آئیے حسینہ معین، لتا منگیشکر، شبانہ اعظمی اور نازیہ اقبال سے ملتے ہیں

فلم، موسیقی اور ٹیلی ڈراما عصر حاضر کا جادو ہیں۔ جادو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ فلم، موسیقی اور ٹیلی ڈرامے کے جادو کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف سر چڑھ کر نہیں بول رہا۔ وہ روح، قلب، جذبے، اور احساس کو بھی ختم کررہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ دنیا جن جدید بتوں کی پوجا کررہی ہے، ان میں سے اکثر کا تعلق فلم، موسیقی اور ڈرامے سے ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ معاشرے کو تھوڑی بہت سہی اس بات کی فکر رہتی ہے کہ ہم کیسے کھانے نوش کررہے ہیں مگر ہم فلم، موسیقی اور ڈرامے کے ذریعے کس طرح کی ’’غذا‘‘ اپنے وجود کا حصہ بنا رہے ہیں اس کی فکر اچھے اچھوں کو نہیں ہے۔

اتفاق سے حالیہ دنوں میں بعض ایسے تبصرے اور تجزیے سامنے آئے ہیں جنہوں نے فلم، موسیقی اور ڈرامے کے مواد کے حوالے سے سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ حسینہ معین پاکستان کی ممتاز ڈراما نگار ہیں ۔ انہوں نے چند ماہ قبل روزنامہ جنگ کراچی کے مڈویک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے ٹیلی ڈراموں کے مواد پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور صاف کہا کہ اب خاندان کے ساتھ بیٹھ کر ڈراما دیکھنا دشوار ہو گیا ہے۔ حسینہ معین معروف معنوں میں مذہبی شخصیت نہیں ہیں بلکہ 1980ء کی دہائیوں میں ان کے جو ڈرامے پی ٹی وی سے نشر ہوئے ان میں خواتین کے کردار کافی بے باک یا Bold تھے۔ اس اعتبار سے انہیں لبرل حلقوں میں “Feminst” بھی کہا جاتا تھا۔ مگر1980ء کی “Feminst” حسینہ معین 2018ء تک آتے آتے یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہیں کہ اب پاکستان کا ٹیلی ڈراما خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کی چیز نہیں رہی۔ تجزیہ کیا جائے تو حسینہ معین کا اعتراض بیک وقت ایک اخلاقی، ادبی، تہذیبی، ثقافتی اور سماجی اعتراض ہے۔ یہ عرض کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی کچھ اقدار ہیں اور یہ اقدار بہت کمزور ہونے کے باوجود ابھی اتنی بے معنی نہیں ہوئیں کہ ان کو نظر انداز کردیا جائے۔ ایسا ہو چکا ہوتا تو حسینہ معین کو خواہ پاکستانی ڈراموں پر کیسے ہی اعتراضات کیوں نہ ہوتے وہ اپنے اعتراضات کو سامنے لانے کی جرأت نہیں کرسکتی تھیں۔ مگر حسینہ معین نے الفاظ چبائے بغیر پاکستانی ڈرامے پر حملہ کیا ہے۔ عام طور پر آدمی جب کسی شعبے سے وابستہ ہوتا ہے اس پر اعتراض کرنے سے گریز کرتا ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے اس شعبے کے لوگوں کو یہ کہنے کاموقع ملتا ہے کہ اعتراض کرنے والے کو اپنی برادری اور اس کے مفادات کا کوئی خیال نہیں مگر حسینہ معین نے اس سلسلے میں اپنی برادری کی ممکنہ تنقید کو بھی نظر انداز کردیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنے پیشے سے زیادہ معاشرے کی اخلاقی، تہذیبی اور سماجی اقدار کی فکر ہے، بلاشبہ حسینہ معین کے اعتراض سے ہمارے ٹیلی ڈرامے کی سمیت سفر پر کوئی اثر نہیں پڑے گا مگر حسینہ معین نے اپنی اخلاقی اور تہذیبی ذمے داری ادا کردی ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف حسین معین تک محدود نہیں۔

