نظریاتی جدوجہد اور جماعت اسلامی

انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جدوجہد کی جتنی صورتیں موجود ہیں، نظریاتی جدوجہد ان تمام صورتوں میں سب سے زیادہ مشکل اور سب سے زیادہ دشوار جدوجہد ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے ماحول کے زیراثر ہوتی ہے اور جس کا جیسا ماحول ہوتا ہے وہ اسی ماحول کے تحت زندگی گزارتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ نظریاتی جدوجہد انبیا اور مرسلین کی جدوجہد ہے، یہ اولیا کی جدوجہد ہے، یہ مومنین کی جدوجہد ہے، اور آپ اس بات سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں کہ جتنے بھی انبیا اور مرسلین اس دنیا میں آئے انھوں نے جس ماحول میں اپنے کام کی ابتدا کی اُس میں کہیں کفر کا غلبہ تھا، کہیں شرک کا غلبہ تھا اور کہیں گمراہی عام تھی، اور انھوں نے جب ان چیزوں کو چیلنج کیا تو ان کے ماحول میں موجود لوگوں کی عظیم اکثریت نے یہ بات کہی کہ آپ ہم سے ایسی بات کہہ رہے ہیں جس کا ہمیں کوئی تجربہ اور مشاہدہ نہیں۔ ہم نے اپنے آبا و اجداد کو کفر پر کھڑا ہوا دیکھا ہے اور ہم بھی اسی کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔ یا اگر وہ اپنے شرک میں مبتلا تھے تو انھوں نے اپنے شرک پر اصرار کیا۔ یا اگر وہ ضلالت و گمراہی میں مبتلا تھے تو انھوں نے اپنی ضلالت و گمراہی پر اصرار کیا اور ایمان کی طرف آسانی سے مائل نہیں ہوئے۔ تو انسان اپنے ماحول کے زیراثر ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر بچہ اپنی فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘
تو ماحول اتنی زبردست قوت ہے کہ انسان جس ماحول کا اسیر ہوتا ہے اسی ماحول کے مطابق زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ پاکستان کا تجربہ آپ کے سامنے ہے۔ وہ تجربہ جس کی آپ خود اپنے علم اور مشاہدے کی بنیاد پر گواہی دے سکتے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو فرقہ پرستی میں ملوث ہے۔ وہ صرف اپنے فرقے کی فکر کو دیکھتے ہیں۔ اس کے سوا وہ کوئی اور بات سننے کو تیار نہیں۔ کچھ لوگ ہیں جنہوں نے مسلک کو ہی دین بنا لیا ہے اور وہ صرف مسلک کی بات سنتے ہیں اور دوسرے مسلک کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔کچھ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے صوبے کو، اپنی زبان کو، اپنی نسل کو، اپنے رنگ کو بنیاد بنا لیا ہے اور وہ اسی پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں، اور کوئی اور بات نہیں سنتے۔ تو انسان جس ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے اسی ماحول کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارتا ہے۔ چنانچہ نظریاتی جدوجہد سب سے مشکل جدوجہد ہے۔ ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اس جدوجہد کے بنیادی تقاضے کیا ہیں؟ جب تک ہم اس کے تقاضوں کو نہیں سمجھیں گے اس جدوجہد کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکیں گے۔ میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ نظریاتی جدوجہد کا سب سے بنیادی اور سب سے بڑا تقاضا ’’ایمان‘‘ ہے۔ کامل ایمان، راسخ ایمان ۔۔۔ ایسا ایمان جس میں اس کا قول اور اس کا فعل یکجا اور یک جان ہوجائیں۔ ایسا نہ ہو کہ کہہ کچھ رہے ہوں اور کرکچھ اور رہے ہوں۔ جہاں ہماری آرزو اور ہمارا عمل ایک نکتے پر جمع ہوجائیں، ایسے ایمان کی ضرورت ہے۔ اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایمان وہ چیز ہے جس پر ہماری پوری زندگی کا مدار ہے۔ جیسا جس انسان کا ایمان ہے ویسی اس کی زندگی ہے۔ جیسا جس انسان کا ایمان ہے ویسی اس کی آخرت ہے۔ اور اقبال نے کیا اچھی بات کہی ہے:
ولایت، پادشاہی، علمِ اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں؟فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں
اس شعر کی ایک سرسری سی تشریح میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ اقبال نے کہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی شخص کو اپنا ولی بناتے ہیں، اپنا دوست بناتے ہیں تو اس کا سبب اُس کا مال اور دولت نہیں ہوتی، اس کا رنگ اور اس کی نسل نہیں ہوتی، بلکہ اس کی بنیاد ایمان ہوتا ہے۔ جب خدا کسی کو اپنا دوست بناتا ہے، ولی بناتا ہے تو ایمان کی بنیاد پر بناتا ہے۔ اسی طرح جب خدا کسی کو اقتدار تفویض کرتا ہے، اس نے جب بھی کسی کو اقتدار تفویض کیا ہے اور جب میں یہ بات کہہ رہا ہوں تو اس سے مراد یہ ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کی بہت ساری صورتیں ہیں، ایک صورت یہ ہے کہ جبر کے ذریعے سے، زبردستی کے ذریعے سے، سازش کے ذریعے سے،کسی باطل کو آواز دے کر اقتدار حاصل کرلیا جائے۔ کوئی کہتا ہے میں پنجابی ہوں، کوئی کہتا ہے میں مہاجر ہوں، کوئی کہتا ہے میں پشتون ہوں، کوئی کہتا ہے میں بلوچی ہوں، تو وہ آواز دیتے ہیں اپنی لسانیت کو، اپنے پس منظر کو، اپنے صوبائی پس منظر کو۔۔۔ اور لوگ ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ یہ تجربہ تو آپ نے اپنی زندگی ہی میں دیکھا ہے۔ تو وہ باطل نظریات کو آواز دیتے ہیں، اس کی بنیاد پر لوگوں کو ابھارتے ہیں اور اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ تو یہ اقتدار حاصل کرنے کی کوئی جائز صورت نہیں ہے۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ خدا خود کسی کو صاحبِ اقتدار بناتا ہے تو اس کی بنیاد لسانیت نہیں ہوتی، صوبائیت نہیں ہوتی، اس کی بنیاد مال و دولت نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی بنیاد علم ہوتا ہے۔ خدا نے جب بھی کسی کو اقتدار تفویض کیا ہے اس کے ایمان کی بنیاد پر کیا ہے۔ تو خدا کا قرب اگر ملتا ہے تو ایمان کی بنیاد پر ملتا ہے، خدا کسی کو اپنا ولی بناتا ہے تو ایمان کی بنیاد پر بناتا ہے۔ علمِ اشیا کی جہانگیری کا مطلب یہ ہے کہ خدا جب کسی کو اشیا کا علم دیتا ہے، اس کو بادشاہت عطا کرتا ہے، اشیا پر تصرف کی استعداد عطا کرتا ہے تو اس کی بنیاد بھی رنگ و نسل نہیں ہوتی، اس کی بنیاد زبان و بیان نہیں ہوتا، اس کی بنیاد بھی ایمان ہوتا ہے۔
انسان کی جو سب سے بڑی آزمائش ہوتی ہے وہ ایمان کی ہوتی ہے۔ آپ انبیا و مرسلین کی تاریخ اٹھا لیں، اولیا کی تاریخ اٹھا لیں، علما کی تاریخ اٹھا لیں، ان کی جس چیز میں سب سے بڑی آزمائش ہوتی ہے وہ ان کا ایمان ہے۔ خدا آزماتا ہے کہ ان کا ایمان کتنا راسخ ہے، کتنا قوی ہے، کتنا گہرا ہے، اور یہ اس ایمان کو قائم رکھنے کے لیے کیا اپنی جان کی قربانی بھی پیش کرسکتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ انبیا اور مرسلین کی عظیم اکثریت نے اور ان کے وارثین کی اکثریت نے ایمان کی بقا کے لیے، سلامتی کے لیے اور اس کے تحفظ کے لیے جان کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ ذرا غزوہ بدر کے معرکہ کی نوعیت پر غور کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک طرف تین سو تیرہ افراد ہیں اور دوسری طرف ایک ہزار افراد کا لشکرِ جرار ہے، اور یہ ایسا مقابلہ تھا جس کے لیے کسی ذہانت، کسی علم کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک عام آدمی بھی بتا سکتا تھا کہ تین سو تیرہ کو ایک ہزار کے سامنے کھڑا کردیا ہے، اور ایک ہزار کا لشکر اسے جب چاہے گا رگڑ کر رکھ دے گا، ان کو فنا کردے گا، ان کو تباہ و برباد کردے گا، ان کی گردنیں اڑا دے گا۔ اس لیے کہ تین سو تیرہ کا کیا مقابلہ ہے ایک ہزار کے ساتھ! آزمائش صحابہ کرام کی اس بات پر ہورہی تھی کہ ان کا ایمان کتنا راسخ ہے۔ ایسا تو نہیں کہ جب انہیں اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت کے سامنے کھڑا کردیا جائے تو ان کے دل میں کہیں کجی آجائے، کہیں کمزوری آجائے، وہ میدان جنگ سے بھاگنے کی سبیل سوچنے لگیں۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ معرکہ بدر کے اندر صحابہ کرام کا جو ایمان تھا وہ قوی تر ثابت ہوا، اور یہی سبب ہے کہ صحابہ کرام کی جو سب سے بڑی اور عظیم جماعت تسلیم کی گئی ہے وہ صحابہ کرام کی وہ جماعت ہے کہ جن کو ہم بدری صحابہ کہتے ہیں۔ جنہوں نے بدر میں دادِ شجاعت دی۔ وہ صحابہ کی سب سے افضل قسم ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا ایمان سب سے زیادہ قوی تھا۔ ان کے ایمان کی سب سے بڑی گواہی ہوگئی۔ اور اقبال نے کہا ہے کہ
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
ایک روایت میں آیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود آگ میں ڈالنے لگا تو حضرت جبریل علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اگر میری مدد کی ضرورت ہو تو آپ فرمائیے، میں آپ کی مدد کے لیے حاضر ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جانتے تھے کہ جبریل علیہ السلام جب کسی کے پاس جاتے ہیں تو وہ خود نہیں جاتے، اپنی مرضی سے نہیں جاتے، خدا بھیجتا ہے تو وہ جاتے ہیں، ورنہ وہ نہیں جاتے۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اگر حضرت جبریل علیہ السلام آئے تھے تو وہ خدا کی مرضی سے آئے تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ نہیں مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں، جس نے یہ صورت حال پیدا کی ہے وہ میرے حال کو آپ سے اور مجھ سے بہتر جانتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے حضرت جبریل علیہ السلام کی اعانت حاصل کرنے سے بھی انکار کردیا اور خدا پر کامل اصرار کیا۔ اقبال نے جو یہ شعر کہا ہے یہ کوئی افسانہ نہیں ہے۔ یہ کوئی کہانی، یا کوئی قصہ نہیں ہے، بلکہ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس حقیقت کو آشکار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
آج سے ستّر اسّی سال پہلے کی جو مسلم دنیا تھی اُس میں یہ بات تسلیم کرلی گئی تھی کہ جہاد اگرچہ ایک بہت بڑی عبادت کی حیثیت رکھتا ہے لیکن مسلم دنیا جس صورت حال سے دوچار ہے اس میں ایسا لگتا ہے کہ جہاد اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موقوف ہوچکا ہے۔ جہاد کا انسٹی ٹیوشن اب کبھی بحال نہیں ہوگا۔ اس کی بنیاد پر ہم کبھی کوئی معرکہ ہوتے ہوئے اب نہیں دیکھیں گے۔ بلاشبہ ہم نے جنگیں تو بہت ہوتے ہوئے دیکھی ہیں لیکن جنگ میں اور جہاد میں تو زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان کے مقاصد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنگیں تو قوموں کی بقا و سلامتی کے لیے لڑی جاتی ہیں اور جہاد اﷲ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان ہوتا ہے۔ جب افغانستان میں سوویت یونین آیا اور وہاں پر جہاد کی ابتدا ہوئی تو یہ وہ زمانہ تھا جب ہم کراچی یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے، وہاں جو ہمارے بائیں بازو کے دوستوں کا سرکل تھا وہ ہم سے کہتا تھا کہ آپ اچھے خاصے سمجھدار آدمی نظر آتے ہیں مگر آپ کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ سوویت یونین دنیا کی دو بڑی سپر پاورز میں سے ایک بڑی سپر پاور ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کھڑے ہوگئے ہیں! اور سوویت یونین کی تاریخ یہ ہے کہ وہ جہاں جاتا ہے وہاں سے کبھی واپس نہیں آتا۔ اور یہ دونوں باتیں درست تھیں۔ سوویت یونین دنیا کی دو بڑی سپر پاورز میں سے ایک بڑی سپر پاور تھی اور اس کی تاریخ تھی کہ وہ جہاں جاتا ہے وہاں سے کبھی واپس نہیں آتا۔ مگر آپ نے یہ سب دیکھا کہ مجاہدین کی ایک بڑی تعداد سوویت یونین کے خلاف صف آرا ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس قافلے کے اندر اضافہ ہوا اور اس قافلے نے بالآخر سوویت یونین کو افغانستان کے میدانِ کارزار میں شکست سے دوچار کیا۔ اور دنیا یہ حیرت انگیز منظر دیکھ کر ششدر رہ گئی کہ کیسے ایک طرف ٹیکنالوجی کی طاقت ہے، وسائل کی فراوانی ہے اور دوسری طرف بے بسی ہے۔ جب مجاہدین نے جہاد کا آغاز کیا تو اُن کے پاس لڑنے کے لیے مناسب ہتھیار بھی نہیں تھے۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ دادِشجاعت کی بنیاد پر، ایمان کے قوی ہونے کی بنیاد پر یہ معرکہ مجاہدین نے سر کرلیا۔ سوویت یونین کو شکست ہوگئی اور وہ اپنا اور اپنے نظریات کا دفاع کرنے میں بھی ناکام ہوگیا اور بالآخر صفحۂ ہستی سے اس طرح فنا ہوگیا کہ جیسے کبھی اس کا وجود ہی نہیں تھا۔ لیکن جب کام ہوچکا تو کہنے والوں نے یہ بات کہی کہ یہ اسلام کی فتح تھوڑی ہے۔ ایک طرف سوویت یونین تھا اور دوسری طرف امریکہ تھا، یورپ تھا، پوری مسلم دنیا کے حکمران تھے۔ اور یہ بات درست ہے کہ تاریخ کے ایک مرحلے پر جب انھوں نے جہاد کو مؤثر ہوتے ہوئے دیکھا، کامیاب ہوتے ہوئے دیکھا تو امریکہ بھی اس جنگ میں آگیا، اور اس نے 3.5 بلین ڈالر کی امداد بھی پاکستان کو دینے کا اعلان کردیا۔ اس سے پہلے اس نے آٹھ سو ملین دینے کا اعلان کیا تھا اور جنرل ضیا الحق نے آٹھ سو ملین کے بارے میں کہا تھا کہ یہ مونگ پھلی کے دانے ہیں اور ہم مونگ پھلی کے دانے کھانے کے عادی نہیں ہیں۔ تو پھر امریکہ نے اپنی امداد بڑھا دی، تربیت کا بھی بندوبست کیا، وسائل کی فراوانی بھی کردی، اور اسٹنگر میزائل دے دیئے جنہوں نے سوویت یونین کی شکست میں بہت مرکزی کردار ادا کیا۔ کیونکہ ان کے ذریعے سے جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو گرانا ممکن ہوگیا تھا۔ لیکن یہ تو بہت بعد کے مراحل ہیں اور ان مراحل میں بھی اصل کردار تو مجاہدین اور ان کے جذبۂ جہاد کا تھا۔ انسان کبھی ہتھیاروں سے جنگ نہیں لڑتا، وہ جذبے کی بنیاد پر لڑتا ہے۔ جو آدمی جنگ کے میدان کے اندر کھڑا ہوتا ہے، اس کا ایمان اور اس کا جوش و جذبہ اور قربانی دینے کی استعداد، اس کے محرکات، اس کے نتائج کو متعین کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات صحیح تھی کہ وہاں امریکہ بھی موجود تھا، یورپ بھی موجود تھا اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کی طاقت بھی موجود تھی۔ چنانچہ جب نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان کے خلاف یلغار کی تو اس وقت کہیں اورسے نہیں بلکہ تحریک اسلامی کے دائرے سے لوگ میرے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ اب کیا ہونے والا ہے؟ اور میں نے اپنے مضامین میں لکھا کہ اگر مجاہدین کی قابلِ ذکر تعداد امریکہ کے خلاف مزاحمت پر آمادہ ہوگئی تو امریکہ کو افغانستان کے اندر شکست ہوگی۔ اُس وقت اس دائرے میں ایک ایسا معرکہ برپا تھا کہ ایک طرف امریکہ تھا اور دنیا کے دوسرے اننچاس ملکوں کی طاقت تھی، اور دوسری طرف مٹھی بھر مجاہدین تھے۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ اس معرکہ کے برپا ہونے سے پہلے ملا عمر صاحب کو سمجھانے کے لیے پاکستان کے علما کا ایک وفد گیا۔ انھوں نے کہا کہ امارتِ اسلامیہ ایک بڑی چیز ہے۔ آپ ایک آدمی اسامہ بن لادن کے لیے پوری امارتِ اسلامیہ کو داؤ پر لگا رہے ہیں تو یہ مناسب بات نہیں ہے۔ اس پر ملا عمر نے کہا کہ صاحب دو مسائل ہیں، ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کے خلاف کوئی شہادت دستیاب نہیں ہے، اور میں کسی کے کہنے پر ان کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے نہیں کرسکتا، اور دوسری بات یہ کہ وہ ہمارے مہمان ہیں اور ہماری روایت ہے کہ ہم مہمانوں کو دشمنوں کے حوالے نہیں کرتے۔
اقبال نے اس بارے میں ایک بہت زبردست بات کہی ہے کہ یہ جو ریاست ہے یہ بہت چھوٹی چیز ہے، اس کے مقابلے پر جو آپ کا ایمان ہے وہ بہت زیادہ قوی چیز ہے۔ تو اگر آپ کو اختیار کا موقع ملے تو آپ ریاست کو اختیار کریں گے یا ایمان کو اختیار کریں گے۔ تو آپ ایمان کو اختیار کرلیں، ریاست کو چھوڑ دیں۔ اور یہ ایک ایسی بات تھی جو کبھی بھی نہیں ہوئی تھی۔ میں اس حقیقی دنیا کی بات کررہا ہوں۔ حقیقی دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے کہا ہے:
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے
تُو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی
یعنی اصل چیز احکام حق ہیں۔ اس کی گواہی پاکستان سے نمودار ہونی چاہیے تھی لیکن اس کی گواہی افغانستان سے آئی۔ اور اس سے پتا چلا کہ اس بات پر عمل کرنے کے لیے سادہ دلی اور ایک ایسا سادہ ذہن درکار ہے جو زندگی کو صرف حق و باطل کے پیمانوں پر ناپتا ہو۔ اور اس کے اندر کوئی پیچیدگی موجود نہ ہو۔ تو وہ گواہی وہاں سے آگئی۔ اس نے ریاست چھوڑ دی اور احکام حق سے بے وفائی کرنے پر آمادگی ظاہر نہ کی۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ کی طاقت اور مجاہدین کی طاقت کا کوئی موازنہ ہی ممکن نہیں تھا۔ اگر آپ ان کی عسکری طاقت کا موازنہ کریں تو ایک اور ایک لاکھ کی نسبت تھی۔ اگر آپ ان کی معاشی طاقت کا اندازہ کریں تو ایک اور ایک کروڑ کی نسبت تھی۔ اگر آپ ان کی سیاسی طاقت کا موازنہ کریں تو ایک اور ایک کھرب کی نسبت تھی۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں شکست ہوگئی، اور یہ وہ بات ہے جو امریکن بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ بلاشبہ وہ ایک بڑی طاقت ہیں۔ وہ چار ہزار ارب ڈالر کی قربانی دے کر بھی اپنی معیشت کو مستحکم رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن ان کو معلوم ہے کہ افغانستان ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ وہ افغانستان کے ایک چھوٹے سے حصے پر قابض ہیں، افغانستان کا ایک بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکلا ہوا ہے۔
اقبال نے اس بارے میں بھی ایک بات کہی ہوئی ہے:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
یعنی یہ جو انحصار ہے وسائل کے اوپر، انسان وسیلے کو دیکھتا ہے کہ کیا چیز ہے میرے پاس لڑنے کے لیے۔ جب ایمان کمزور ہو تو وہ وسائل کو دیکھتا ہے اور جب ایمان قوی ہوتا ہے تو پھر انسان شہادتِ حق کو دیکھتا ہے کہ شہادت دینی ہے، کامیابی حاصل کرنا یا نہ کرنا میرا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ کامیاب ہوا تو بھی کامیاب اور اگر خدانخواستہ ناکام ہوا تو بھی میں نے حق کی گواہی تو دے دی۔ خدا قیامت میں ہرگز مجھ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ کیا تم نے اسلامی انقلاب برپا کیا؟ وہ پوچھے گا کہ کیا تم نے اپنے پورے شعور کے ساتھ حق کی بالادستی کی گواہی دی؟ اس کی جدوجہد کی؟ اگر تم نے گواہی دی، اور تم نے جدوجہد کی تو تم کامیاب ہوگئے۔ اور اگر تم نے گواہی نہیں دی، جدوجہد نہیں کی تو خواہ سیاسی اقتدار مل بھی جائے یہ آپ کی ناکامی تصور ہوگی۔ اس لیے کہ اصل چیز شہادت ہے، اصل چیز اس کی گواہی ہے، اور یہ گواہی ایمان کی بنیاد پر ہی دی جاسکتی ہے۔
وہ واقعہ جو ہماری تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولانا مودودی رحمۃ اﷲ علیہ کو ایک مقدمے کے اندر سزائے موت دے دی گئی تھی اور ان سے کہا گیا کہ اگر آپ معافی نامہ لکھ دیں تو آپ کی یہ سزا ختم بھی کی جا سکتی ہے۔ مولانا نے کہا کہ جب میں نے جرم ہی نہیں کیا تو معافی کس بات کی مانگوں؟ چنانچہ اس سلسلے میں یہ شہادت موجود ہے کہ جب ان کو پھانسی کا حکم دے دیا گیا، جب ان کو پھانسی پانے والے شخص کے کپڑے بھی پہنا دیئے گئے تو اُس رات مولانا اپنے جیل کے سیل میں خراٹے لیتے ہوئے پائے گئے۔ اور یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جس کے دل میں ایمان راسخ ہو، جس کے دل میں ایمان پوری طرح سے اترا ہوا ہو۔ جس کو اپنے حق پر کھڑے ہونے کا کامل یقین ہو۔ جس کے اندر کوئی تذبذب نہ ہو۔ جس کے اندرکوئی اضطراب نہ ہو۔ جس کے اندر کوئی ابہام نہ ہو۔ جب انسان کا ایمان قوی ہو تو وہ بڑے سے بڑے چیلنج کو قبول کرتا ہے اور دادِ شجاعت دینے کا حق ادا کرتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ نظریاتی جدوجہد کرنے والے ہیں ان کی پہلی ضرورت ہے کہ اپنے ایمان کا جائزہ لیں۔ یہ دیکھیں کہ ان کے دل میں ایمان راسخ ہے یا نہیں ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال یہ ہے کہ ایمان وہاں موجود ہوتا ہے جہاں علم اور عمل یکجا ہوجاتے ہیں۔ جہاں دوئی ختم ہوجاتی ہے۔ جہاں قول عمل بن جاتا ہے اور عمل سے قول کی گواہی ملتی ہے۔ اور اگر ہمارے اندر یہ دوئی پیدا نہ ہو اور یکجائی پیدا ہو تو ہم ایک اکائی حاصل کرلیں گے، اور پھر اس کا مطلب ہے کہ ہمارے اندر ایمان ہے اور ہم ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔
نظریاتی جدوجہد میں دوسری چیز ہے انسان کی نیت اور اس کا اخلاص۔ انسان ایک بہت ہی پیچیدہ مخلوق ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ نعرہ تو حق کا لگاتا ہے مگر اس کی نیت کچھ اور ہوتی ہے۔ کتنے لوگ ہیں کہ جن کو شہرت عزیز ہوجاتی ہے۔ وہ حق کی جدوجہد کررہے ہوتے ہیں لیکن دراصل وہ شہرت چاہتے ہیں، انفرادی دائرے میں بھی اور اجتماعی دائرے میں بھی۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ عہدے اور منصب کے طالب ہوجاتے ہیں۔ یعنی وہ حق کا نعرہ لگا رہے ہیں لیکن ان کو عہدہ و منصب درکار ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو اس کے ذریعے سے مال کمانا چاہتے ہیں۔ تو انسان کے لیے یہ اولیٰ ہے، یہ افضل ہے کہ وہ کوئی کام کرتے ہوئے اپنی نیت کا جائزہ لے لے اور دیکھے کہ اس کی نیت کیا ہے۔ ایسا تو نہیں کہ میں اپنی کسی کجی کی وجہ سے، اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے کام کررہا ہوں، کسی مقصد کے حصول کے لیے کام کررہا ہوں۔ کیونکہ نیت وہ چیز ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔ اگر نیت صحیح ہے تو عمل صحیح ہے، اور اگر نیت کے اندر نقص ہے تو عمل کے اندر بھی نقص ضرور پیدا ہوگا۔ اگر نیت کے اندر کجی ہے تو اعمال بھی کجی کی بنیاد پر کھڑے ہوں گے۔ چنانچہ ہمیں اپنی نیتوں کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے اور یہ دیکھتے رہنا چاہیے کہ جو کام ہم کررہے ہیں واقعتا وہ اللہ کی رضا کے لیے کررہے ہیں یا نہیں۔ اس سے کوئی عہدہ، کوئی منصب، کوئی شہرت ہمیں درکار نہیں، نہ انفرادی دائرے میں اور نہ اجتماعی دائرے میں۔ اگر ہمارا ایمان قوی ہے اور ہماری نیت صالح ہے تو ہم نے آدھا معرکہ سر کرلیا ہے۔
نظریاتی جدوجہد کی راہ میں ہماری تیسری ضرورت ہمارا علم ہے۔ قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان کے بعد جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ علم ہے۔ قرآن پاک میں سات سو سے زائد مقامات ایسے ہیں جہاں علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کہیں کہا ہے کہ کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا صاحبِ شعور اور بے شعور ہم معنی ہوسکتے ہیں؟ کہیں کہا ہے کہ تم علم کیوں حاصل نہیں کرتے؟ کہیں علم کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’انبیا اور مرسلین کا ورثہ علم ہے‘‘۔ یعنی انبیا اور مرسلین جو چھوڑ کر جاتے ہیں وہ مال و دولت اور منصب نہیں ہوتا بلکہ علم ہوتا ہے۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے طویل ترین سفر میں علم کی اتنی بڑی روایت پیدا کی ہے جس کی کوئی مثال اور کوئی نظیر نہیں ملتی۔ آپ یہ جو سنتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہیں آٹھ سو سال حکومت کی اور کہیں ہزار سال حکومت کی، کہیں چار سو سال حکومت کی۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ کام مسلمانوں نے کس طرح سے کیا؟ بلاشبہ علاقوں کو فتح کرنا بھی بہت بڑا کام ہے۔ لیکن انسانوں کے اذہان اور ان کے قلوب کو مسخر کرنا اس سے بھی بڑا کام ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تقوے کے اندر یہ استعداد رکھی ہے کہ جب کسی فرد کے دل میں، کسی گروہ کے دل میں، کسی تنظیم کے دل میں تقویٰ واقعتا راسخ ہوجاتا ہے تو وہ اپنے اطراف میں اپنے اثرات مرتب کیے بغیر رہ نہیں سکتا۔ آپ یہ کبھی کہہ سکتے ہیں کہ سورج نکلا ہوا ہے لیکن روشنی نہیں پھیلی؟ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے۔ جب سورج نکلتا ہے تو اس کی روشنی چار سو پھیل جاتی ہے۔ تو جب کسی کے دل میں واقعی تقویٰ پیدا ہوجائے تو وہ آس پاس ماحول میں موجود لوگوں کے دلوں کو خاموشی کے ساتھ مسخر کرنے لگتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تقویٰ کے اندر یہ استعداد رکھی ہے۔ نیکی کے اندر یہ استعداد رکھی ہے۔
تقویٰ کیا ہے؟ یہ کہ ہم ایک جانب خدا سے بے پناہ محبت کرنے والے ہوں۔ اس لیے کہ خدا سے محبت کرنا سب سے بڑی گواہی دینا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا اس کائنات کی سب سے محبوب ہستی ہے۔ تو ہمیں اس سے زیادہ محبت کسی سے نہ ہو۔ اور دوسری جانب ہم خدا سے بے پناہ ڈرنے والے ہوں۔ اس لیے کہ وہ پکڑنے والا ہے۔ جب وہ پکڑنے پر آتا ہے تو چھوٹی سی چیز پر پکڑ لیتا ہے۔ ایسی ہستی جو ہرچیز سے واقف ہے۔ میری نیت سے بھی واقف ہے، میرے اُن اعمال سے بھی واقف ہے جن سے کوئی واقف نہیں ہے۔
ان دونوں معیارات پر جو آدمی کھڑا ہوا ہے وہ حقیقت میں متقی، پرہیزگار آدمی ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں اﷲ کا محبوب ہے۔ اﷲ کا پسندیدہ ہے۔
آپ کو معلوم ہے کہ سید مودودی رحمۃ اﷲ علیہ نہ کسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے، نہ وہ کسی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کی پشت پر پہلے سے کوئی قوت موجود نہ تھی، کوئی اعانت موجود نہ تھی۔ وہ تنہا کھڑے ہوئے تھے۔ اﷲ کی کبریائی کا اعلان اور اس کے نفاذ کا وعدہ اور دعویٰ کرنے وہ تنہا کھڑے ہوئے تھے۔ اور اُن کے پاس تقویٰ اور علم کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ نہ اُن کے پاس ریاست کی طاقت تھی، نہ اُن کے پاس دولت کی طاقت تھی، نہ اُن کے پاس ابلاغ کی کوئی بڑی طاقت تھی۔ کچھ بھی نہیں تھا اُن کے پاس۔ لیکن اُن کے پاس تقویٰ بھی تھا، اور علم بھی تھا۔ چنانچہ انھوں نے دلوں اور اذہان کو مسخر کرنا شروع کیا۔ مولانا مودودیؒ کی کتابیں آج 75 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ کسی ریاستی سرپرستی کے بغیر، کسی سرمایہ دار کی سرپرستی کے بغیر۔ وہ آدمی جس کو کوئی کتاب لکھنے پر نوبیل پرائز مل جاتا ہے، ظاہر ہے عالمی سطح پر وہ مشہور ہوجاتا ہے۔ آٹھ دس بڑے پبلشر اس کی کتاب کو لے لیتے ہیں اور اس کا ترجمہ کمرشل بنیادوں پر کروا لیتے ہیں۔ مگر اس کا ترجمہ بھی تیس چالیس زبانوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ میں نے کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جس کا ترجمہ تیس چالیس زبانوں سے زیادہ ہوا ہو۔ اس کا کیا سبب ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا کے پاس تقویٰ بھی ہے اور برتر علم بھی ہے۔ اگر ان کے پاس تقویٰ کی استعداد نہ ہوتی، علم نہ ہوتا تو جس طرح دوسرے بہت سارے علما گزرے ہیں وہ بھی اسی طرح کے ایک عالم ہوتے۔ مولانا مودودیؒ بیسویں صدی کی تاریخ متعین کرنے والے آدمی تھے۔ بیسویں صدی جس پر مولانا کا اتنا بڑا اثر ہے کہ کسی اور عالم دین کا اتنا بڑا اثر نہیں۔ دنیا میں آپ جتنی بھی اسلامی تحریکیں برپا دیکھتے ہیں، ان میں سے کوئی اسلامی تحریک ایسی نہیں ہے جس پر مولانا کی فکر اثرانداز نہ ہوئی ہو۔ آپ جہاں سنیں کہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے، خواہ اس کا کوئی مسلک ہو، کوئی فرقہ ہو، خواہ اس کا کوئی پس منظر ہو، آپ سمجھ لیں وہ مولانا مودودیؒ کی زبان بول رہا ہے۔ اس لیے کہ سب سے پہلے یہ بات مولانا مودودیؒ نے کہی اور انھوں نے اس بات کو عام کیا۔ جو یہ کہتا ہے کہ اسلام دنیا میں مغلوب ہونے کے لیے نہیں آیا غالب ہونے کے لیے آیا ہے، وہ مولانا کی زبان بول رہا ہے۔ اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا وہ بھی مولانا مودودیؒ کی زبان بول رہا ہے۔ مولانا کا اثر عالمگیر ہے۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ مولانا کے پاس تقویٰ کی استعداد بھی ہے اور علم کی استعداد بھی۔
ہم نے خدا کو ایک تصور بنا لیا ہے۔ ہمارے لیے وہ حاضر و موجود نہیں ہے بلکہ ایک تصور ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مؤثرحقیقت نہیں ہے۔ یعنی ہم کہتے ضرور ہیں کہ خدا پر ہمارا ایمان ہے، خدا سے ہم محبت کرتے ہیں، مگر کیا ہم واقعتا ایسی نمازیں پڑھتے ہیں کہ جیسا نماز پڑھنے کا حق ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز ایسے پڑھو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو۔ اور اگر اس طرح نہیں پڑھ سکتے تو کم از کم اس طرح تو ضرور پڑھو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ تو ہم میں سے کتنے لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ انہوں نے اس طرح کی نماز پڑھی کہ گویا خدا کو دیکھ رہے ہیں۔ اورکتنے لوگ ایسے ہیں کہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ انھوں نے اس طرح نماز پڑھی کہ گویا خدا انھیں دیکھ رہا ہے۔ اگر ایمانداری سے لوگ اس بات کا جواب دیں تو ننانوے فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہوں گے جو اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ عادتاً نماز پڑھنے والے بن چکے ہیں۔ ہم نمازیں پڑھ ضرور رہے ہیں اور یہ بھی بہت بڑی بات ہے، بہت بڑی سعادت ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور پابندی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن نماز کی جو روح ہے، وہ ہمارے اندر موجود نہیں ہے۔ اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا ہم بہت بڑا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں غایت درجہ کی عقیدت ہو۔ جس کو کسی شخص سے عقیدت ہوتی ہے وہ اس پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ الحمدﷲ مسلمانوں کی جو عظیم اکثریت ہے وہ عمل میں خواہ کیسی بھی ہو، کتنی ہی ناقص کیوں نہ ہو، لیکن وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عقیدت رکھتی ہے کہ اگر ہمارے سامنے کوئی شخص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا کلمہ بھی کہہ دے تو ہم اس کلمے پر اپنی جان دے بھی سکتے ہیں اور لے بھی سکتے ہیں۔ دونوں کام ہم کرسکتے ہیں۔ تو غایت درجہ کی عقیدت موجود ہے۔ لیکن دوسرا تقاضا یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسی عقیدت ہے ویسی ہی ہمیں ان سے محبت ہو۔ محبت کا تقاضا اتباع ہے، پیروی ہے۔ جس شخص سے ہمیں محبت ہوجاتی ہے، ہم اپنی پوری طرزِ حیات کو اس کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ یعنی اگر کسی کو کسی سیاستدان سے محبت ہوجائے تو اسی کی زبان بولتا ہے، اسی کے بیان پڑھتا ہے، اسی کی تصویریں دیکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی کو کسی اداکار سے محبت ہوجائے تو وہ اسی طرح کے بال بنا لیتا ہے، اسی طرح کا لباس پہننے لگتا ہے، اسی کے لب و لہجے میں گفتگو کرنے لگتا ہے۔ تو مسلمانوں کو جب دعویٰ ہے اس بات کا کہ انھیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی درجہ کی محبت ہے تو مسلمانوں کی عظیم اکثریت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کیوں نہیں کرتی؟ اتباع کی سب سے بڑی صورت یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سنتوں کا اتباع کریں۔ یعنی مثال کے طور پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری حیاتِ طیبہ میں کبھی کسی کی غیبت نہیں کی، لیکن اگر ہم اپنی عملی زندگی کا تجربہ بیان کریں، اس پر ایک نظر ڈالیں تو ہمارا تجربہ یہ ہے کہ جہاں دو مسلمان جمع ہوتے ہیں تیسرے مسلمان کی غیبت کرنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ زبان ہماری چلنے لگتی ہے۔ اور ہماری زندگی چلتی پھرتی غیبت کانفرنس بن گئی ہے۔ غیبت کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’غیبت زنا سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔‘‘
