اسلام اور مغرب

سیرت طیبہؐ کا مشہور واقعہ ہے۔ رسول اکرمؐ ایک روز صحابۂ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ حضرت ابو بکرؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ میں نے آج تک اتنا جمیل چہرہ نہیں دیکھا۔ حضور اکرمؐ نے ابوبکرؓ کی بات سنی اور فرمایا۔ تم نے ٹھیک کہا۔ تھوڑی دیر بعد ابوجہل وہاں سے گزرا اور اس نے آپؐ کے چہرۂ انور کی طرف دیکھ کر کہا کہ معاذ اللہ میں نے آج تک اتنا برا چہرہ نہیں دیکھا۔ حضور اکرمؐ نے اس کی بات سنی اور فرمایا تو نے ٹھیک کہا۔ وہاں موجود صحابہ کرام نے سوال کیا کہ آپ نے دو مختلف باتوں کے بارے میں ایک ہی جواب دیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ میں ایک آئینہ ہوں سب کو مجھ میں اپنا ہی عکس نظر آتا ہے۔ حضور اکرمؐ مجسم قرآن اور اسلام کی کامل ترین اور بلند ترین صورت تھے۔ چناں چہ اسلام بھی ایک آئینہ ہے اور اس میں ہر ایک کو اپنا ہی عکس نظر آتا ہے۔ اقبال نے کہا ہے؂
ولایت‘ پادشاہی‘ علم اشیا کی جہانگیری
یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیریں
اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص اسلام کے آئینے میں دیکھتا ہے اور اس کا ایمان ایسا ہوتا ہے کہ خدا اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ ایک انسان کا ایمان ایسا ہوتا ہے کہ اسے دنیا کی بادشاہی عطا ہوجاتی ہے۔ ایک آدمی ایسا ایمان لاتا ہے کہ اسے علم اشیا کی جہانگیری بخش دی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام کے آئینے میں مغرب کا چہرہ بہت ہی ہولناک نظر آتا ہے۔
اسلام کے پاس وہ تمام چیزیں موجود ہیں جو عیسائیت کا سرمایہ ہیں، اسلام کے پاس ایک خدا کا تصور ہے، اسلام کے پاس ایک آسمانی کتاب ہے، اسلام تمام انبیاء و مرسلین کو تسلیم کرتا ہے، اسلام کے پاس تصور آخرت ہے، اسلام خیر و شر کا تصور رکھتا ہے، اسلام فرشتوں کا قائل ہے، اسلام کے نزدیک اخلاقیات کی اہمیت بنیادی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مغربی دنیا نے اسلام کو آسمانی مذہب اور رسول اکرمؐ کو نبی تسلیم کرکے نہ دیا۔ حالاں کہ آپؐ کی سیرت طیبہؐ میں ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جو انبیا و مرسلین میں نہ پائی جاتی ہو۔ بلاشبہ عیسائیت کے دائرے میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلام کو آسمانی مذہب اور رسول اکرمؐ کو پیغمبر مانتے ہیں مگر ابھی تک عیسائیت یا پوپ کے ادارے کی سرکاری پوزیشن یہی ہے کہ اسلام آسمانی مذہب اور رسول اکرمؐ پیغمبر نہیں ہیں۔ اس صورت حال نے انسانی تاریخ کے ایک بڑے جنگی سلسلے کو جنم دیا۔ عام مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو معلوم نہیں کہ جس چیز کو وہ صلیبی جنگیں کہتے ہیں وہ کیا تھیں؟
صلیبی جنگیں مسلمانوں کی ’’ایجاد‘‘ نہیں تھیں۔ انہیں کسی اسامہ بن لادن یا ملا عمر نے تخلیق نہیں کیا تھا۔ یہ جنگیں کسی جارج بش یا ڈونلڈ ٹرمپ کی وضع کردہ بھی نہیں تھیں۔ ان جنگوں کو عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت یعنی ’’پوپ‘‘ وجود میں لائی تھی۔ اس وقت کے پوپ کا نام اُربن دوئم تھا۔ پوپ اُربن دوئم نے سن 1095 میں ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں پوپ اُربن دوئم نے کہا کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے۔ اس کے پیرو کار گمراہ ہیں اور میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ ہمیں اس شیطانی مذہب کو روئے زمین سے مٹا دینا چاہیے۔ پوپ نے اس ’’نیک کام‘‘ کے لیے پورے یورپ کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کا حکم دیا۔ پوپ کا یہ حکم موثر ثابت ہوا اور سن 1099 میں یورپ کی تمام اقوام ایک پرچم کے نیچے جمع ہوئیں اور ان صلیبی جنگوں کی ابتدا ہوئی جو مختلف مراحل میں دس بیس سال نہیں دو سو سال جاری رہیں۔ ان جنگوں کے آغاز میں بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ صلیبی فوجوں نے بیت المقدس میں اس بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا کہ بیت المقدس کی گلیاں خون سے بھر گئیں۔ صلیبی جنگیں تقریباً دو سو سال بعد اس وقت ختم ہوئیں جب صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو پے در پے شکستوں سے دوچار کیا اور انہیں مسلم علاقوں سے نکال باہر کیا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا صلیبی جنگیں دو سو سال جاری رہیں، اس طویل عرصے میں مسلمانوں نے اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے سوا کچھ نہ کیا۔
