سوشلزم کا عروج و زوال

سوشلزم کا زوال دراصل اس کے تصور انسان کی ناکامی ہے۔ دنیا میں موجود ہر نظریے کا ایک تصور انسان ہوتا ہے۔ یہ تصور انسان بتاتا ہے کہ وہ نظریہ انسان کو کیا سمجھتا ہے اور کیا نہیں سمجھتا۔ وہ نظریہ انسان کی آرزوؤں، تمناؤں اور ضروریات کا کیا تصور رکھتا ہے۔ مثلاً اسلام کا تصور انسان یہ ہے کہ انسان روح، نفس اور جسم کا مرکب ہے۔ اسلام کے تصور انسان کا ایک پہلو یہ ہے کہ انسان جتنا اچھا بندہ ہے وہ اتنا ہی اچھا انسان ہے۔ اسلام کے تصور انسان کے دائرے میں موجود انسان اپنی اصل میں ایک روحانی وجود ہے اور اس کی سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ اس کا ربّ اس سے راضی ہوجائے اور اسے جہنم سے نجات مل جائے۔ سوشلزم کا انسان اپنی اصل میں ایک معاشی حیوان تھا، اس کی ضروریات معاشی تھیں، اس کے سارے رشتے معاشی تھے، اس انسان کا نہ کوئی خدا تھا نہ مذہب تھا، اس کی نہ کوئی روح تھی نہ نفس تھا۔ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فکر کی سطح پر مذہب، روح، نفس اور جذبے کی اعلیٰ صورتوں کو مسترد کرسکتا ہے لیکن خیر کا عنصر انسانی فطرت کا حصہ ہے، چناں چہ جیسے ہی ماحول سازگار ہوتا ہے انسان روحانی، گہرے نفسیاتی و جذباتی تقاضوں کو اپنے اندر محسوس کرنے لگتا ہے لیکن ایک سراسر مادی ماحول میں انسانی تسکین کا کوئی سامان موجود نہیں ہوتا۔ چناں چہ انسان اپنے آس پاس موجود ماحول، اپنے نظام یہاں تک کہ اپنی ریاست سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ سوویت یونین اور دیگر سوشلسٹ ریاستوں میں یہی ہوا۔ سوشلسٹ انقلاب سے پہلے روس عظیم الشان ادب پیدا کرنے والا ملک تھا۔ اس نے دوستو وسکی اور ٹالسٹائی پیدا کیے تھے جنہیں آنکھ بند کرکے دنیا کے سب سے بڑے ناول نگار کہا جاسکتا ہے۔ روس نے چیخوف کو جنم دیا تھا جو دنیا کے دو عظیم افسانہ نگاروں میں سے ایک ہے۔ روس پشکن کا وطن تھا جس کا شمار بڑے شاعروں میں کیا جاتا ہے لیکن انقلاب کے بعد روس ان لوگوں کا سایہ بھی پیدا نہ کرسکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سوشلسٹ انقلاب نے روس کے تصور انسان کو اتنا پست کردیا تھا کہ اس تصور کے تحت بڑا ادب تخلیق ہو ہی نہیں سکتا۔ سوشلسٹ انقلاب نے سوویت یونین میں مذہب کو تقریباً ختم کردیا تھا لیکن سوویت یونین کے ختم ہوتے ہی وسطی ایشیائی ریاستوں میں اسلام اور خود روس میں آرتھوڈوکس عیسائیت اس طرح واپس آئی جیسے وہ وہاں سے کہیں گئی ہی نہ تھی۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ سوویت یونین مذہبی وابستگی کے لیے ترس رہا تھا لیکن سوشلسٹ ریاست کا سانچہ اس روحانی پیاس کو سطح پر نہیں آنے دے رہا تھا۔ روس کے موجودہ صدر پیوٹن سوویت یونین کے زمانے میں سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار تھے لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب انہیں صدر بننے کا موقع ملا تو انہوں نے روس میں آرتھوڈوکس عیسائیت کی بحالی کے لیے سرگرم کردار ادا کیا۔ مارکس مذہب کو عوام کی افیون کہتا تھا لیکن 70 سال کا سوشلسٹ انقلاب بھی مذہب کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کارل مارکس کو مذہب کی اہمیت اور اس کے انسانی فطرت میں مضمر ہونے کی ہوا بھی نہیں لگی تھی۔ مارکس مذہب کو بھی انسانی ساختہ یا man made چیز سمجھتا تھا۔ حالاں کہ مذہب انسان کے باطن کا حصہ ہے۔
