میں اور میرا مطالعہ

میرے مطالعے کی ابتداء ’’سمعی علم‘‘ سے ہوئی۔ میری ابتدائی پرورش ننہیال میں ہوئی۔ میرے بڑے ماموں سید نفیس حسن حافظ قرآن تھے اور وہ چلتے پھرتے قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے تھے۔ میرے چھوٹے ماموں سید انیس حسن روزے نماز کے پابند تھے اور وہ ہر وقت ورد کرتے رہتے تھے۔ ہمارے گھر میں ہر وقت مذہب سے متعلق باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ ان باتوں کا محور خدا کی ذات تھی۔ اللہ بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، وہ ہمارا خالق ہے، مالک ہے، ہم اس کی طرف سے آئے ہیں اور بالاخر اسی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ میری عمر اس وقت چار پانچ سال تھی، ان باتوں میں جس بات کا میرے دل و دماغ پر سب سے زیادہ اثر ہوا وہ یہ تھی کہ اللہ بہت ہی بڑا ہے۔ ایک روز میں اپنی خالہ رئیسہ خاتون کے ساتھ ڈاکٹر کے یہاں سے آرہا تھا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ سامنے سے اللہ میاں چلے آرہے ہیں۔ میرے پورے وجود پر ہیبت، حیرت اور مسرت کی ملی جلی کیفیات طاری ہوگئیں۔ میں ڈر کر اپنی خالہ کے برقعے کے پیچھے چھپنے لگا۔ خالہ نے یہ دیکھا تو پوچھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
میں نے کہا۔ سامنے سے اللہ میاں آرہے ہیں۔‘‘ خالہ نے سامنے دیکھا تو ہنسنے لگیں۔ کہنے لگیں کہ اللہ میاں تھوڑی ہیں، یہ تو میاں محبوب ہیں۔ میاں محبوب ایک ریٹائرڈ ہیڈ کانسٹیبل تھے۔ ان کا قد سات فٹ سے بڑا تھا وہ ہمارے محلے سے کچھ فاصلے پر رہتے تھے۔ مگر میں نے اس روز اُن کو پہلی بار دیکھا تھا اور چوں کہ وہ انتہائی طویل قامت تھے اس لیے میرے ننھے سے ذہن نے انہیں دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ ہو نہ ہو یہی اللہ میاں ہیں۔ خدا سے متعلق سمعی مطالعے کا یہ پہلا بڑا نتیجہ تھا اور یہ نتیجہ میرے گھر میں عرصے تک اپنی گونج پیدا کرتا رہا۔ میرے گھر والے اکثر اس واقعے کا ذکر کرکے لطف اندوز ہوتے۔ اس واقعے سے مجھے یہ تو معلوم ہوگیا کہ ہم خدا کو نہیں دیکھ سکتے مگر اس کے باوجود خدا کی بڑائی کا احساس میرے شعور پر حاوی رہا۔ میں اکثر خدا کے بارے میں سوچتا رہتا۔ خدا سے متعلق میرے سمعی علم کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا بہت عمر میں میری ذہنی اور جذباتی زندگی کا محور و مرکز بن گیا۔
میرے سمعی مطالعے کا ایک پہلو یہ تھا کہ میرے بڑے ماموں اور بڑی ممانی کہانیوں کی دکان تھے۔ انہیں بادشاہوں، پریوں اور جانوروں کی درجنوں کہانیاں یاد تھیں۔ چناں چہ عشا کے بعد میں ان میں سے کسی ایک کو پکڑ لیتا اور پھر رات گئے تک کہانیوں کا دور چلتا رہتا۔ میرے بڑے ماموں کو قصہ چہار درویش سے گہری دلچسپی تھی۔ چناں چہ وہ اکثر رات کا کھانا کھانے کے بعد اپنی بیٹی سے قصہ چہار درویش پڑھ کر سنانے کے لیے کہتے۔ ہمارا خاندان جمع ہو جاتا اور ایک ڈیڑھ گھنٹے تک قصہ چہار درویش کی اجتماعی سماعت کا سلسلہ جاری رہتا۔
