زوال پذیر پاکستانی معاشرہ اور بھارتی ثقافتی یلغار

پاکستان میں بھارتی فلمیں کیوں دیکھی جاتی ہیں؟ کیا اہلِ پاکستان بھارتی فلموں سے متاثر ہیں؟ کیا پاکستانی قوم بھارتی ثقافت سے مرعوب ہے؟ پاکستان کے عوامی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں اِن سوالات کی گونج اکثر سننے میں آتی ہے۔ ان سوالات کی گونج اتنی بلند ہے کہ اسے سرحد پار بھارت میں بھی سنا اور محسوس کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی نے چند سال پہلے بڑے تکبر کے ساتھ فرمایا تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی ضرورت نہیں، بھارت اپنی فلموں اور ثقافت کے ذریعے پہلے ہی پاکستان کو فتح کرچکا ہے۔ خود پاکستان میں بعض حلقے بھارتی فلموں کے حوالے سے یہی رائے رکھتے ہیں۔ یہ حلقے بھارتی فلموں کو ایک ثقافتی یلغار سمجھتے ہیں۔ ان کی تفہیم غلط نہیں ہے۔ بھارت اپنی فلموں کو ایک ہتھیار سمجھتا ہے اور وہ اس ہتھیار کے ذریعے پاکستان کو فتح کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ لیکن ثقافتی یلغار کا نظریہ بھی ہمیں اس سوال کا جواب فراہم نہیں کرتا کہ آخر بھارتی فلمیں پاکستان میں کیوں دیکھی جاتی ہیں اور انہیں یہاں مقبولیت کیوں حاصل ہے؟
اس سوال پر غور کرتے ہوئے ہماری نظر بھارت میں موسیقی کی روایت پر جاکر ٹھیر جاتی ہے۔ بھارت نے موسیقی کی اتنی بڑی روایت تخلیق کی ہے کہ ساری دنیا کی موسیقی کی روایت بھی اس کے سامنے بچوں کا کھیل ہے۔ لیکن بھارت میں موسیقی کی روایت اپنی اصل میں ’’سیکولر‘‘ نہیں ہے، بلکہ ہندو روایت میں موسیقی کو مذہبی بنیاد مہیا کی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ جب انسان کی روحانی استعداد کمزور پڑگئی اور وہ اپنی روحانی قوت کے ذریعے خدا یا برہما سے رابطہ کرنے کے قابل نہ رہا تو برہما نے انسان کی روحانی اعانت کے طور پر موسیقی کو خلق کیا۔ غور کیا جائے تو عالمی منظرنامے میں فلم یا سینما کے ظہور کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ انسان ہزاروں سال سے زندگی کی تفہیم اور فکر و جذبے کی تطہیر کے لیے مذہب اور شعر و ادب سے رجوع کرتا تھا۔ لیکن 20 ویں صدی کے آغاز تک آتے آتے انسان کی روحانی استعداد اور فکری صلاحیت اتنی کم ہوچکی تھی کہ زندگی کی تفہیم اور ترجمانی اور تفریح کے لیے اسے ایک نئے ذریعے یا میڈیم کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔ مغرب میں ریڈیو کو ایجاد ہوئے عرصہ ہوچکا تھا مگر ریڈیو صرف آواز تھا۔ فلم نے آواز کو جسم اور جسم کو تحرک مہیا کرکے انسانی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ فلم کے میڈیم کے ذریعے زندگی کو مجسم کیا جاسکتا ہے۔ فلم کے ذریعے زندگی مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے تو اس پر کسی غور و فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے لیے تخیل کی بلند پرواز درکار نہیں ہوتی۔ انسانی زندگی کو تجرید یا Abstraction سے نبرد آزما نہیں ہونا پڑتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو فلم کا ذریعہ معنی اور تفہیم کے زوال کا نتیجہ ہے۔ یہی فلم کے عوام میں مقبول ہونے کا سبب ہے۔ مغرب میں فلم سازوں کو ’’خوابوں کے سوداگر‘‘‘ کہا جاتا ہے۔ بھارت میں خوابوں کی سوداگری گیت کی روایت کے ساتھ آمیز ہوکر دوآتشہ بن گئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان باتوں کا پاکستان میں بھارتی فلموں کے مقبول ہونے سے کیا تعلق ہے؟ اس سوال کا جواب عیاں ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی بھارت کے معاشرے کی طرح معنی کے زوال میں مبتلا معاشرہ ہے۔ ہمیں بھی حقیقت سے فرار حاصل کرکے خواب میں پناہ لینے کی اتنی ہی ضرورت محسوس ہوتی ہے جتنی بھارت کے لوگوں کو۔ لیکن یہ اس سلسلے میں ’’پوری بات‘‘ نہیں ہے۔
پوری بات تک رسائی کے لیے ہمیں اپنے فلمی یا ثقافتی خلا پر بھی غور کرنا ہوگا۔ اقبالؒ نے سینما کو ’’صنعتِ آزری‘‘ کہا ہے۔ یعنی فلم سازی ایک طرح کی بت تراشی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلمی ستاروں کے لیے Idols یا بتوں کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہاں ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ بھارت دنیا کے اُن ملکوں میں شامل ہے جن کے فلم سازوں نے بت تراشی کے فن میں مہارت حاصل کرکے دکھائی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پنجابی اور پشتو فلم سازوں کو کیا اردو فلم سازوں کو بھی آج تک فلم سازی نہیں آئی۔ لیکن اس اجمال کی بھی ایک تفصیل ہے۔
زندگی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان کے پاس جو چیز نہیں ہوتی انسان اُس سے متاثر ہوتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ گواہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل نے کبھی بھارتی کرکٹرز کو اپنا ہیرو نہیں بنایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان نے پچاس سال تک بھارت سے بہتر کرکٹر پیدا کرکے دکھائے۔ بھارت کے پاس کوئی حنیف محمد، کوئی عمران خان، کوئی ظہیر عباس، کوئی میاں داد نہیں تھا۔ چنانچہ ہمارے یہاں کبھی کرکٹ کے ہیروز کا ’’خلا‘‘ پیدا نہیں ہوا، اور ہم نے اس میدان میں کبھی بھارت کی طرف نہیں دیکھا۔ یہی قصہ ہاکی کا ہے۔ ہم نے ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کی سطح کے بلکہ بھارت سے بہتر کھلاڑی پیدا کیے۔ چنانچہ پوری پاکستانی قوم پانچ دہائیوں تک ہاکی کے اپنے کھلاڑیوں کے گن گاتی رہی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ چونکہ ہمیں ہاکی کے میدان میں بھی اپنے ہیرو فراہم تھے اس لیے ہم نے بھارت کے ہاکی ہیروز کی طرف نہیں دیکھا۔ پوری قوم کئی دہائیوں تک شہناز شیخ، اصلاح الدین، سمیع اللہ، اختر رسول، منظور سینئر اور منظور جونیئر کو یاد کرتی رہی۔ پوری تحریکِ پاکستان کے دوران ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی محسوس نہیں ہوا کہ ہمارے پاس کوئی گاندھی اور کوئی نہرو نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے پاس قائداعظم تھے جو تنِ تنہا گاندھی اور نہرو پر بھاری تھے۔ اور تو اور پاکستان نے ٹیلی ڈرامے میں بھی بھارت سے ہزار گنا زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ چنانچہ بھارت کا ٹیلی وژن اور اس کے اداکار بھی ہمیں کبھی ’’متاثر‘‘ نہ کرسکے۔ فلم اچھی چیز ہو یا بری چیز، وہ اربوں لوگوں کی تفریح کا ذریعہ ہے اور اربوں لوگوں کا ذوق فلم سے تسکین پاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس دائرے میں ہم کبھی بھارت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس سلسلے میں ہماری ’’کارکردگی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ہماری فلموں بالخصوص پنجابی اور پشتو فلموں کو تو فحاشی تک پھیلانی نہیں آتی۔ فحش نگاری بدترین چیز ہے مگر اس کے لیے بھی ’’اہلیت‘‘ درکار ہے، اور ہمارے فلم سازوں بالخصوص پنجابی اور پشتو فلم سازوں کو کبھی فحاشی تک تخلیق کرنی نہیں آئی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے فحاشی تخلیق کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے کوشش تو بہت کی ہے مگر وہ اس کوشش میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو فحاشی خلق کرنی نہیں آتی وہ اچھی فلم کیسے تخلیق کریں گے؟ چونکہ ہمارے یہاں اعلیٰ درجے کی فلمیں نہ بن سکیں اس لیے ہمارے ملک میں اچھی فلموں اور اچھے اداکاروں کا ایک خلا پیدا ہوگیا۔ چنانچہ اس دائرے میں ہمیں ’’مقامی ہیروز‘‘ دستیاب نہ ہوسکے، اس لیے ہمارے شعور کو بھارت سے فلمیں اور ہیروز درآمد کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ لیکن پاکستان میں بھارتی فلموں کی مقبولیت کے اسباب کا مزید گہرائی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان جس تہذیب اور جس زبان کی علامت اور ترجمان ہے وہ تہذیب اور زبان گزشتہ سو سال سے بھارت کی فلمی صنعت کو مسخر کیے کھڑی ہوئی ہے۔ بھارت کے ایک ارب 20کروڑ باشندوں کا شعری حافظہ فلمی گیتوں پر مشتمل ہے اور بھارت کے 99.9 فیصد فلمی گیت اردو میں لکھے ہوئے ہیں۔ صرف اردو میں نہیں، ان گیتوں میں مسلم تہذیب کی علامتیں اور لب و لہجہ تک پوری طرح موجود ہے۔ مثلاً بھارت کا ایک فلمی گیت ہے:
یہ لڑکا ہائے اللہ کیسا ہے دیوانہ
کتنا مشکل ہے توبہ اس کو سمجھانا
کہ دھیرے دھیرے دل بے قرار ہوتا ہے
ہوتے ہوتے ہوتے پیار ہوتا ہے
یہاں ’’بتانے‘‘ کی اصل بات یہ ہے کہ یہ گیت ہندو لڑکی پر فلمایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ہندو لڑکی ’ہائے اللہ‘ اور ’توبہ‘ جیسے الفاظ استعمال کرسکتی ہے۔۔۔؟ اول تو وہ ایسا نہیں کرسکتی، اور اگر کرے گی تو وہ مسلم تہذیب کے اظہاری سانچوں سے بے انتہا متاثر ہوگی۔ دونوں ہی صورتوں میں مسلم تہذیب کا غلبہ عیاں ہوکر سامنے آتا ہے۔ یعنی بھارت ایک سال میں سینکڑوں فلمیں تو بناتا ہے مگر اُس کے پاس ان فلموں کے لیے کوئی اظہاری سانچہ نہیں ہے۔ چنانچہ اسے مسلم تہذیب سے یہ سانچہ ادھار لینا پڑتا ہے۔ یہ صرف ایک گیت کا معاملہ نہیں ہے۔ ہم آپ کو بھارت کے ایسے ہزاروں گیت سنوا سکتے ہیں جو مسلم تہذیب کے زیر اثر ہیں۔ ان گیتوں پر اردو غزل کی روایت کا گہرا اثر ہے، اور غزل کی روایت اپنی اصل میں مسلم شاعروں کی پیدا کی ہوئی روایت ہے۔ لیکن مسلم تہذیب اور اردو کا معاملہ صرف گیتوں تک محدود نہیں۔ بھارتی فلموں کے 90 فیصد مکالمے اردو میں ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں بھارتی فلمیں اس لیے بھی دیکھی جاتی ہیں کہ ان میں پاکستان کے لوگوں کو اپنی تہذیب کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔
بھارت بلاشبہ ہندو اکثریت کا ملک ہے، مگر بھارت کی فلمی صنعت پر مسلمانوں کے اتنے گہرے اثرات ہیں کہ انہیں نظرانداز کرکے بھارت کی فلموں اور فلمی صنعت پر کوئی گفتگو ممکن نہیں۔ بھارت نے گزشتہ سو سال میں جو اداکار پیدا کیے ہیں اُن میں یوسف خان المعروف دلیپ کمار عظیم ترین ہے۔ میر تقی میرؔ نے کہا ہے:
سارے عالم پہ ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
دلیپ کمار کا معاملہ بھی یہی ہے۔ بھارت کی فلمی صنعت نہ دلیپ کمار سے بڑا اداکار پیدا کرسکی ہے اور نہ وہ آئندہ سو برسوں میں دلیپ کمار کو پھلانگنے کی استعداد پیدا کرسکتی ہے۔ بھارت کی پانچ بڑی اداکاراؤں کی فہرست بنائی جائے گی تو اس میں چار یا کم از کم تین مسلمان ہوں گی۔ بھارت کی سب سے بڑی کمرشل فلم مغل اعظم ہے۔ اور مغل اعظم کے آصف، دلیپ کمار اور مدھو بالا کی فلم ہے۔ بھارت کی فلم ’مدر انڈیا‘ تاریخ ساز اور ہندوستان کی دس بڑی فلموں میں سے ایک ہے، اور مدر انڈیا محبوب صاحب کی فلم ہے۔ ’شعلے‘ گبر سنگھ کے کردار اور اپنے مکالموں کی وجہ سے رجحان ساز فلم ہے اور شعلے کے مکالمے سلیم جاوید نے لکھے اور گبر کا کردار بھی انہوں نے ہی تخلیق کیا۔ امیتابھ بچن بلاشبہ بڑے اداکار ہیں لیکن امیتابھ کو‘ امیتابھ بنانے میں سلیم جاوید کی کہانیوں اور مکالموں کا کردار اتنا بنیادی ہے کہ ان کے بغیر امیتابھ کی عظمت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت نے اگر گزشتہ سوسال میں 100 فلمی شاعر پیدا کیے ہیں تو ان میں سے 90 مسلمان ہیں۔ بھارت کے فلمی گلوکاروں میں محمد رفیع کو نظرانداز کرکے فلمی گلوکاری پر بات ہی نہیں کی جاسکتی۔ محمد رفیع نے پچاس سال کے دوران 12 زبانوں میں 25 ہزار گیت گائے ہیں۔ اس بنیاد پر رفیع کی گائیکی کو Sociology کے مصداق Rafilogyکہا جاتا ہے۔ بھارت کے بڑے فلمی گلوکاروں میں ایک بڑا نام طلعت محمود کا بھی ہے ۔ گلوکاراؤں میں شمشاد بیگم اور نورجہاں کے گیت آج بھی سنے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بھارت کی پوری فلمی صنعت پر مسلم ’’تہذیب‘‘ اور ’’مسلم ماہرین‘‘ چھائے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کی فلموں نے پاکستان کو فتح کیا ہوا ہے، یا پاکستان جس تہذیب اور جس زبان کی علامت سمجھا جاتا ہے اُس نے بھارت کی فلمی صنعت اور بھارت کے ایک ارب 20کروڑ انسانوں کے فلمی حافظے کو فتح کیا ہوا ہے؟ کیا ان حقائق کو جانے بغیر کوئی جان سکتا ہے کہ پاکستان میں بھارتی فلمیں کیوں دیکھی اور پسند کی جاتی ہیں۔۔۔؟

Leave a Reply