مساوات کہاں ہے؟

ہمارا زمانہ ’’مساوات‘‘ کے ’’نعرے‘‘ کا زمانہ ہے۔ دنیا میں مساوات مرد و زن کے حوالے سے بڑی بڑی تحریکیں برپا ہیں۔ ان تحریکوں کا کہنا ہے کہ مرد اور عورت برابر ہیں اور اگر برابر نہیں ہیں تو انہیں برابر ہونا چاہیے۔ ان تحریکوں کا اصرار ہے کہ چوں کہ انسانی تاریخ میں ہمیشہ مردوں کا غلبہ رہا ہے اس لیے انہوں نے پوری انسانی تاریخ ہی کو ’’مردمرکز‘‘ بنادیا ہے۔ یہ تحاریک مذاہب تک پر الزام لگاتی ہیں کہ وہ ’’مرد مرکز‘‘ اور خواتین پر مردوں کو غالب کرنے والے ہیں۔ مساوات مرد و زن کے نعرے کو جمہوریت نے مزید استحکام فراہم کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت ایک آدمی ایک ووٹ کے تصور پر کھڑی ہوئی ہے اور ایک ووٹ کے حوالے سے تمام انسان مساوی ہیں۔ ان میں امیر و غریب، نجیب و رزیل، عالم اور جاہل اور مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا زندگی، تاریخ اور کائنات میں ہمیں کہیں حقیقی مساوات نظر آتی ہے؟۔
انسانی تاریخ میں عظیم ترین ہستیاں پیغمبر ہوتے ہیں مگر پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبر ہوئے ہیں۔ یعنی پیغمبری کی فضیلت انسانی تاریخ میں صرف ایک لاکھ 24 ہزار نفوس کے لیے تھی۔ پیغمبروں میں بھی مراتب کا فرق ہے، پیغمبر تو ایک لاکھ 24 ہزار ہوئے ہیں مگر مذہب کی تاریخ میں ’’اولوالعزم‘‘ پیغمبر صرف پانچ ہوئے ہیں، یعنی سیدنا نوحؑ ، سیدنا ابراہیمؑ ، سیدنا موسیٰؑ ، سیدنا عیسیٰؑ اور رسول اکرمؐ۔ پیغمبر تو ایک لاکھ 24 ہزار ہوئے مگر قرآن مجید فرقان حمید میں جو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے صرف 24 انبیا و مرسلین کا ذکر ہے۔ بلاشبہ پیغمبر ایک لاکھ 24 ہزار ہوئے اور اولوالعزم نبی پانچ ہوئے مگر سردار الانبیا صرف ایک ہیں۔ یعنی رسول اکرمؐ۔ آپؐ کی نبوت اتنی قوی تھی کہ آپؐ نے فرمایا ہے کہ اگر سیدنا موسیٰؑ بھی میرے زمانہ میں ہوتے تو میری شریعت پر ہوتے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو وہ شریعت محمدیؐ پر عمل کریں گے۔