میرے باقاعدہ اور باضابطہ مطالعے کی ابتداء آٹھ سال کی عمر میں ہوئی۔ اس وقت میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ میری خالہ رئیسہ خاتون جنہوں نے میری ابتدائی پرورش کی اور جنہیں میں امی کہتا تھا مجھے سات آٹھ قصص الانبیاء خرید کر دے دیے۔ ان میں سے چار قصوں نے میرے شعور اور شخصیت پر اتنے گہرے اثرات مرتب کیے کہ اگر میں سو سال بھی زندہ رہوں گا تو یہ اثرات میرے ساتھ ہوں گے۔ ان قصوں میں ایک قصہ صبرِ ایوبؑ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ایوبؑ کو آزمایا اور انہیں صبر کی علامت بنادیا۔ میں اس قصے کو پڑھتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ روتا جاتا تھا اور پڑھتا جاتا تھا۔ اس قصے کا سب سے غم ناک واقعہ یہ تھا کہ جب سیدنا ایوبؑ پر پے در پے آزمائشیں آئیں تو ان کے خاندان والے تک پرائے ہوگئے۔ ایک روز سیدنا ایوبؑ کے بھائی ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے ایوب تجھ پر پڑنے والی مسلسل افتادوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تجھ سے کچھ بہت بڑے گناہ ہوگئے ہیں اور ان کی پاداش میں تجھ پر مصیبتیں نازل ہورہی ہیں۔ سیدنا ایوبؑ مابہ تھے مگر اپنے بھائیوں کے منہ سے یہ بات سن کر رو دیے۔ میں یہ واقعہ پڑھتا تو میری ہچکی بند جاتی۔ میں نے صبر ایوبؑ پچاس ساٹھ مرتبہ پڑھی ہوگی۔ صبر ایوب کے اس مطالعے نے صبر اور ضبط کو میری روح میں اُتار دیا۔ یہ صبر و ضبط بعد کی زندگی میں میرے بہت کام آیا۔ یہ صبر نہ ہوتا تو زندگی کی مشکلیں میرے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی تھیں۔ دوسرا قصہ جس نے میرے پورے وجود کو متاثر کیا وہ اصحاب کہف کا تھا۔
اصحاب کہف کفر اور شرک کے طوفان میں ایمان کی علامت تھے۔ ان کی خدا پرستی اور ان سے خدا کی محبت رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ یوں تو اصحاب کہف کا پورا قصہ ہی غیر معمولی ہے مگر اس قصے کا وہ حصہ مجھ پر رقت طاری کردیتا تھا جب اصحاب کہف کا ایک کردار یملیخا غار میں نیند سے بیدار ہونے کے بعد بستی میں کھانا لینے جاتا ہے اور اس الزام میں پکڑا جاتا ہے کہ اس نے کسی مدفون خزانے پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ یملینی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اور اس کے ساتھی 309 سال سو کر اُٹھے ہیں۔ یملیخا کو قاضی کی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ قاضی نے یملیخا سے پوچھا کہ کیا تم اس شہر میں اپنے گھر کو پہچانتے ہو؟ یملیخا اس سوال کا جواب اثبات میں دیتا ہے لیکن یملیخا شہر میں اپنا گھر ڈھونڈنے نکلتا ہے تو 309 سال میں شہر یکسر بدل چکا ہے۔ وہ کبھی ایک گلی میں جاتا ہے، کبھی دوسری گلی میں، لڑکوں کا ایک ہجوم اس کے ساتھ ہے۔ یملیخا حیران و پریشان پورے شہر کی خاک چھان رہا ہے۔ یہ صورت حال دیکھ کر رحمت خداوندی جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے یملیخا کی رہنمائی کے لیے ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتے کی آمد سے پہلے تک یملیخا کا جو حال تھا میں آٹھ نو سال کی عمر میں پڑھتا تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے تھے۔ میں نے اصحاب کہف بھی درجنوں بار پڑھی۔ اس کتاب کو پڑھ کر میں نے جانا کہ خدا کی محبت اور خدا کی عنایت کیا ہوتی ہے۔ اصحاب کہف انبیاء و مرسلین میں سے نہ تھے۔ وہ عام لوگ تھے، مگر ان کی خدا پرستی ایسی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں رہتی دنیا تک کے لیے ایک نمونہ اور ایک مثال بنادیا۔ یہاں تک کہ اصحاب کہف کے کتے کا ذکر بھی اصحاب کہف کے ساتھ ہوتا ہے۔

Leave a Reply