پاکستان کی جامعات میں مذہب‘ جنس اور سیاست پر گفتگو کی آرزو

پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر پاکستان کو سیکولر اور لبرل دیکھنے کے لیے بیتاب ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ پاکستان کو سیکولر اور لبرل دیکھنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کیوں مذہبی دیکھنا چاہیں گے۔ چناں چہ امریکا، یورپ اور پاکستان کے حکمرانوں کے ایجنڈے کے تحت آئے دن ذرائع ابلاغ میں اس بات کا ماتم کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی جامعات میں مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ روزنامہ ڈان کراچی نے 24 اکتوبر 2017 کی اشاعت میں اس حوالے سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تمام جامعات بالخصوص جامعہ کراچی کو خصوصی طور پر ہدف بنایا ہے۔ رپورٹ رمشا جہانگیر نام کی کسی خاتون نے مرتب کی ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر ماتم کیا گیا ہے کہ پاکستان کی جامعات میں مذہب، توہین رسالت، sex یعنی جنسی، سیاست اور آئین پر بات کرنا ممکن نہیں۔ رپورٹ میں شکایت کی گئی ہے کہ ہماری جامعات میں بعض مذہبی گروہ طلبہ کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان گروہوں کی سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذہبی تنظیمیں اس بات پر نظر رکھتی ہیں کہ طلبہ و طالبات ایک ساتھ نہ بیٹھ سکیں۔ رپورٹ میں ’’ایک طالب علم‘‘ کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جامعہ کراچی کے شعبہ انگریزی کے ایک استاد ہر روز طلبہ کو پینتالیس پینتالیس منٹ تک تلاوت قرآن سناتے رہتے ہیں اور وہ طلبہ سے کہتے ہیں کہ مغربی ادب نہ پڑھو کیوں کہ مغربی ادب غیر اسلامی ہے۔ مطلب یہ کہ ملک کی جامعات بالخصوص کراچی یونیورسٹی کے طلبہ ہی نہیں اساتذہ بھی انتہا پسند یا Radical ہیں۔ ہم اس طرح کی باتیں پڑھتے ہیں تو ہمیں سلیم احمد کا ایک شعر یاد آجاتا ہے۔ سلیم احمد نے کہا ہے؂
سلیم میرے حریفوں میں یہ خرابی ہے
کہ جھوٹ بولتے ہیں اور خراب لکھتے ہیں
بدقسمتی سے سلیم احمد کے حریفوں ہی میں نہیں سیکولر اور لبرل لوگوں میں بھی یہ خرابی ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور خراب لکھتے ہیں۔ سیکولر لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی جامعات میں مذہب پر بات نہیں ہوسکتی تو اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ ہماری جامعات میں مذہب زیر بحث نہیں آتا بلکہ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ انہیں اسلام پہ رکیک حملے کرنے، اس کا مذاق اڑانے اور اسے حقیر شے ظاہر کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ ورنہ ہماری جامعات میں مذہب پر گفتگو کا رواج عام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ ایک مذہبی معاشرہ ہے اور مذہبی معاشرے میں مذہب پر گفتگو نہیں ہوگی تو کس چیز پر گفتگو ہوگی؟۔ پاکستان کی جامعات میں اگر اسلام کا مذاق اڑانے، اس پر حملے کرنے اور اسے حقیر شے ظاہر کرنے کا حق مہیا نہیں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ دنیا کی ہر قوم اور ہر تہذیب کے کچھ بنیادی عقائد ہوتے ہیں اور دنیا کی کوئی قوم اور کوئی تہذیب کسی کو ان عقائد کی توہین کا حق نہیں دیتی۔ مثلاً سوویت یونین میں مارکسزم کے بنیادی تصورات یعنی جدلیاتی مادیت، طبقاتی کش مکش اور قدرِ زائد جیسے تصورات پر توہین آمیز گفتگو تو دور کی بات ہے ان پر علمی گفتگو بھی ممکن نہ تھی۔ ایسا کرنے کی سزا موت تھی یا کم از کم ایسے شخص کو سائبریا بھیج دیا جاتا تھا۔ یہ انسان کو زندہ درگور کردینے کی ایک صورت تھی۔ ٹروٹسکی لینن کا ساتھی اور سوشلسٹ انقلاب کا رہنما تھا۔ لیکن اسے مارکسزم کی تشریح و تعبیر پر لینن سے ’’علمی اختلاف‘‘ تھا۔ لیکن لینن نے اپنے ساتھی اور انقلابی رہنما کے اختلاف کو بھی مارکسزم سے بغاوت قرار دیا۔ چناں چہ ٹروٹسکی کو سوویت یونین چھوڑ کر بھاگنا پڑا لیکن لینن نے ٹروٹسکی کا تعاقب کیا اور اسے سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ذریعے قتل کرادیا۔ گورکی عظیم سوشلسٹ ادیب تھا مگر اسے بھی لینن سے اختلاف تھا۔ لینن نے اس اختلاف کو بھی انقلاب دشمنی قرار دیا اور کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ جب سوشلسٹ انقلاب آئے گا تو لوگ گورکی کو کن الفاظ میں یاد کریں گے۔ اس کے جواب میں گورکی نے کہا کہ اگر انقلاب لانے والے انسان ہوں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ میرا ذکر احترام سے کریں گے اور اگر انقلاب لانے والے انسان ہی نہیں ہوں گے تو مجھے اس کی فکر نہیں کہ وہ میرا ذکر کن الفاظ میں کریں گے۔ ماؤ کے زمانے میں بھی ماؤ ازم کے بنیادی تصورات کی توہین کیا ان سے اختلاف بھی ممکن نہ تھا۔ اس عمل کی سزا بھی موت تھی اور ہزاروں لوگوں کو انقلاب دشمن قرار دے کر قتل کیا جاتا رہا۔ ڈینگ زیاؤ پنگ ماؤ کے ساتھی تھے اور انہیں ماؤ سے بہت ہی معمولی سا اختلاف تھا مگر اس کے باوجود انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر اُبھر چکا ہے مگر آج بھی چین میں اس کا سیاسی نظام ایک ’’مقدس تصور‘‘ ہے اور اس کے خلاف بات کرنے کا تصور محال ہے۔
مغرب میں آزادی، جمہوریت اور مساوات کو مقدس تصورات کی حیثیت حاصل ہے اور مغرب کے کسی معاشرے میں ان تصورات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ امریکا اور یورپی ممالک میں نام نہاد ’’قومی مفادات‘‘ کے خلاف بھی گفتگو ممکن نہیں۔ ایزرا پاونڈ امریکا کا عظیم شاعر اور نقاد تھا۔ وہ مسولینی کے زمانے میں اٹلی چلا گیا اور اس نے اٹلی کے ریڈیو پر مسولینی کی حمایت میں دو تین تقریریں کر ڈالیں۔ آزادی کے تصور کے تحت ایزراپاونڈ کو ایسا کرنے کا حق حاصل تھا۔ مگر امریکا کی اسٹیبلشمنٹ نے ایزرا پاونڈ کا جینا حرام کردیا اور اس کی جان کے لالے پڑ گئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر پاونڈ کے خیر خواہوں نے پاونڈ کو ماہر نفسیات سے ’’پاگل‘‘ قرار دلایا اور اسے نفسیاتی امراض کے ہسپتال میں ڈال دیا گیا جہاں پاونڈ دس بارہ سال تک نفسیاتی مریض کی حیثیت سے زندگی بسر کرتا رہا۔ سوسن سونٹیگ امریکا کی ایک ممتاز دانش ور تھیں۔ انہوں نے اپنے مضمون میں لکھ دیا کہ امریکا کی بنیاد نسل کشی پر رکھی ہوئی ہے۔ سوسن سونٹیگ نے ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت بیان کی تھی مگر انہیں ’’غدار‘‘ قرار دیا گیا۔ اتفاق سے وہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہوگئیں ورنہ نہ جانے امریکی ان کا کیا حشر کرتے۔ نوم چومسکی اس وقت کے عظیم ترین دانش وروں میں سے ایک ہیں۔ وہ مغرب کے بنیادی عقائد کے بھی خلاف نہیں۔ البتہ وہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے حکمران طبقے کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب کے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ مثلاً سی این این، اے بی سی نیوز، سی این بی سی نیوز، بی بی سی ورلڈ انہیں کبھی ماہر کی حیثیت سے اپنے پروگراموں میں نہیں بلاتے۔ ہندوستان کا معاملہ یہ ہے وہاں ویدوں، گیتا، کرشن اور رام پر اعتراض تو دور کی بات ہے کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اسے گائے کا گوشت کھانا ہے۔ اس لیے کہ گائے کو ہندوؤں نے ’’مقدس‘‘ بنالیا ہے۔ لیکن پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر چاہتے ہیں کہ انہیں جامعات اور ذرائع ابلاغ میں قرآن اور وحی پر حملوں کا حق حاصل ہو۔ انہیں توہین رسالت کی اجازت ہو۔
اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی جامعات کے شعبہ ہائے اسلامیات میں مذہب پر روز گفتگو ہوتی ہے۔ سیکولر اور لبرل عناصر اسلام پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان کی جامعات کے اسلامی علوم کے شعبوں میں داخلہ لیں۔ لیکن سیکولر اور لبرل لوگوں کا مسئلہ اسلام پر گفتگو نہیں ہے وہ اسلام کے خلاف گفتگو کے شائق ہیں۔