اسلامی تاریخ میں رسول اکرمؐ کے بعد عظیم ترین ہستیاں صحابہ کرام ہیں۔ مگر صحابہ کرام کے بھی جدا جدا مراتب ہیں۔ صحابہ میں جو فضیلت سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کو حاصل ہے وہ کسی کو حاصل نہیں۔ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کے بعد سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ کا مرتبہ ہے اور خلفائے راشدین کو باقی تمام صحابہ پر فضیلت حاصل ہے۔ صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے مگر غزوۂ بدر میں حصہ لینے والے 313 صحابہ جنگ بدر کے بعد کے تمام صحابہ پر فضیلت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بدری صحابہ کو مال غنیمت میں سے ہمیشہ زیادہ حصہ دیا جاتا رہا۔ صحابہ کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی مگر وہ صحابہ صرف دس تھے جنہیں ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی گئی اور اس بنیاد پر وہ عشرہ مبشرہ کہلائے۔ ہماری دینی اور فکری روایت میں صحابہ کے بعد تابعین کی اہمیت ہے اور تابعین کے بعد تبع تابعین کی۔ فضیلت کے اس سلسلے کو کوئی بدلنا چاہے تو بھی نہیں بدل سکتا۔ ایک مغربی دانش ور نے امام غزالیؒ کی عظمتیں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ امام غزالی اسلامی تاریخ میں رسول اکرمؐ کے بعد سب سے عظیم شخصیت ہیں۔ مگر یہ ’’جہالت‘‘ ہے۔ امام غزالیؒ بلاشبہ عظیم ہیں مگر وہ صحابہ کرام کی خاک پاکے برابر بھی نہیں۔ اس لیے کہ صحابہ کرام نے رسول اکرمؐ کا زمانہ مبارک پایا اور آپؐ سے تعلیم و تربیت حاصل کی، امام غزالیؒ نے نہیں۔ آپؐ کی ازواج مطاہرات کی تعداد گیارہ ہے مگر آپؐ کو جیسی محبت سیدہ عائشہؓ سے تھی کسی سے نہیں تھی۔ آپؐ نے فرمایا کہ دوسری عورتوں یہ عائشہؓ کو وہی فوقیت حاصل ہے جو ثرید کو دوسرے کھانوں پر میسر ہے۔ آپ کے اہل بیت بے مثال ہیں اور آپؐ کی ازواج دنیا کی عظیم ترین عورتیں ہیں مگر قرآن میں نہ کوئی سورۂ خدیجہؓ ہے، نہ کوئی سورۂ فاطمہؓ ہے، نہ کوئی سورۂ عائشہؓ ہے۔ البتہ قرآن میں سیدہ مریم کے حوالے سے سورۂ مریم موجود ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن مجید رسول اکرمؐ پر نازل ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اس منظرنامے میں ’’مساوات‘‘ کہاں ہے!

امام غزالیؒ کی سوانح کا یہ اہم واقعہ ہے کہ امام غزالی کے ایک ہم عصر نے رسول اکرمؐ کو خواب میں دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ خواب میں رسول اکرمؐ کے علاوہ سیدنا موسیٰؑ ، سیدنا عیسیٰؑ اور امام غزالیؒ بھی موجود ہیں اور رسول اکرمؐ سیدنا موسیٰؑ اور سیدنا عیسیٰؑ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ کی اُمتوں میں کوئی غزالی کے پائے کا عالم موجود ہے اور وہ فرمارہے ہیں کہ نہیں ہماری اُمتوں میں غزالی کے پائے کا کوئی عالم موجود نہیں۔ امام غزالی کی سوانح کا ایک اور اہم واقعہ یہ ہے کہ امام غزالی کے ایک ہم عصر غزالی کو یہ کہہ کر اذیت دیتے تھے کہ تمہارا علم حدیث کمزور ہے۔ غزالی کے اس ہم عصر نے ایک روز رسول اکرمؐ کو خواب میں دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ غزالی خواب میں رسول اکرمؐ سے شکایت کررہے ہیں کہ یہ شخصیت میرے علم حدیث کو ناقص قرار دے کر مجھے اذیت دیتا ہے۔ رسول اکرمؐ نے یہ سن کر ایک کوڑا امام غزالی کو دیا اور کہا کہ یہ اس شخص کی کمر پر مارو۔ امام غزالی حکم بجا لاتے ہیں، امام غزالی کے ہم عصر نے بتایا کہ غزالی کے مارے ہوئے کوڑے میری کمر پر لگے اور ان کی تکلیف سے میری آنکھ کھل گئی۔ اس کے بعد انہوں نے غزالی سے اپنے کہے پر معافی مانگی۔ اب بتائیے کہ پوری اسلامی تاریخ میں غزالی جیسا عالم اور کون ہے؟
علامہ اقبال ہماری تاریخ کے عظیم لوگوں میں سے ہیں۔ ان کی شاعرانہ عظمت غیر معمولی ہے، مگر اقبال نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں جب مولانا روم کی شاعری پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مولانا ایک سمندر ہیں اور میں سمندر کے ساحل پر پڑا ہوا ایک کوزہ ہوں۔ خود اقبال کا یہ عالم ہے کہ بیسویں صدی میں اردو کی شعری روایت میں ہزاروں شاعر ہوئے مگر ان میں سے کوئی شاعر اقبال کے پائے کا نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اگر اقبال کے بعد اردو کے دس بڑے شاعروں کے کلام کو جمع کرکے اسے اقبال کی شاعری کے سامنے رکھا جائے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ 19 ویں صدی میں یہی مرتبہ غالب کا تھا اور 17 ویں صدی میں یہی مقام میر کا تھا۔ ان تین عظیم شاعروں میں کوئی میر کو سب سے بڑا سمجھتا ہے، کوئی غالب کو اور کوئی اقبال کو۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اگر کوئی شاعر خود کو میر، غالب یا اقبال کہے یا یہ شکایت کرے کہ میں ان شاعروں کی طرح عظیم کیوں نہیں ہوں تو آپ اس کی عقل کے بارے میں کیا کہیں گے؟۔

