اچھا انسان اور برا انسان

یہاں ہمیں منٹو کے مشہور زمانہ یا بدنام زمانہ افسانے ٹھنڈا گوشت کا درندہ صفت سکھ کردار یاد آرہا ہے۔ سکھوں نے قیام پاکستان کے بعد ہونے والے مسلم کش فسادات میں ہندوؤں کے بازوئے شمشیر زن کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا۔ ہزاروں مسلم خواتین کو اغوا کیا۔ منٹو کے افسانے ٹھنڈا گوشت کا کردار بھی فسادات کے دوران ایک مسلم لڑکی کو بُری نیت سے اغوا کرکے لاتا ہے۔ لیکن جب وہ جذبات کے طوفان میں گھر کر زیادتی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے اس اغوا شدہ مسلم لڑکی کا خوف کی وجہ سے انتقال ہوگیا ہے اور اس کے سامنے زندہ لڑکی نہیں صرف اس کی لاش پڑی ہوئی ہے۔ یہ تجربہ یا shock سکھ کو اس کی قوت مردمی سے محروم کردیتا ہے اور وہ پھر کسی عورت کے قابل نہیں رہتا۔ منٹو کے اس افسانے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ درندہ صفت انسان میں انسانیت کی رمق موجود ہوسکتی ہے اور یہ رمق انسانی وجود کو گہرائی سے متاثر کرسکتی ہے۔
پاکستان کے نوجوان فلمی اداکار شان کی اداکاری کے بارے میں شاید ہی کوئی معقول شخص اچھی رائے رکھتا ہو گا۔ لیکن معروف کالم نویس حامد میر نے شان سے متعلق دو واقعات سنا کر ہمیں حیران کردیا۔ واقعات کے مطابق جن دنوں جنرل پرویز مشرف بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہے تھے، پاکستان کی ممتاز شخصیات کا ایک وفد بھارت کے دورے پر گیا، وفد کو بھارت کے ممتاز اداکار دھرمیندر نے اپنے یہاں کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے دوران دھرمیندر نے نوٹ کیا کہ سب لوگ کچھ نہ کچھ کھا پی رہے ہیں مگر اداکار شان ایک طرف خاموش بیٹھے ہیں۔ دھرمیندر نے ان سے اس صورت حال کی وجہ پوچھی تو شان نے کہا کہ میں ایک ایسے شخص کے یہاں کھانا کیسے کھا سکتا ہوں جس کے بیٹے سنی دیول نے اپنی کئی فلموں میں میرے وطن پاکستان کو گالیاں دی ہوں۔ دھرمیندر نے یہ سن کر اپنے بیٹے کو بلایا اور شان سے معذرت کی اور کہا کہ آئندہ میرا بیٹا آپ کے ملک کو کبھی گالی نہ دے گا۔ واقعے کے مطابق شان کے اس رویے پر پاکستانی وفد کے کئی اراکین دھرمیندر سے معذرت کرنے لگے۔ وہ کہنے لگے کہ دراصل ہمارے ہیرو کو عام زندگی میں بات چیت کا ڈھنگ نہیں آیا۔ پاکستانی وفد کو بھارت کے معروف فلم ساز یش چوپڑا نے بھی کھانے پر بلایا۔ شان یہاں بھی خاموش رہے۔ یش چوپڑا نے اس کی وجہ پوچھی تو شان نے صاف کہا کہ مجھے آپ کے ملک میں آنے یا آپ کی کسی فلم میں کام کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔ شان کے ان واقعات میں بھی کوئی بڑی ’’قلب ماہیت‘‘ موجود ہیں۔ لیکن ایک ایسی فضا میں جہاں ملک کے ممتاز صحافی، سیاست دان اور دانش ور یہاں تک کہ پاکستان کا صدر مملکت اور چیف آف آرمی اسٹاف بھارت پر فدا ہوا جارہا ہو ایک اداکار کا محب وطن بن کر سامنے آنا بڑی بات ہے۔
یہاں ہمیں دوستو وسکی کے معرکہ آراء ناول کا ایک کردار یاد آرہا ہے۔ یہ کردار چرچ سے وابستہ تھا اور تقوے کی بلند ترین علامت تھا۔ یہ کردار بڑھاپے کی وجہ سے مرنے کے قریب ہوا تو ہر کسی کو یہ توقع ہوگئی کہ اب یقیناًکسی کرامت کا ظہور ہو کر رہے گا۔ لیکن یہ کردار موت سے ہمکنار ہوا تو اس کے جسم سے ایک طرح کی بدبو نمودار ہو کر ہر طرف پھیل گئی۔ نتیجہ یہ کہ چند ہی گھنٹوں میں اس کی شہرت ایک گناہ گار شخص کی ہوگئی اور وہ لوگ بھی اس کے خلاف بدزبانی کرتے ہوئے پائے گئے جو اسے ساری زندگی ایک مقدس ہستی سمجھتے رہے تھے۔ عام کیا خاص لوگوں کی تعریف اور تنقید ایسی ہی ہوتی ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا ہے کہ اس شخص کی تعریف سے ڈرو جو تمہارے اندر وہ خوبیاں دیکھتا ہے جو تمہارے اندر نہیں ہیں کیوں کہ یہ شخص کل تمہارے اندر وہ برائیاں دیکھے گا جو تمہارے اندر نہیں ہوں گی۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ آخر انسان کی قلب ماہیت کیسے ہوتی ہے؟ اس کے کردار میں تغیر کیونکر رونما ہوتا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بعض لوگ ماحول کے زیر اثر برے ہوتے ہیں، ان کا ماحول بدلتا ہے تو وہ بھی بدل جاتے ہیں۔ بعض لوگ سلیم الفطرت ہوتے ہیں مگر ماحول کا جبر ان کی فطرت کو دبا دیتا ہے۔ کسی واقعے سے ماحول کا جبر کمزور پڑ جاتا ہے یا تحلیل ہو جاتا ہے، چناں چہ ان کی اصل فطرت سامنے آجاتی ہے۔ کچھ چیزیں انسان کی تقدیر ہوتی ہیں اور ان کے ظہور کے لیے ایک خاص وقت متعین ہوتا ہے۔ یہ وقت آتا ہے تو ان کی تقدیر آشکار ہوجاتی ہے، انسان کی زندگی میں چنوتی، للکار یا چیلنج کی بھی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ چیلنج سامنے آتا ہے تو انسان کا اصل کردار نمایاں ہوجاتا ہے۔

Leave a Reply