سرسیّد اور طاقت

بعض لوگ سرسیّد کو قدامت پرست سمجھتے ہیں اور بعض لوگ سرسیّد کو بابائے جدیدیت کہتے ہیں لیکن سرسیّد نہ قدیم تھے نہ جدید تھے۔ سرسیّد صرف طاقت پرست تھے۔ یہ سرسیّد کے بارے میں اتنی بنیادی بات ہے کہ اس کے بغیر سرسیّد کی فکر اور شخصیت کو سمجھنا ناممکن ہے۔
انسانی تاریخ میں فکر و عمل کے بہت سے محرکات سامنے آئے ہیں۔ مثلاً ایک محرک ایمان ہے۔ انبیا و مرسلین، ان کے اصحاب اور ان کے حقیقی وارثوں کا اصل اصول ایمان ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا اصل اصول محبت ہوتا ہے، ایسے لوگ محبت کے سوا کسی چیز کو اہمیت نہیں دیتے۔ لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، رومیو جولیٹ کے قصے اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ ان لوگوں کے لیے محبت ہی سب کچھ تھی۔ بعض لوگوں کا اصل اصول اخلاقیات ہوتا ہے۔ وہ اخلاقی اصولوں کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کے لیے جان تک دے دیتے ہیں۔ سقراط کا کردار اس امر کا بین ثبوت ہے۔ سقراط کا اصل مسئلہ صداقت تھی اور صداقت اس کے نزدیک اخلاقی اصول تھا۔ انسانوں کی ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے جو علم کو اصل اصول بنائے ہوئے ہیں۔ لیکن انسانوں کی عظیم اکثریت ایمان، محبت، اخلاق اور علم کے نعرے تو بہت بلند کرتی ہے مگر اس کا اصل اصول طاقت ہوتا ہے۔ اس کو جہاں طاقت نظر آتی ہے وہیں حق نظر آتا ہے۔ اس کو جہاں طاقت نظر آتی ہے وہیں کمال دکھائی دیتا ہے۔ اسے جہاں طاقت کا احساس ہوتا ہے وہیں جمال کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ طاقت پرست باطل کو طاقت ور دیکھ کر اس کو نہ صرف یہ کہ حق تسلیم کرلیتا ہے بلکہ وہ باطل کو قوی دیکھ کر اس کے آگے سجدہ ریز بھی ہو جاتا ہے۔ سرسیّد کا مسئلہ یہی ہے۔
پورے برصغیر کا اس بات پر اجماع ہے کہ انگریز غاصب تھے، جابر تھے، ظالم تھے، احساس برتری میں مبتلا تھے، وہ خود کو مہذب اور مقامی لوگوں کو غیر مہذب سمجھتے تھے۔ انہوں نے سازش کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا مجموعی علم ان کے علم کا پاسنگ بھی نہیں ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سرسیّد کے یہاں انگریزوں کا بیان دیکھا ہے۔ سرسیّد لکھتے ہیں۔
’’خدا کی مرضی یہ ہوئی کہ ہندوستان ایک دانش مند قوم کی حکومت میں دے دیا جائے جس کا طرزِ حکومت زیادہ تر قانونِ عقلی کا پابند ہو۔ بے شک اس میں بڑی حکمت خدا تعالیٰ کی تھی۔ (افکار سرسیّد۔ ضیاء الدین لاہوری- صفحہ239)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
’’خدا کا شکر ہے کہ اس نے ایسی مہربان اور عادل گورنمنٹ ان کی جان و مال اور عزت اور مذہب پر مسلط کی جو ان کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہے اور اس نے ہر طرح کی مذہبی آزادی عنایت کی ہے‘‘۔ (افکار سرسیّد۔ ضیاء الدین لاہوری- صفحہ240)
برطانوی حکومت کے بارے میں ایک مقام پر سرسیّد نے لکھا۔
’’ہمارا مذہبی فرض ہے کہ ہم حضرت ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی اطاعت دل و جان سے کریں اور ان کی دولت اور حکومت کی درازی اور قیام و استحکام کی دُعا کرتے رہیں‘‘۔(افکار سرسیّد۔ ضیاء الدین لاہوری- صفحہ241)
سرسیّد پوری نیک نیتی سے مسلمانوں سے چاہتے تھے کہ وہ انگریزوں سے آزادی کا خواب دیکھنے کے بجائے انگریزوں کے وفا دار بن کر رہیں۔ چناں چہ انہوں نے ایک جگہ تحریر فرمایا۔
’’ہندوستان میں برٹش گورنمنٹ خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے۔ اس کی اطاعت اور فرماں برداری اور پوری وفاداری اور نمک حلالی۔۔۔ خدا کی طرف سے ہمارا فرض ہے‘‘۔
