سی پیک اور غلام ابن غلام

وطن عزیز میں سی پیک کے حوالے سے ایک تماشے کا منظر ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری فرماتے ہیں کہ سی پیک ان کا ’’بچہ‘‘ ہے سب سے پہلے سی پیک کا ’’vision‘‘ انہوں نے پیش کیا۔ لیکن آصف علی زرداری اور وژن کا تصور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یعنی جہاں آصف علی زرداری ہوں گے وہاں وژن نہیں ہوگا اور جہاں وژن ہوگا وہاں آصف علی زرداری نہیں ہوں گے۔ ایک ایسی قیادت جو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کچرا بھی نہ اٹھا سکے جس کے سندھ میں چالیس سالہ دور اقتدار کے باوجود دیہی سندھ موئن جو دڑو کا منظر پیش کررہا ہو اسے سی پیک کو گود لیتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ دوسری جانب میاں نواز شریف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سی پیک ہمارا منصوبہ ہے ہم نے اس کا وژن پیش کیا۔ لیکن سوچنے سمجھنے سے میاں صاحب کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں آٹھ سال سعودی عرب میں بسر کیے، لیکن ان آٹھ برسوں میں وہ صرف اتنا سوچ سکے کہ مجھے سر پر مصنوعی بال لگالینے چاہئیں۔ حالاں کہ وہ ان آٹھ برسوں میں سعودی عرب میں رہتے ہوئے اور کچھ نہیں تو عربی ہی سیکھ لیتے۔ لیکن ان کا مسئلہ دماغ کی ترقی نہیں۔ گنجے سر پر بالوں کا فروغ تھا۔ اس کے باوجود وہ سی پیک کو اپنا وژن قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی باتوں پر یا تو رویا جاسکتا ہے یا ہنسا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اگر سی پیک پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دونوں کا منصوبہ نہیں ہے تو پھر یہ کس کا منصوبہ ہے؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے۔ سی پیک نہ آصف علی زرداری کا منصوبہ ہے نہ میاں نواز شریف اور پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ ہے۔ سی پیک صرف چین کا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ چین نے وضع کیا اور اس نے اس کی اطلاع خود پاکستان کو دی۔ سی پیک اپنی اساس میں ایک چین مرکز یا china centric منصوبہ ہے البتہ اس کا ثانوی فائدہ پاکستان کو بھی ہوگا۔ لیکن سی پیک کے چین مرکز ہونے کا مفہوم کیا ہے؟
چین گزشتہ چند برسوں میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھر چکا ہے اور اگر حالات و واقعات میں کوئی بڑی ڈرامائی تبدیلی رونما نہ ہوئی تو آئندہ پانچ سے دس سال میں وہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہوگا۔ یہ صورت حال مغربی دنیا بالخصوص امریکا کے لیے قابل قبول نہ ہوگی اور چین کو اندیشہ ہے کہ اس صورت میں چین اور مغربی دنیا کے درمیان علاقائی اور عالمی سطح پر محاذ آرائی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے اور مغربی دنیا اپنی عسکری طاقت کے بل پر چین کی تجارت کے راستوں کی ناکہ بندی کرسکتی ہے۔ چناں چہ چین نے سی پیک کی صورت میں اپنے تجارتی سامان کی آمدورفت کے لیے ایک متبادل راستہ تخلیق کیا ہے۔ اس راستے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس سے چین کے تجارتی سامان سے جانے والے بحری جہازوں کے سفر کا دورانیہ بہت کم ہوگیا ہے۔ پہلے سے موجود راستے کے ذریعے اگر انہیں تین ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرنا پڑتا تھا تو اب انہیں صرف بارہ سو کلو میٹر کا سفر طے کرنا ہوگا۔ اس سے چین کے تجارتی اخراجات میں نمایاں کمی ہوگی۔ سی پیک کے حوالے سے ایک مسئلہ چین کے سرمایے کی نوعیت کا بھی ہے۔ حکمران ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے بہت شور مچائے ہوئے ہیں کہ چین سی پیک پر 46 یا 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔ لیکن اس رقم میں سرمایہ کاری کتنی ہے اور قرض کتنا ہے یہ دو اور دو چار کی صورت میں کسی کو معلوم نہیں اور اگر حکمرانوں کو معلوم ہے تو انہوں نے قوم کو اس سلسلے میں مطلع کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ حکمران سی پیک کو کایا کلپ کردینے والا منصوبہ یا game changer قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اس انقلاب کی تفصیلات کیا ہیں حکمران قوم کو یہ بتانے کے لیے تیار نہیں۔ مثلاً 46 یا 50 ارب ڈالر کے قرض یا سرمایہ کاری یا دونوں سے ملک کا صنعتی یا زرعی شعبہ کتنا مستحکم ہوگا کسی کو معلوم نہیں۔ اس ’’گیم چینجر‘‘ سے ملک میں مستقل بنیادوں پر روزگار کے کتنے مواقع پیدا ہوں گے حکمرانوں کو کچھ معلوم نہیں۔ اس گیم چینجر سے ملک کی برآمدی استعداد میں کتنا اضافہ ہوگا قوم اس حوالے سے اندھیرے میں ہے؟ اس ’’گیم چینجر‘‘ سے ہمارے تعلیمی نظام پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوں گے اس سلسلے میں ہم نے حکمرانوں کی زبان سے کچھ نہیں سنا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سی پیک ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر ٹھوس معنوں میں قوم کو معلوم نہیں۔ حالاں کہ ملک میں ایک چھوٹی سی فیکٹری لگتی ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کن مدوں میں ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ چین ابھی تک ایک استعماری طاقت نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کا حکمران طبقہ سی پیک کے سلسلے میں اتنا خاموش ہے کہ صرف غلام ابن غلام ہی اس سلسلے میں اتنے خاموش اور پراسرار ہوسکتے ہیں۔
سی پیک کے آغاز کے ساتھ ہی وطن عزیز میں اس حوالے سے گفتگو شروع ہوگئی تھی کہ ہمیں پاکستان میں چینی زبان کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ملک کے بعض علاقوں میں مراکز وجود میں آچکے ہیں تاہم اب کہا جارہا ہے کہ صرف چینی زبان کے انسٹی ٹیوٹس وغیرہ بنانا ہی کافی نہیں بلکہ ہمیں چینی زبان کو اپنے نصاب کا حصہ بنا لینا چاہیے۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ خود غلام ابن غلام والا رویہ ہے۔ اردو ہماری مذہبی زبان ہے، اردو ہماری تہذیب کی زبان ہے، اردو ہماری تاریخ کی زبان ہے، اردو ہماری قومی زبان ہے، اردو ہمارے درمیان رابطے کی زبان ہے لیکن ہم اس کے باوجود ابھی تک اردو کو سرکاری زبان اور ذریعہ تعلیم نہیں بنا سکے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک آئینی تقاضا ہے اور اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ واضح ہدایات دے چکی ہے، لیکن ابھی سی پیک کا آغاز ہوا ہے اور ہم چینی زبان سیکھنے اور سکھانے کے لیے بے تاب ہوئے جارہے ہیں۔ وطن عزیز میں انگریزی کی اہمیت پر بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ قوم کو بتایا جاتا ہے کہ انگریزی ایک بڑی تہذیب کی زبان ہے، قوم کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ انگریزی کا ادب غیر معمولی ہے، قوم کو مطلع کیا جاتا ہے کہ انگریزی بین الاقوامی سطح پر رابطے کی زبان ہے، لیکن اتفاق سے چینی زبان میں ان میں سے کوئی اہلیت بھی موجود نہیں۔ چینی زبان سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان نہیں ہے، چینی زبان میں بڑے ادب کی بھی کوئی روایت موجود نہیں، چینی زبان بین الاقوامی سطح پر رابطے کی زبان نہیں، یہاں تک کہ چینی زبان کی اصل تہذیب کو مردہ ہوئے بھی اب عرصہ بیت چکا ہے لیکن ہمارا حکمران طبقہ اس کے باوجود مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ چینی چینی کیے چلا جارہا ہے، اس طرح ہمارا حکمران طبقہ سی پیک کے ایک اقتصادی منصوبے کو اپنی قوم کے خلاف ایک تہذیبی یلغار میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ چینی ہمارے دوست ہیں اور وہ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کررہے ہیں تو انہیں ہماری قومی زبان اور مقامی زبانیں سیکھنی چاہئیں۔ لیکن ہمارا حکمران طبقہ چینیوں کو یہ مشورہ دینے کے بجائے الٹا اپنی قوم سے کہہ رہا ہے کہ تم اب کچھ پڑھو یا نہ پڑھو چینی ضرور پڑھو۔
ایک وقت تھا کہ ہم سیاسی اعتبار سے غلام تھے۔ لیکن اس وقت ہمارے اندر آزادی کی رمق موجود تھی۔ ہماری روح اور ہمارا ذہن کچھ نہ کچھ آزاد تھا۔ چناں چہ ہم اپنے مذہبی، تہذیبی اور لسانی تشخیص پر اصرار کررہے تھے اور اس اصرار نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت خلق کر ڈالی۔ مگر ہم آزاد ہوتے ہی امریکا کے غلام بن گئے۔ اب امریکا ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے زوال آمادہ ہوچکا ہے اور ہم اس کے اثر سے پانچ دس فی صد نکلے ہیں تو ہمارا حکمران طبقہ ہمارے لیے چین کو استعمار بنائے دے رہا ہے۔ اس کا مفہوم اس کے سوا کیا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کو غلامی عزیز ہے، امریکا اور یورپ کی نہ سہی چین کی سہی۔

Leave a Reply