امیج اور انسان

اردو میں انگریزی لفظ Image کے لیے کئی الفاظ موجود ہیں۔ امیج کا ایک ترجمہ تمثال ہے۔ Image کے لیے اردو میں پیکر کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ امیج کو عکس یا عکسیہ بھی کہا گیا ہے۔ امیج کے لیے خیال اور تصور کے الفاظ بھی بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ لیکن امیج اپنی اصل میں کیا ہے؟ امیج دراصل ایک ذہنی تصویر ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ لفظ امیج پر گفتگو کا مقصد کیا ہے؟
انسان کی زندگی کا امیج سے گہرا تعلق ہے۔ ہر انسان کا ایک تصورِ ذات ہوتا ہے اور انسان کے فکر و عمل کا اس تصورِ ذات سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص اگر اپنے بارے میں یہ تصور رکھتا ہے کہ وہ ایک شریف انسان ہے تو اس کا یہ تصور دراصل اس کا امیج ہے اور وہ پوری زندگی اس تصور کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض لوگ خود کو شاعر یا ادیب سمجھتے ہیں اور ان کی یہ ’’سمجھ‘‘ ان کی پوری زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ہم نے ایک شاعر کے نوجوان لڑکے کو دیکھا، اُس نے اردو کے ایک لفظ کو غلط مفہوم میں استعمال کیا۔ یہ سن کر اس کے والد کہنے لگے کہ تم ایک شاعر کے بیٹے ہو، اگر کسی نے سن لیا کہ تم ایک لفظ کو غلط مفہوم میں ادا کررہے ہو تو وہ تمہیں اور مجھے کیا کہے گا! پرانے زمانے میں اچھے بادشاہوں کو اس بات کی بڑی فکر ہوتی تھی کہ تاریخ انہیں کن الفاظ میں یاد کرے گی؟ بادشاہوں کا یہ اندیشہ اُن کے امیج یا تصورِ ذات سے متعلق ہوتا تھا۔ مثلاً بادشاہ خود کو علم دوست اور منصف مزاج سمجھتا تھا تو وہ چاہتا تھا کہ تاریخ بھی اسے علم دوست اور منصف مزاج قرار دے۔ اگرچہ امیج کا مسئلہ ہمیشہ ہی اہم رہا ہے لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے امیج اتنا اہم ہوگیا ہے کہ لوگوں کی عظیم اکثریت امیج پڑھ رہی ہے، امیج سوچ رہی ہے، امیج کھا رہی ہے، امیج پی رہی ہے، امیج پہن رہی ہے، امیج اوڑھ رہی ہے۔
یہ پندرہ سولہ سال پرانی بات ہے۔ ہم دفتر سے رات کو گھر لوٹ رہے تھے تو معلوم ہوا کہ ناظم آباد 7 نمبر سے ڈیڑھ کلومیٹر آگے تک ٹریفک جام ہے، وجہ معلوم کی تو پتا چلا کہ نارتھ ناظم آباد میں میکڈونلڈ کی ایک شاخ کا افتتاح ہوا ہے اور لوگ میکڈونلڈ کے برگر کھانے کے لیے ٹوٹ پڑے ہیں۔ شہر کے ایک اور علاقے میں کے ایف سی کی شاخ کا افتتاح ہوا تھا تو وہاں بھی فرائیڈ چکن کھانے والے کے ایف سی کی شاخ پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ہم گھر آئے تو راستے میں ہمیں اپنے ایک پڑوسی مل گئے۔ وہ اپنی بچیوں کو لے کر میکڈونلڈ جارہے تھے حالاں کہ اس سے پہلے ہم نے انہیں کبھی گھر سے باہر کھانا کھانے کے لیے جاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ کھانے کا تعلق ذائقے کے ساتھ ہوتا ہے اور ذائقہ ایسی چیز ہے جس کی عادت رفتہ رفتہ پڑتی ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ جو لوگ میکڈونلڈ اور کے ایف سی پر ٹوٹ پڑے تھے وہ برسوں سے میکڈونلڈ کے برگر اور کینٹکی فرائیڈ چکن کھا رہے تھے اور اس کے نتیجے میں وہ ان کھانوں کے ذائقوں کے عادی ہوگئے تھے۔ اصل قصہ یہ تھا کہ میکڈونلڈ ایک امیج تھا، کے ایف سی بھی ایک امیج تھا اور لوگ ان جگہوں پر برگر اور چکن کھانے نہیں امیج کھانے جارہے تھے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ ان کے لیے کھانا اہم نہیں تھا۔ کھانا بھی اہم تھا، لیکن کھانے کا لطف اس کے امیج کے ساتھ وابستہ تھا اور وابستہ ہے۔ لیکن یہ مسئلہ صرف کھانے پینے سے متعلق نہیں۔
کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں اب شادی ہالوں کی جگہ Banquets نے لے لی ہے۔ اس سے شادی کا خرچ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ لیکن یہ خرچ بہت سے لوگوں کو محسوس ہی نہیں ہورہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ Banquets میں دولہا اور دلہن کو فلمی ہیرو اور ہیروئن کی طرح ’’Treat‘‘ کیا جارہا ہے، ان کی وڈیو بنائی جاتی ہے، روشنیوں اور موسیقی کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ چناں چہ دولہا اور دلہن اور ان کے گھر والے کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی خود کو ’’Celebrity‘‘ محسوس کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ایک تصورِ ذات یا Self Image کو ’’Enjoy‘‘ کررہے ہوتے ہیں۔ یہ رجحان تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور مقبول ہورہا ہے۔ ہم نے بعض مذہبی لوگوں کے یہاں بھی اس Image کے گرد طواف ہوتے دیکھا ہے، یہاں تک کہ بعض ایسی شادیوں کے بھی یہی رنگ ڈھنگ تھے جو اُدھار اور اعانت کی رقم سے منعقد ہوئی تھیں۔ ایک وقت تھا کہ فلم، ٹی وی اور انٹرنیٹ ہماری زندگی کا حصہ تھے، اور ایک وقت یہ ہے کہ ہماری زندگی فلم، ٹی وی اور انٹرنیٹ کا حصہ بن چکی ہے۔ اس کے بغیر ناآسودہ خواہشات سے متعلق Image ہمارے معاشرے میں اتنے راسخ نہیں ہوسکتے تھے۔
دنیا کے دوسرے معاشروں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی فیشن کی وبا عام ہوچکی ہے۔ کسی زمانے میں فیشن اداکاروں، اداکاراؤں اور ماڈلز کا معاملہ ہوا کرتا تھا، مگر اب ہمارے یہاں ہر چوتھا مرد اور ہر دوسری لڑکی اداکار، اداکارہ یا ماڈل بن چکی ہے۔ لڑکوں بالخصوص لڑکیوں اور خواتین کا لباس، تراش و خراش، غرض یہ کہ ہر چیز رجحان یا ’’Trend‘‘ کے مطابق ہوتی ہے۔ ہر گلی میں بیوٹی پارلر کھل گئے ہیں، باطن خواہ کیسا ہی ہو، بیوٹی پارلرز کے ذریعے ظاہر کو درست بلکہ درست تر کرنے کی کوششیں تقریباً ’’جہاد‘‘ کے درجے میں داخل ہوگئی ہیں۔ اس سلسلے میں اب کسی خاص طبقے کی کوئی تخصیص نہیں۔ متوسط بلکہ زیریں متوسط طبقات کی خواتین بھی بالائی طبقات کی خواتین کی طرح فیشن پرست اور ظاہر پرست ہوگئی ہیں۔ فیشن کے تحت قمیصیں کبھی گھٹنوں سے نیچے چلی جاتی ہیں اور کبھی گھٹنوں سے اوپر آجاتی ہیں۔ یہ ایک احمقانہ صورتِ حال ہے۔ اس کا تعلق نہ علم سے ہے، نہ عقل سے اور نہ مذہب سے، مگر اس امیج کے آگے کسی کی ایک نہیں چلتی۔ امیج عالمگیریت سے پہلے بھی بہت طاقت ور تھا، مگر عالمگیریت نے امیج کی قوت کو کئی سو گنا بڑھا دیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے، مگر یہ گاؤں بالشتیوں، بونوں اور نقلچی بندروں کا عالمی گاؤں ہے، اس عالمی گاؤں کی فلمیں ایک جیسی ہیں، موسیقی ایک جیسی ہے، لباس ایک جیسا ہے، فیشن ایک جیسا ہے، تراش خراش اور وضع قطع ایک جیسی ہے، یہاں تک کہ کھانے پینے کی اشیاء ایک جیسی ہیں۔ امیج کا عفریت تنوع کو نگل چکا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ ہماری جامعات میں ہر شعبہ پُررونق ہوتا تھا۔ کوئی فلسفہ پڑھ رہا ہوتا تھا، کوئی ادب کے ساتھ عشق میں مصروف ہوتا تھا، کسی کو لسانیات سے دلچسپی ہوتی تھی، کوئی طبعیات اور ریاضی کا پروانہ بنا ہوتا تھا۔ مگر اب علم کے دائرے میں بھی Images درآئے ہیں۔ چناں چہ ہماری نوجوان نسل میں بہت ہی کم لوگ ادب یا فلسفہ پڑھنا چاہتے ہیں، جسے دیکھو وہ یا تو ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتا ہے یا ایم بی اے کرنا چاہتا ہے، یا کمپیوٹر سائنس میں زندگی کھپانا چاہتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مذہبی معاشرہ ہے، لیکن بیش تر صورتوں میں یہ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف ہمارا ظاہر مذہب سے ہم آہنگ ہے، ہمارے باطن میں سرمایہ دارانہ نظام کے Images کا راج ہے، چناں چہ ہمیں علم بھی وہی اچھا لگتا ہے جو ہمیں زیادہ سے زیادہ سرمایہ اور زیادہ سے زیادہ آسائش مہیا کرسکے۔ ہم غور کریں اور ایمان داری سے کام لیں تو اعتراف کریں گے کہ ہماری خواہشیں، ہماری آرزوئیں، ہماری تمنائیں سرمائے اور اس کی آسائشوں سے متعلق ہیں۔ ہمارے خواب اور ہمارے اہداف سرمائے اور اس کے Imagesسے متعلق ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری دنیا میں Images اتنے طاقت ور کیوں ہوگئے ہیں؟
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اکثر Images کا تعلق جدیدیت یا Modernity کے ساتھ ہے۔ ان کا تعلق عصریت یا Contemporatry ہونے سے ہے۔ جدیدیت بہت زیادہ طاقت ور لفظ ہے اور یہ خود ایک Image ہے۔ اس Image سے کئی اور بڑے بڑے Images وابستہ ہیں۔ مثلاً جو چیز جدید ہے، عصریت کی حامل ہے وہی اچھی ہے، وہی خوبصورت ہے، وہی عقلی یا Rational ہے، وہی قبولیتِ عام کی حامل ہے، وہی کامیاب ہے۔ اگر ایک لفظ اور ایک Image میں اتنے طاقت ور پیغامات موجود ہوں تو اس کے جادو سے کون بچ پائے گا؟ اس کے معنی یہ ہوئے کہ Image میں جادو کا اثر ہے، اور جادو کا صرف ایک ہی علاج ہے، معجزہ۔ لیکن معجزہ کوئی نعرہ نہیں ہے، کوئی تقریر نہیں ہے۔ معجزے سے تعلق کا مطلب ہے: معجزے کی پوری روایت کو بسر کرنا۔ لیکن جادو کبھی کبھی اتنا طاقت ور ہوتا ہے کہ صاحبِ معجزہ بھی ایک لمحے کے لیے سہی، اس سے ڈر جاتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ جلیل القدر نبی تھے، ان کے پاس معجزہ تھا، مگر جب سامری اور دیگر جادوگروں نے اپنی رسّیوں کو سانپوں کی شکل میں چھوڑا تو سیدنا موسیٰؑ ڈر گئے، قرآن مجید میں آیا ہے کہ اس لمحے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ’’لاتخف‘‘ ڈرو نہیں۔ اپنا عصا پھینکو۔ سیدنا موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور وہ سارے سانپوں کو نگل گیا۔ مغرب اور اس کی جدیدیت کا جادو سامری اور اُس کے زمانے کے جادوگروں سے کہیں زیادہ بڑا ہے، اس لیے اہلِ معجزہ گھبرائے ہوئے ہیں، چناں چہ ہم نے اپنے ایک شعر میں عرض کیا ہے ؂
پھر سماعت کو ہے ندا درکار
معجزہ ڈر رہا ہے جادو سے
تو کوئی ہے جو اس بات کو سنے اور اس پر عمل کرے۔

Leave a Reply