(افکار سرسیّد۔ از ضیاء الدین لاہوری- صفحہ243)
برصغیر میں ایسے بہت سے مسلمان اور ہندو تھے جنہوں نے انگریزوں کے اقتدار کو ’’مجبوراً‘‘ قبول کرلیا تھا۔ مثلاً اکبر الٰہ آبادی نے اپنی شاعری میں انگریزوں اور ان کی تہذیب کے خلاف جہاد کیا ہے لیکن انہوں نے مجبوری کی حالت میں فرمایا ہے۔
شعرِ اکبر کو سمجھ لو یاد گار انقلاب
اس کو یہ معلوم ہے ٹلتی نہیں آئی ہوئی
اکبر کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ انگریز اچھے ہوں یا برے ہوں۔ ان کی حکومت اب برصغیر کی تقدیر ہے لیکن سرسیّد کے مذکورہ بالا خیالات کو دیکھا جائے تو اس میں مجبوری کا کوئی احساس موجود نہیں۔ اس کے برعکس سرسیّد برصغیر پر انگریزوں کے تسلط پر خوشی سے بھنگڑا ڈالتے نظر آتے ہیں۔ سرسیّد انگریزوں کے تسلط پر بھنگڑا ڈال لیتے تو یہ بھی غنیمت ہوتا۔ مگر مذکورہ بالا بیانات میں سرسیّد بھنگڑے سے آگے بڑھ گئے ہیں اور انہوں نے انگریزوں کے تسلط اور استبداد کو ’’خدا کی مرضی‘‘ قرار دے دیا ہے۔ حالاں کہ برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت انگریزوں کے تسلط کو مسلمانوں یا بالخصوص مسلم حکمرانوں کی بداعمالیوں اور عاقبت نا اندیشی کا نتیجہ سمجھتی تھی۔ مگر سرسیّد کو نہ جانے کس ’’وحی‘‘ کے ذریعے یہ معلوم ہوگیا کہ انگریز برصغیر پر مسلط ہوئے ہیں تو یہ ’’خدا کی مرضی‘‘ ہے۔ سرسیّد نے انگریزوں کے تسلط کو ’’خدا کی مرضی‘‘ قرار دینے پر بھی اکتفا نہ کیا بلکہ انہوں نے اس تسلط کو خدا کی ’’رحمت‘‘ قرار دیا ہے۔ ہماری روایت میں خدا کی رحمت کا مفہوم عیاں ہے۔ ہم جب کسی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ خدا نے فلاں شخص پر اپنی رحمتیں نازل کیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا نے اس شخص سے خوش ہو کر اسے انعام و اکرام سے نوازا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو برصغیر پر انگریزوں کی حکومت سرسیّد کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا ’’انعام‘‘ تھی۔ تجزیہ کیا جائے تو سرسیّد انگریزوں کے جبر کو اللہ تعالیٰ کا انعام کہہ کر بھی مطمئن نہ ہوئے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ’’انعام‘‘ کے ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے کے لیے دُعائیں بھی کریں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ سرسیّد کے ان خیالات سے ایک پست مزاج طبقے کے سوا کوئی متاثر نہ ہوا۔ ورنہ سرسیّد تو یہ چاہتے تھے کہ انگریز قیامت تک برصغیر پر مسلط رہیں اور ان کی طاقت کو کبھی زوال نہ آئے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ طاقت پرستی انسان سے کیا کہلوا اور کروا سکتی ہے کسی کو یہ دیکھنا ہو تو وہ سرسیّد کی فکر اور ان کے عمل کا مطالعہ کرلے۔ سرسیّد کی ’’فکر‘‘ کے چند نمونے ہم آپ کے سامنے پیش کرچکے۔ سرسیّد کا ایک ’’عمل‘‘ یہ تھا کہ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی کے درجنوں مجاہدین کی مخبری کی اور انہیں پکڑوایا۔