ہم زنا سے تو بچتے ہیں لیکن جو اس سے بڑا گناہ ہے یعنی غیبت، وہ چونکہ زبان کا گناہ ہے اور اس کے لیے کوئی زیادہ کوشش کی ضرورت نہیں ہے۔ بہت آسانی کے ساتھ، سہولت کے ساتھ، کسی بھی وقت انجام دیا جا سکتا ہے، وہ ہم ہر وقت کرتے رہتے ہیں، انجام دیتے رہتے ہیں۔ تو اگر ہم خدا کے رسول سے واقعی محبت کرتے ہیں تو غیبت ہماری زندگی میں موجود نہیں ہونی چاہیے۔ ہم جانتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے زیادہ منکسر تھے کہ صحابہ کی مجلس میں بھی نمایاں ہوکر بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانے میں یوں ہوتا تھا کہ اگر کوئی باہر سے آیا ہے ان کا ذکر سن کر، اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ کبھی کسی صحابی کو رسول اﷲ سمجھ لیتا تھا اور کبھی کسی اور صحابی کو۔۔۔ اس پر صحابہ بہت شرمندہ ہوتے تھے کہ یہ کیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے! جب انھوں نے دیکھا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تو خود کہیں نمایاں ہوکر بیٹھتے نہیں ہیں تو جب کوئی ملنے آتا تو وہ خود ہٹ کر بیٹھ جاتے تھے تاکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نمایاں ہوجائیں۔ آپؐ جب صحابہ کے ساتھ کہیں باہر جاتے تھے تو کبھی صحابہ کے آگے چلنا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے ساتھ مل کر اس طرح چلتے تھے جیسے وہ انھی میں سے ایک ہوں۔ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نمایاں ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا جائزہ لیں۔ میں رہنماؤں کی بات نہیں کررہا، وہ تو شہرت طلبی میں اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں، میں علما کی بات بھی نہیں کررہا، میں عام آدمی کی بات کررہا ہوں۔ ایک عام آدمی کی پوری تگ و دو نمایاں ہونے کے لیے ہوتی ہے۔ کوئی گھر میں نمایاں ہونا چاہتا ہے، کوئی دوستوں میں نمایاں ہونا چاہتا ہے، کوئی اجتماع میں نمایاں ہونا چاہتا ہے۔ وہ شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ذرا سا کام کرتا ہے اور اس کو اتنی بڑی شہرت درکار ہوتی ہے کہ اس کا ذکر اخبار میں آجائے، ریڈیو میں آجائے، ٹیلی ویژن پر آجائے۔ تو ہم ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور دوسری طرف ہماری انا پرستی کا یہ عالم ہے کہ ہم انا کا پرچم لے کر کھڑے ہوئے ہیں، اور شہرت ہمیں مطلوب ہے اور ہم اپنے ہی بت کے آگے سجدہ ریز ہوئے بیٹھے ہیں۔ تو یہ کیسی محبت ہے؟ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہمیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو اور ہم منکسر المزاج نہ ہوں، ہم معاف کرنے والے نہ ہوں، ہم کبھی جھوٹ بولنے والے نہ ہوں۔ ہم جو یہ دعویٰ لے کر کھڑے ہوئے ہیں اسلام کا کہ ہم اﷲ سے محبت کرتے ہیں، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں۔۔۔ تو یہ محض دعویٰ ہے۔ اس کی کوئی شہادت ہماری زندگی سے فراہم نہیں ہوتی۔ نماز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نماز برائیوں سے روکتی ہے، لیکن ہم گواہی دیتے ہیں اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کہ نماز پڑھنے والوں کی بہت بڑی تعداد پندرہ سال نماز پڑھنے کے باوجود جس طرح پہلے جھوٹ بولتی تھی اسی طرح جھوٹ بولتی ہے۔ جس طرح پہلے غیبت کرتی تھی، اسی طرح آج بھی غیبت کرتی ہے۔ جس طرح پہلے جعل سازی کرتی تھی اسی طرح آج بھی کرتی ہے۔ جس طرح پہلے انسانوں کو تکلیف پہنچاتی تھی اسی طرح آج بھی پہنچاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نمازیں ہمارے قلب پر، ہمارے کردار پر اثرانداز نہیں ہورہی ہیں۔ تو ایسی نماز جو ہمارے کردار کو نہ بدل سکے، ہمارے قلب کی کیفیت کو نہ بدل رہی ہو، وہ حقیقی معنوں میں نماز کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔ نظریاتی جدوجہد کرنے والوں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ ان کو ایمان کی ضرورت ہے اور قوی ایمان کی ضرورت ہے۔ ان کو نیت کی ضرورت ہے اور صحیح نیت کی ضرورت ہے۔ ان کو اخلاص کی ضرورت ہے اور کامل اخلاص کی ضرورت ہے۔ ان کو تقویٰ کی ضرورت ہے اور حقیقی تقویٰ کی ضرورت ہے۔ ان کو علم کی ضرورت ہے۔
جب میں علم کی بات کررہا ہوں تو مجھے مولانا کی ایک چیز یاد آرہی ہے کہ آج جماعت اسلامی جو کچھ بھی ہے، وہ دو چیزوں کا حاصل ہے۔ ایک مولانا کا تقویٰ، اسی کا فیضان ہے کہ آج جماعت اسلامی موجود ہے۔ اور اگر جماعت اسلامی لوگوں کے اذہان کو متاثر کرنے کی استعداد کی حامل ہے تو مولانا کے لٹریچر کی بنیاد پر ہی تو ہے۔ ہم نے اس لٹریچر کے اندر کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں کیا۔ تو دونوں چیزیں مولانا کی ابھی تک چلی آرہی ہیں۔ جب کہیں واقعی برتر علم پیدا ہوجاتا ہے تو وہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں اس دنیا کی امامت آپ کے ہاتھ میں ہو، خدا آپ کو پسند کرے، خدا خود آپ کو منتخب کرے تو پھر یہ ضروری ہے کہ آپ کے پاس قوی ایمان ہو، آپ کے پاس حقیقی معنوں میں تقویٰ ہو، اور آپ کے پاس حقیقی معنوں میں علم کی استعداد ہو۔ علم کے بغیر انسان کے ذہن کو مسخر نہیں کیا جاسکتا۔ جب آپ کا آدمی پچاس لوگوں کے درمیان کھڑا ہوکر بات کرے تو پتا چل جائے کہ وہ پچاس لوگوں سے مختلف ہے، یہ ان سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے، یہ ان سے زیادہ قوی ہے، اس کی طرف زیادہ رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ جس کے پاس علم ہوتا ہے آپ اسی سے رجوع کرتے ہیں۔ کسی بھی جاہل آدمی یا کسی کم علم آدمی سے آپ رجوع نہیں کرتے۔ اور ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ نظریاتی جدوجہد کا ایک تقاضا یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے مسلمانوں اور پھر تمام انسانوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلیں۔ مولانا کے تقویٰ اور مولانا کے علم کے بعد جو چیز، جو صلاحیت ہمیں عطا ہوئی ہے اس میں الحمدﷲ ہمارا بہت اچھا مقام ہے۔ بہت اچھا مرتبہ ہے۔ ہم واقعی انسانوں کی خدمت کرنے والا گروہ ہیں۔ ہم واقعی انسانوں کی خدمت کرنے والی ایک جماعت ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اس خدمت کو سیاسی نتیجے سے منسلک نہ کریں۔ ہمارے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ میں جس آدمی کا کام کررہا ہوں، جس کی میں خدمت بجا لا رہا ہوں اس کے عوض یہ مجھے ووٹ دے۔ یہ خیال آپ کے ذہن میں نہیں آنا چاہیے۔ آپ کا عمل اس خیال سے بے نیاز ہونا چاہیے خواہ وہ آپ کو ووٹ دے یا نہ دے۔ خواہ وہ آپ کا حریف ہی بن کر کھڑا ہوجائے۔ اگر وہ ضرورت مند ہوگا تو ہم اس کی مدد کریں گے۔
انسان جب کوئی جدوجہد کرتا ہے تو وہ اپنی جدوجہد کا نتیجہ دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ بالکل ایک فطری بات ہے۔ اس میں کوئی بھی برائی نہیں ہے۔ لیکن نتیجہ دیکھنے کی خواہش اور نتیجہ پرستی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہمارا اصل فرض حق کی گواہی دینا ہے۔ اگر ہم نے حق کی گواہی دے دی تو ہم نے اپنا کام کردیا، نتیجہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی، اور جب طوفانِ نوح برپا ہوا تو ایک روایت کے مطابق تیس سے کم لوگ تھے، اور ایک روایت کے مطابق چالیس کے لگ بھگ لوگ تھے۔ حضرت نوح پانچ بڑے انبیاء میں سے ایک ہیں اور ان کی ساڑھے نو سو سال کی جدوجہد کا نتیجہ دیکھا جائے تو معاذ اﷲ ایسا لگتا ہے کہ وہ ناکام ہوگئے۔ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں سماعتِ حق کی استعداد کمزور پڑ جاتی ہے۔ چنانچہ ہمیں ہر آن اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہمارا ایمان کیسا ہے، ہماری نیت کیسی ہے، ہمارا اخلاص کیسا ہے، ہمارا تقویٰ کیسا ہے، ہمارا علم کیسا ہے، ہماری خدمت کیسی ہے۔۔۔ اور ہمارے اندر کوئی بھی کمی ہو، کجی ہو انفرادی دائرے میں بھی اور اجتماعی دائرے میں بھی، ہمیں اس کا شعور ہونا چاہیے اور اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن ہمیں یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ جس سوسائٹی سے ہم مخاطب ہیں اس کا حال کیا ہے؟ اس سوسائٹی کا حال یہ ہے کہ نوازشریف میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں ہے کہ وہ ایک پنجابی ہے، الطاف حسین میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں ہے کہ وہ ایک مہاجر ہے، پیپلز پارٹی میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں ہے کہ وہ سندھیوں کی جماعت ہے، اے این پی میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں ہے کہ وہ پشتونوں کی ایک جماعت ہے، عمران خان کو اگر خیبرپختون خواہ میں ووٹ ملے ہیں تو اس کے پشتون ہونے کے تعصب میں ملے ہیں، خواہ وہ پشتون ہو یا نہ ہو لیکن تاثر یہ ہے کہ وہ پشتون ہے، اس لیے اسے یہ ووٹ ملے ہیں۔ یہ جو سوسائٹی ہے اس میں انتخابی کامیابی کو بہت بڑی مثال نہیں بنانا چاہیے۔ ہمارا اصل کام ہے حق کی گواہی دینا۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے کام کی گواہی آپ کے حلقہ سے نہیں آتی، آپ کے مخالفین کی طرف سے آتی ہے۔ یعنی میں ہر چوتھے پانچویں دن ایک ایسا مضمون کسی نہ کسی اخبار میں ضرور پڑھتا ہوں جس میں کہا گیا ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کی فکر اقتدار میں تو نہیں آئی ہے مگر پاکستان میں جو یہ اسلام کا شور و غلغلہ ہے یہ سب انہی کی وجہ سے ہے۔ آپ کے مخالفین آپ کے کام کو جانتے ہیں۔ ہم نے یہ کام پوری تندہی کے ساتھ کیا ہے۔ اصل کامیابی یہی ہے کہ ہم نے حق کی گواہی دی ہے اور ہم نے حق کے غالب ہونے کے تاثر کو اس قدر عام کردیا ہے کہ پاکستان میں اب کوئی اسلام کے خلاف کام کرنے کے بارے میں مشکل سے ہی سوچ سکتا ہے۔ اور اگر سوچے گا تو اس کی بڑی سخت مزاحمت ہوگی۔ ہمیں اپنی سیاسی کامیابی کی فکر ضرور ہونی چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کل اقتدار حاصل کرلے، لیکن اگر جماعت اسلامی پچاس سال بھی اقتدار حاصل نہ کرسکے تو اس میں کوئی بری بات نہیں ہے، بشرطیکہ ہم نے اپنی پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنا کام کیا ہو، ہم نے اپنی ساری صلاحیتیں اس کے اندر جھونک دی ہوں۔ اگر ہم نے یہ کام کردیا تو بس ہم اسی کے مکلف تھے۔ خدا ہم سے یہ پوچھے گا کہ کیا تم نے وہ کام کیا تھا جو میں نے تمہیں بتایا تھا؟ اور کیا تم نے اپنی تمام صلاحیتیں لگائی تھیں؟ اور اگر ہم نے لگا دیں تو ہم نے اپنا کام کردیا۔ نتیجہ اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب چاہے گا اس کے اندر نتیجہ پیدا کرے گا۔ اور اگر وہ نہیں چاہے گا تو اس کی مرضی۔ ہم اس کی رضا میں راضی ہیں اور یہی اہم بات ہے۔

Leave a Reply