امریکا؟ یعنی کیا؟

مغربی دنیا بالخصوص امریکا کے بارے میں گفتگو آسان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا بالخصوص امریکا کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ مثلاً امریکا کی ممتاز دانش ور سوسن سونٹیگ نے کچھ سال پہلے برطانیہ کے معروف اخبار گارجین میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا کہ امریکا کی بنیاد نسل کُشی پر رکھی ہوئی ہے۔ نسل کشی ایک ہولناک اصطلاح ہے لیکن انگریزی کا ایک محاورہ ہے:
The devil is in details
یعنی ’’اجمال‘‘ اکثر اوقات پوری حقیقت کو سامنے نہیں لاپاتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ’’شیطان‘‘ اجمال میں نہیں ’’تفصیل‘‘ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اب مثلاً نسل کشی کی اصطلاح سے خیال آتا ہے کہ بانیانِ امریکا نے امریکا کو قائم کرتے ہوئے دس بیس ہزار لوگوں کو قتل کیا ہوگا۔ چلیے لاکھ ڈیڑھ لاکھ لوگ مار دیے ہوں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ بانیانِ امریکا نے ریڈ انڈینز کے ملک امریکا پر قبضہ کرکے ایک ڈیڑھ لاکھ نہیں ’’دو کروڑ‘‘ ریڈ انڈینز کو قتل کیا۔ بلکہ مائیکل مان نے اپنی تصنیف “the dark side of the democracy” میں دعویٰ کیا ہے کہ سفید فاموں نے امریکا میں دو کروڑ نہیں دس کروڑ ریڈ انڈینز کو ہلاک کیا۔ ایک ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی ہلاکت بھی بہت بڑی بات ہے مگر اس کے مقابلے پر دس کروڑ لوگوں کی ہلاکت بہت، بہت، بہت ہی بڑی بات ہے۔ مطلب یہ کہ امریکا کے بارے میں یہ کہنے سے تقریباً کچھ بھی معلوم نہیں ہوپاتا کہ اس کی بنیاد ’’نسل کشی‘‘ پر رکھی ہوئی ہے۔

امریکا کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی امریکا کو جدید دنیا کی سب سے ’’بدمعاش ریاست‘‘ کہتے ہیں۔ مگر ’’بدمعاش ریاست‘‘ کی اصطلاح بھی امریکا کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ یہاں بھی ہمیں مجبوراً شیطان سے ملاقات کے لیے تفصیل سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ امریکی ذہن کی بدمعاشی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ امریکا دنیا میں ایٹم بم استعمال کرنے والا واحد ملک ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے جاپان پر صرف ایک بار ایٹمی حملہ نہیں کیا، اُس نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے جاپان کے خلاف ایٹم بم اُس وقت استعمال کیا جب جاپانی فوجیں ہتھیار ڈالنے ہی والی تھیں۔ امریکا کی بدمعاشی کے سلسلے میں مزید شہادت درکار ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ امریکا نے آج تک ایٹم بم کے استعمال پر جاپان سے معافی نہیں مانگی۔
بعض لوگوں کو یہ ’’خوش گمانی‘‘ لاحق ہوسکتی ہے کہ امریکا نے 1945ء کے بعد سے اب تک ایٹم بم استعمال نہیں کیا۔ ایسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ 1960ء کی دہائی میں جب سوویت یونین نے کیوبا میں میزائل نصب کیے تو ایک بڑا بحران پیدا ہوگیا۔ اُس وقت امریکا کے صدر جان ایف کینیڈی تھے۔ کیوبا کے بحران کے بعد جان ایف کینیڈی جب بھی امریکی جرنیلوں کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوتے، جرنیل ہم آواز ہوکر کہتے:
’’جناب صدر ہمیں کیوبا پر ایٹمی حملہ کردینا چاہیے‘‘۔