مولانا مودودی نے سوشلزم کے زوال سے بہت پہلے سوشلزم کے زوال کی پیش گوئی کردی تھی۔ مولانا مودودی کوئی ستارہ شناس نہیں تھے، نہ ہی انہوں نے اٹکل کی بنیاد پر کچھ کہا تھا۔ دراصل مولانا تاریخ کا گہرا فہم رکھتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ سوشلزم ایک انسانی ساختہ نظریہ ہے اور انسانی ساختہ نظریے کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ سوشلزم انقلاب کے چالیس پچاس سال میں اپنے امکانات ظاہر کرچکاتھا اور اب اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس کی ساری داخلی توانائی صرف ہوچکی تھی چناں چہ سوشلزم 1991ء میں ختم نہ ہوتا تو سن 2000ء میں ختم ہوجاتا۔
سوشلزم اپنے ’’دعوے‘‘ میں انسانوں کو ’’آزاد‘‘ کرنے والا نظریہ تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سوشلزم خود ایک ’’جبر‘‘ بن گیا۔ اس جبر نے اختلاف اور مخالفت کو ہم معنی بنادیا۔ اس جبر کے حوالے سے ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا۔ لطیفہ یہ تھا کہ روس کے سائنس دانوں نے سائنس کی قوت سے مارکس کو زندہ کرلیا۔ مارکس زندہ ہوا تو اسے بتایا گیا کہ آپ کے نظریے کی بنیاد پر روس میں انقلاب آچکا ہے۔ مارکس سے پوچھا گیا کہ آپ کی کوئی خواہش ہو تو بتایئے۔ مارکس نے کہا کہ میں اپنی قوم سے خطاب کرنا چاہتا ہوں۔ مارکس کی یہ بات سن کر اسے ریڈیو ماسکو لے جایا گیا۔ ریڈیو کے نگران نے مارکس سے پوچھا کہ آپ کتنی دیر خطاب کریں گے؟ مارکس نے کہا 30 منٹ۔ ریڈیو کے انچارج نے کے جی بی کے صدر دفتر سے رابطہ کیا تو اسے بتایا گیا کہ سینسر کے بغیر 30 منٹ تک تقریر کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مارکس نے کہا کہ اچھا میں 15 منٹ خطاب کرلوں گا۔ مگر سینسر کی وجہ سے اسے 15 منٹ خطاب کی اجازت بھی نہ ملی۔ یہاں تک کہ مارکس نے کہا کہ وہ اپنی قوم سے صرف ایک فقرہ کہنا چاہتا ہے۔ ریڈیو کے نگران نے سینسر کے بغیر ایک فقرہ کہنے کا خطرہ مول لے لیا۔ مارکس ریڈیو کے مائک کے سامنے آیا اور اس نے کہا۔
’’دنیا کے پرولتاریو مجھے معاف کردو‘‘
تجزیہ کیا جائے تو مارکس کی نظریہ سازی نقائص سے پُر تھی۔ مارکس کا کہنا تھا کہ سوشلزم بھی انسانی سفر کا ایک مرحلہ ہے۔ اس سفر کی دوسری منزل کمیونزم ہوگا۔ اسی مرحلے پر ریاست کا وجود بھی ختم ہوجائے گا اور معاشرہ چھوٹی چھوٹی وحدتوں یا کمیونزم میں تبدیل ہوجائے گا۔ لیکن سوشلزم کبھی کمیونزم کی جانب پیش قدمی نہ کرسکا۔ اس کے برعکس سوشلزم ختم ہوا تو روس اور چین دونوں سرمایہ دارانہ نظام کے عاشق بن گئے۔
پہنچی وہیں یہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ مارکس کے نظریے کا ایک نقص یہ تھا کہ وہ انسانی تاریخ کے سفر کو کمیونزم پر ختم کردیتا تھا حالاں کہ جدلیاتی مادیت کا تصور بتاتا ہے کہ thesis، anti thesis اور synthesis کا تصور ہمیشہ جاری رہنے والا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ مارکس کا نظریہ اپنی اصل میں ایک تُکا تھا لیکن چوں کہ وہ لگ گیا اس لیے تیر بن گیا۔
سوشلزم ایک انقلابی نظریہ تھا لیکن یہ نظریہ ریاست کا محتاج بن کر سامنے آیا۔ سوویت یونین ختم ہوا تو سوشلزم بھی ختم ہوگیا۔ سوویت یونین ختم ہوا تو مشرقی یورپ کی سوشلسٹ ریاستوں میں بھی سوشلزم کے خلاف بغاوت ہوگئی۔ اس کے برعکس مثال اسلام کی ہے جو صدیوں سے ریاست کی قوت کے بغیر زندہ ہے۔ اللہ کے دین اور انسانی ساختہ نظریے میں یہی فرق ہے۔

Leave a Reply