بھارت کی ممتاز گلوکارہ لتا منگیشکر کو فلمی گلوکاری میں ایک ’’داستان‘‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے پچاس سال کے عرصے میں 25ہزار سے زیادہ گیت گائے ہیں۔ ہندو ازم میں موسیقی مذہب کا حصہ ہے اور کلاسیکل موسیقی کو ’’شاستریہ سنگیت‘‘ یعنی ’’مذہبی موسیقی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ہندو ازم کا یہ عقیدہ ہے کہ جب انسان کی روحانی قوت زوال پزیر ہوگئی اور وہ محض اپنی روحانی استعداد کے سہارے خدا سے تعلق قائم کرنے کے قابل نہیں رہا تو برہما یا خالق کائنات نے ایک روحانی سہارے کے طور پر موسیقی کو پیدا کیا۔ ہندو ازم میں موسیقی کے اس روحانی پس منظر کی وجہ سے ہندوؤں میں موسیقی میں کلاسیکی موسیقی کو بہت بلند مقام حاصل رہا ہے۔ اتنا بلند مقام کے ’’ شاستریہ سنگیت‘‘ کے ’’اساتذہ‘‘ فلمی موسیقی کو موسیقی کی بے حرمتی قرار دیتے رہے ہیں۔ مگر فلم کا میڈیم اتنا طاقت ور ثابت ہوا کہ اس نے کلاسیکی موسیقی یا بھارت کی مذہبی کتب سے برآمد ہونے والی موسیقی کا تقریباً گلا گھونٹ دیا ہے اور اب بھارت میں فلمی موسیقی ہی غالب موسیقی بن گئی ہے۔ لتا منگیشکر جو کچھ بھی ہیں فلمی موسیقی اور فلمی گلوکاری کے دائرے میں ہیں۔ لیکن زیر بحث موضوع کے اعتبار سے ان باتوں کی اہمیت ثانوی ہے۔ جس بات کی اہمیت بنیادی ہے وہ لتا منگیشکر کا دی نیوز کراچی کی 18فروری 2018ء کی اشاعت میں شائع ہونے والا انٹرویو ہے۔ اس انٹرویو میں لتا سے پوچھا گیا کہ آپ عہد حاضر کی موسیقی سنتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں لتا منگیشکر نے صاف کہا کہ وہ شاز ہی نئی موسیقی سنتی ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب (فلموں کے گیتوں میں) شاعری نہیں ہوتی۔ انہوں نے موجودہ زمانے کے گیتوں کی شاعری کو ’’ عجیب و غریب‘‘ یا “Weird” قرار دیا اور کہا کہ اب دھنیں بھی اچھی نہیں ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اب گیتوں کی زندگی مختصر ہوتی ہے اور پرانے گیتوں کی طرح انہیں ہمیشہ نہیں سنا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ بڑے غلام علی کی آواز ’’پاکیزہ‘‘ تھی اور اس ’’پاکیزگی‘‘ کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ’’اللہ والے‘‘ تھے۔ یہ بھارت کی ایک فلمی “Legend” کے ’’خیالات‘‘ ہیں۔ ان خیالات میں جدید فلمی شاعری اور جدید فلمی موسیقی کی ’’مذمت‘‘ ہے۔ اس مذمت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جس شخص کی پوری زندگی فلمی شاعری گاتے ہوئے اور موسیقی کے میدان میں کام کرتے گزری ہے وہ اب نہ فلمی شاعری سننا چاہتی ہے نہ جدید موسیقی کو اپنی سماعت میں انڈیلنا اسے پسند ہے۔ یہاں تک کہ اسے بڑے غلام علی کی آواز میں ’’ پاکیزگی‘‘ محسوس ہوتی تھی تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ بڑے گلوکار تھے بلکہ اس کی وجہ لتا کے نزدیک یہ ہے کہ بڑے غلام علی لتا کو ’’ اللہ والے‘‘ نظر آتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جدید فلمی شاعری اور موسیقی لتا منگیشکر کے لیے ایک ’’سزا‘‘ ہے تو وہ ان لوگوں کے لیے کیا ہوگی جن کا ’’تصورزندگی‘‘ اور ’’تصور انسان‘‘ منگیشکر کے ’’تصورزندگی‘‘ اور ’’تصورانسان‘‘ سے مختلف ہے۔ مگر جن چیزوں کے لیے لتا نے اپنے کان بند کرلیے ہیں وہ چیزیں سیلاب بن کر ہماری سماعتوں پر یلغار کررہی ہیں اور ہمیں اس کی رتی برابر فکر نہیں کہ ہم نئی فلمی شاعری اور نئی فلمی موسیقی کے نام پر کیا زہر پی رہے ہیں؟

