دوستو وسکی‘ مثالی انسان اور آج کا معاشرہ

جدید عالمی ادب اور خاص طور پر مغربی ادب انسان کی مختلف تصویروں سے بھرا پڑا ہے، لیکن یہ تصویریں ادھورے، آدھے، پونے، تہائی انسان کی تصویریں ہیں جو کہیں پھٹا ہوا ہے، کہیں ادھڑا ہوا ہے اور کہیں کٹا ہوا ہے۔ یہ انسان کہیں تنہا ہے، کہیں اکیلا ہے، کہیں باغی ہے، کہی منحرف ہے اور کہیں محض انسان کا ایک ہیولا ہے جس کے سر پر نہ کوئی آسمان ہے اور نہ پیروں تلے کوئی زمین۔ ان تصویروں میں روس کے عظیم ناول نگار دوستو وسکی کی ایک تصویر اپنے امتیازی اوصاف کی وجہ سے بہت نمایاں ہے۔ یہ ایڈیٹ کی تصویر ہے۔ پرنس میشکن کی تصویر جسے دوستو وسکی نے ایک مثالی انسان کی حیثیت سے بہت محبت اور ایک بڑے تجربے کی حیثیت سے پینٹ کیا ہے۔
دوستو وسکی کو (جدید) انسان کی نفسیات کا بہت بڑا غواص تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے حوالے سے یہاں تک کہا گیا ہے کہ انسانی نفسیات کا ایک عہد شیکسپیئر پر ختم ہوتا ہے اور دوسرا دوستو وسکی سے شروع ہوتا ہے۔ اس رائے میں مبالغہ تو ہے، لیکن اس کے باوجود دوستو وسکی کو پڑھتے ہوئے یہ رائے حقیقت سے بہت قریب نظر آتی ہے۔ لیکن یہاں بات ہورہی تھی دوستو وسکی کے مثالی انسان کی۔
دوستو وسکی کو خود اس امر کا احساس تھا کہ معاصر ادب میں انسان کی larger Then Life تصویریں تو بہت ہیں، لیکن مثالی انسان کی کوئی تصویر موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے خود یہ تصویر پینٹ کرنے کی کوشش کی۔ اس تصویر کو پینٹ کرنا ایک مشکل کام تھا، جس کا احساس خود دوستو وسکی کو بھی تھا، اس لیے اس نے اپنے بعض دوستوں کو لکھا کہ میرے ذہن میں جو خیال ہے وہ بہت نازک ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ اسے میں لکھ بھی سکوں گا یا نہیں۔ لیکن بہر حال دوستو وسکی نے اپنے اس نازک خیال کو ضخامت اور عظمت کے اعتبار سے ایک بڑے ناول کی شکل میں لکھا ہے۔
دوستو وسکی کا مثالی انسان کیا ہے؟ وہ ایک بے ریا شخص ہے جو کسی کو دھوکا اور تکلیف نہیں دے سکتا۔ جو جھوٹ نہیں بولتا، البتہ سادہ لوح بہت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذہنی تحفظات نہیں ہیں۔ چناں چہ اس کے دل کی بات فوراً لبوں پر آجاتی ہے اور بسا اوقات اسے خیال آتا ہے کہ اس نے محفل میں جو کچھ کہا، شاید نہیں کہنا چاہیے تھا۔ دوستو وسکی کا یہ مثالی انسان اگرچہ بظاہر احمق نظر آتا ہے، لیکن وہ انسانوں کی فطرت، نفسیات اور ان کی خواہشات اور آرزوؤں کا غیر معمولی ادراک رکھتا ہے اور اس سلسلے میں اس کی صلاحیت وہبی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ اس کی ذہانت اور معاملہ فہمی پر حیران رہ جاتے ہیں۔ اسے اپنے ان اوصاف کے باعث ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ایک ایسے انسان پر جدید دُنیا کے ’’سماج‘‘ میں کیا گزرتی ہے؟۔ اسے دوستو وسکی نے بے مثال انداز میں بیان کیا ہے۔ لیکن زیر بحث موضوع کے حوالے سے اہم بات یہ نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دوستو وسکی کے پرنس میشکن یا مثالی انسان کا پس منظر کیا ہے؟ یعنی دوستو وسکی نے اس کردار کا خمیر کس منظر نامے سے اُٹھایا ہے۔ دوسری اہم بات یہ سوال ہے کہ ناول میں مثالی انسان کا انجام کیا ہوا؟ یہ باتیں کیوں اہم ہیں؟ ان پر ہم ذرا آگے چل کر گفتگو کریں گے۔
جہاں تک مثالی انسان کے آغاز کا سوال ہے تو دوستو وسکی نے پرنس میشکن کا کردار ایک ایسی جگہ سے اُٹھایا ہے جو بظاہر غیر اہم نظر آتی ہے، لیکن دراصل یہ ناول کا انتہائی اہم نکتہ ہے۔ پرنس میشکن کی پرورش اپنے والدین اور اہل خانہ سے دور ایک چھوٹے سے قصبے نما مقام پر بچوں کے درمیان ہوئی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بالکل ابتدائی عمر میں اسے کوئی نامعلوم ذہنی بیماری لاحق ہوگئی تھی، جس کے علاج کے لیے اسے مذکورہ جگہ پر بھیجا گیا۔ پرنس نوجوانی کی عمر تک یہیں رہا اور جب اس کے ’’معالجین‘‘ نے اسے قدرے ’’صحت مند‘‘ محسوس کیا تو اسے اس جگہ سے روانہ ہونا پڑا۔ دوستو وسکی کے مثالی انسان کا انجام المناک اور لرزادینے والا ہے۔ وہ ’’سماج‘‘ میں زندگی بسر کرنے کے دوران میں ایسے تجربات سے دوچار ہوا جنہوں نے بالآخر اس کے ذہنی توازن کو اس حد تک اُلٹ دیا کہ وہ ذہنی بیماریوں کے اس دور میں واپس چلا گیا جس میں وہ بچپن میں زندگی بسر کرتا رہا تھا۔