تاریخ میں ان کا فقرہ اس طرح رپورٹ ہوا ہے:
’’Mr President nuke them‘‘
جان ایف کینیڈی کے اعصاب ذرا سے بھی کمزور ہوتے تو امریکا کیوبا کو ایٹم بم سے تباہ کرچکا ہوتا۔ امریکا کی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو کیوبا پر ایٹمی حملے کا نہ ہونا ایک ’’انہونی‘‘ ہے۔ نائن الیون کے بعد ہم نے اس ’’انہونی‘‘ کو ایک بار پھر ’’نمودار‘‘ ہوتے ہوئے دیکھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ نائن الیون کے فوراً بعد امریکا کے سب سے اہم ٹیلی وژن چینل فوکس نیوز پر امریکا کے تین سابق وزرائے خارجہ اور سی آئی اے کے دو سابق سربراہ جلوہ افروز تھے۔ وہ افغانستان کی صورتِ حال پر گفتگو کررہے تھے اور ان کے درمیان اس امر پر ’’اتفاقِ رائے‘‘ تھا کہ ’’ضرورت‘‘ پڑے تو امریکا کو افغانستان میں ایٹم بم استعمال کرنا چاہیے۔ یہ امریکا کی ’’بدمعاشی‘‘ کی ’’تفصیل‘‘ کی محض ایک ’’جھلک‘‘ ہے۔

جدید تاریخ میں امریکا کے اصل تشخص کو زیادہ صحت کے ساتھ سامنے لانے والی ایک ہی شخصیت منظرعام پر آئی ہے، یہ شخصیت امام خمینی کی تھی۔ امام خمینی سوویت یونین کو چھوٹا شیطان اور امریکا کو بڑا شیطان یا ’’شیطانِ بزرگ‘‘ کہتے تھے۔ لیکن اس اصطلاح میں بھی ایک نقص ہے، وہ یہ کہ ایک حوالے سے امریکا ابلیس سے بھی بڑا شیطان ہے۔ اس دعوے کی ایک دلیل ہے۔ دلیل یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ اس نے کبھی خود کو انسان کا دوست نہیں کہا۔ مگر امریکا انسان دوست ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ’’انسانی حقوق‘‘ کا ’’علَم بردار‘‘ بنتا ہے۔ شیطان نے کبھی خود کو ’’مہذب‘‘ نہیں کہا۔ امریکا خود کو ’’مہذب دنیا‘‘ کا رہنما کہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان کا ایک ہی چہرہ ہے، لیکن امریکا کے دو چہرے ہیں۔ ایک چہرے والے کو سمجھنا اور اس سے بچنا آسان ہے۔ دو چہرے والے کو سمجھنا اور اس سے بچنا مشکل ہے۔ بدقسمتی سے امریکا اپنی شرمناک، انسان کُش اور ابلیسیت کو شرمانے والی تاریخ کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کا تازہ ترین ثبوت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خطاب ہے۔ اس خطاب کے چند فقرے ملاحظہ فرمائیے:
’’امریکا کے پاس عظیم الشان طاقت اور صبر ہے۔ لیکن اگر اسے اپنے اتحادیوں کے دفاع پر مجبور کیا گیا تو ہمارے پاس شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہوگا‘‘۔ (روزنامہ ڈان کراچی۔ صفحہ اوّل۔ 20 ستمبر 2017ء)
اس پیراگراف میں ’’عظیم الشان طاقت‘‘ کے الفاظ اہم ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک میں ایسی ہزاروں فاحشائیں پائی جاتی ہیں جو اپنے جسم کی نمائش کے ذریعے ’’ناظرین‘‘ کے دلوں کو لبھاتی ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک فاحشہ کی طرح امریکا کی ’’عظیم الشان طاقت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ اس ذکر میں ’’ذکر‘‘ کم ہے، ’’مظاہرہ‘‘ زیادہ ہے۔ اصول ہے: جس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ وہی کچھ دکھاتا ہے۔ فاحشہ کے پاس جسم ہوتا ہے وہ اس کا ’’مظاہرہ‘‘ کرتی ہے۔ امریکا کے پاس طاقت ہے، وہ ہر وقت طاقت کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔ فاحشہ اور امریکا کے صدر میں ایک مماثلت یہ ہے کہ فاحشہ اپنے جسم کی نمائش سے دنیا کو ’’مبہوت‘‘ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ امریکا کے صدر نے دنیا کو امریکا کی طاقت سے ’’مرعوب‘‘ کرنے کی کوشش کی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کا دوسرا اہم لفظ ’’صبر‘‘ ہے۔ امریکا کے صدر کا دعویٰ ہے کہ امریکا کے پاس ’’صبر‘‘ بھی ہے۔ لیکن امریکا کی تاریخ میں کبھی یہ صبر ظاہر نہیں ہوا ہے۔ صبر تو یہ ہوتا کہ امریکا نائن الیون کے بعد پہلے نائن الیون میں افغانستان کے ملوث ہونے کو ثابت کرتا اور پھر افغانستان کے خلاف کچھ کرتا، مگر امریکا نے الزام لگایا اور افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ یہی بے صبری عراق کے خلاف جارحیت کے سلسلے میں دکھائی گئی۔ پوری دنیا کہہ رہی تھی کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو عراق کا معائنہ کرنے دو اور بتانے دو کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں یا نہیں، مگر امریکا اور اُس کے ناپاک اتحادی برطانیہ نے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ کا انتظار کیے بغیر عراق پر حملہ کردیا اور جارحیت کے ابتدائی پانچ برسوں میں چھے لاکھ عراقیوں کو مار ڈالا۔ دنیا کے سلسلے میں امریکا کے ’’صبر‘‘ کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے سو سے زیادہ ممالک میں امریکا کے فوجی موجود ہیں، حالاں کہ دنیا میں اب نہ سوویت یونین موجود ہے اور نہ کمیونزم۔
امریکا دنیا کا خدا نہیں ہے کہ وہ کسی ملک کے سربراہ یا حکومت کو دھمکی دے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں شمالی کوریا کے صدر کم جون آن یا اُن کی حکومت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی دھمکی نہیں دی بلکہ امریکا نے پورے شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ شمالی کوریا ڈھائی کروڑ آبادی کا ملک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈھائی کروڑ لوگوں کو مارنے کی دھمکی دی ہے۔ ظاہر ہے کہ پورا شمالی کوریا ایٹم بموں یا ہائیڈروجن بموں ہی سے تباہ ہوسکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایٹمی ہتھیاروں کا نام لیے بغیر ان کے استعمال کی دھمکی دی ہے۔ جو لوگ امریکا کی تاریخ سے آگاہ ہیں اُن کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی امریکا کی تاریخ کے تسلسل کے سوا کچھ نہیں۔ یہاں اس امر کی نشان دہی ضروری ہے کہ دنیا بالخصوص مسلم دنیا کے کسی معمولی سے رہنما نے بھی اگر ڈھائی کروڑ انسانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے اور اس سلسلے میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی ہوتی تو اب تک امریکا، یورپ، اسرائیل اور بھارت بلکہ روس اور چین بھی اسے ’’شیطان کا چچا‘‘ ثابت کرچکے ہوتے۔ ’’اتفاق‘‘ سے امریکا کے دو ممتاز اخبارات ’واشنگٹن پوسٹ‘ اور ’لاس اینجلس ٹائمز‘ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کا نوٹس لیا ہے۔ مگر واشنگٹن پوسٹ نے ٹرمپ کی دھمکی کو صرف Extraordinary قرار دیا ہے، جب کہ لاس اینجلس ٹائمز نے اس دھمکی کو “Highly Unusual” قرار دیا ہے۔ کیا ڈھائی کروڑ لوگوں کے قتل کی دھمکی کے لیے اتنے ہی ’’معصومانہ الفاظ‘‘ استعمال ہونے چاہئیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کا صدر ہی نہیں اُس کے ذرائع ابلاغ بھی ابلیس سے بدتر ہیں۔

Leave a Reply