سیکولر اور لبرل عناصر چاہتے ہیں کہ پاکستان کی جامعات میں sex یا جنس پر بھی گفتگو ہو۔ آخر اس بات کا مطلب کیا ہے؟ کیا دنیا میں کہیں فلسفے کی کلاسوں میں جنس پر گفتگو ہوتی ہے؟۔ شعبہ معاشیات اور شعبہ عمرانیات میں جنس زیر بحث آتی ہے؟ شعبہ سیاسیات اور شعبہ تاریخ میں جنس پر بحث کا کوئی محل ہے؟ البتہ شعبہ نفسیات میں سگمنڈ فرائیڈ کے تصورات پڑھنے پڑتے ہیں اور جب فرائیڈ پر گفتگو ہو گی تو فرائیڈ کے تصور جنس پر بھی گفتگو ہوگی اور ہم تجربے، مشاہدے اور علم تینوں کی بنیاد پر جانتے ہیں کہ پاکستان کی جامعات کے تما شعبہ ہائے نفسیات میں جنس زیر بحث آتی ہے اور اس کا جواز ہے۔ لیکن ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر چاہتے ہیں کہ شعبہ ریاضی، شعبہ طبیعات، یہاں تک کہ خلائیات کے شعبے میں بھی جنس پر گفتگو ہو اور ہر وقت ہو۔ لیکن یہ تو مغرب کی جامعات میں بھی نہیں ہورہا۔ پھر پاکستان کی جامعات میں کیسے ہوسکتا ہے؟۔ ویسے یہاں سیکولر اور لبرل عناصر سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ ہماری اجتماعی زندگی میں sex یا جنس کی پیش کش کہاں موجود نہیں ہے۔ امریکا، بھارت اور پاکستان کی فلمیں sex سے بھری پڑی ہیں۔ ہمارے ڈراموں بالخصوص اشتہارات میں عورت جنس کی علامت یا sex symbol کے طور پر پیش ہورہی ہے۔ ہمارا پوپ میوزک جنسی جذبات کو اُبھارنے والا ہے۔ ہمارے ڈریس شوز یہاں تک کہ ہمارے ٹی وی چینلوں کے مارننگ شوز تک عورت کو روز ’’فروخت‘‘ کررہے ہیں۔ اب ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر معاشرے میں اور کتنے جنسی جذبات و خیالات کا اظہار چاہتے ہیں؟ سیکولر اور لبرل عناصر کو خوش ہونا چاہیے کہ اس صورت حال پر پاکستان کے مذہبی گاندھی جس کے بندر بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں چناں چہ انہیں کچھ نظر نہیں آرہا۔ انہوں نے ہاتھوں سے کان بند کیے ہوئے ہیں چناں چہ انہیں کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ انہوں نے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں چناں چہ وہ کچھ بول بھی نہیں رہے ہیں۔
جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو ہماری جامعات میں سیاست پر گفتگو کبھی بھی بند نہیں رہی۔ البتہ اس گفتگو کی سطح پست ہوگئی ہے۔ ہمارے معاشرے میں سیاست پر گفتگو کا معاملہ یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کے سیاسی ٹاک شوز تک ’’مچھلی بازار‘‘ اور ’’مرغوں کی لڑائی‘‘ کا منظر پیش کررہے ہیں۔ ان حالات میں جامعات کے دائرے میں سیاست پر گفتگو ہوگی تو اس میں باہمی جھگڑے کے امکانات قوی ہوں گے۔ مطلب یہ کہ جامعات میں سیاست پر گفتگو بند نہیں البتہ اس حوالے سے مکالمہ کا امکان کم اور اندیشے یا risk factors زیادہ ہیں۔
اتفاق سے ہم جامعہ کراچی کے شعبوں کے اساتذہ کو جانتے ہیں۔ ان میں شعبہ انگریزی کے اساتذہ بھی شامل ہیں۔ ہم نے ڈیلی ڈان کی زیر بحث رپورٹ کے حوالے سے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ شعبے میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی استاد روز پینتالیس پینتالیس منٹ تک قرآن مجید کی کسی آیات کی تلاوت کرتا رہا ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈان کی رپورٹ اس حوالے سے جھوٹ کا پلندہ ہے اور اس رپورٹ کا مقصد شعبے کے ان اساتذہ کو دباؤ میں لانا ہے جو مذہبی ذہن رکھتے ہیں اور جن کی علمی سطح یہ ہے کہ وہ اوکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ کے بہترین اساتذہ سے بہتر نہیں ہوں گے تو ان سے کمتر بھی نہیں ہیں۔ یہ اساتذہ مغرب اور مغربی ادب کے ناقد ہوسکتے ہیں مگر یہ تو علم و ادب کا معاملہ ہے۔ سیکولر اور لبرل عناصر آزادی، آزادی کا شور مچاتے ہیں مگر وہ مغربی ادب پر تنقید کو انتہا پسندی گردانتے ہیں۔ خوب

Leave a Reply