ظاہر ہے کہ یہ مسئلہ علم اور شاعری تک محدود نہیں۔ کسی کو اللہ تعالیٰ زیادہ حسن دے دیتا ہے، کسی کو زیادہ جمال دیتا ہے، کسی کو کم صورت بنادیتا ہے اور کسی کو بد صورت۔ یہی معاملہ سیرت کا ہے۔ کوئی خوب سیرت ہوتا ہے اور کوئی بدسیرت۔ قرآن کہتا ہے کہ کیا علم رکھنے والے اور جاہل برابر ہوسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اگر علم والے اور جہل والے برابر نہیں ہوسکتے تو خوب صورت اور بد صورت اور خوب سیرت اور بد سیرت بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو بڑا منصب دے دیتا ہے اور کسی کو عام انسان بنا دیتا ہے، کسی کو دولت سے نواز دیتا ہے، کسی کو کم آمدنی والا بنا کر کھڑا کر دیتا ہے، اور کوئی غربت میں زندگی بسر کرتا ہے، طاقت کے اعتبار سے بھی انسان اور اقوام برابر نہیں ہوتیں۔ کائنات پر نظر ڈالیے، سورج بھی روشن ہے، چاند بھی اور ستارے بھی۔ لیکن سورج، چاند اور ستارے برابر ہیں۔ اقبال نے کہا ہے؂
حقیقت ایک ہے ہر شے کی نوری ہو کہ ناری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
اقبال کے اس شعر کے مطابق سورج ایک بہت بڑا ذرہ ہے اور ذرہ ایک بہت چھوٹا سا سورج اس لیے کہ ان کی حقیقت ایک ہے۔ یعنی نور، مگر کیا سورج اور ذرہ برابر ہیں؟ اس کے معنی یہ ہیں کہ زندگی، تاریخ اور کائنات میں نہ ’’مساوات‘‘ موجود تھی، نہ ہے اور نہ ہوسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر مرد اور عورت مساوی کیسے ہوسکتے ہیں ؟ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر مساوات مرد و زن کا نعرہ کہاں سے آیا اور کیوں آیا؟

