اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں چرسیوں اور شرابیوں ’’وغیرہ‘‘ کے مزے

اسلام آباد سے ایک ایسی خبر آئی ہے جو بیک وقت ’’مانوس‘‘ بھی ہے اور ’’اجنبی‘‘ بھی۔ مانوس اس لیے کہ خبر کے مواد سے ہم سب واقف ہی ہیں۔ اجنبی اس لیے کہ بہت سی چیزوں سے ہم برسوں کیا دہائیوں سے واقف ہوتے ہیں مگر ہم مختلف وجوہ کی بنا پر ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔ لیکن اسلام آباد سے آنے والی خبر کیا ہے؟۔
اطلاعات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ملک کو اسلامی جمہوریہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف مسجدوں سے وابستہ لوگوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالا جارہا ہے۔ لال مسجد کے خادم منظور حسین کا نام فورتھ شیڈول سے خارج کیا جائے۔ عدالت عالیہ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے لال مسجد کے خادم کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں صرف مساجد سے وابستہ لوگوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال رہی ہیں۔ عدالت عالیہ نے کہا کہ آج تک کسی چرسی، شرابی، جوئے اور فحاشی کے اڈے چلانے والوں کا نام فورتھ شیڈول میں نہیں ڈالا گیا۔ خبر کے مطابق لال مسجد کے خادم منظور حسین کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کے خلاف درخواست کی سماعت کا آغاز ہوا تو ہوم ڈپارٹمنٹ پنجاب کے افسر نے بتایا کہ منظور حسین کا نام فورتھ شیڈول میں سی ٹی ڈی کی رپورٹ پر ڈالا گیا۔ اس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے عدالت میں موجود سی ٹی ڈی افسر سے پوچھا کہ منظور حسین پر کیا الزام ہے کہ ان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا۔ اس سوال پر ڈی پی او اٹک سی ٹی ڈی نے عدالت کو بتایا کہ منظور حسین کے گھر کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کے لوگوں کا آنا جانا ہے اور وہ لال مسجد و جامعہ حفصہ کے لیے چندہ بھی کرتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ درخواست گزار کے گھر سپاہ صحابہ کے لوگوں کا آنا جانا ہے اور سپاہ صحابہ کا کون سا مطلوب شخص درخواست گزار کے گھر ٹھیرا۔ اس حوالے سے سی ٹی ڈی کے افسر نے کہا کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس جواب پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ مساجد کے خادم اور موذنوں کا اس قوم پر جو احسان ہے اس کا بدلہ پوری قوم مل کر بھی نہیں دے سکتی۔ مساجد کے خادم اور موذن میرے اور آپ کے لیے مساجد کے فرش صاف کرتے ہیں، بیت الخلا دھوتے ہیں، آپ کو شرم آنی چاہیے کہ آپ مساجد سے وابستہ لوگوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالتے ہیں۔ آج تک کسی چرسی، شرابی، جوئے اور فحاشی کے اڈے چلانے والوں کا نام بھی فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا۔ اس ملک کو تو اب اسلامی جمہوریہ کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ اگر آپ میں اتنی ہمت ہے تو مساجد کے خادموں اور موذنوں کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کے بجائے کالعدم جماعت کے بڑے لوگوں کو صرف ہاتھ ہی لگا کر دکھائیں۔ وہ لوگ تو آپ کی حفاظت میں رہتے ہیں۔ (روزنامہ جنگ 17 جنوری 2017ء صفحہ3)
خبر ذرا طویل ضرور ہے مگر کئی اعتبار سے اہم ہے۔ دیکھا جائے تو خبر کا لب لباب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چرسیوں، شرابیوں ’’وغیرہ‘‘ کے مزے آئے ہوئے ہیں۔ ہم ایسے کئی لوگوں سے آگاہ ہیں جو بیک وقت نفسیاتی مریض، چرسی، شرابی بھی ہیں اور بعض حلقوں میں ان کی شہرت passive homo sexual کی ہے مگر اس کے باوجود وہ معاشرے میں نیکی و بدی، دین داری، دنیا داری، علم اور جہالت کی اسناد بانٹتے پھرتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ اسلام، اسلام بھی کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے افراد کو برسوں سے جانتے ہیں مگر وہ اپنی فطری شرافت اور نجابت کے تحت زبان نہیں کھولتے۔ اس سے ایسے لوگوں کو شہہ ملتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن اور ان کے کھلے اور پوشیدہ ’’کارناموں‘‘ سے کوئی آگاہ ہی نہیں ہے۔ چناں چہ معاشرے کے ذلیل ترین لوگ معاشرے میں عزت ’’انجوائے‘‘ کرتے رہتے ہیں اور مساجد کے خادم اور موذن مجرموں کی فہرست میں شامل کرلیے جاتے ہیں۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔
ایک وقت تھا کہ ہمارے معاشرے میں مذہب کے ساتھ ذہین ترین افراد وابستہ ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ میں مذہبی ادب کا جو سرمایہ تخلیق کیا ہے دنیا کی کوئی دوسری اُمت اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ دینی مدارس معاشرے کے ان طبقات کے لیے وقف ہو کر رہ گئے ہیں جن کے یہاں نہ علم اور ذہانت موجود ہے اور نہ ہی وہ معاشرتی اور مالی اعتبار سے اہم ہیں۔ ہم اسلام اسلام بہت کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو مذہبی علوم کے بجائے دنیاوی علوم پڑھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمارا مسئلہ یا ہمارا ideal دنیا اور اس کی آسائشیں ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بھی دنیا اور اس کی آسائشوں کے اعتبار سے ’’کامیاب‘‘ کہلائے۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ ذہین ترین بچے ڈاکٹر، انجینئر اور آئی ٹی کے ماہر بن رہے ہیں۔ ایم بی اے اور سی اے کررہے ہیں اور اپنے مالوں کی وجہ سے کم ذہنی صلاحیتوں کے حامل بچے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہی بچے پھر مدارس اور مساجد کا انتظام سنبھالتے ہیں، چوں کہ ان لوگوں کی کوئی سماجی اور معاشرتی اہمیت نہیں اس لیے ان کی عزت بھی کم ہے۔ نائن الیون کے بعد مذہبی طبقات امریکا اور اُس کے مقامی ایجنٹوں کی زد پر آگئے، چناں چہ مدارس اور مساجد کے خادموں کی مشکلات مزید بڑھ گئیں۔ ان مشکلات میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ مدارس اور مساجد سے وابستہ افراد کو ’’مشتبہ‘‘ سمجھا جارہا ہے۔ مدارس کی رجسٹریشن ہورہی ہے، ان سے طرح طرح کے مطالبات کیے جارہے ہیں۔ کبھی کہا جارہا ہے کہ اپنا نصاب بدلو، کبھی کہا جارہا ہے کہ اپنے مالی وسائل کے ’’sources‘‘ ظاہر کرو۔ ذرائع ابلاغ چیخ رہے ہیں کہ مدارس انتہا پسندی کو پروان چڑھا رہے ہیں، امریکا کہہ رہا ہے کہ مدارس دہشت گردی کے مراکز ہیں۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ مدارس کی عظیم اکثریت کا نہ دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے نہ نام نہاد انتہا پسندی سے ان کو کچھ لینا دینا ہے۔
بلاشبہ مدارس اور مساجد کے نظام نے گزشتہ تین چار دہائیوں میں کوئی بڑا ذہین پیدا نہیں کیا۔ لیکن مدارس اور مساجد کے نظام نے دین اور قوم کی جو خدمت کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جدید تعلیم یافتہ طبقوں میں اوسط درجے کی صلاحیت رکھنے والے بھی لاکھوں میں کھیل رہے ہیں، لیکن مدرسوں اور مساجد کے خادم کیا مدارس کے اساتذہ کے مشاہرے بھی دس پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں ہوتے۔ یہ مشاہرے اتنے کم ہیں کہ ان کے دائرے میں زندگی گزارنے کا تصور محال ہے مگر ہمارے علماء ڈیڑھ سو سال سے نفس کشی کی جو مثالیں پیش کررہے ہیں جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس تناظر میں جسٹس شوکت عزیز نے بجا طور پر مساجد کے خادموں اور موذنوں کو قوم کا محسن قرار دیا ہے۔ یہ خادم اور موذن نہ ہوں تو مساجد کا نظام چلانا محال ہو جائے گا۔ مساجد کے خادموں اور موذنوں کی اس اہمیت کے باوجود ہمارا ریاستی نظام انہیں محسنوں کا درجہ دینے کے بجائے انہیں مجرموں کی صفوں میں دھکیل رہا ہے۔ حالاں کہ بیش تر صورتوں میں اس کے پاس اپنے اقدام کی حمایت میں کوئی شہادت بھی موجود نہیں ہوتی۔
ایک وقت تھا کہ مدارس کے لیے وقف کا بندوبست موجود تھا۔ اس زمانے میں مدارس کے پاس نہ وسائل کی قلت تھی اور نہ وہ اپنی بقاء کے لیے کسی کے دست نگر تھے۔ انگریزوں کی آمد کے بعد انگریزوں نے بعض بڑے دینی مدارس کو مالی امداد فراہم کرنے کی کوشش کی لیکن دینی مدارس کے نگرانوں نے مالی امداد لینے سے انکار کردیا۔ انہیں اندیشہ تھا کہ انگریز امداد دیں گے تو پھر وہ مدارس کے نصاب پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گے۔ غلامی کے عرصے میں مسلمانوں کی معاشی حالت خراب ہوئی اور اس کا اثر مدارس پر بھی مرتب ہوا۔ انگریزوں کا تعلیمی نظام مستحکم ہوا اور اس کے ’’ثمرات‘‘ ظاہر ہونا شروع ہوئے تو پورا معاشرہ جدید تعلیم کے عشق میں مبتلا ہوگیا اور اکبر کے الفاظ میں صورت حال یہ ہوئی کہ؂
سیّد اُٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسا نہ ملا
اس منظرنامے میں سیّد اور ان کا گزٹ نئے عہد اور نئی زندگی کی علامت تھا اور شیخ اور قرآن عہد رفتہ کی یادگار تھے۔ یہ معاشرے میں رائج ہونے والا درجہ بندی کا ایک نیا نظام تھا۔ اگرچہ ہمارے دور تک آتے آتے بہت کچھ بدل گیا ہے لیکن بیش تر مساجد اور بیش تر مدارس کا نظام آج بھی چندے اور زکوٰۃ و خیرات کا مرہون منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مدارس کا حال دیکھ کر ناصر کاظمی کا یہ شعر یاد آجاتا ہے؂
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
ہمارے حکمرانوں کو اس اداسی کا شعور ہے چناں چہ وہ مدارس اور مساجد کے وابستگان پر دباؤ بڑھا کر ان کی اداسی اور پریشانی کو مزید گہرا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جسٹس شوکت عزیز کے الفاظ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کہنا بھی دشوار ہو چلا ہے۔

Leave a Reply