سرسید اور ان کی پیدا کردہ ذہنیت

ایک مسلمان کے لیے سب کچھ اس کا دین ہے، اس کا خدا ہے، قرآن مجید ہے، رسول اکرمؐ کی ذات مبارکہ ہے، آپؐ کی سیرت ہے، آپؐ کی احادیث مبارکہ ہیں، آپؐ کے اصحاب ہیں، آپؐ کے اصحاب کے پیدا کردہ تابعین ہیں، تابعین کے پیدا کردہ تبع تابعین ہیں، وہ علما، وہ مفسرین، وہ محدثین، وہ فقہا، وہ مفکرین، وہ شاعر، وہ دانش ور ہیں جو دین کی روایت کے مستند شارحین اور اس کے مستند نمائندے ہیں۔ ان تمام حقائق کو مربوط کرکے ایک کُل بنایا جائے تو وہ حقیقت سامنے آتی ہے جسے ہم ’’دین کی روایت‘‘ کہتے ہیں۔ اگر ایک مسلمان دین کی اس روایت کے دائرے میں زندگی بسر کررہا ہے تو وہ ایک ’’مالدار ترین‘‘ آدمی ہے۔ خواہ اس کے بینک بیلنس میں چار آنے بھی نہ پڑے ہوں۔ خواہ وہ دنیا کے معیارات کے اعتبار سے ایک ناکام آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ سرسید کے حوالے سے ایک بہت ہی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سرسید نے مذہب اور اس کی پوری روایت کی ایسی تحقیر پیدا کی کہ جدید تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی نظر میں مذہب اتنی معمولی چیز بن گیا کہ اس سے وابستہ ہونے میں کوئی ’’عظمت‘‘ رہی نہ اس کے گم ہوجانے یا اس سے دور ہوجانے میں کوئی ’’ملال‘‘ باقی رہا۔ یہ مسئلہ خود سرسید کی زندگی میں اُبھر کر سامنے آچکا تھا چناں چہ لسان العصر اکبر الٰہ آبادی نے کہا ہے؂
ہم نشیں کہتا ہے کچھ پروا نہیں مذہب گیا
میں یہ کہتا ہوں کہ بھائی یہ گیا تو سب گیا
اکبر کی شاعری پر نظر رکھنے والے اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ اس شعر میں ’’ہم نشیں‘‘ سے مراد سرسید ہیں۔ یہ نہیں تو سرسید کی پیدا کردہ ’’مخلوق‘‘ ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کو لوگ ’’مزاحیہ شاعر‘‘ سمجھتے ہیں لیکن اکبر کا مرتبہ یہ ہے کہ ان کے انتقال پر علامہ اقبال نے اکبر کے بیٹے کو جو تعزیتی خط لکھا اس میں فرمایا کہ آپ کے والد اتنے بڑے آدمی تھے کہ ان کے جیسی کوئی شخصیت پورے ایشیا میں موجود نہیں۔ اکبر کا کمال یہ ہے کہ وہ صرف سرسید اور ان کی پیدا کردہ ذہنیت کی نشاندہی کرکے نہیں رہ گئے بلکہ انہوں نے اثرات و نتائج کی بھی نشاندہی کی۔ چناں چہ انہوں نے فرمایا؂
سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسہ نہ ملا
مغربی علوم اور مغربی تہذیب کے مقابلے پر سرسید کی نظر میں مذہب کی کیا اوقات تھی اس کی کئی ٹھوس شہادتیں سرسید کی تحریروں میں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک بہت ہی بڑی شہادت ایک انگریز ڈاکٹر ہنٹر کا وہ بیان ہے جس کا سرسید نے اپنی ایک تحریر میں حوالہ دیا۔ ڈاکٹر ہنٹر نے فرمایا ہے۔
’’کوئی نوجوان، خواہ ہندو خواہ مسلمان ایسا نہیں ہے جو ہمارے انگریزی مدرسوں میں تعلیم پائے اور اپنے بزرگوں کے مذہب سے بداعتقاد ہونا نہ سیکھے۔ ایشیا کے شاداب اور تروتازہ مذہب مغربی علوم کی سچائی کے قریب آتے ہیں، جو مثل برف کے ہے تو سوکھ کر لکڑی ہوجاتے ہیں‘‘۔
سرسید نے یہ اقتباس ’’کوٹ‘‘ کرکے فرمایا ہے۔ ’’یہ قول ڈاکٹر ہنٹر کا بالکل سچ ہے‘‘۔ (افکار سرسید۔ ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ221)
اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود سرسید علی گڑھ کالج میں وہی مغربی علوم پڑھائے جاتے رہے جو ہمارے اذہان میں مذہب کو اتنا معمولی اور حقیر بنادیتے ہیں کہ اگر ہم مذہب سے دور ہوجائیں یا اسے چھوڑ دیں تو ہمیں اس کا دُکھ یا ملال نہیں ہوتا۔ اس کا ثبوت ہمارے درجنوں سیکولر اور لبرل دانش ور اور ان کے لاکھوں پیروکار ہیں۔ لیکن سرسید کی پیدا کردہ فکر اتنی خطرناک ہے کہ جن لوگوں کو ہم ’’مذہبی ذہن‘‘ کا حامل سمجھتے ہیں وہ بھی مذہب اور مذہبی فکر کو معمولی چیز سمجھتے ہیں۔
اس کا ایک ثبوت ڈاکٹر خالد امین کا وہ مضمون ہے جو سرسید پر لکھے گئے ہمارے ایک مضمون کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ یہ مضمون 17 تا 23 نومبر 2017ء کے فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر خالد امین لکھتے ہیں۔
’’سرسید نے جو مذہبی تعبیرات کی ہیں، کیا صرف انہی بنیادوں پر ان کی شخصیت کا محاکمہ کیا جائے گا؟ یا پھر ان کے کاموں کو کلیت میں دیکھا جائے گا‘‘۔
ہم نے ڈاکٹر خالد امین کا یہ اقتباس پڑھا تو روح کانپ اُٹھی اور دل دہل کر رہ گیا۔ اس لیے کہ سرسید کی فکر یہی سکھاتی ہے کہ دین اہم ہے مگر دنیا اس سے زیادہ اہم ہے۔ ڈاکٹر خالد امین شعوری یا لاشعوری طور پر اس فکر کے زیر اثر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سرسید کی مذہبی فکر یا ان کی مذہبی تعبیرات کو ’’صرف‘‘ کہہ کر بیان کیا ہے۔ یعنی انہوں نے کہا ہے کہ کیا ہم ’’صرف‘‘ سرسید کی مذہبی فکر کی روشنی میں سرسید کی شخصیت، فکر اور ان کے مبینہ ’’کارناموں‘‘ کا جائزہ لیں گے۔ ارے بھائی کسی بھی مسلمان کے لیے مذہب یا اس کی تعبیر ’’صرف‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’سب کچھ‘‘ ہے۔ اسی لیے اکبر الٰہ آبادی نے کہا ہے کہ اگر مذہب ہاتھ سے گیا تو سمجھو کہ سب کچھ مسلمان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اتفاق سے سرسید کی مذہبی فکر کا نقص بھی چھوٹا موٹا نہیں۔ ان کا تصور خدا ناقص ہے اور امت کے تصور خدا سے مختلف ہے۔ وہ قرآن مجید میں موجود تمام معجزات کے منکر ہیں اور انہوں نے ان کی ایسی عقلی توجیہات بیان کی ہیں کہ معمولی پڑھا لکھا شخص بھی حیران رہ جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرسید کا تصور قرآن بھی ناقص ہے۔ وہ منکر حدیث ہیں اور صحیح مسلم اور صحیح بخاری تک انہیں ’’مستند‘‘ نظر نہیں آتیں۔ انہوں نے فرشتوں اور جنوں اور جنت و دوزخ کے خارجی وجود کا انکار کیا ہے۔ انہوں نے صاف کہا ہے کہ قرآن کو نہ صحابہ سمجھے، نہ تابعین سمجھے نہ تبع تابعین سمجھے۔ اس طرح انہوں نے قرآن فہمی کی پوری روایت ہی کو منہدم کردیا۔ اس کے باوجود ڈاکٹر خالد امین فرما رہے ہیں کہ کیا ’’صرف‘‘ سرسید کی مذہبی فکر کی بنیاد پر ان کا محاکمہ کیا جائے گا؟ مسلمانوں کے لیے ان کی مذہبی فکر اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کا اثر ان کی زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا ہے۔ سرسید کی گمراہی اور ضلالت میں ڈوبی ہوئی مذہبی فکر نے ان کے تصور علم، تصور تہذیب، تصور زندگی، تصور ادب، تصور آزادی اور تصور غلامی تک کو متاثر کیا ہے اور ان میں ہولناک اور اسلامی معاشرے کے لیے ناقابل برداشت اور ناقابل قبول خرابیاں پیدا کی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے بعد بھی سرسید کی مذہبی فکر یا ان کی مذہبی تعبیرات کے ساتھ ’’صرف‘‘ لگائے تو ہم اس کے بارے میں کیا رائے قائم کریں؟۔ سرسید کی محبت اہم ہوگی مگر اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی محبت سرسید کی محبت سے کھربوں گنا بڑی چیز ہے۔
۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔
اس گفتگو میں ڈاکٹر خالد امین کی اس بات کا جواب بھی موجود ہے کہ ہمیں سرسید کے کاموں کی ’’کلیت‘‘ کے تناظر میں بھی ان کا محاکمہ کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ جب سرسید کی گمراہ کن مذہبی فکر ان کی پوری شخصیت اور ہر کام کا احاطہ کیے ہوئے ہے تو جزو اور کُل کی بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر خالد امین کی تحریر میں اور کئی اہم نکات موجود ہیں۔ مثلاً انہوں نے لکھا ہے۔
’’جہاں تک سرسید کی مذہبی تعبیرات کا تعلق ہے تو میں یہ بتاتا چلوں کہ وہ اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن ہندوستان کے ماحول نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ ان چیزوں کا سہارا لیں۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین جو مذہبی منافرت پائی جاتی تھی اس کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے جدید علم الکلام کی بنیاد رکھی۔ یہ کام بھی انہوں نے اپنے مطالعے کی بنیاد پر انجام دیا لیکن جایہ بجا ٹھوکریں کھائیں لیکن آج کے اس جدید دور میں بہت سارے علما علم دین کی سائنسی تعبیرات پیش کرتے ہیں اور کئی مفکرین ایسے ہیں جن کی تحریریں اس نکتہ نظر سے خالی نہیں ہیں خواہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی ہوں یا اقبال‘‘۔
ڈاکٹر خالد امین کے اس اقتباس کو دیکھا جائے تو خیال آتا ہے کہ وہ یہ ماننے کے باوجود کہ سرسید کی مذہبی فکر گمراہی اور ضلالت میں ڈوبی ہوئی ہے، سرسید کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ معاشرہ انہیں اسی طرح ’’عظیم‘‘ سمجھے جس طرح سرسید کے مقلد انہیں سمجھتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ سرسید کے اچھے شاگرد ہیں انہیں سرسید کی فکر سے یہی تعلیم ملی ہے کہ مذہب کو نہ دیکھو دنیا کے فائدوں کو دیکھو۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر خالد امین نے یہ تک جرأت کر ڈالی کہ انہوں نے مولانا مودودی اور اقبال کو سرسید کا خوشہ چین باور کرانے کی کوشش کی۔ تجزیہ کیا جائے تو اس روش پر بھی سرسید کی فکر اور ذہنیت کا سایہ ہے۔ سرسید نے اسلامی فکر کے مرکزی دھارے کو ایک طرف پھینک دیا۔ ڈاکٹر خالد امین نے اسلامی فکر کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھنے والے مولانا مودودی اور اقبال کو سرسید کے ساتھ کھڑا کرکے ان کی توہین کر ڈالی۔
یہ ایک علمی ہی نہیں اخلاقی اور روحانی اصول بھی ہے کہ کنکر کا ذکر ہیروں کے ساتھ نہیں کیا جاتا لیکن جو شخص سرسید کے زیر اثر آجاتا ہے وہ ہیرے اور کنکر کا فرق بھول کر دونوں کو پتھر ہی سمجھنے لگتا ہے۔ ہماری یہ دلیل اپنی جگہ واضح ہے مگر عام قارئین کے فہم کو آسان بنانے کے لیے ہم ڈاکٹر خالد امین سے سوال کرتے ہیں کہ کیا مولانا مودودی اور اقبال، سرسید کی طرح خدا کو قادر مطلق نہیں مانتے؟ کیا انہوں نے سرسید کی طرح قرآن میں موجود معجزات کا انکار کیا ہوا ہے! کیا وہ سرسید کی طرح منکر حدیث ہیں؟ کیا انہوں نے کہیں یہ لکھا ہے کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین قرآن کو سمجھے ہی نہیں؟ کیا انہوں نے سرسید کی طرح کہیں انگریزوں کی غلامی کو اللہ کی رحمت قرار دیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر انہوں نے مولانا مودودی، اقبال اور سرسید کو ایک صف میں کیوں کھڑا کیا؟۔
