دولت‘ طاقت اور خدا کی مہربانی

مارے ایک دوست نے محنت شاقہ سے کمائی ہوئی دولت سے ایک شاندار گھر تعمیر کیا تو اس نے ہمیں بھی رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ ہمارے دوست کے والد ملے تو انہوں نے ہم سے اپنے بیٹے کی دو تین برائیوں کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ یہ چیزیں اپنی جگہ مگر میرے بیٹے اور آپ کے دوست پر اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اپنی محنت اور ذہانت سے بہت کم وقت میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔
ہمارے لیے اس گفتگو میں کوئی نئی بات نہ تھی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مذہبی معاشرے میں جہاں دولت یا طاقت مرتکذ ہوتی ہے وہاں خدا کی مہربانی کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دولت کمائی ہے یا کوئی بڑا منصب حاصل کیا ہے تو یقیناًخدا ہم سے خوش ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ کامیابی کو اپنے آپ سے اور ناکامی کو تقدیر سے منسوب کرتا ہے۔ چناں چہ جو لوگ اپنی دولت مندی یا طاقت کو خدا کی عطا سمجھتے ہیں وہ شعوری یا لاشعوری طور پر یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ یقیناًہماری نیکیوں اور خدا سے ہمارے تعلق کا صلہ ہے۔ اس طرح وہ اپنی ذات یا پورے خاندان کے ساتھ ایک طرح کی مذہبیت وابستہ کرلیتے ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے کہ فاعلِ حقیقی خدا کی ذات ہے۔ انسان کی کوشش اور جدوجہد بہت اہم ہے اور اللہ تعالیٰ جدوجہد کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ لیکن بہرحال کوشش اور جدوجہد کی خُو اور توانائی بھی اللہ ہی دیتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دولت اور طاقت جہاں جمع ہوجاتی ہے وہاں اور بھی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ اس قیامت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ نمرود اور فرعون کو اپنے بارے میں یہ گمان ہو جاتا ہے کہ نعوذبااللہ ہم خدا ہیں۔ تاریخ میں بعض بادشاہوں نے خود کو ظلِ الٰہی یعنی خدا کا سایہ یا خدا کا پرتو کہلوایا ہے۔ اس لیے کہ ان کی دولت اور طاقت انہیں باور کراتی تھی کہ وہ خدا کے خاص الخاص بندے ہیں۔ اللہ کے پسندیدہ بلکہ اس کے منتخب کردہ ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ بادشاہ کیوں ہوتے۔ ان کی دولت اور ان کی طاقت لاکھوں کروڑوں لوگوں سے زیادہ کیوں ہوتی؟
دولت اور طاقت کی یکجائی اتنی خیرہ کُن ہوتی ہے کہ اچھے اچھوں کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال سرسید احمد خان ہیں۔ سرسید برصغیر کی بڑی شخصیات میں سے ایک ہیں مگر انگریزوں کی شوکت اور طاقت نے ان کی خودی اور ان کے فہم کو تہہ و بالا کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں انگریزوں اور ان کی تہذیب میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آنے لگیں اور مسلمانوں اور ان کی تہذیب میں انہیں عیب ہی عیب دکھائی دینے لگے۔ یہاں تک کہ ایک مذہبی احساس کے تحت انہوں نے برصغیر پر انگریزوں کے تسلط کو اللہ تعالیٰ کی عنایت اور مہربانی قرار دیا۔ سرسید کا خیال تھا کہ انگریز حق پر ہیں، ایسا نہ ہوتا تو ان کو غلبہ کیوں حاصل ہوتا؟ لیکن غلبہ تو نمرود اور فرعون کو بھی حاصل تھا، حالاں کہ وہ باطل تھے، لیکن دولت اور طاقت کا اثر ایسا ہے کہ انسان کا علم، عقیل اور فہم اس کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے اور انسان کو ’’حاضر و موجود‘‘ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، وہ حاضر و موجود جس کے بارے میں اقبال نے کہا ہے؂
ہے وہی اپنے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