شبانہ اعظمی بھارت کی ممتاز اداکارہ ہیں۔ ان کے والد کیفی اعظمی ممتاز ترقی پسند شاعر تھے۔ کیفی اعظمی سوشلسٹ تھے اور ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا کیوں کہ جدید سوشلزم کا بانی کارل مارکس مذہب کو ’’عوام کی افیون‘‘ کہتاتھا۔ شبانہ اعظمی کے شوہر جاوید اختر خود کو سیکولر کہلانا پسند کرتے ہیں۔ خود شبانہ اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں ۔ اس پس منظر کے باوجود روزنامہ ایکسپریس کراچی کی 6مارچ 2018کی اشاعت میں شائع ہونے الے ایک بیان کے مطابق شبانہ اعظمی نے (بھارتی) فلموں میں ’’آئٹم سونگ‘‘ کو خواتین کی تضحیک قرار دیا ہے۔ شبانہ اعظمی نے کہا کہ ’’آئٹم سونگ‘‘ کا مطلب عورتوں کو مردوں کی آنکھوں کے حوالے کردینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آئٹم سونگ‘‘ کو عورتوں کی ’’خود مختاری‘‘ کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سونگ کے ذریعے مردوں کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ عورت کو گھوریں۔ انہوں نے بھارت کے ایک آئٹم سونگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک ممتاز اداکارہ یہ گائے کہ وہ ایک تندوری مرغی ہے اور اسے شراب کے ذریعے نگلا جاسکتا ہے تو اس سے زیادہ توہین آمیز بات کیا ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے گیت لکھنے اور فلم میں شامل کرنے والے لوگ بھی خرابی کے ذمے دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں یہ گیت پارٹیوں میں گایا جاتا ہے اور لوگ اس پر جھومتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ معاشرے کا کیا حال ہوچکا ہے۔ غور کیا جائے تو ’’سیکولر شبانہ‘‘ کا یہ تجزیہ بھی اپنی اصل میں اخلاقی، تہذیبی اور ثقافتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شبانہ اعظمی نہ مذہبی ہیں نہ ہی مذہب پر انہیں اصرارکرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ لیکن آخر بداخلاقی اور بدتہذیبی کی بھی حد ہوتی ہے۔ یہ حد پار کرلی جائے تو شبانہ جیسی لبرل اور سیکولر اداکارہ بھی چیخ اٹھتی ہے۔ وہ سوال کرتی ہے کہ آخر ہم فلموں، جدید گیتوں اور جدید موسیقی کے ذریعے عورتوں کی کتنی تذلیل کریں گے؟

اسی سلسلے کی آخری کڑی دی نیوز کراچی کے 18فروری 2018ء کی اشاعت میں شائع ہونے والی پشتو گلوکارہ نازیہ اقبال کا انٹرویو ہے۔ انٹرویو میں موجود تعارف کے مطابق نازیہ اقبال پشتو کے علاوہ اردو، پنجابی، فارسی اور انگریزی میں بھی فن گلوکاری کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ تعارف کے مطابق وہ پاکستان، افغانستان اور خلیجی ممالک میں بہت پسند کی جاتی ہیں۔ اس انٹرویو میں نازیہ اقبال نے کہا کہ ماضی میں پشتو گلوکار پشتون معاشرے کی روایات کے مطابق Perform کرتے تھے مگر اب فحاشی نے پشتو گیتوں اور موسیقی کو تباہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشتو کے گیت فحش الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں اور ان کی ویڈیو خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ نازیہ اقبال ’’ملانی‘‘ نہیں ہیں۔ وہ ایک گلوکارہ ہیں۔ شوبزنس سے ان کو شہرت اور دولت میسر آئی ہے مگر ان کے اخلاقی اور ثقافتی شعور میں کہیں نہ کہیں زندگی کی رمق موجود ہے چنانچہ وہ انگریزی اخبار کے انٹرویو میں اس زور سے چیخنے پر مجبور ہیں کہ انٹرویو کرنے والے کو ان کے انٹرویو پر یہ سرخی چسپاں کرنی پڑی۔

“Vulgarity has destroyed Pashto music”

اس مسئلے کا ایک سنگین اور الم ناک پہلو یہ ہے کہ جن معاملات پر حسینہ معین پریشان ہیں۔ جن معاملات پر لتا منگیشکر ماتم کناں ہیں۔ جن معاملات پر شبانہ اعظمی چیخ رہی ہیں۔ جن معاملات پر نازیہ اقبال سینہ کوبی کررہی ہیں ان معاملات کی پاکستان کے دانش وروں، صحافیوں، علما، حکمرانوں اور مذہبی طبقات کو کوئی فکر اور کوئی تشویش لاحق نہیں بلکہ یہ تمام طبقات اس سلسلے میں اندھے، بہرے اور گونگے بنے ہوئے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جہاں اخلاقی اور تہذیبی شعور اور اخلاقی و تہذیبی احتجاج کو موجود نہیں ہونا چاہیے وہاں یہ دونوں چیزیں کسی نہ کسی درجے میں موجود ہیں اور جہاں ان دونوں چیزوں کو بدرجۂ کمال موجود ہونا چاہیے وہاں یہ چیزیں گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہیں۔ اس کو کہتے ہیں مدعی سست گواہ چست۔ آیئے حسینہ معین، لتا منگیشکر، شبانہ اعظمی اور نازیہ اقبال سے ملتے ہیں۔ آیئے انہیں یہ شعر سناتے ہیں۔

واہ واہ شاباش بچے واہ واہ
تُو جواں مردوں پہ بازی لے گیا

, , , , , , ,

Leave a Reply