ڈاکٹر خالد امین نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ سرسید نے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو بچانے کی کوشش کی یا تباہ و برباد کرنے کی؟۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سرسید نے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت پر چھوٹا موٹا نہیں ایٹمی حملہ کیا۔ مگر اس بات کی تفصیل ایک الگ کالم میں بیان ہوگی۔ ڈاکٹر خالد امین کو اس کالم کا انتظار کرنا ہوگا۔ البتہ یہاں اتنی بات کہنی ضروری ہے کہ اسلام میں تہذیب و ثقافت مذہب سے نمودار ہوئی ہیں اور بدقسمتی سے سرسید کی مذہبی فکر کے کنویں میں دس بیس گرام نہیں دس بیس من زہر پڑا ہوا ہے۔ اس صورت حال کا مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت پر جو اثر ہوسکتا ہے وہ ظاہر ہے۔ ڈاکٹر خالد امین نے یہ بھی لکھا ہے کہ سرسید کی وہ باتیں تو بیان کی جاتی ہیں جو انہوں نے انگریزوں کا ’’حلیف‘‘ بن کر کیں مگر ان کی ان تقریروں اور تحریروں کا ذکر نہیں کیا جاتا جو انگریزوں کے خلاف ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ سرسید انگریزوں کے حلیف نہیں تھے۔ بلکہ ان کے ’’غلام‘‘ تھے۔ صرف سیاسی غلام نہیں، روحانی غلام، نفسیاتی غلام، ذہنی غلام، علمی غلام۔ اقبال کی اصطلاح میں وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے انگریزوں کے تسلط کے زیر اثر اپنی انفرادی نہیں اجتماعی خودی بھی کھودی تھی۔ بلاشبہ سرسید نے ایک آدھ جگہ انگریزوں سے ’’اختلاف‘‘ بھی کیا ہے مگر انگریزوں کے ساتھ ان کا ایک آدھ اختلاف بیٹے کا باپ سے اختلاف ہے۔ اس اختلاف کو اصلاح میں ’’مودب اختلاف‘‘ کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر خالد امین نے سرسید کو مسلمانوں کے آنسو پونچھنے والا قرار دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سرسید نے کامل غلامانہ ذہن اور عقل پرستی کے بنے ہوئے جس رومال سے مسلمانوں کے آنسو پونچھنے کی کوشش کی اس رومال سے مسلمانوں کے آنسو تو نہ پونچھے جاسکے مگر اس رومال میں ایسی زہر نا کی تھی کہ لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کی آنکھ سے بصارت جاتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ بصیرت سے بھی محروم ہوگئے۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کا حکمران طبقہ اور ہمارے بالائی طبقات مغرب کے غلام نہ ہوتے۔ ڈاکٹر خالد امین نے علی گڑھ کالج اور سرسید کے ’’تعلیمی منصوبے‘‘ کی اہمیت پر بھی اصرار کیا ہے۔ اس موضوع پر بھی ہم تفصیلی کالم لکھیں گے لیکن یہاں چلتے چلتے ڈاکٹر خالد امین کو یاد دلائیں گے کہ اکبر جیسا عبقری علی گڑھ کالج اور علی گڑھ تحریک کے بارے میں بنیادی بات کہہ کر دنیا سے رخصت ہوچکا، لیکن پہلے دیوبند اور ندوہ کے بارے میں اکبر کا تبصرہ۔ اکبر نے کہا ہے۔
ہے دلِ روشن مثال دیو بند
اور ندوہ ہے زبان ہوش مند
اب سنیے علی گڑھ کے ’’فلسفے‘‘ کے بارے میں اکبر نے کیا کہا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے
ہاں علی گڑھ کی بھی کم تشبیہ لو
اک معزز پیٹ بس اُس کو کہو
بدقسمتی سے علی گڑھ ماضی میں بھی ’’معزز پیٹ‘‘ کے سوا کچھ نہیں تھا اور آج ہمارے سامنے علی گڑھ کالج کی جو روایت موجود ہے وہ بھی ایک معزز پیٹ کے سوا کچھ نہیں۔ معزز پیٹ کی تخلیق جتنا بڑا کارنامہ ہے وہ ظاہر ہے۔

Leave a Reply