زیر بحث مسئلے کا ہولناک پہلو یہ ہے کہ دولت اور طاقت کے حوالے سے تو خدا اور اس کی مہربانی کا ذکر ہر جگہ سننے کو مل جاتا ہے مگر ہم نے آج تک نہیں دیکھا کہ کسی متقی یا کسی نیک شخص کو دیکھ کر کسی نے کہا ہو کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی بڑی عنایت اور بڑی مہربانی ہے۔ حالاں کہ تقویٰ ہماری تہذیب کا عظیم ترین تصور اس کی عظیم ترین قدر یا value ہے۔ ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے کہ فضیلت یا تو تقوے کو حاصل ہے یا علم کو مگر ہم نے آج تک اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور عنایت کا ذکر علم کے حوالے سے بھی نہیں سنا۔ بلاشبہ بعض شاعروں، ادیبوں، دانش وروں اور صحافیوں کو معاشرے میں ’’اہمیت‘‘ حاصل ہوتی ہے مگر اس اہمیت کا تعلق بھی ’’شہرت‘‘ سے ہوتا ہے اور شہرت خود ایک طاقت ہے اور اس کے ساتھ کسی نہ کسی عنوان سے پیسے کا تصور بھی وابستہ ہے۔ ہم نے آج تک یہ بھی نہیں دیکھا کہ کسی محبت کرنے والے کو دیکھ کر کوئی یہ کہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے کیسی دولت عطا کر رکھی ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی کیا مہربانی ہے۔ عام انسانوں کی تو خیر اوقات ہی کیا ہے، انبیاء و مرسلین تقوے، علم اور محبت کے بلند ترین مقام کے حامل تھے مگر انسانوں کی ایک بڑی تعداد نے ایک عرصے تک ان کے تقوے، ان کے علم اور ان کی محبت کو بھی اہمیت نہ دی۔ یہاں تک کہ دولت مندوں اور طاقت ور لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو نبی بنانا ہی تھا تو کسی دولت مند اور طاقت ور کو اس کام کے لیے منتخب کیا ہوتا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ انسان تقوے، علم اور محبت جیسے عظیم تصورات کے ساتھ خدا کی مہربانی کو کیوں منسلک نہیں کرتا اور دولت اور طاقت کے ساتھ وہ خدا کی مہربانی کو کیوں وابستہ کرتا ہے؟۔
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ دنیا کی ’’کامیابی‘‘ کا معیار دولت اور طاقت ہے اور انسانوں کی عظیم اکثریت کو دنیا ہی کی کامیابی درکار ہوتی ہے۔ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ دولت اور طاقت خارجی چیزیں ہیں ان کے مقابلے پر تقویٰ، علم اور محبت باطنی اوصاف ہیں۔ بدقسمتی سے انسانوں کی عظیم اکثریت کے لیے ’’باطن‘‘ نہیں ظاہر اہم ہوتا ہے۔ بلاشبہ دولت اور طاقت بھی بیٹھے بٹھائے نہیں مل جاتیں مگر تقوے، علم اور محبت کے لیے جو روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور فکری ریاضت کرنی پڑتی ہے، اس کے مقابلے پر دولت اور طاقت کے لیے کی جانے والی محنت کچھ بھی نہیں۔ جمہوریت نے عوام کے تصور کو بہت ’’بلند‘‘ اور ’’مقدس‘‘ بنادیا ہے۔ لیکن عام آدمی کی اصل یہ ہے کہ اس کی زندگی دولت اور طاقت مرکز ہوتی ہے۔ وہ باطن کے مقابلے پر خارج کو پسند کرتا ہے اور اس کے اندر روحانی، نفسیاتی، جذباتی اور فکری ارتقا کے امکانات بہت محدود ہوتے ہیں۔ عام آدمی کی تعریف یہ نہیں کہ وہ کچی بستی میں رہتا ہے، وہ ناخواندہ یا نیم خواندہ ہے، وہ غریب اور معروف معنوں میں کم نسبت ہے۔ بلکہ عام آدمی وہ ہے جس کی زندگی دولت مرکز ہے۔ جس کی زندگی طاقت مرکز ہے، خواہ وہ ملک کا صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کا سربراہ، رہنما، عالم دین، دانش ور اور صحافی ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن دولت مرکز یا Money Centric اور طاقت مرکز یعنی Power Centric انسانوں اور معاشروں کا مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔
ہر دولت مرکز اور طاقت مرکز انسان یہ بتاتا ہے کہ اس کا تصور خدا پست اور ناقص ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی کتاب میں دولت اور ایسی طاقت کو پسندیدہ قرار نہیں دیا جو ظلم، جبر اور استبداد کی علامت اور مظہر ہو۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء و مرسلین کو بادشاہت یا طاقت عطا کی ہے۔ لیکن یہ طاقت خیر مجسم تھی۔ دوسری بات یہ کہ یہ طاقت تقوے، علم (الٰہی) اور محبت کے اصولوں کے تابع تھی۔ چناں چہ تاریخ نے انبیاء کیا ان کے حقیقی وارثوں کو کبھی دولت اور طاقت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے یا ان چیزوں کو ’’Enjoy‘‘ کرتے نہیں دیکھا۔ جیسا کہ ہم عام حکمرانوں کو دولت اور طاقت کو Enjoy کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ بلکہ حکمرانی تو بڑی چیز ہے۔ ہم تو سیاسی و مذہبی جماعتوں اور صحافیوں اور وکلا کے معمولی رہنماؤں اور عہدیداروں کو بھی اپنے مناصب کو ’’Enjoy‘‘ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان ’’بیچاروں‘‘ کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ان کے قدم زمین پر نہیں چاند تاروں پر پڑ رہے ہیں۔ یہاں ہمیں اپنا یونیورسٹی کے زمانے میں کہا گیا ایک شعر یاد آگیا؂
تبصرہ حکام پر کیسے کروں
مجھ کو فرصت ہی نہیں ہے آخ تھو
دولت مرکز اور طاقت مرکز انسانوں اور معاشروں کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ان کا تصور ریاست بھی پست اور ناقص ہے۔ اس لیے کہ کسی نبی نے دولت اور طاقت کو قدر یا Value کا درجہ نہیں دیا۔ دولت اور طاقت دنیا کی علامت ہیں اور دنیا کے بارے میں رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ وہ بکری کے مرے ہوئے بچے سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ مگر آج اُمت مسلمہ کا بہت بڑا حصہ دنیا کا کتا نہیں بنا ہوا ہے۔ اس کے باوجود مسلمان معصومیت سے سوال کرتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کا حال ابتر کیوں ہے؟ سیدنا عیسیٰؑ کے بارے میں آیا ہے کہ ان کی ملکیت ایک پیالہ تھا اور ایک کنگھا۔ پیالے سے وہ پانی پیتے تھے اور کنگھے سے بال بناتے تھے۔ ایک دن انہوں نے ایک شخص کو ہاتھوں کو ’’روک‘‘ میں ڈھال کر پانی پیتے دیکھ لیا چناں چہ انہوں نے پیالہ پھینک دیا۔ ایک روز انہوں نے کسی کو ہاتھ کی انگلیوں سے بال بناتے دیکھ لیا تو کنگھا بھی ’’ترک‘‘ کر دیا۔ انسانوں کی عظیم اکثریت ’’ترک‘‘ کی اس سطح کا تصور نہیں کرسکتی۔ مگر ہمارے ذہن سے تو ترک کا تصور ہی نکل گیا ہے۔ دنیا کیباب میں اب ہمارا اصول اور، اور، اور کبھی نہ ختم ہونے والا اور ہے۔
دولت مرکز اور طاقت مرکز انسانوں کا تصور خدا اور تصور رسالت ہی پست نہیں بلکہ ان کا تصور انسان بھی پست ہے۔ اس لیے کہ ہماری تہذیب نے انبیاء اور صحابہ کرامؓ کے بعد جتنے بڑے لوگ پیدا کیے ہیں ان میں سے کوئی بھی دولت مرکز یا طاقت مرکز نہیں تھا۔ غزالی، رازی، عطار اور رومی میں سے کوئی دولت اور طاقت کی محبت میں گرفتار نہ تھا۔ بلکہ ان کی شخصیتوں کا مرکز تقویٰ، علم اور محبت تھی۔ خالق اور مخلوق کی محبت۔ ہمارے زوال کی انتہا یہ ہے کہ ہم اب انسان کے دولت مرکز اور طاقت مرکز ہونے کو برا نہیں سمجھے بلکہ خیال کرتے ہیں کہ یہ صورتِ حال اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے۔ اس کی عطا ہے۔ امام غزالی نے احیاء اسلام میں کسی نبی کے حوالے سے ایک قصہ لکھا ہے۔ غزالی نے لکھا ہے کہ نبی وقت نے ظالم اور جابر بادشاہ کے زوال کی دعا کی تو انہیں بتایا گیا کہ اس کی بادشاہت ایک تکوینی امر ہے۔ آپ اس کے دورِ حکمرانی کے خاتمے کا انتظار کریں۔ مطلب یہ کہ ظالم اور جابر حکمران اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ نہیں ہوتا نہ اسے اقتدار انعام کے طور پر ملتا ہے۔ رہی دولت تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی کتاب میں انسانوں کو دولت مند بننے کی ترغیب دی اور نہ کسی نبی نے انسانوں کو صاحب زر ہونے کے طریقے بتائے۔

Leave a Reply