سرسیّد کی طاقت پرستی کا ایک مظہر یہ تھا کہ انگریز اتفاق سے پروٹیسٹنٹ تھے۔ یعنی عقل پرست۔ چناں چہ سرسیّد بھی پروٹیسٹنٹ یا عقل پرست ہوگئے۔ پروٹیسٹنٹس نے اپنی عقل پرستی کے تحت انجیل کے13ابواب کا انکار کردیا۔ان ابواب میں معجزوں خرقِ عادات واقعات کا بیان ہے۔ سرسیّد قرآن مجید کا انکار تو نہ کرسکے، البتہ انہوں نے کھل کر معجزوں کا انکار کیا ہے۔ وہ نہ رسول اکرمؐ کی جسمانی معراج کے قائل ہیں اور نہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ سیّدنا عیسیٰؑ بن باپ کے بچے تھے۔ بلکہ سرسیّد نے اپنی تحریروں میں معاذ اللہ سیّدنا عیسیٰؑ کا ایک باپ ایجاد کرکے دکھایا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ انگریز پروٹیسٹنٹ تھے تو سرسیّد پروٹیسٹنٹ ہوگئے۔ انگریز کیتھولک ہوتے تو سرسیّد بھی کیتھولک ہو جاتے۔ اس لیے کہ اصل مسئلہ طاقت کا تھا۔ جس کے پاس طاقت ہے اس کا مذہب بھی درست، اس کا ظلم و جبر بھی روا۔
سرسیّد کے لیے طاقت کتنی اہم تھی اس کا ایک اظہار خلفائے راشدین پر ان کے ایک ’’زریں‘‘ تبصرے سے ہوتا ہے۔ یہ تبصرہ ایسا ہے کہ اسے نقل کرنے اور پڑھنے کے لیے بھی دل گردہ اور بے پناہ برداشت درکار ہے۔ سرسیّد لکھتے ہیں۔
’’خلافت کی نسبت بحیثیت انتظام ملکی کیا لکھا جائے اور کون لکھ سکتا ہے۔ میں تو ان صفات کو جو ذات نبوی میں جمع تھیں دو حصوں پر تقسیم کرتا ہوں۔ ایک سلطنت اور ایک قدوسیت۔ اوّل کی خلافت سیّدنا عمرؓ کو ملی، دوسری کی خلافت سیّدنا علیؓ و ائمہ اہل بیت کو۔ مگر یہ کہہ دینا تو آسان ہے مگر کس کی جرأت ہے کہ اس کو لکھے۔ سیّدنا عثمانؓ نے سب چیزوں کو غارت کردیا۔ سیّدنا ابوبکرؓ تو صرف برائے نام بزرگ آدمی ہے۔(افکار سرسیّد۔ از ضیا الدین لاہوری- صفحہ235)
اس سلسلے میں سرسیّد نے مزید فرمایا ہے۔
’’سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کا زمانہ خلافت تو شمار نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ در حقیقت وہ زمانہ بھی سیّدنا عمرؓ ہی کی خلافت کا تھا اور وہی دخیل و منتظم تھے۔ سیّدنا عمرؓ کا زمانہ کیا بہ نظر انتظام اور کیا بہ نظر فتوحات و امن قلامت و رعب و داب۔۔۔ ایک بے نظیر زمانہ تھا۔ سیّدنا عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں جو کچھ ہوا وہ صرف سیّدنا عمرؓ کے زمانۂ خلافت کا اثر تھا۔
بقیہ صفحہ9نمبر1
سرسیّد اور طاقت
سیّدنا علیؓ تک جب خلافت پہنچی تو ایسی ابتر و خراب ہوگئی تھی جس کا درست ہونا اگر ناممکن نہ تھا تو قریب قریب ناممکن تھا‘‘۔ (افکار سرسیّد۔ از ضیا الدین لاہوری- صفحہ235)
سرسیّد کے ان خیالات کو دیکھا جائے تو سرسیّد کی پسندیدہ شخصیت سیّدنا عمرؓ ہیں اور سیّدنا عمر کو پسند کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے زمانے میں فتوحات بہت ہوئیں جو اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کا ایک مظہر ہیں۔ سیّدنا ابوبکرؓ اور سیّدنا عثمانؓ کے زمانے میں چوں کہ اتنی فتوحات نہ ہوسکیں اس لیے سرسیّد ان عظیم ہستیوں کے رَتی برابر بھی قائل نہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ سیّدنا عمرؓ اگر پوری دنیا بھی فتح کرلیتے تب بھی وہ سیّدنا ابوبکرؓ سے برتر نہیں ہوسکتے تھے۔
سرسیّد ایک زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کے بڑے قائل تھے اور انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک خوب صورت دلہن کی دو آنکھیں قرار دیا تھا۔ مگر جب مسلمانوں اور ہندوؤں میں طاقت کی کش مکش برپا ہوئی تو سرسیّد کو یاد آیا کہ برصغیر میں ہندو اور مسلمانوں کا اصل تعلق یہ ہے کہ مسلمان آٹھ سو سال تک ہندوؤں کے آقا اور ہندو کتنے ہی عرصے تک مسلمانوں کے غلام رہ چکے ہیں۔ چناں چہ سرسیّد نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں تو وہ کانگریس میں شامل ہونے کے بجائے اپنا الگ پلیٹ فارم بنائیں۔ اس بنیاد پر سرسیّد کو بعض لوگ دو قومی نظریے کا بانی بھی کہتے ہیں۔ لیکن اس دو قومی نظریے کی جڑیں مذہب سے زیادہ طاقت کی نفسیات میں پیوست ہیں۔

Leave a Reply