نو آبادیاتی دور بھی مسلمانوں کی ایجاد نہیں تھا۔ یہ ’’کارنامہ‘‘ بھی مغرب ہی نے انجام دیا۔ اس وقت بھی کوئی اسامہ بن لادن اور کوئی ملا عمر موجود نہ تھا اور مسلمانوں نے مغرب کے کسی شہر میں twin towers کو منہدم کیا تھا اور نہ انہوں نے مبینہ طور پر پینٹا گون پر حملہ کیا تھا۔ اصل قصہ یہ تھا کہ یورپ میں صنعتی انقلاب برپا ہوچکا تھا اور یورپ کو نئی منڈیوں اور خام مال کی ضرورت تھی۔ اس پر طرہ یہ تھا کہ یورپ خود کو مہذب اور باقی تمام اقوام بالخصوص عالم اسلام کو غیر مہذب سمجھتا تھا۔ چناں چہ غیر مہذب اقوام کو مہذب بنانے کی ’’ذمے داری‘‘ جسے مغرب نے white man’s burden کا نام دیا بھی مغرب کے سر تھی۔ ان تصورات کے تحت یورپی اقوام اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام پر قابض ہوگئیں۔ لیکن مغربی اقوام نے صرف قبضے پر اکتفا نہ کیا۔ انہوں نے مستشرقین بھی پیدا کیے، مشرق کے ان ماہرین نے اسلام میں کیڑے نکالے، انہوں نے رسول اکرمؐ کی ذات مبارکہ پر رکیک حملے کیے۔ یورپی اقوام نے سیاسی غلامی کو ذہنی اور تہذیبی غلامی میں تبدیل کرنے کی سازش کی۔ انہوں نے اسلامی علم و فنون اور مسلمانوں کی زبانوں کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ نو آبادیاتی دور بھی مسلمانوں کی ایک صدی نگل گیا۔ اس طویل عرصے میں بھی اسلام اور مسلمان ایک دفاعی جنگ لڑتے رہے۔
نو آبادیاتی دور اور اس سے متصل زمانے میں مغرب نے اسلام کے بارے میں اس تصور کو عام کرنے کی کوشش کی کہ بلاشبہ اسلام ایک بڑا مذہب ہے لیکن اسلام اب دنیا کو بدلنے والی قوت نہیں۔ اسے دنیا کو جو کچھ دینا تھا دے چکا اور اب اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ لیکن 20 ویں صدی کے وسط تک آتے آتے برصغیر میں قیام پاکستان کے لیے نہ صرف یہ کہ ایک بڑی تحریک برپا ہوئی بلکہ صرف سات سال میں ریاست عطا کردی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس تحریک کی بنیاد اسلام اور اس کا جداگانہ تشخص تھا۔ لیکن پاکستان کا قیام اور دوسرے مسلم ملکوں کی آزادی کے پس منظر میں کہیں دوسری عالمی جنگ اور نو آبادیاتی طاقتوں کی زبوں حالی بھی موجود تھی۔ اس لیے قیام پاکستان کے حوالے سے مغرب میں اسلام اس طرح زیر بحث نہ آسکا جس طرح آنا چاہیے تھا۔ لیکن ایران کے انقلاب نے مغرب کو چونکا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایران کے انقلاب کا حوالہ اسلام تھا۔ لیکن ایران میں انقلاب آچکا تو مغرب نے کہا کہ ایران کا انقلاب ’’طاقت‘‘ کے ذریعے آیا ہے۔ اسلام جمہوری ذرائع سے اقتدار میں نہیں آسکتا۔ لیکن اسلامی تحریکوں نے الجزائر، ترکی، فلسطین، مصر اور تیونس میں ووٹ کی طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے کی نظیر قائم کی۔ تاہم مغرب نے ہر جگہ اسلامی تحریکوں کے خلاف سازش کی۔ اس طرح اسلام ایک بار پھر مغرب کے لیے آئینہ بن گیا۔ یہاں تک کہ نائن الیون نے اسلام اور مغرب کے تعلق کو گہرائی کے ساتھ آشکار کیا۔
امریکا کے سابق صدر جارج بش نے نائن الیون کے بعد امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ’’کروسیڈ‘‘ یا صلیبی جنگ کی اصطلاح استعمال کی۔ مسلم دنیا میں اس اصطلاح پر اعتراض ہوا تو وضاحت کی گئی کہ اس اصطلاح کا کوئی مفہوم نہیں، تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر کی زبان پھسل گئی۔ اتفاق سے مغرب کے سب سے بڑے ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے زبان پھسلنے کے موضوع پر ایک پورا مضمون لکھا ہوا ہے اور اس مضمون میں فرائیڈ نے کہا ہے کہ زبان پھسلنے کے واقعات کا بھی ایک ’’پس منظر‘‘ ہوتا ہے اور نائن الیون کے تھوڑے ہی عرصے بعد یہ پس منظر پوری طرح عیاں ہو کر ہمارے سامنے آگیا۔
(جاری ہے)

Leave a Reply