانی انسان اور اخلاقی انسان سیاسی، معاشی اور جنسی حیوان بن گیا۔

مغرب میں پیدا ہونے والا یہ جنسی حیوان کئی مراحل سے گزرا ہے۔ ڈی ایچ لارنس مغرب کے بڑے ادیبوں میں سے ایک ہے۔ اس کا ناول Lady Chatterley’s Lover کوششوں کے باوجود 1962ء تک برطانیہ میں مکمل طور پر شائع نہیں ہوسکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ برطانیہ کی حکومت اسے فحش سمجھتی تھی۔ برطانیہ کی جس وکٹورین اخلاقیات نے لارنس کے ناول کو اخلاق کے لیے ضرر رساں سمجھا وہ بہت صحت مند اخلاقیات نہیں تھی۔ اس لیے کہ اس اخلاقیات پر ’’مذہب‘‘ سے زیادہ ’’قدامت پسندی‘‘ کا اثر تھا۔ لیکن اس معاملے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغرب آج سے محض چند دہائیوں قبل جنس کے حوالے سے کتنا حساس تھا۔ مگر مغرب میں مذہب کے زوال اور فرائیڈ کے تصورات کے تحت برپا ہونے والے جنسی انقلاب نے دیکھتے ہی دیکھتے مغرب کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس انقلاب کے پہلے مرحلے میں آزادانہ جنسی تعلقات کی راہ ہموار ہوئی۔ اس انقلاب کے دوسرے مرحلے میں عورت کے صنعتی و تجارتی استعمال نے عورت کو Sex Symbol میں ڈھال کر اسے ایک شے بنادیا۔ اس انقلاب کے تیسرے مرحلے میں مغرب کے جنسی انقلاب نے ہم جنس پرستی کو ایک طوفان بنایا۔ جنسی انقلاب کے چوتھے مرحلے میں مغرب کے معاشروں میں Incest یعنی تحریم کے رشتوں میں جنسی تعلق کو وبا بنایا۔ انٹرنیٹ نے ان تمام جنسی درندگیوں کو عالمگیر بناکر پوری دنیا کو غلاظت سے بھر دیا۔ معصوم اور مظلوم زینب کے واقعے نے پاکستان میں ان مسائل پر معاشرے کو متوجہ کیا ہے۔ ہم انہی کالموں میں مغرب کی جنسی درندگی کے حوالے سے اہم اعداد و شمار آپ کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں۔ امریکہ مغرب کی نام نہاد سیکولر، لبرل اور ’’آزاد دنیا‘‘ کا رہنما ہے۔ چنانچہ آیئے دیکھتے ہیں کہ امریکہ میں تحریم کے رشتوں میں جنسی تعلق یا Incest کی صورت حال کیا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت امریکہ میں دو کروڑ کے لگ بھگ Incestکے کیس موجود ہیں۔ فرانس یورپ کا سب سے سیکولر اور سب سے لبرل ملک ہے۔ صدر سرکوزی کے دور میں فرانسیسی پارلیمنٹ کے رکن لوئس فورٹ ممبر (Louise Fort Member) نے کہا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق فرانس میں Incest کے 20 لاکھ کیس موجود ہیں۔ امریکہ سے شائع ہونے والی ایک کتاب کے مطابق صرف 1993 ء میں امریکہ میں Incest کے دو، چار سو نہیں بلکہ 63000 واقعات رونما ہوئے۔ ان میں سے 29 فیصد واقعات میں حقیقی والدین، یا کتاب میں موجود اصطلاح کے مطابق Natural Parent ملوث تھے۔ کتاب کے مطابق Incest کا نشانہ بننے والے بچوں میں 87 فیصد لڑکے اور باقی لڑکیاں تھیں۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ کیجیے:

Child abuse and domestic violence (by- Mellisa J.Doak-Page-28-29)امریکی معاشرے کی یہ تصویر شیطنت سے بھی آگے کی چیز ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اہم بات یہ ہے کہ آج سے ایک صدی قبل خود امریکہ میں Incest ایک وبا نہیں تھی۔ اس بات کا ہمارے معاشرے سے ایک گہرا تعلق ہے۔ ہم فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہونے والے اپنے بعض گزشتہ کالموں میں عرض کرچکے ہیں کہ 1980ء کی دہائی میں ہمارے معاشرے کا یہ حال تھاکہ پی ٹی وی کی انائونسر کے سر سے دوپٹہ اتر جاتا تھا تو لوگ احتجاج کرتے تھے، اس لیے کہ پی ٹی وی ایک قومی ادارہ تھا۔ مگر آج ہمارے ٹی وی چینلز پر عورت کو جنسی علامت یا Sex Symbol کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور پورا معاشرہ سویا پڑا ہے۔ فلموں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ننگی فلموں یا Pornography نے مغربی ملکوں میں برپا جنسی طوفان کو ہمارے معاشرے میں داخل کردیا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم سے محروم، نفسِ امارہ میں ڈوبے ہوئے، اور بدترین ماحول کے جبر میں مبتلا معاشرے میں درجنوں بچے جنسی درندگی کا شکار ہورہے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مغرب کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی مرحلہ وار طریقے سے جنسی جرائم کی سنگینی اور شدت بڑھ رہی ہے۔ اس کا ایک ٹھوس ثبوت روزنامہ جنگ اور روزنامہ جسارت میں شائع ہونے والی خبر ہے۔ روزنامہ جنگ کراچی کی 30 جنوری 2018ء کی اشاعت میں صفحۂ اول پر موجود خبر کے مطابق کوئٹہ میں 13 سالہ لڑکی طیبہ کے ساتھ زیادتی اور اس کے قتل کا معمّا حل ہوگیا ہے اور لڑکی کے بھائی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اس گھنائونے جرم کا مرتکب ہوا ہے اور اُس نے اس خیال سے اپنی بہن کو مار ڈالا کہ وہ زندہ رہی تو اس کے کرتوت سب کو بتادے گی۔ زینب کا واقعہ ہولناک تھا مگر کوئٹہ کی 13 سالہ بچی طیبہ کا سانحہ اس اعتبار سے ہولناک ترین ہے کہ یہ اخلاقی زوال کی بدترین سطح کو ظاہر کررہا ہے۔ اس سانحہ سے معلوم ہورہا ہے کہ معاشرے کی اخلاقی حالت مسلسل خراب ہورہی ہے۔ جنسی طوفان کئی حصاروں کو مسمار کرچکا ہے اور اب وہ باقی حصاروں کو منہدم کرنے کے لیے ان سے سر ٹکرا رہا ہے۔ ہم انہی کالموں میں عرض کرچکے ہیں کہ ہم 30 سال پہلے جن واقعات کا رونما ہونا ناممکن سمجھتے تھے وہ اب ہمارے یہاں ’’معمول‘‘ بن رہے ہیں۔ اسی طرح آج ہم جن واقعات کو ناممکن خیال کررہے ہیں وہ صرف پانچ سے دس سال کے اندر ’’ممکن‘‘ بن کر ہمارے پورے مذہبی، روحانی، اخلاقی، علمی اور تہذیبی سانچے کا مذاق اڑا رہے ہوں گے۔ طیبہ کے ساتھ رونما ہونے والا سانحہ اس سلسلے کا ’’پہلا واقعہ‘‘ ہے۔ یہ واقعہ ریاستی نظام، حکمرانوں بلکہ پورے معاشرے کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر ہے۔ ہم اگر مغرب سے آکر پورے معاشرے کو گرفت میں لینے والی بلائوں کا قلع قمع نہیں کریں گے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سیلاب صرف ایک دروازہ توڑ کر نہیں رہ جاتا، وہ بالآخر تمام دروازوں کو منہدم کردیتا ہے۔ ہمارے کئی دروازے پہلے ہی ٹوٹ چکے ہیں۔ ہمارے کئی حصار پہلے ہی مسمار ہوچکے ہیں۔ آیئے ہم ایک بار پھر حقیقی معنوں میں خدا مرکز معاشرے کی طرف لوٹیں۔ حقیقی معنوں میں کتاب و حکمت کی بنیاد پر کھڑی ہوئی زندگی خلق کریں۔ حقیقی معنوں میں نفسِ امارہ سے نفسِ مطمنۂ کی طرف مراجعت کے لیے رنجِ سفر کھینچیں۔ حقیقی معنوں میں ماحول کے مقامی اور بین الاقوامی جبر کو سمجھیں، سمجھائیں، اس کا پردہ چاک کریں، اور اس جبر کو توڑنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی معنوں میں پورے وجود کی قوت صرف کریں۔ اس انقلاب کے بغیر نہ ہم بدلیں گے، نہ دنیا بدلے گی۔ نہ ہم بچیں گے، نہ دنیا بچے گی۔ مسلمانوں کا بدلنا اور بچنا اس لیے ضروری ہے کہ حقیقی روحانی، اخلاقی اور علمی انقلاب کا امکان صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ کیونکہ صرف انہی کے پاس الکتاب ہے۔ صرف انہی کے پاس سیرت طیبہ کاسرمایہہے۔ صرف انہی کے پاس کتاب و حکمت کا علم ہے۔ صرف انہی کے پاس تزکیہ کی روایت ہے۔

Leave a Reply