ان دونوں نکات کو دیکھا جائے تو دوستو وسکی عصری سماج کو انتہائی ناکارہ ثابت کرنے کے بعد اس پر انسانی نقطہ نظر سے خط تنسیخ پھیرتا نظر آتا ہے۔ پرنس میشکن کی ابتدائی زندگی کو دیکھا جائے تو دوستو وسکی اس رائے کا اظہار کرتا نظر آتا ہے کہ انسانی سماج اس حد تک ابتر ہوچکا ہے کہ اس کے درمیان کسی مثالی شخصیت کی پرورش اور تشکیل ممکن ہی نہیں۔ چناں چہ اس لیے اس نے اپنے مثالی انسان کو ایک چھوٹی سی جگہ پر چند معالجوں اور بیشتر بچوں کے درمیان پرورش پاتے ہوئے دکھایا ہے۔ مثالی انسان کا المناک انجام دوستو وسکی کی جانب سے اس امر کے اعلان کی حیثیت رکھتا ہے کہ عصری سماج میں کسی انسان کے لیے اپنی ذہنی صحت اور انسانی اوصاف کو بچالینا اور انہیں باقی رکھنا ناممکن ہے۔
دیکھا جائے تو دوستو وسکی کا مثالی انسان کوئی عظیم آدمی نہیں بلکہ وہ ایک ’’نارمل‘‘ انسان کی علامت ہے جو ’’ایب نارمل‘‘ معاشرے سے دور رہ کر پرورش پاتا ہے، لیکن پھر وہ ایب نارمل معاشرے کا حصہ بنتا ہے اور مختلف تجربات سے گزرتا ہوا ایک بار پھر ایب نارمل انسان بن کر رہ جاتا ہے۔ دوستو وسکی کا یہ ناول 1868-69ء کے دوران شائع ہوا۔ اس وقت سے اب تک سماج بہت ’’ترقی‘‘ کرچکا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں انسان کو ایب نارمل بنانے والے عوامل اور محرکات میں ہزاروں گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی دُنیا میں یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ کیا موجودہ معاشرے میں ایک نارمل انسان کی نارمل پرورش ممکن ہے اور کیا موجودہ معاشرے میں بہت دیر تک نارمل رہا جاسکتا ہے؟
نارمل اور ایب نارمل کے تصورات کی پشت پر کئی اور اہم تصورات اور عصر حاضر کی کئی اور اہم بحثیں موجود ہیں۔ مثلاً جدید نفسیات کا ایک مکتبہ فکر اس بات کا علمبردار ہے کہ انسان اپنے ماحول کا حاصل ہوتا ہے، جیسا انسان کا ماحول ہوگا ویسا ہی انسان وجود میں آئے گا۔ ماحول اچھا ہوگا، اچھا انسان سامنے آئے گا۔ ماحول خراب ہوگا، خراب انسان کی تشکیل ہوگی۔ یہاں آپ چاہیں تو ماحول کی جگہ معاشرے کا لفظ رکھ لیجیے۔ اگرچہ اس مکتبہ فکر کے ماہرین تسلیم نہیں کرتے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فکر کی جڑیں روسو کے تصور انسان میں پیوست ہیں۔ روسو کا کہنا یہی تھا کہ انسان فطرتاً معصوم ہے، البتہ معاشرہ اسے بگاڑ دیتا ہے۔ چناں چہ مسئلے کا حل یہ ہے کہ معاشرے کو درست کرلیا جائے۔ عسکری صاحب نے روسو کے اس تصور انسان پر مذہبی نقطہ نظر سے سخت تنقید کی ہے اور ان کا خیال ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان اور زندگی کے حوالے سے بہت سی گمراہیاں روسو کے اسی تصور انسان کی وجہ سے پھیلی ہیں۔ عسکری صاحب کا خیال غلط نہیں۔ نیکی اور بدی انسان کے اندر موجود ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہوتا ہے وہ انسان کی داخلی دنیا ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ چناں چہ معاشرے کو بدلنے کا راستہ انسان کے داخل سے ہو کر گزرتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرہ ایک بہت بڑی قوت ہے۔ معاشرہ کب بڑی قوت نہیں تھا؟ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ معاشرہ جتنی بڑی قوت آج ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ زندگی کے اکثر مظاہر کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ معاشرہ انسانی فطرت کا نعم البدل بن گیا ہے اور اس نے جیسے فطرت کو Replace کردیا ہے اور خود انسانی فطرت بن بیٹھا ہے۔ چناں چہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد فطرت کی نیکی و بدی کے بجائے معاشرے کی نیکی و بدی کی گرفت میں ہے۔ اس اعتبارسے دیکھا جائے تو معاشرہ ایک ایسی بہت بڑی مشین کی صورت میں نظر آتا ہے جس پر انسان کا اختیار باقی نہیں رہا۔ معاشرے پر انسان کے اختیار کی بحالی ناگزیر ہے اور اس کا ایک راستہ سیاست اور اقتدار کے مراکز سے ہو کر گزرتا ہے۔ ایسا نہ ہوا تو معاشرے میں نارمل انسانوں کی پرورش اور بقا کا کام مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ اس لیے کہ آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں نارمل انسان عنقا ہوگیا ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کی بہتات ہے اور ذہنی توازن کی مکمل خرابی اچھے اچھوں کے لیے ایک ٹھوس امکان بن گئی ہے۔

Leave a Reply