ظاہر ہے کہ مساوات مرد و زن کا نعرہ مغرب سے آیا ہے اور مغرب کے کئی گہرے تہذیبی تاریخی اور نفسیاتی مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر عیسائیت کی تاریخ میں عورت گناہ اور اس کے نتیجے میں وقوع پزیر ہونے والے ہبوط آدم یا زوال آدم کی ذمے دار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انجیل کہتا ہے کہ جنت میں شیطان نے پہلے سیدنا کو بہکایا اور انہوں نے سیدنا آدم کو ورغلایا۔
قرآن مجید اس روایت کو مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ شیطان نے صرف حوّا کو نہیں آدم و حوّا دونوں کو بہکایا اور دونوں نے شجر ممنوع کا پھل کھایا۔ لیکن عیسائی روایت زوال آدم کی پوری تاریخ کا بوجھ حوا یا عورت پر ڈال کر عیسائیت کی تاریخ میں عورت کو ہولناک حد تک احساس کمتری کا شکار کردیا۔ یہ انفرادی نہیں اجتماعی احساس کمتری تھا اور اس کی پشت پر صدیوں کا علم، فہم اور تحقیر کھڑی تھی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ احساس کمتری کا ازالہ یا تو احساس برتری کے ’’دھوکے‘‘ سے ہوسکتا ہے یا ’’مساوات کے فریب‘‘ سے۔ مغرب میں یہی ہوا۔
اس سلسلے میں مغرب کا ایک بڑے ’’تاریخی حادثے‘‘ نے اہم کردار ادا کیا۔ مغربی ممالک نے 1914ء سے 1945ء تک دو ہولناک عالمی جنگوں کو جھیلا۔ ان جنگوں میں 10 کروڑ افراد جن میں مردوں کی اکثریت ہے ہلاک ہوئے۔ اس سے زیادہ افراد جن میں مردوں کی اکثریت تھی زخمی ہوئے اور معذوری کی زندگی ان کا مقدر ٹھیری۔ اس تاریخی حادثے نے کارخانوں اور دفاتر میں افرادی قوت کا بحران پیدا کردیا، گھروں کا معاشی بحران اس کے سوا تھا۔ اس منظرنامے میں عورتوں کا گھروں سے نکلنا ’’مجبوری‘‘ بن گیا۔ مغرب کی عورت ایک تاریخی حادثے کے نتیجے میں بہ حالتِ مجبوری اور ضرورت کے تحت گھر سے نکلی تھی مگر وہ ایک بار گھر سے نکلی تو واپس نہ لوٹ سکی۔ عورت کی معاشی مرکزیت اور معاشی آزادی نے اسے صنفی آزادی کی راہ دکھائی۔ لیکن معاملہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔

جدید مغرب کی پوری نفسیات ’’طاقت مرکز‘‘ یا Power Centric ہے۔ معاشی اور صنفی آزادی نے عورت کو ’’طاقت‘‘ کا احساس دلایا۔ بدقسمتی سے جہاں طاقت ہی سب کچھ ہوتی ہے وہاں جنگ ضرور ہوتی ہے چناں چہ مغرب میں مساوات مرد و زن کے نعرے نے دیکھتے ہی دیکھتے مرد اور عورت کے تعلق کو صنفی جنگ یا War of Sexes بنادیا۔ ایک وقت تھا کہ عورت مرد کی ’’شریک حیات‘‘ تھی۔ لیکن طاقت کی نفسیات نے اسے ’’فریق حیات‘‘ اور بالآخر ’’حریف حیات‘‘ بنا دیا۔ اس سلسلے میں ڈی ایچ لارنس کی بات بھی سننے سے تعلق رکھتی ہے۔
ڈی ایچ لارنس جدید انگریزی ادب کے عبقریوں یا Geniuses میں سے ایک ہے۔ صنفی تعلق کے حوالے سے اس کا ایک مضمون Give her Pattern ایسا ہے جسے مساوات مرد و زن کے ’’عقیدے‘‘ پر یقین رکھنے والے ہر شخص کو زبردستی پڑھوانا چاہیے۔ ہم انہی کالموں میں اس مضمون پر ایک بار تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں۔ یہاں ہم اس مضمون کی صرف دو باتیں دہرائیں گے، اس مضمون میں لارنس نے بنیادی بات یہ کہی ہے کہ عورت ہمیشہ مرد کے بنائے ہوئے راستے یا pattern کو اختیار کرتی رہی ہے چناں چہ مغرب کی جدید عورت بھی مغرب کے مردوں کی خواہشات ہی کا عکس ہے۔ لارنس نے اپنے مضمون میں دوسری بات یہ کہی ہے کہ اب مغرب کے مرد ’’احمق‘‘ ہوگئے ہیں چناں چہ وہ عورتوں کو کوئی طرز یا Pattern فراہم کرنے سے قاصر ہوگئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مغرب کی عورتیں ابہام کا شکار ہورہی ہیں۔

Leave a Reply